کوئی بتلاؤکہ ہم بتلائیں کیا

ہر روز لوگ مررہے ہیں، ہر طرف آہوں اور سسکیوں کا راج ہے مگر حکمران اور سیاسی رہنما اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں

muqtidakhan@hotmail.com

بہت سے سوالات ہیں، جو ذہن کے گوشوں میں کلبلاتے رہتے ہیں، مگر خوفِ فسادِ خلق انھیں سینہ قرطاس پر منتقل کرنے سے روکتا رہتا ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ ریاست محض زمین پر کھنچی لکیروں کا نام نہیں، بلکہ کچھ قواعد و ضوابط کی تشکیل اور ان کا نفاذ اس کے وجود کو شناخت بخشتا ہے ۔ قوم ،افراد کا وہ مجموعہ ہوتی ہے ،جس کا اپنا ماضی، ثقافتی تشخص اورایک مخصوص مقصدحیات ہوتا ہے۔ جب کہ بھیڑ کاکوئی نصب العین نہیں ہوتا۔ ہم ابھی تک بھیڑہیں،قوم بننے کی منزل شاید ابھی بہت دور ہے۔ رہنما وہ ہوتا ہے، جو منزل کی نشاندہی اور سمت کا تعین کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔جو مشکل گھڑی میں اپنی بصیرت ، دوراندیشی اور عزم و حوصلہ سے قوم کی رہنمائی کرسکے ۔انھیں تاریکیوں سے نکال کر روشنیوں کا سفیر بنا سکے۔ بابائے قوم کے بعد ایسی قیادت کو ترستے 66برس بیت گئے، جو نہ ملنا تھی اور نہ مل سکی۔ نعرے خوشنما ہوتے ہیں، خون کی حدت میں اضافہ کرتے ہیں، مگر منزلِ مقصود تک پہنچانے کا ذریعہ نہیں ہوتے۔ عقل بیشک قدرت کی دین ہے،لیکن مطالعہ اور مشاہدہ اس کی وسعتوں میں اضافہ کرتا ہے۔ جذبات قابلِ قدر ہوتے ہیں، مگر فیصلہ سازی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ چرچل نے کہا تھا کہ صحیح وقت پر صحیح فیصلہ ہی کامیابی کا ضامن ہوتاہے ۔جب کہ غلط وقت پر صحیح فیصلہ اور صحیح وقت پر غلط فیصلہ دونوں ہی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔

قیادت کے مسلسل بحران اورغلط فیصلوں پر اصرار نے پاکستان کو ایک انتہائی زدپذیر(Fragile)ریاست میں تبدیل کردیا ہے۔66برسوں کے دوران بڑے بڑے سانحات گذر گئے، مگر مقتدر اشرافیہ( سیاسی اور غیر سیاسی دونوں)کے کان پر کوئی جوں نہیں رینگی ۔اسی لیے انھوں نے اپنی روش تبدیل نہیں کی ۔ یہی وہ ہٹ دھرمی اور کج فہمی ہے، جس نے ملک کو اس حال تک پہنچادیا ہے ۔غلط پالیسیوں اور حکمت عملیوں کا نتیجہ ہے کہ آج پورا ملک بدامنی اور افراتفری میں مبتلا ہے ۔ ریاست ہے، مگرکہیں نظر نہیں آتی ۔حکومت ہے، مگر اس کی کوئی رٹ نہیں ہے۔ ادارے ہیں، مگر غیر فعال ۔سول سوسائٹی ہے، مگر انتہائی نحیف وناتواں۔ سیاسی جماعتیں ہیں، مگر عزم و بصیرت سے عاری ۔ گویا یہ ملک نہیں بے مقصد لوگوں کی بھیڑ ہے، جسے جو جہاں چاہتا ہے ہانک کر لے جاتا ہے۔

ہر روز لوگ مر رہے ہیں، چہار سو خون بہہ رہا ہے ۔ ہر طرف آہوں اور سسکیوں کا راج ہے۔ مگر حکمران اور سیاسی رہنما اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ یہ جنگ ہماری ہے یا پرائی۔ شدت پسندوں سے مذاکرات کیے جائیں یا ان کے خلاف فوجی کارروائی۔ وقت گذر رہا ہے، حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں، مگر سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے پر کوئی آمادہ نہیں ہے ۔ منطقی جواز تلاش کرنا اہل دانش اور منصوبہ سازوں کا کام ہوا کرتا ہے ۔عام آدمی کو اس سے غرض نہیں کہ حکومت کی سوچ کیا ہے۔ انھیں تو صرف امن چاہیے، سکون چاہیے اور قتل و غارت گری سے نجات چاہیے ۔یہ چاہے مذاکرات سے حاصل ہو یا فوجی ایکشن سے ۔ مطالعہ اور مشاہدہ بہت کچھ سکھاتا ہے۔ بشرطیکہ سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔دنیا کی حالیہ تاریخ میں کئی ممالک دہشت گردی کا شکار ہوئے ۔انھوں نے اس عفریت سے کیسے نجات حاصل کی ہے؟کیا طریقہ کار اختیار کیا؟ان کی حکمت عملیوں کا مطالعہ کرنے اور اپنے حالات سے موازنہ کرنے کی ضرورت ہے۔


