کورونا وباء کی سنگین ہوتی صورت حال
ملک میں ایس او پیز پر عمل نہ کرنے کے باعث کورونا کیسوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
این سی او سی نے کورونا کیسز میں اضافے کے رجحان کے پیش نظر پنجاب، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد کے مختلف اضلاع میں 4 ستمبر سے12ستمبر تک تعلیمی شعبے کی بندش سمیت اضافی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
این سی او سی کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کو وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی قیادت میں این سی او سی نے کورونا کے بڑھتے ہوئے کے رجحان اور انتہائی نگہداشت کی سہولیات پر دباؤ کے حوالے سے بریفنگ دی۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وبا کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے منتخب اضلاع میں4 سے 12 ستمبر تک اضافی این پی آئیز نافذ کی جائیں گی۔
این سی او سی کے مطابق نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کی بندش، کورونا کے زیادہ پھیلاؤ والے اضلاع اور شہروں میں انٹرسٹی ٹرانسپورٹ کی آمد و رفت اور ان ڈور اور آؤٹ ڈور تقریبات پر پابندی ہوگی۔ شادیوں کی تقریبات کی اجازت صرف آؤٹ ڈور اور 300 افراد تک تعداد سے مشروط ہوگی۔ انڈور جم پر بھی پابندی ہوگی۔ کورونا وبا کے پھیلاؤ کے باعث پنجاب کے 15 ہائی رسک اضلاع میں لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا ہے۔
نوٹیفیکیشن کے مطابق ان اضلاع لاہور، راولپنڈی ، فیصل آباد، ملتان، خانیوال، میانوالی، سرگودھا، خوشاب ،شیخوپورہ، بہاولپور، گوجرانوالہ، رحیم یار خان، گجرات، سیالکوٹ اور بھکر میں 4 سے 12ستمبر تک درج ذیل تمام پابندیاں نافذ رہیں گی۔ مارکیٹ/کاروباری سرگرمیاں رات8 بجے تک ہونگی۔ ہفتہ اور اتوار کو سیف ڈیز کے طور پر منایا جائے گا۔
ان ڈور شادیوں کی تقریبات، ان ڈور ڈائننگ پر مکمل پابندی ، آٹ ڈور ڈائننگ رات 10 بجے تک ہوگی۔ آؤٹ ڈور شادیوں کی تقریبات رات 10 بجے تک صرف 300 افراد کے ساتھ ہوں گی۔ مزارات ، سینما گھر مکمل بند رہیں گے۔ تمام قسم کے ان ڈور آٹ ڈور اجتماعات ، تقریبات پر مکمل پابندی ہوگی۔ جم مکمل طور پر بند رہیں گی۔ سرکاری، نجی دفاتر اور ادارے 50 فیصد حاضری کے ساتھ کام کرینگے۔
منتخب اضلاع کے مابین چلنے والی ٹرانسپورٹ مکمل طورپر بند رہے گی۔ منتخب اضلاع کے اندر چلنے والی ٹرانسپورٹ کی زیادہ سے زیادہ گنجائش 50 فیصد ہو گی۔ تفریحی پارکس ، سوئمنگ پولز، اور واٹر اسپورٹس بند رہیں گے۔ پبلک پارکس ایس او پیز کے مطابق کھل سکیں گے۔ ویکسینیٹڈافراد کے لیے کنٹرول سیاحت کی پالیسی پر عمل جاری رہے گا۔
ہائر ایجوکیشن پنجاب نے مذکورہ 15 ہائی رسک اضلاع میں تمام سرکاری و نجی کالجز اور یونیورسٹیاں 4ستمبر سے 12 ستمبر تک بند رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ جب کہ اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے پنجاب بھر میں اسکول 3ستمبر سے 11 ستمبر تک بند رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔
اسلام آ باد کے تمام نجی وسرکاری تعلیمی ادارے 6 ستمبر سے11ستمبرتک بند رہیں گے۔ اس دوران ان ہاؤس امتحانات بھی نہیں ہونگے تاہم فیڈرل بورڈ کے تحت امتحانات سخت ایس اوپیز کے تحت جاری رہیںگے لیکن 15 ستمبر کی مقررہ تاریخ کے بعد ویکسین سرٖٹیفیکیٹ کے بغیر کسی کو امتحان میں نہ بیٹھنے دیں۔ رول نمبر سلپ بھی سرٹیفیکیٹ سے مشروط ہو گی۔
