اصلاحاتی وفاقی ترقیاتی پروگرام
پی ٹی آئی حکومت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی ایکٹ کو نئے سرے سے تشکیل دیا ہے۔
معاشی نمو کو سہارا دینے کرنے کے لیے وفاقی حکومت کے پاس موجود سب سے اہم چیز ترقیاتی اخراجات ہوتے ہیں جو پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP) کے ذریعے خرچ کیے جاتے ہیں۔
ٹیکس دہندگان کی محنت سے کمائے گئے اربوں روپے حکومت اس ترقیاتی پروگرام کے ذریعے خرچ کرتی ہے۔ یہ پیسہ کس چیز پر خرچ کیا جاتا ہے، اسے کتنا موثر طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے، اور اس کی کہاں سرمایہ کاری کی جاتی ہے، یہ چیزیں ملکی ترقی پر اہم اثرات مرتب کرتی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اصلاحات کے اپنے وعدے کو پورا کرتے ہوئے ان تین پہلوؤں پر خصوصی توجہ دی ہے۔
سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد سے ترقیاتی اخراجات کس پر خرچ ہو رہے ہیں اور اس میں کیا تبدیلی آئی ہے۔ پاکستان میں انفرااسٹرکچی ڈویلمپنٹ کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور یہ انفرااسٹرکچر بنانا کافی مہنگا بھی ہے، اگر ہم انفرااسٹرکچر کی فنانسنگ کے بارے میں تخلیقی (کریٹیو )نہیں ہونگے تو اس پر ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ خرچ ہوجائے گا لہٰذا انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ کی فنانسنگ کے لیے ایک جدید مالیاتی طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے جو جدت لائی گئی ہے، اس کا ذکر آگے بیان کیا جارہا ہے کہ کس کی وجہ سے انفرااسٹرکچر پر ترقیاتی بجٹ میں کمی ممکن ہوئی ہے۔ پانچ برس قبل یہ اخراجات 56 فیصد تھے جس میں کمی لاکر ہم رواںسال کے پی ایس ڈی پی میں 40 فیصد پر لے آئی ہیں۔
یہاں سے جو پیسہ بچا ہے وہ ایسے کلیدی شعبوں پر لگایا جا رہا ہے جو طویل المدت ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہیں مگر گزشتہ حکومتوں کی جانب سے ان پر بہت کم خرچ کیا گیا۔ پاکستان میں آپ جہاں بھی جائیں ، لوگ زراعت اورانسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے پانی کے حوالے سے پریشان ہیں۔ پانی سے متعلقہ منصوبوں کے لیے مختص PSDP کا حصہ ڈھائی گنا بڑھا کر 4 فیصد سے 10 فیصد کر دیا گیا ہے۔ ان منصوبوں میں دیامر بھاشا جیسے بڑے ڈیمز سمیت چھوٹے ڈیم ، نہریں اور ان نہروں کے لیے کمانڈ ایریا کی ترقی شامل ہے۔
ہم نے ماحولیات کو تو نظر انداز کیا ہی مگر روایتی طور پر صحت اور تعلیم جیسے سماجی شعبوں پر بھی بہت کم سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے علاوہ ، ترقیاتی کاموں کی بھی غیر مساوی تقسیم ہوئی جس کی وجہ سے ملک کے بہت سے حصے اب بھی انسانی ترقی کے حوالے سے بہت پیچھے ہیں۔ پی ٹی آئی کا منشور میں ایک ایسا معاشرہ بنانے کا عہد ہے جہاں ریاستی وسائل صرف چند ایک نہیں بلکہ سب کے لیے استعمال ہوں۔
یہ سرمایہ کاری معاشرے کے تمام طبقات اور ملک کے تمام خطوں کو یکساں مواقع دینے کے لیے اہم اور پی ٹی آئی کے منشور '' دو نہیں ایک پاکستان '' کے عین مطابق ہے۔ ان شعبوں میں اخراجات کا حصہ پی ایس ڈی پی کے 23 فیصد سے بڑھا کر 31 فیصد کر دیا گیا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا ترقیاتی بجٹ دوگنا ہوچکا ہے ، صحت کا بجٹ کئی گنا بڑھا دیا گیا ہے اور اور ماحولیاتی تحفظ کے بجٹ میں دس گنا سے بھی زیاہ اضافہ کیا گیا ہے۔
