دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
چیریٹی کو خدائے کائنات نے ’’قرض‘‘ قرار دیا ہے، جو ضرور بالضرور اضافے کے ساتھ واپس مل جائے گا
آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں، ایک منظر آپ کو عام دیکھنے کو ملے گا، اور وہ ہوگا، انسانی معاشروں کا تفاوت۔
کارل مارکس کی زبان میں، ایک طرف آپ کو ہیوز (Haves) ملیں گے جن کے پاس ضرورت سے بہت زیادہ ہوگا اور دوسری طرف ملیں گے ہیو ناٹ (Have nots )، جو پائی پائی کے محتاج ہوں گے۔ کسی کو روٹی کی فکر ہوگی تو کوئی جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کی تگ و دو میں مصروف ہوگا۔ آپ پوش سے پوش سوسائٹی میں چلے جائیے، وہاں بھی مالی، گارڈ، چوکیدار، ڈرائیور اور ملازمین کی صورت میں معاشرے کی یہ دونوں کلاسیں، یہ دونوں طبقات عام ملیں گے۔
ہر دردِ دل رکھنے والا انسان کبھی نہ کبھی اس سارے نظام کے بارے میں سوچتا ضرور ہے کہ وہ شخص جو منہ میں چاندی بلکہ سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوا، اسے کون سے سرخاب کے پر لگے تھے اور وہ غریب جو فاقہ زدہ محنت کش کے گھر پیدا ہوا، اس کا کیا قصور تھا؟
جو کسی امیر و کبیر کے گھر میں پیدا ہوگا، عمومی طور پر وہ اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں پڑھے گا اور زندگی کی دوڑ میں آگے ہی رہے گا، الا ماشاء اللہ۔ اسی طرح کسی اَن پڑھ، غریب اور پسماندہ ترین طبقے میں پیدا ہونے والا اول تو تعلیم سے ہی دور اور محروم رہے گا، اگر کہیں وہ اسکول جانا بھی شروع کردے تو مڈل یا بڑی حد ہے میٹرک کرلے گا اور پھر کسی چپڑاسی، جمعدار، مالی یا گارڈ کی نوکری ڈھونڈنا شروع کردے گا، الا ماشاء اللہ۔
اگر دیکھا جائے تو معاشرے کے یہ دونوں طبقات، دریا کے دو کناروں کی طرح ساتھ ساتھ چلتے ہیں مگر ایک دوسرے سے انتہائی مختلف، زمین و آسمان کے فرق کے ساتھ۔
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ہم، جنہیں کسی قدر آسائش و سہولت میسر ہے، کی زندگی کا یہی مقصد ہے کہ حیوانی سطح کی عمومی سی زندگی گزار کر چلے جائیں؟ وہی روٹین کے صبح اٹھے، روزی روٹی کی فکر میں لگ گئے، رات کو واپس آئے اور آرام کرنے لگے، کوئی چھٹی، ویک اینڈ آگیا تو کہیں باہر نکل گئے اور پھر وہی روبوٹک زندگی؟ یقیناً نہیں!
