کرپٹ مافیا کا پیسہ باہر جا رہا ہے
کاش ریاست مدینہ کی ایک جھلک ہی دکھا دیں کچھ تو ہمیں اطمینان ہو جائے کہ ہاں ہمارے ملک میں بھی تبدیلی آ رہی ہے۔
ملک میں تبدیلی نہیں آئی، مہنگائی بڑھ گئی، بے روزگاری بڑھ گئی، غربت میں اضافہ ہوگیا، علاج مہنگا ہو گیا، دواؤں کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ آٹا ، چینی، دال، گوشت ، سبزی ، تیل ، گھی سمیت پٹرول، ڈیزل اورگیس کی قیمتوں میں اضافے نے غریب عوام سمیت لوئر مڈل کلاس کی بھی کمر توڑ دی ہے، تو دوسری جانب سرمایہ داروں، جاگیرداروں، گھی مل مالکوں، شوگر اور آٹا مافیا نے ریکارڈ قائم کردیا ہے۔
کالم نگار اشرافیہ کے بارے میں کالم لکھ رہے ہیں، ٹی وی اینکر بھی نئے نئے انکشافات کر رہے ہیں، ہماری بیورو کریسی سمیت اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں لکھا اور پڑھا جا رہا ہے۔ راؤ منظر حیات نے اپنے ایک کالم میں بتایا ہے کہ کس طرح پاکستانی اشرافیہ غلط طریقوں سے دولت لوٹ کر باہر منتقل کر رہی ہے۔ کیا اس بات سے وزیر اعظم عمران خان باخبر ہیں؟
ہمارے ملک کے کئی ایک لکھاری کتابیں یا اپنی آپ بیتی لکھ کر پڑھے لکھے قاریوں کو ایوب خان کے مارشل لا سے محمد علی جناح قائد اعظم، خان لیاقت علی خان کے قتل اور محترمہ فاطمہ جناح کے الیکشن کے حوالے سے خدشات اور شکایات اور 1962 کے قانون کے حوالے سے اپنی تحریریں لکھ کر ماضی کے جھروکوں میں ہمیں واپس دھکیل دیتے ہیں اور ہمیں اپنی تاریخ سے آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ شاید کوئی انھیں بھی سمجھ سکے اور پاکستان کی تاریخ سے واقف رہ سکے۔
جیسے آج کل تبدیلی سرکار ہمیں بتاتی رہتی ہے کہ سابق حکمرانوں نے ملک کا خزانہ لوٹ کر بیرونی ممالک میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اپنے عوام کو لوٹ کر غیر ملکی بینکوں میں اپنا سرمایہ چھپا رکھا ہے۔
عمران خان وزیر اعظم ہیں وہ اکثر کہتے رہتے ہیں کہ میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا اور غیر ملکی بینکوں سے رقم واپس لے کر آؤں گا۔ وہ کہتے ہیں میں غریب عوام کو اوپر لانا چاہتا ہوں اور انھیں بہتر تعلیم، بہتر علاج کرا کے دوں گا۔ ایک کروڑ ملازمتیں دوں گا اور 50 لاکھ گھر بنا کر دوں گا۔ ملکی حالات کو بہتر بنا کر دکھاؤں گا۔ بڑے اچھے اعلانات ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ کاش ایسا ہی ہو۔
تین سال سے عوام کا برا حال ہے۔ کورونا کی لہر تو 2020 میں آئی تھی اور ویکسین لگنا 2021 میں شروع ہوگئی تھی یہ سال بھی بیت رہا ہے۔ نہ ملازمتیں ملیں، نہ گھر ملے، نہ مہنگائی ختم ہوئی، نہ بے روزگاری ختم ہوئی اور نہ ہی نیب یا عدالتوں کے ذریعے لوٹ مار کرنے والوں کو سزائیں ملیں، کچھ ملک سے باہر ہیں اور کچھ ملک کے اندر جیل جا کر ضمانتوں پر رہا ہو کر اپنی اپنی سیاست میں لگے ہوئے ہیں۔
آخر 2 سالوں میں کیا ہوگا۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے کب چھٹکارا ملے گا۔ کب نیچے سے غریب عوام اوپر آئیں گے۔ عدالتوں سے کب انصاف ملے گا۔ صحافت اور آزادی اظہار کی کب اجازت ملے گی۔ میڈیا کب آزاد ہوگا۔ نجکاری نہ کرنے کا کب اعلان ہوگا۔ جاگیرداری، سرمایہ داری کا کب خاتمہ ہوگا۔ اداروں میں ٹریڈ یونین کب بحال ہوگی۔ کب ریلوے ملازمین کو انجمن سازی اور ریفرنڈم کرانے کا اعلان کرے گا۔ تنخواہوں اور پنشن میں کب اضافہ ہوگا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ الیکشن 2023 میں ہوں گے یا قبل ازوقت ہوں گے۔