اگرچہ جدید معیشت میں ترقی کا بنیادی انجن نجی شعبہ ہے تاہم اب بھی ریاست، سرمایہ کاری کر کے اس میں اہم کردار ادا کرتی ہے جس سے معیشت کی مسابقت بڑھتی ہے ، خاص طور پر پیداواری شعبے کی۔ ایک بار پھر ماضی کی حکومتیں صنعت ، زراعت ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ضروری سہولت کاری کے لیے سرمایہ کاری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ہم نے ان شعبوں کا حصہ بھی ڈھائی گنا بڑھا دیا ہے یعنی 2 فیصد سے بڑھا کر 5 فیصد کر دیا ہے۔
اب ہم اس حصے کی طرف آتے ہیں کہ کس طرح جدید انفرااسٹرکچر منصوبوں کو فنانس کرنے کے لیے جدید مالیاتی ڈھانچے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے ، حکومتیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے انفرااسٹرکچر پراجیکٹس کی مالی اعانت کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں مگر ہم اس میں کوئی پیش رفت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ 2007 میںانفرااسٹرکچر پروجیکٹ ڈویلپمنٹ فنڈ (آئی پی ڈی ایف) بنایا گیا جس نے زیادہ ڈیلیور نہیں کیا۔ 2017 میں ایک نئی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی بنائی گئی اور آئی پی ڈی ایف کو اس میں ضم کر دیا گیامگر سابقہ انتظامیہ کے زیر اہتمام یہ اتھارٹی بھی بھی ڈیلور نہیں کر سکی۔
پی ٹی آئی حکومت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی ایکٹ کو نئے سرے سے تشکیل دیا ہے، جس میں فل ٹائم سی ای او اور وزیر منصوبہ بندی ذاتی طور پر اتھارٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی صدارت کر رہے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو بورڈ نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی بورڈ سے منظور شدہ ٹرانزیکشن سٹرکچر کے ذریعے این ایچ اے کو پہلے معاہدے پر دستخط کرنے کی اجازت دی۔ ٹرانزیکشن کا یہ جدید ڈھانچہ سرمائے اور آپریشنل قابل عمل گیپ فنڈنگ کی شکل میں فنانسنگ کا استعمال کرتا ہے۔ اس سے حکومت تھوری سی سرمایہ کاری کرکے بڑے منصوبے شروع کر سکتی ہے۔
اس ڈھانچے کے تحت منظور شدہ سیالکوٹ کھاریاں موٹروے پر کل لاگت 27.8 ارب روپے ہے اور پروجیکٹ پر عملدرآمد کے مرحلے کے دوران صرف 4 ارب روپے کا وائبلٹی گیپ فنڈ انجیکشن ہے۔ چنانچہ اس مرحلے میں پی ایس ڈی پی کے اخراجات کا ہر روپیہ کل ترقیاتی اخراجات کے سات روپے کے برابر نتائج دے رہا ہے۔ ڈھانچے کی ایک اور انوکھی خصوصیت وائبلٹی گیپ فنڈنگ کی نیم مساوی نوعیت ہے ، جو این ایچ اے کو اس منصوبے کے پہلے آٹھ سال کے آپریشن کے بعد ممکنہ منافع بانٹنے کا اہل بنائے گی۔
آخر میں ہم ترقیاتی اخراجات کے معیار کی طرف آتے ہیں اور اسے کتنی مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے PSDP تاخیر اور بدعنوانی کی وجہ سے منصوبوں کے ناقص عملدرآمد میں الجھا ہوا ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ، ترقیاتی اخراجات کی نگرانی اور ہم آہنگی کے نظام میں کئی بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ ان اقدامات کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ابھی ختم ہونے والے سال میں سب نے دیکھا کہ پورے پی ایس ڈی پی بجٹ کو دہائی میں پہلی بار استعمال کیا گیا۔ ورنہ ہر سال اربوں روپے کے قیمتی ترقیاتی بجٹ کو بے کار چھوڑ دیا جاتا ہے ، جس سے بہت زیادہ ترقیاتی کام سست پڑ جاتے ہیں۔
ترقیاتی اخراجات کی مانیٹرنگ اور ایولیویشن کے نظام کو نئی شکل دینے کے لیے تین اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔ پہلا قدم پلاننگ کمیشن کے اس ونگ کی ادارہ جاتی صلاحیت کو مضبوط کرنا ہے۔ دوسرا بڑا مرحلہ پروجیکٹس کی نگرانی کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال ہے اور ناقص یا غلط فیلڈ رپورٹس جیسے سست عوامل پر مکمل انحصار نہ کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے ، اسپارکو کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں تاکہ پروجیکٹ کی پیش رفت کو ٹریک کرنے کے لیے سیٹلائٹ پر مبنی مانیٹرنگ سسٹم استعمال کیا جا سکے۔