این سی او سی کے مطابق جمعے کو ملک میں کوروناکے مجموعی متاثرین کی تعداد تقریباً 12 لاکھ تک پہنچ چکی تھی اور 26ہزار35 اموات ہو چکی تھیں۔
ادھر محکمہ داخلہ سندھ نے کراچی میں ایس اوپیزکی خلاف ورزی پر شادی ہالز مالکان کوگرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ جب کہ کراچی اور حیدر آباد میں رات10بجے کے بعد کھلے رہنے والے ہوٹل اور ریسٹورنٹ سیل کیے جائیں۔ آؤٹ ڈور تقاریب میں300 سے زائد مہمان مدعو کرنے پر کارروائی ہوگی۔
ملک میں ایس او پیز پر عمل نہ کرنے کے باعث کورونا کیسوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، کورونا ایس او پیزپر عمل نہ کرنے کے باعث اسپتالوں میں کورونا مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، کورونا کی جاری لہر کی روک تھام کے لیے حکومت ہی نہیں بلکہ شہریو ں کی طرف سے بھی ذمے داری کا مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے۔
حکومت نے جو گائیڈ لائنز دی ہیں ان پر عملدرآمد کرنا شہریوں کے مفاد میں ہے ، ایس او پیز پر عمل کر کے شہری نہ صرف خود کورونا سے محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی محفوظ بنا سکتے ہیں، موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو خدانخواستہ مثبت کیسوں کی شرح میں مزید اضافہ ہوا تو حالات خاصے خراب ہو سکتے ہیں اور حکومت ایک بار پھر لاک ڈاؤن لگانے پر مجبور ہو سکتی ہے۔
لاک ڈاؤن کی نوبت تک پہنچنے کے بجائے بہتر یہی ہے کہ شہری احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ ماسک کا استعمال کریں، سماجی فاصلے برقرار رکھیں اور ویکسی نیشن سینٹرز پر جا کر ویکسین لازمی لگوائیں۔ کورونا وباء سے بچنے اور اس پر قابو پانے کے لیے ویکسین لگوانا انتہائی ضروری ہے۔ اس سے اس وباء پر بتدریج قابو پایا جا سکتا ہے۔
ملکی معیشت کی جو حالت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ غربت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بے روزگاری انتہا کو چھو رہی ہے۔ اشیائے ضروریہ کی مہنگائی روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے۔ کاروباری سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں۔ تقریباً اڑھائی سال سے کاروباری سرگرمیاں انتہائی نچلی سطح پر ہیں۔
ایسے حالات میں اگر حکومت ایک بار پھر لاک ڈاؤن کرنے پر مجبور ہوتی ہے تو ملکی معیشت کی رہی سہی طاقت بھی دم توڑ جائے گی۔ دیہاڑی دار مزدور اورچھابڑی فروش وغیرہ سب سے زیادہ متاثر ہوں گے' اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کورونا وبا کے پیش نظر کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے جس کے نتیجے میں کاروباری سرگرمیاں بھی جاری رہیں اور کورونا وبا کے پھیلاؤ کو بھی روکا جا سکے۔ اس کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو جامع حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے۔