الیکٹرانک مشین کے ذریعے ہوں گے یا پھر پہلے کی طرح ہوں گے کب تبدیلی آئے گی کب انصاف ملے گا۔ آخر اب تو ہمارے پڑوسی ملک افغانستان میں بھی تبدیلی آگئی ہے۔ امریکا کی فوج اور اس کے حواری افغانستان سے فرار ہوگئے ہیں اور جو بچے کچھے ہیں وہ ہمارے پاکستان میں آ رہے ہیں اسلام آباد اور کراچی کے تمام بڑے بڑے ہوٹل خالی کرا لیے ہیں۔ جہاں وہ ٹھاٹ باٹ سے رہیں گے اور اپنے اپنے پسندیدہ ملکوں کو روانہ ہو جائیں گے، لیکن بے چارے ہمارے غریب افغان بھائی اور ان کے بیوی بچے پاکستان کی سرحدوں کے کیمپوں میں رہیں گے۔ چمن بارڈر کھلا ہوا ہے۔ طورخم بارڈر بھی کھل رہا ہے۔
ہمارے ملک کا کیا بنے گا ، بے روزگاری بڑھے گی، غربت بڑھے گی۔ اور ہو سکتا ہے تخریب کاری اور دہشت گردی بھی دوبارہ بڑھ جائے۔ ہمارے حکمرانوں سے امریکا کا صدر جوبائیڈن ٹیلی فون پر بات نہیں کرتا اور نہ ہی بھارت کا وزیر اعظم نریندر مودی بات کرتا ہے ہم کس طرح اپنی معیشت کو بہتر بنائیں گے۔ کورونا ویکسین 22 کروڑ عوام کو کب تک لگے گی۔ بے گھری کب اور کیسے دور ہوگی یہ اور بہت سارے سوالات ہیں جو ہمارے عوام جاننا چاہتے ہیں۔
کاش ریاست مدینہ کی ایک جھلک ہی دکھا دیں کچھ تو ہمیں اطمینان ہو جائے کہ ہاں ہمارے ملک میں بھی تبدیلی آ رہی ہے۔ کوئی خوش خبری سنیں۔ امید ہے کہ ہمیں انصاف ملے؟ ٹریڈ یونین آزاد ہو، اظہار رائے کی آزادی ہو، انسانی حقوق بحال ہوں، صحافت کی آزادی ہو، نکالے گئے ملازمین کو ملازمت پر بحال کریں۔ پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل ملز سمیت دیگر اداروں کے ہزاروں ملازمین پریشان اور بے گھری کا شکار ہیں انھیں کون نجات دلائے گا۔
خیر میں ایک مرتبہ پھر صاحب، سیاست، سانپ کی طرف آتا ہوں۔ یہ کون لوگ ہیں جو رات کی تاریکی میں ایک بڑے صاحب سے ملنے ان کے گھر آتے ہیں اور اپنی رقم آسانی کے ساتھ غیر ملکی بینکوں میں جمع کراتے ہیں۔ تحقیق کریں اور عوام کو آگاہ کریں۔
کالم نگار اشرافیہ کے بارے میں کالم لکھ رہے ہیں، ٹی وی اینکر بھی نئے نئے انکشافات کر رہے ہیں، ہماری بیورو کریسی سمیت اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں لکھا اور پڑھا جا رہا ہے۔ راؤ منظر حیات نے اپنے ایک کالم میں بتایا ہے کہ کس طرح پاکستانی اشرافیہ غلط طریقوں سے دولت لوٹ کر باہر منتقل کر رہی ہے۔ کیا اس بات سے وزیر اعظم عمران خان باخبر ہیں؟
ہمارے ملک کے کئی ایک لکھاری کتابیں یا اپنی آپ بیتی لکھ کر پڑھے لکھے قاریوں کو ایوب خان کے مارشل لا سے محمد علی جناح قائد اعظم، خان لیاقت علی خان کے قتل اور محترمہ فاطمہ جناح کے الیکشن کے حوالے سے خدشات اور شکایات اور 1962 کے قانون کے حوالے سے اپنی تحریریں لکھ کر ماضی کے جھروکوں میں ہمیں واپس دھکیل دیتے ہیں اور ہمیں اپنی تاریخ سے آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ شاید کوئی انھیں بھی سمجھ سکے اور پاکستان کی تاریخ سے واقف رہ سکے۔
جیسے آج کل تبدیلی سرکار ہمیں بتاتی رہتی ہے کہ سابق حکمرانوں نے ملک کا خزانہ لوٹ کر بیرونی ممالک میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اپنے عوام کو لوٹ کر غیر ملکی بینکوں میں اپنا سرمایہ چھپا رکھا ہے۔