تیسرا اہم جزو اہم منصوبوں کی نگرانی کے لیے آؤٹ سورس معاہدوں کے ذریعے خصوصی فرموں کا استعمال کرنا ہے۔ ماہرین کو ٹیکنالوجی پر مبنی نگرانی اور آؤٹ سورسنگ کے استعمال کو متعارف کرانے سے ، نہ صرف منصوبوں کی موثر نگرانی بہتر ہوگی بلکہ ترقیاتی اخراجات میں زیادہ شفافیت پیدا ہوگی۔
اوپر بیان کردہ اصلاحات کے تین پہلوؤں کا حاصل یہ ہے کہ ایسے شعبوں پر خرچ کرنا جو زیادہ موثر ہیں،مانیٹرنگ سسٹم کے معیار کو بہتر بنانا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ پیسہ زیادہ موثر اور ایمانداری سے خرچ کیا جائے، جدید حکمت عملی و حربوں کے استعمال سے ٹیکس دہندگان کے پیسے کا درست فائدہ اٹھانا کہ حکومتی فنانسنگ سے کہیں زیادہ ترقیاتی بجٹ حاصل ہوسکے، اس کے نتیجے میں ایسے ترقیاتی نتائج برآمد ہوں گے جو قوم کی ضروریات کو پہلے سے بہتر انداز میں پورا کریں گے۔
( مضمون نگار وفاقی وزیر برائے پلاننگ، ڈویلپمنٹ، ریفارمز اینڈ اسپیشل انشیوٹیو ہیں)
ٹیکس دہندگان کی محنت سے کمائے گئے اربوں روپے حکومت اس ترقیاتی پروگرام کے ذریعے خرچ کرتی ہے۔ یہ پیسہ کس چیز پر خرچ کیا جاتا ہے، اسے کتنا موثر طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے، اور اس کی کہاں سرمایہ کاری کی جاتی ہے، یہ چیزیں ملکی ترقی پر اہم اثرات مرتب کرتی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اصلاحات کے اپنے وعدے کو پورا کرتے ہوئے ان تین پہلوؤں پر خصوصی توجہ دی ہے۔
سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد سے ترقیاتی اخراجات کس پر خرچ ہو رہے ہیں اور اس میں کیا تبدیلی آئی ہے۔ پاکستان میں انفرااسٹرکچی ڈویلمپنٹ کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور یہ انفرااسٹرکچر بنانا کافی مہنگا بھی ہے، اگر ہم انفرااسٹرکچر کی فنانسنگ کے بارے میں تخلیقی (کریٹیو )نہیں ہونگے تو اس پر ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ خرچ ہوجائے گا لہٰذا انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ کی فنانسنگ کے لیے ایک جدید مالیاتی طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے جو جدت لائی گئی ہے، اس کا ذکر آگے بیان کیا جارہا ہے کہ کس کی وجہ سے انفرااسٹرکچر پر ترقیاتی بجٹ میں کمی ممکن ہوئی ہے۔ پانچ برس قبل یہ اخراجات 56 فیصد تھے جس میں کمی لاکر ہم رواںسال کے پی ایس ڈی پی میں 40 فیصد پر لے آئی ہیں۔
یہاں سے جو پیسہ بچا ہے وہ ایسے کلیدی شعبوں پر لگایا جا رہا ہے جو طویل المدت ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہیں مگر گزشتہ حکومتوں کی جانب سے ان پر بہت کم خرچ کیا گیا۔ پاکستان میں آپ جہاں بھی جائیں ، لوگ زراعت اورانسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے پانی کے حوالے سے پریشان ہیں۔ پانی سے متعلقہ منصوبوں کے لیے مختص PSDP کا حصہ ڈھائی گنا بڑھا کر 4 فیصد سے 10 فیصد کر دیا گیا ہے۔ ان منصوبوں میں دیامر بھاشا جیسے بڑے ڈیمز سمیت چھوٹے ڈیم ، نہریں اور ان نہروں کے لیے کمانڈ ایریا کی ترقی شامل ہے۔