کورونا وبا کے حوالے سے جو اعدادوشمار دیے جا رہے ہیں انھیں دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ ملک میں یہ وبا دوبارہ تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ گزشتہ دو برس سے پوری دنیا اس وبائی مرض کا شکار چلی آ رہی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کی صورت حال بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے تاہم وہاں کی حکومتوں نے بہتر انتظامات کر کے اور حکمت عملی بنا کر کورونا وبا کی شدت کو کم رکھا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکا 'جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں ایس او پیز پر عمل بھی ہو رہا ہے اور کاروباری سرگرمیاں بھی جاری و ساری ہیں۔ ان ملکوں میں ویکسی نیشن بھی 100فیصد کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم پاکستان کی صورت حال کا جائزہ لیں تو ہمیں حکومت اور عوام دونوں کی طرف سے عدم توجہ نظر آتی ہے۔ ہمارے ارباب اختیار کے لیے ضروری ہے کہ وہ دیکھیں کہ کورونا وباء کی روک تھام کے لیے جو ان کے فرائض ہیں کیا وہ انھیں پوری تندہی سے ادا کیا جا رہا ہے۔
ملک کے تمام ایئرپورٹس پر کڑی نگرانی ہو رہی ہے ؟ کیونکہ ڈیلٹا وائرس پاکستان میں موجود نہیں تھا' اس کا اوریجن بھارت ہے اور دنیا بھر میں ڈیلٹا وائرس یہیں سے پھیل رہا ہے' وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ بیرون ملک سے پاکستان آنے والے مسافروں کو امیگریشن سے پہلے چیک کرنے کا فول پروف بندوبست کرے اور انھیں 15دن کا قرنطینہ حکومتی نگرانی میں کرایا جائے اور پھر انھیں باہر نکلنے کی اجازت دی جائے لیکن عملاً ایسا نظر نہیں آ رہا۔ بیرون ملک سے آنے والے لوگ بآسانی ایئرپورٹ سے باہر نکل کر معاشرے میں گھل مل رہے ہیں۔
ادھر افغانستان میں کورونا کی صورت حال انتہائی خراب ہے' وہاں سے پہلے بھی درست اعداد و شمار بھی نہیں آ رہے تھے، اب تو اووہاں کسی قسم کا حکومتی سیٹ اپ ہی موجود نہیں ہے، کابل میں اسپتال بند پڑے ہیں،نجی کلینکس بھی بند ہیں، ڈاکٹرز سمیت دیگر شعبوں کے پڑھے لکھے اور ہنرمند افراد بیرون ملک چلے گئے ہیں اور جو باقی بچے ہیں، وہ کسی نہ کسی طرح افغانستان سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں وہاں کورونا کی کیا صورت حال ہے، اس کا پتہ لگانا ممکن نہیں ہے۔
عالمی اداروں سمیت کسی کو بھی معلوم نہیں کہ افغانستان میں کورونا وباء کی کیا صورت حال ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ اطلاعات تھیں کہ افغانستان میں کورونا وباء بری طرح پھیل رہی ہے۔ اب وہاں انارکی کی صورت حال ہے۔ لوگ ملک سے فرار ہو رہے ہیں۔ ملک سے بھاگنے والوں کی بھاری تعداد کا رخ پاکستان اور ایران کی طرف ہے۔
سوویت فوجوں موجودگی کے دوران بھی افغانوں کی بہت بڑی تعداد پاکستان میں بطور پناہ گزین داخل ہوئی تھی۔ یہ لوگ ابھی تک بطور مہاجر پاکستان میں موجود ہیں۔ اب بھی ہوائی جہاز کے ذریعے کابل سے لوگ پاکستان میں آئے ہیں اور یہاں اسلام آباد میں انھیں عارضی طور پر ٹھہرایا گیا ہے۔ ان لوگوں کا بھی کورونا ٹیسٹ ہونا چاہیے۔
امید تو یہی ہے کہ حکومت نے یہ ذمے داری پوری کی ہو گی لیکن کوشش یہ ہونی چاہیے کہ چونکہ یہ صورتحال سب سے زیادہ پاکستان کے لیے خطرناک ہے،اس لیے پاکستان کو چاہیے کہ وہ افغانستان کے ساتھ سرحدوں کو مکمل طور پر سیل رکھے اور کسی کو پاکستان میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔
افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے جوکاروباری افراد آتے جاتے ہیں ان کا کورونا ٹیسٹ سرٹیفکیٹ لازم قرار دیا جائے۔ اسی طرح ایران کی سرحد کو بھی بند کر دیا جائے تاکہ وہاں سے بھی یہ وائرس پاکستان نہ آ سکے۔ ہم سب کے لیے پاکستان اور اس میں بسنے والے عوام کا مفاد اولین ترجیح ہی نہیں بلکہ فرض ہے۔ ملک پر حکمرانی کرنے والوں کو اسی سوچ پر عمل کرنا چاہیے۔
این سی او سی کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کو وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی قیادت میں این سی او سی نے کورونا کے بڑھتے ہوئے کے رجحان اور انتہائی نگہداشت کی سہولیات پر دباؤ کے حوالے سے بریفنگ دی۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وبا کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے منتخب اضلاع میں4 سے 12 ستمبر تک اضافی این پی آئیز نافذ کی جائیں گی۔
این سی او سی کے مطابق نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کی بندش، کورونا کے زیادہ پھیلاؤ والے اضلاع اور شہروں میں انٹرسٹی ٹرانسپورٹ کی آمد و رفت اور ان ڈور اور آؤٹ ڈور تقریبات پر پابندی ہوگی۔ شادیوں کی تقریبات کی اجازت صرف آؤٹ ڈور اور 300 افراد تک تعداد سے مشروط ہوگی۔ انڈور جم پر بھی پابندی ہوگی۔ کورونا وبا کے پھیلاؤ کے باعث پنجاب کے 15 ہائی رسک اضلاع میں لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا ہے۔
نوٹیفیکیشن کے مطابق ان اضلاع لاہور، راولپنڈی ، فیصل آباد، ملتان، خانیوال، میانوالی، سرگودھا، خوشاب ،شیخوپورہ، بہاولپور، گوجرانوالہ، رحیم یار خان، گجرات، سیالکوٹ اور بھکر میں 4 سے 12ستمبر تک درج ذیل تمام پابندیاں نافذ رہیں گی۔ مارکیٹ/کاروباری سرگرمیاں رات8 بجے تک ہونگی۔ ہفتہ اور اتوار کو سیف ڈیز کے طور پر منایا جائے گا۔
ان ڈور شادیوں کی تقریبات، ان ڈور ڈائننگ پر مکمل پابندی ، آٹ ڈور ڈائننگ رات 10 بجے تک ہوگی۔ آؤٹ ڈور شادیوں کی تقریبات رات 10 بجے تک صرف 300 افراد کے ساتھ ہوں گی۔ مزارات ، سینما گھر مکمل بند رہیں گے۔ تمام قسم کے ان ڈور آٹ ڈور اجتماعات ، تقریبات پر مکمل پابندی ہوگی۔ جم مکمل طور پر بند رہیں گی۔ سرکاری، نجی دفاتر اور ادارے 50 فیصد حاضری کے ساتھ کام کرینگے۔
منتخب اضلاع کے مابین چلنے والی ٹرانسپورٹ مکمل طورپر بند رہے گی۔ منتخب اضلاع کے اندر چلنے والی ٹرانسپورٹ کی زیادہ سے زیادہ گنجائش 50 فیصد ہو گی۔ تفریحی پارکس ، سوئمنگ پولز، اور واٹر اسپورٹس بند رہیں گے۔ پبلک پارکس ایس او پیز کے مطابق کھل سکیں گے۔ ویکسینیٹڈافراد کے لیے کنٹرول سیاحت کی پالیسی پر عمل جاری رہے گا۔
ہائر ایجوکیشن پنجاب نے مذکورہ 15 ہائی رسک اضلاع میں تمام سرکاری و نجی کالجز اور یونیورسٹیاں 4ستمبر سے 12 ستمبر تک بند رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ جب کہ اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے پنجاب بھر میں اسکول 3ستمبر سے 11 ستمبر تک بند رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔
اسلام آ باد کے تمام نجی وسرکاری تعلیمی ادارے 6 ستمبر سے11ستمبرتک بند رہیں گے۔ اس دوران ان ہاؤس امتحانات بھی نہیں ہونگے تاہم فیڈرل بورڈ کے تحت امتحانات سخت ایس اوپیز کے تحت جاری رہیںگے لیکن 15 ستمبر کی مقررہ تاریخ کے بعد ویکسین سرٖٹیفیکیٹ کے بغیر کسی کو امتحان میں نہ بیٹھنے دیں۔ رول نمبر سلپ بھی سرٹیفیکیٹ سے مشروط ہو گی۔
این سی او سی کے مطابق جمعے کو ملک میں کوروناکے مجموعی متاثرین کی تعداد تقریباً 12 لاکھ تک پہنچ چکی تھی اور 26ہزار35 اموات ہو چکی تھیں۔