خدا کی کتاب بتاتی ہے کہ یہ دنیا، یہ زندگی ایک امتحان ہے، اور اس میں اصل امتحان احساس کا ہے۔ یہاں ڈاکٹر اسرار مرحوم کا ایک بیان یاد آتا ہے، کہا: کسی کو دکھ میں دیکھو اور اس پوزیشن میں ہو کہ تم اس کا کوئی مداوا کرسکو اور نہ کرو، پھر تم چاہے مفسر ہو، محدث ہو، نیک نہیں۔ تم عابد ہوسکتے ہو، زاہد ہوسکتے ہو، محدث ہوسکتے ہو مگر نیک نہیں ہوسکتے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر نیکی کیا ہے؟ خواجہ میر دردؔ نے کہا تھا:
دنیا بھر میں 5 ستمبر کو چیریٹی یعنی ''خیرات'' کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد دنیا بھر میں خیرات اور عطیات سے لوگوں کی زندگیاں بچانے اور ان میں بہتری لانے، بیماریوں کے خلاف جدوجہد، بچوں کے تحفظ اور لاکھوں، کروڑوں لوگوں میں امید کی کرن جگانا ہوتا ہے۔ عطیات کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے 2012 میں یہ دن ہر سال بین الاقوامی سطح پر منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس دن کو منانے کی تاریخ 5 ستمبر مقرر کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ مدر ٹریسا کا یوم وفات ہے، جنہوں نے اپنی تمام زندگی چیریٹی کے کاموں کےلیے وقف کیے رکھی۔
دنیا کے تمام مذاہب میں صدقہ و خیرات اور عطیات کو اجر و ثواب اور خالقِ دو جہاں کی رضا کا سبب بتایا گیا ہے، مگر سائنسی اعتبار سے بھی کسی کی مدد کرنے سے بے شمار معاشرتی، نفسیاتی اور طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ مختلف ریسرچز سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جب آپ کسی مستحق کی مالی مدد کرتے ہیں تو آپ کے اپنے اندر ایک عجیب سا سکون اور خوشی اجاگر ہوتی ہے۔ اسی طرح اپنے سے کمتر اور کم حیثیت لوگوں کو دیکھنے سے جہاں آپ کو میسر نعمتوں کا احساس ہوگا، وہیں ناشکری کا رویہ بھی کم ہوجائے گا اور انسان کو اپنی زندگی نعمتوں سے بھرپور لگنے لگے گی۔ اس کے بچوں پر بھی نہایت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، بلکہ ماہرینِ اطفال کا کہنا ہے کہ بچوں کو کچھ پیسے محض اس نیت سے بھی دینے چاہئیں کہ وہ ان سے دوسروں کی مدد کریں تاکہ ان میں خیر خواہی، ایثار اور مدد کا جذبہ پیدا ہوسکے۔ عمر بھر انسانیت کی بے لوث خدمت کرکے کروڑوں دلوں میں گھر کرنے والے عبدالستار ایدھی مرحوم بتاتے تھے کہ ان کی والدہ انھیں اسکول جاتے ہوئے دو روپے دیا کرتی تھیں، ایک خود پر خرچ کرنے کےلیے اور دوسرا کسی غریب پر خرچ کرنے کےلیے، اور اسکول سے گھر واپسی پر اس ایک روپے کے بارے میں باز پرس بھی کی جاتی تھی۔ درج بالا کے علاوہ بھی خیرات کرنے کے بے شمار فوائد ہیں مگر سب سے بڑھ کر یہی بات ذہن میں رکھیے کہ یہ خدا کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہے۔
اس وقت معاشی ابتری، کورونا جیسی عالمی وبا، بیروزگاری، جابجا برپا جنگوں اور دیگر کئی اسباب کے باعث دنیا ہوسِ زر میں مبتلا نظر آتی ہے، ایسے میں چیریٹی کو خصوصی طور پر فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی شخص خود مالی طور پر اس قابل نہیں تو بھی کم از کم وہ دوسروں کو راغب کرسکتا ہے۔ وہ فلاحی تنظیموں کے ساتھ رضاکارانہ کام کرسکتا ہے۔ ہفتے میں چند گھنٹے فلاحی کاموں کےلیے نکالنا کسی بھی طور گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ اس وقت ایدھی فاؤنڈیشن بہت اچھا کام کررہی ہے، الخدمت جیسی بڑی تنظیم ہے جو جہاں ایک طرف تو ملک بھر میں ہزاروں یتیموں اور بیواؤں کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے، وہیں شعبہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ، صحت، تعلیم، صاف پانی، بلاسود قرض کی فراہمی اور دیگر سماجی خدمات کے ذریعے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کےلیے کوشاں ہے۔ اس کے ساتھ اقلیتوں اور پسماندہ گروہوں بالخصوص خواجہ سراؤں کی فلاح و بہبود کےلیے بھی کام کررہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی مقامی و قومی تنظیمیں ہیں جو ڈونرز کی راہ تک رہی ہیں۔