پاکستان جس خطے پر قائم ہے، وہ صدیوں سے نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ معاشرت میں بری طرح جکڑا ہوا ہے ، جس نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لی ہے۔ اسی لیے ہمیںاپنے اطراف رونماء ہونے والی تبدیلیاں نظر نہیں آتیں اور نہ دنیا کے بدلتے رجحانات ہماری سمجھ میں آتے ہیں ۔اس پر طرہ یہ کہ کچھ حلقوں نے تہذیبی نرگسیت کا ایسا جام پلایا ہے ،جس کا نشہ سرچڑھ کر بول رہا ہے ۔ بدمستی کے عالم میں حکمرانوں سے سیاسی رہنماؤں تک اور اہل دانش سے عام آدمی تک ہر شخص سراب(Illusion)کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور اسی سراب کو اپنی منزل سمجھ رہاہے ۔ نرگسیت کے شکار ایسے معاشرے جذباتیت کی آماجگاہ اور حقیقت پسندانہ سوچ سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ ان میں صرف دو انتہائی فکری رجحانات پائے جاتے ہیں ، درمیانی لہروں(Waves)کا کوئی گزر نہیں ہوتا ۔ اس لیے ہر فیصلہ عقل وخرد سے عاری ،غور وفکر سے کوسوں دور ہوتا ہے۔

مگر ہمارے سامنے کئی سوالات ہیں ۔ یہ سب کیوں ہوا؟ کیسے ہوا ؟جواب بہت آسان ہے ۔ جب بابائے قوم کے فرمان کو طاقِ نسیاں کرکے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا جائے گا اور غیر سرکاری عسکریت پسندی کی کھلے عام سرپرستی کی جائے گی ، تو پھر ایسی ہی عفریتیں جنم لیں گی جو حکومتوں کے لیے مسلسل دردِ سر بنیں گی۔ اگر مخالفین کی سوچ واضح ہے، کیونکہ ان کا تصورِ ریاست(Concept of State) انھی تصورات کی عکاسی کررہا ہے ، جنھیں ریاست نے گذشتہ 66 برسوں سے خارجہ پالیسی کا محور بنایا ہوا ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ قبائلی علاقے کیا ہیں ؟ کیوں وجود میں آئے اورکیا یہ ہمارے ملک کا حصہ نہیں ہیں؟ اب انھیں کون بتائے کہ یہ کوئی تاریخی حقیقت نہیں ہیں، بلکہ انگریزوں کا بنایا ہوا انتظامی بندوبست ہیں، جو اس نے انیسویں صدی میں اپنے زیر انتظام علاقوں کو افغانستان میں ہونے والی شورشوں سے بچانے کے لیے متعارف کرایا تھا ۔ افغان سرحد کے ساتھ بلوچستان سے پختونخوا تک پھیلی سو میل کے قریب چوڑی پٹی کو سات ایجنسیوں اور چھ فرنٹئیر ریجن (FR) میںتقسیم کر کے وہاں ایک نیم خود مختار نظام رائج کیا۔ اس نظام میں کلیدی حیثیت سرکار کے مقررکردہ پولیٹیکل ایجنٹ کو حاصل ہوا کرتی تھی ، جو علاقے کے عمائدین (ملکوں) کی کونسل (جرگہ) کے تعاون سے ان علاقوں کا نظام چلایا کرتا تھا۔

دانشمندی کا تقاضہ تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد اس پورے علاقے کو لسانی بنیاد پر پختونخوا میں ضم کر لیا جاتا ۔ مگر انگریز کی نمک خوار بیوروکریسی تانگہ میں جتے گھوڑے کی طرح اِدھر ُادھر دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتی ہے۔ اس نے اسی انتظامی بندوبست کو جاری رکھا، جو انگریز نے تفویض کیا تھا ۔یہ نظام اپنی تمام تر خامیوں اور 1901ء میں نافذ کیے گئے ظالمانہ قانون فرنٹئیر کرائم ریگولیشن (FCR) کی موجود گی کے باوجود انگریز کی دانشمندی کے سبب کسی نہ کسی طور چلتا رہا۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ آزادی سے قبل ہی یہ خطہ جرائم پیشہ افراد کی محفوظ پناہ گاہ بن گیا تھا اور ملک کے طول و عرض سے جرائم پیشہ افراد جرم کرنے کے بعد اس علاقہ میں پناہ گزیں ہوا کرتے تھے ۔لیکن جب ضیاء الحق نے سوویت یونین کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بنتے ہوئے اس علاقے میں غیر ملکی عناصر کے قیام کا بندوبست کیا تو ایک صدی پرانا سیاسی و سماجی Fabric مکمل طور پر تباہ ہوگیا اور ایک نئی صورتحال نے جنم لیا جو حکمرانوں کی مصلحت کوشیوںاور منافقانہ روش کے باعث وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بدترین شکل اختیار کرتی چلی گئی۔

اس وقت المناک صورتحال یہ ہے کہ پاکستان دو انتہاؤں کے درمیان ڈول رہا ہے۔ رائے عامہ دو واضح نقطہ ہائے نظر میں بری طرح منقسم ہوچکی ہے ، جن کے درمیان مفاہمت کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ۔ جب سوچ کا انداز شدت اختیار کر جائے،تو مثبت طرز عمل کی توقع دم توڑ جاتی ہے،کیونکہ کوئی بھی فریق اپنے موقف سے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہوتا ۔ایک طرف وہ عناصر ہیں ،جو ملک میں ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کو فراموش کرتے ہوئے ہر صورت میں سے مذاکرات کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ دوسری طرف وہ طبقہ ہے،جوصرف کارروائی کو مسئلہ کا واحد حل سمجھتا ہے۔ کوئی بھی اپنے موقف میں نرمی لانے پر آمادہ نہیں۔ حکومت کو دانشوروں اور قوم کے دیگر رہنماؤں کی مشاورت سے ایسا فیصلہ کرنا چاہیے جس سے ملک و قوم دونوں کا فائدہ ہو۔
Load Next Story