ادھر محکمہ داخلہ سندھ نے کراچی میں ایس اوپیزکی خلاف ورزی پر شادی ہالز مالکان کوگرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ جب کہ کراچی اور حیدر آباد میں رات10بجے کے بعد کھلے رہنے والے ہوٹل اور ریسٹورنٹ سیل کیے جائیں۔ آؤٹ ڈور تقاریب میں300 سے زائد مہمان مدعو کرنے پر کارروائی ہوگی۔
ملک میں ایس او پیز پر عمل نہ کرنے کے باعث کورونا کیسوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، کورونا ایس او پیزپر عمل نہ کرنے کے باعث اسپتالوں میں کورونا مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، کورونا کی جاری لہر کی روک تھام کے لیے حکومت ہی نہیں بلکہ شہریو ں کی طرف سے بھی ذمے داری کا مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے۔
حکومت نے جو گائیڈ لائنز دی ہیں ان پر عملدرآمد کرنا شہریوں کے مفاد میں ہے ، ایس او پیز پر عمل کر کے شہری نہ صرف خود کورونا سے محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی محفوظ بنا سکتے ہیں، موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو خدانخواستہ مثبت کیسوں کی شرح میں مزید اضافہ ہوا تو حالات خاصے خراب ہو سکتے ہیں اور حکومت ایک بار پھر لاک ڈاؤن لگانے پر مجبور ہو سکتی ہے۔
لاک ڈاؤن کی نوبت تک پہنچنے کے بجائے بہتر یہی ہے کہ شہری احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ ماسک کا استعمال کریں، سماجی فاصلے برقرار رکھیں اور ویکسی نیشن سینٹرز پر جا کر ویکسین لازمی لگوائیں۔ کورونا وباء سے بچنے اور اس پر قابو پانے کے لیے ویکسین لگوانا انتہائی ضروری ہے۔ اس سے اس وباء پر بتدریج قابو پایا جا سکتا ہے۔
ملکی معیشت کی جو حالت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ غربت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بے روزگاری انتہا کو چھو رہی ہے۔ اشیائے ضروریہ کی مہنگائی روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے۔ کاروباری سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں۔ تقریباً اڑھائی سال سے کاروباری سرگرمیاں انتہائی نچلی سطح پر ہیں۔
ایسے حالات میں اگر حکومت ایک بار پھر لاک ڈاؤن کرنے پر مجبور ہوتی ہے تو ملکی معیشت کی رہی سہی طاقت بھی دم توڑ جائے گی۔ دیہاڑی دار مزدور اورچھابڑی فروش وغیرہ سب سے زیادہ متاثر ہوں گے' اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کورونا وبا کے پیش نظر کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے جس کے نتیجے میں کاروباری سرگرمیاں بھی جاری رہیں اور کورونا وبا کے پھیلاؤ کو بھی روکا جا سکے۔ اس کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو جامع حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے۔
کورونا وبا کے حوالے سے جو اعدادوشمار دیے جا رہے ہیں انھیں دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ ملک میں یہ وبا دوبارہ تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ گزشتہ دو برس سے پوری دنیا اس وبائی مرض کا شکار چلی آ رہی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کی صورت حال بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے تاہم وہاں کی حکومتوں نے بہتر انتظامات کر کے اور حکمت عملی بنا کر کورونا وبا کی شدت کو کم رکھا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکا 'جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں ایس او پیز پر عمل بھی ہو رہا ہے اور کاروباری سرگرمیاں بھی جاری و ساری ہیں۔ ان ملکوں میں ویکسی نیشن بھی 100فیصد کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم پاکستان کی صورت حال کا جائزہ لیں تو ہمیں حکومت اور عوام دونوں کی طرف سے عدم توجہ نظر آتی ہے۔ ہمارے ارباب اختیار کے لیے ضروری ہے کہ وہ دیکھیں کہ کورونا وباء کی روک تھام کے لیے جو ان کے فرائض ہیں کیا وہ انھیں پوری تندہی سے ادا کیا جا رہا ہے۔
ملک کے تمام ایئرپورٹس پر کڑی نگرانی ہو رہی ہے ؟ کیونکہ ڈیلٹا وائرس پاکستان میں موجود نہیں تھا' اس کا اوریجن بھارت ہے اور دنیا بھر میں ڈیلٹا وائرس یہیں سے پھیل رہا ہے' وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ بیرون ملک سے پاکستان آنے والے مسافروں کو امیگریشن سے پہلے چیک کرنے کا فول پروف بندوبست کرے اور انھیں 15دن کا قرنطینہ حکومتی نگرانی میں کرایا جائے اور پھر انھیں باہر نکلنے کی اجازت دی جائے لیکن عملاً ایسا نظر نہیں آ رہا۔ بیرون ملک سے آنے والے لوگ بآسانی ایئرپورٹ سے باہر نکل کر معاشرے میں گھل مل رہے ہیں۔
ادھر افغانستان میں کورونا کی صورت حال انتہائی خراب ہے' وہاں سے پہلے بھی درست اعداد و شمار بھی نہیں آ رہے تھے، اب تو اووہاں کسی قسم کا حکومتی سیٹ اپ ہی موجود نہیں ہے، کابل میں اسپتال بند پڑے ہیں،نجی کلینکس بھی بند ہیں، ڈاکٹرز سمیت دیگر شعبوں کے پڑھے لکھے اور ہنرمند افراد بیرون ملک چلے گئے ہیں اور جو باقی بچے ہیں، وہ کسی نہ کسی طرح افغانستان سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں وہاں کورونا کی کیا صورت حال ہے، اس کا پتہ لگانا ممکن نہیں ہے۔
عالمی اداروں سمیت کسی کو بھی معلوم نہیں کہ افغانستان میں کورونا وباء کی کیا صورت حال ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ اطلاعات تھیں کہ افغانستان میں کورونا وباء بری طرح پھیل رہی ہے۔ اب وہاں انارکی کی صورت حال ہے۔ لوگ ملک سے فرار ہو رہے ہیں۔ ملک سے بھاگنے والوں کی بھاری تعداد کا رخ پاکستان اور ایران کی طرف ہے۔
سوویت فوجوں موجودگی کے دوران بھی افغانوں کی بہت بڑی تعداد پاکستان میں بطور پناہ گزین داخل ہوئی تھی۔ یہ لوگ ابھی تک بطور مہاجر پاکستان میں موجود ہیں۔ اب بھی ہوائی جہاز کے ذریعے کابل سے لوگ پاکستان میں آئے ہیں اور یہاں اسلام آباد میں انھیں عارضی طور پر ٹھہرایا گیا ہے۔ ان لوگوں کا بھی کورونا ٹیسٹ ہونا چاہیے۔
امید تو یہی ہے کہ حکومت نے یہ ذمے داری پوری کی ہو گی لیکن کوشش یہ ہونی چاہیے کہ چونکہ یہ صورتحال سب سے زیادہ پاکستان کے لیے خطرناک ہے،اس لیے پاکستان کو چاہیے کہ وہ افغانستان کے ساتھ سرحدوں کو مکمل طور پر سیل رکھے اور کسی کو پاکستان میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔
افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے جوکاروباری افراد آتے جاتے ہیں ان کا کورونا ٹیسٹ سرٹیفکیٹ لازم قرار دیا جائے۔ اسی طرح ایران کی سرحد کو بھی بند کر دیا جائے تاکہ وہاں سے بھی یہ وائرس پاکستان نہ آ سکے۔ ہم سب کے لیے پاکستان اور اس میں بسنے والے عوام کا مفاد اولین ترجیح ہی نہیں بلکہ فرض ہے۔ ملک پر حکمرانی کرنے والوں کو اسی سوچ پر عمل کرنا چاہیے۔