تو آئیے! آج عہد کیجئے کہ نہ صرف ایک دن، بلکہ گاہے گاہے اپنے وقت اور پیسوں کا کچھ حصہ چیریٹی کے کاموں میں صرف کریں گے۔
یہاں یہ بات یاد رکھیے کہ چیریٹی کو خدائے کائنات نے ''قرض'' قرار دیا ہے، جو ضرور بالضرور اضافے کے ساتھ واپس مل جائے گا۔ اس لیے جتنا خرچ کریں گے، اس سے کہیں زیادہ واپس پائیں گے۔
ہمارے یہاں پر ایک تصور یہ بھی ہے کہ جس کے پاس پہلے ہی پیسے نہ ہوں، وہ کیسے خیرات کرے؟ تو اس تصور کو بھی درست کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ خیرات صرف دولت مند اور صاحب ثروت ہی نہیں کرسکتے، جس کے پاس محض ایک روپیہ ہے، وہ بھی پچاس پیسے خیرات کرسکتا ہے۔ اگر یہ بھی نہ کرے تو اپنا وقت فلاحی تنظیموں کے ساتھ لگا سکتا ہے، ان کی معاونت کرسکتا ہے۔ مدر ٹریسا ہوں یا فخرِ پاکستان ڈاکٹر رُتھ فاؤ، انہوں نے پیسوں سے زیادہ اپنا وقت، اپنی صلاحیتیں فلاحی کاموں کےلیے وقف کی ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر عبدالباری خان (انڈس اسپتال)، ڈاکٹر انتظار حسین بٹ (پری ونشن آف بلائنڈنس ٹرسٹ)، محمد عبدالشکور (الخدمت فاؤنڈیشن)، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی (سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یوروجی اینڈ ٹرانسپلانٹ)، پروین اختر (کھانا گھر) اور ماسٹر ایوب (ٹیچر) ایسی ہی چند زندہ مثالیں ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کارل مارکس کی زبان میں، ایک طرف آپ کو ہیوز (Haves) ملیں گے جن کے پاس ضرورت سے بہت زیادہ ہوگا اور دوسری طرف ملیں گے ہیو ناٹ (Have nots )، جو پائی پائی کے محتاج ہوں گے۔ کسی کو روٹی کی فکر ہوگی تو کوئی جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کی تگ و دو میں مصروف ہوگا۔ آپ پوش سے پوش سوسائٹی میں چلے جائیے، وہاں بھی مالی، گارڈ، چوکیدار، ڈرائیور اور ملازمین کی صورت میں معاشرے کی یہ دونوں کلاسیں، یہ دونوں طبقات عام ملیں گے۔
ہر دردِ دل رکھنے والا انسان کبھی نہ کبھی اس سارے نظام کے بارے میں سوچتا ضرور ہے کہ وہ شخص جو منہ میں چاندی بلکہ سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوا، اسے کون سے سرخاب کے پر لگے تھے اور وہ غریب جو فاقہ زدہ محنت کش کے گھر پیدا ہوا، اس کا کیا قصور تھا؟
جو کسی امیر و کبیر کے گھر میں پیدا ہوگا، عمومی طور پر وہ اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں پڑھے گا اور زندگی کی دوڑ میں آگے ہی رہے گا، الا ماشاء اللہ۔ اسی طرح کسی اَن پڑھ، غریب اور پسماندہ ترین طبقے میں پیدا ہونے والا اول تو تعلیم سے ہی دور اور محروم رہے گا، اگر کہیں وہ اسکول جانا بھی شروع کردے تو مڈل یا بڑی حد ہے میٹرک کرلے گا اور پھر کسی چپڑاسی، جمعدار، مالی یا گارڈ کی نوکری ڈھونڈنا شروع کردے گا، الا ماشاء اللہ۔
اگر دیکھا جائے تو معاشرے کے یہ دونوں طبقات، دریا کے دو کناروں کی طرح ساتھ ساتھ چلتے ہیں مگر ایک دوسرے سے انتہائی مختلف، زمین و آسمان کے فرق کے ساتھ۔
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ہم، جنہیں کسی قدر آسائش و سہولت میسر ہے، کی زندگی کا یہی مقصد ہے کہ حیوانی سطح کی عمومی سی زندگی گزار کر چلے جائیں؟ وہی روٹین کے صبح اٹھے، روزی روٹی کی فکر میں لگ گئے، رات کو واپس آئے اور آرام کرنے لگے، کوئی چھٹی، ویک اینڈ آگیا تو کہیں باہر نکل گئے اور پھر وہی روبوٹک زندگی؟ یقیناً نہیں!