عمران خان وزیر اعظم ہیں وہ اکثر کہتے رہتے ہیں کہ میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا اور غیر ملکی بینکوں سے رقم واپس لے کر آؤں گا۔ وہ کہتے ہیں میں غریب عوام کو اوپر لانا چاہتا ہوں اور انھیں بہتر تعلیم، بہتر علاج کرا کے دوں گا۔ ایک کروڑ ملازمتیں دوں گا اور 50 لاکھ گھر بنا کر دوں گا۔ ملکی حالات کو بہتر بنا کر دکھاؤں گا۔ بڑے اچھے اعلانات ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ کاش ایسا ہی ہو۔
تین سال سے عوام کا برا حال ہے۔ کورونا کی لہر تو 2020 میں آئی تھی اور ویکسین لگنا 2021 میں شروع ہوگئی تھی یہ سال بھی بیت رہا ہے۔ نہ ملازمتیں ملیں، نہ گھر ملے، نہ مہنگائی ختم ہوئی، نہ بے روزگاری ختم ہوئی اور نہ ہی نیب یا عدالتوں کے ذریعے لوٹ مار کرنے والوں کو سزائیں ملیں، کچھ ملک سے باہر ہیں اور کچھ ملک کے اندر جیل جا کر ضمانتوں پر رہا ہو کر اپنی اپنی سیاست میں لگے ہوئے ہیں۔
آخر 2 سالوں میں کیا ہوگا۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے کب چھٹکارا ملے گا۔ کب نیچے سے غریب عوام اوپر آئیں گے۔ عدالتوں سے کب انصاف ملے گا۔ صحافت اور آزادی اظہار کی کب اجازت ملے گی۔ میڈیا کب آزاد ہوگا۔ نجکاری نہ کرنے کا کب اعلان ہوگا۔ جاگیرداری، سرمایہ داری کا کب خاتمہ ہوگا۔ اداروں میں ٹریڈ یونین کب بحال ہوگی۔ کب ریلوے ملازمین کو انجمن سازی اور ریفرنڈم کرانے کا اعلان کرے گا۔ تنخواہوں اور پنشن میں کب اضافہ ہوگا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ الیکشن 2023 میں ہوں گے یا قبل ازوقت ہوں گے۔
الیکٹرانک مشین کے ذریعے ہوں گے یا پھر پہلے کی طرح ہوں گے کب تبدیلی آئے گی کب انصاف ملے گا۔ آخر اب تو ہمارے پڑوسی ملک افغانستان میں بھی تبدیلی آگئی ہے۔ امریکا کی فوج اور اس کے حواری افغانستان سے فرار ہوگئے ہیں اور جو بچے کچھے ہیں وہ ہمارے پاکستان میں آ رہے ہیں اسلام آباد اور کراچی کے تمام بڑے بڑے ہوٹل خالی کرا لیے ہیں۔ جہاں وہ ٹھاٹ باٹ سے رہیں گے اور اپنے اپنے پسندیدہ ملکوں کو روانہ ہو جائیں گے، لیکن بے چارے ہمارے غریب افغان بھائی اور ان کے بیوی بچے پاکستان کی سرحدوں کے کیمپوں میں رہیں گے۔ چمن بارڈر کھلا ہوا ہے۔ طورخم بارڈر بھی کھل رہا ہے۔
ہمارے ملک کا کیا بنے گا ، بے روزگاری بڑھے گی، غربت بڑھے گی۔ اور ہو سکتا ہے تخریب کاری اور دہشت گردی بھی دوبارہ بڑھ جائے۔ ہمارے حکمرانوں سے امریکا کا صدر جوبائیڈن ٹیلی فون پر بات نہیں کرتا اور نہ ہی بھارت کا وزیر اعظم نریندر مودی بات کرتا ہے ہم کس طرح اپنی معیشت کو بہتر بنائیں گے۔ کورونا ویکسین 22 کروڑ عوام کو کب تک لگے گی۔ بے گھری کب اور کیسے دور ہوگی یہ اور بہت سارے سوالات ہیں جو ہمارے عوام جاننا چاہتے ہیں۔
کاش ریاست مدینہ کی ایک جھلک ہی دکھا دیں کچھ تو ہمیں اطمینان ہو جائے کہ ہاں ہمارے ملک میں بھی تبدیلی آ رہی ہے۔ کوئی خوش خبری سنیں۔ امید ہے کہ ہمیں انصاف ملے؟ ٹریڈ یونین آزاد ہو، اظہار رائے کی آزادی ہو، انسانی حقوق بحال ہوں، صحافت کی آزادی ہو، نکالے گئے ملازمین کو ملازمت پر بحال کریں۔ پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل ملز سمیت دیگر اداروں کے ہزاروں ملازمین پریشان اور بے گھری کا شکار ہیں انھیں کون نجات دلائے گا۔
خیر میں ایک مرتبہ پھر صاحب، سیاست، سانپ کی طرف آتا ہوں۔ یہ کون لوگ ہیں جو رات کی تاریکی میں ایک بڑے صاحب سے ملنے ان کے گھر آتے ہیں اور اپنی رقم آسانی کے ساتھ غیر ملکی بینکوں میں جمع کراتے ہیں۔ تحقیق کریں اور عوام کو آگاہ کریں۔