خدا کی کتاب بتاتی ہے کہ یہ دنیا، یہ زندگی ایک امتحان ہے، اور اس میں اصل امتحان احساس کا ہے۔ یہاں ڈاکٹر اسرار مرحوم کا ایک بیان یاد آتا ہے، کہا: کسی کو دکھ میں دیکھو اور اس پوزیشن میں ہو کہ تم اس کا کوئی مداوا کرسکو اور نہ کرو، پھر تم چاہے مفسر ہو، محدث ہو، نیک نہیں۔ تم عابد ہوسکتے ہو، زاہد ہوسکتے ہو، محدث ہوسکتے ہو مگر نیک نہیں ہوسکتے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر نیکی کیا ہے؟ خواجہ میر دردؔ نے کہا تھا:
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کےلیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں
دنیا بھر میں 5 ستمبر کو چیریٹی یعنی ''خیرات'' کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد دنیا بھر میں خیرات اور عطیات سے لوگوں کی زندگیاں بچانے اور ان میں بہتری لانے، بیماریوں کے خلاف جدوجہد، بچوں کے تحفظ اور لاکھوں، کروڑوں لوگوں میں امید کی کرن جگانا ہوتا ہے۔ عطیات کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے 2012 میں یہ دن ہر سال بین الاقوامی سطح پر منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس دن کو منانے کی تاریخ 5 ستمبر مقرر کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ مدر ٹریسا کا یوم وفات ہے، جنہوں نے اپنی تمام زندگی چیریٹی کے کاموں کےلیے وقف کیے رکھی۔
دنیا کے تمام مذاہب میں صدقہ و خیرات اور عطیات کو اجر و ثواب اور خالقِ دو جہاں کی رضا کا سبب بتایا گیا ہے، مگر سائنسی اعتبار سے بھی کسی کی مدد کرنے سے بے شمار معاشرتی، نفسیاتی اور طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ مختلف ریسرچز سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جب آپ کسی مستحق کی مالی مدد کرتے ہیں تو آپ کے اپنے اندر ایک عجیب سا سکون اور خوشی اجاگر ہوتی ہے۔ اسی طرح اپنے سے کمتر اور کم حیثیت لوگوں کو دیکھنے سے جہاں آپ کو میسر نعمتوں کا احساس ہوگا، وہیں ناشکری کا رویہ بھی کم ہوجائے گا اور انسان کو اپنی زندگی نعمتوں سے بھرپور لگنے لگے گی۔ اس کے بچوں پر بھی نہایت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، بلکہ ماہرینِ اطفال کا کہنا ہے کہ بچوں کو کچھ پیسے محض اس نیت سے بھی دینے چاہئیں کہ وہ ان سے دوسروں کی مدد کریں تاکہ ان میں خیر خواہی، ایثار اور مدد کا جذبہ پیدا ہوسکے۔ عمر بھر انسانیت کی بے لوث خدمت کرکے کروڑوں دلوں میں گھر کرنے والے عبدالستار ایدھی مرحوم بتاتے تھے کہ ان کی والدہ انھیں اسکول جاتے ہوئے دو روپے دیا کرتی تھیں، ایک خود پر خرچ کرنے کےلیے اور دوسرا کسی غریب پر خرچ کرنے کےلیے، اور اسکول سے گھر واپسی پر اس ایک روپے کے بارے میں باز پرس بھی کی جاتی تھی۔ درج بالا کے علاوہ بھی خیرات کرنے کے بے شمار فوائد ہیں مگر سب سے بڑھ کر یہی بات ذہن میں رکھیے کہ یہ خدا کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہے۔
اس وقت معاشی ابتری، کورونا جیسی عالمی وبا، بیروزگاری، جابجا برپا جنگوں اور دیگر کئی اسباب کے باعث دنیا ہوسِ زر میں مبتلا نظر آتی ہے، ایسے میں چیریٹی کو خصوصی طور پر فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی شخص خود مالی طور پر اس قابل نہیں تو بھی کم از کم وہ دوسروں کو راغب کرسکتا ہے۔ وہ فلاحی تنظیموں کے ساتھ رضاکارانہ کام کرسکتا ہے۔ ہفتے میں چند گھنٹے فلاحی کاموں کےلیے نکالنا کسی بھی طور گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ اس وقت ایدھی فاؤنڈیشن بہت اچھا کام کررہی ہے، الخدمت جیسی بڑی تنظیم ہے جو جہاں ایک طرف تو ملک بھر میں ہزاروں یتیموں اور بیواؤں کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے، وہیں شعبہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ، صحت، تعلیم، صاف پانی، بلاسود قرض کی فراہمی اور دیگر سماجی خدمات کے ذریعے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کےلیے کوشاں ہے۔ اس کے ساتھ اقلیتوں اور پسماندہ گروہوں بالخصوص خواجہ سراؤں کی فلاح و بہبود کےلیے بھی کام کررہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی مقامی و قومی تنظیمیں ہیں جو ڈونرز کی راہ تک رہی ہیں۔
تو آئیے! آج عہد کیجئے کہ نہ صرف ایک دن، بلکہ گاہے گاہے اپنے وقت اور پیسوں کا کچھ حصہ چیریٹی کے کاموں میں صرف کریں گے۔
یہاں یہ بات یاد رکھیے کہ چیریٹی کو خدائے کائنات نے ''قرض'' قرار دیا ہے، جو ضرور بالضرور اضافے کے ساتھ واپس مل جائے گا۔ اس لیے جتنا خرچ کریں گے، اس سے کہیں زیادہ واپس پائیں گے۔
ہمارے یہاں پر ایک تصور یہ بھی ہے کہ جس کے پاس پہلے ہی پیسے نہ ہوں، وہ کیسے خیرات کرے؟ تو اس تصور کو بھی درست کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ خیرات صرف دولت مند اور صاحب ثروت ہی نہیں کرسکتے، جس کے پاس محض ایک روپیہ ہے، وہ بھی پچاس پیسے خیرات کرسکتا ہے۔ اگر یہ بھی نہ کرے تو اپنا وقت فلاحی تنظیموں کے ساتھ لگا سکتا ہے، ان کی معاونت کرسکتا ہے۔ مدر ٹریسا ہوں یا فخرِ پاکستان ڈاکٹر رُتھ فاؤ، انہوں نے پیسوں سے زیادہ اپنا وقت، اپنی صلاحیتیں فلاحی کاموں کےلیے وقف کی ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر عبدالباری خان (انڈس اسپتال)، ڈاکٹر انتظار حسین بٹ (پری ونشن آف بلائنڈنس ٹرسٹ)، محمد عبدالشکور (الخدمت فاؤنڈیشن)، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی (سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یوروجی اینڈ ٹرانسپلانٹ)، پروین اختر (کھانا گھر) اور ماسٹر ایوب (ٹیچر) ایسی ہی چند زندہ مثالیں ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