ہم نے ماحولیات کو تو نظر انداز کیا ہی مگر روایتی طور پر صحت اور تعلیم جیسے سماجی شعبوں پر بھی بہت کم سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے علاوہ ، ترقیاتی کاموں کی بھی غیر مساوی تقسیم ہوئی جس کی وجہ سے ملک کے بہت سے حصے اب بھی انسانی ترقی کے حوالے سے بہت پیچھے ہیں۔ پی ٹی آئی کا منشور میں ایک ایسا معاشرہ بنانے کا عہد ہے جہاں ریاستی وسائل صرف چند ایک نہیں بلکہ سب کے لیے استعمال ہوں۔
یہ سرمایہ کاری معاشرے کے تمام طبقات اور ملک کے تمام خطوں کو یکساں مواقع دینے کے لیے اہم اور پی ٹی آئی کے منشور '' دو نہیں ایک پاکستان '' کے عین مطابق ہے۔ ان شعبوں میں اخراجات کا حصہ پی ایس ڈی پی کے 23 فیصد سے بڑھا کر 31 فیصد کر دیا گیا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا ترقیاتی بجٹ دوگنا ہوچکا ہے ، صحت کا بجٹ کئی گنا بڑھا دیا گیا ہے اور اور ماحولیاتی تحفظ کے بجٹ میں دس گنا سے بھی زیاہ اضافہ کیا گیا ہے۔
اگرچہ جدید معیشت میں ترقی کا بنیادی انجن نجی شعبہ ہے تاہم اب بھی ریاست، سرمایہ کاری کر کے اس میں اہم کردار ادا کرتی ہے جس سے معیشت کی مسابقت بڑھتی ہے ، خاص طور پر پیداواری شعبے کی۔ ایک بار پھر ماضی کی حکومتیں صنعت ، زراعت ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ضروری سہولت کاری کے لیے سرمایہ کاری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ہم نے ان شعبوں کا حصہ بھی ڈھائی گنا بڑھا دیا ہے یعنی 2 فیصد سے بڑھا کر 5 فیصد کر دیا ہے۔
اب ہم اس حصے کی طرف آتے ہیں کہ کس طرح جدید انفرااسٹرکچر منصوبوں کو فنانس کرنے کے لیے جدید مالیاتی ڈھانچے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے ، حکومتیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے انفرااسٹرکچر پراجیکٹس کی مالی اعانت کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں مگر ہم اس میں کوئی پیش رفت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ 2007 میںانفرااسٹرکچر پروجیکٹ ڈویلپمنٹ فنڈ (آئی پی ڈی ایف) بنایا گیا جس نے زیادہ ڈیلیور نہیں کیا۔ 2017 میں ایک نئی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی بنائی گئی اور آئی پی ڈی ایف کو اس میں ضم کر دیا گیامگر سابقہ انتظامیہ کے زیر اہتمام یہ اتھارٹی بھی بھی ڈیلور نہیں کر سکی۔
پی ٹی آئی حکومت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی ایکٹ کو نئے سرے سے تشکیل دیا ہے، جس میں فل ٹائم سی ای او اور وزیر منصوبہ بندی ذاتی طور پر اتھارٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی صدارت کر رہے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو بورڈ نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی بورڈ سے منظور شدہ ٹرانزیکشن سٹرکچر کے ذریعے این ایچ اے کو پہلے معاہدے پر دستخط کرنے کی اجازت دی۔ ٹرانزیکشن کا یہ جدید ڈھانچہ سرمائے اور آپریشنل قابل عمل گیپ فنڈنگ کی شکل میں فنانسنگ کا استعمال کرتا ہے۔ اس سے حکومت تھوری سی سرمایہ کاری کرکے بڑے منصوبے شروع کر سکتی ہے۔
اس ڈھانچے کے تحت منظور شدہ سیالکوٹ کھاریاں موٹروے پر کل لاگت 27.8 ارب روپے ہے اور پروجیکٹ پر عملدرآمد کے مرحلے کے دوران صرف 4 ارب روپے کا وائبلٹی گیپ فنڈ انجیکشن ہے۔ چنانچہ اس مرحلے میں پی ایس ڈی پی کے اخراجات کا ہر روپیہ کل ترقیاتی اخراجات کے سات روپے کے برابر نتائج دے رہا ہے۔ ڈھانچے کی ایک اور انوکھی خصوصیت وائبلٹی گیپ فنڈنگ کی نیم مساوی نوعیت ہے ، جو این ایچ اے کو اس منصوبے کے پہلے آٹھ سال کے آپریشن کے بعد ممکنہ منافع بانٹنے کا اہل بنائے گی۔
آخر میں ہم ترقیاتی اخراجات کے معیار کی طرف آتے ہیں اور اسے کتنی مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے PSDP تاخیر اور بدعنوانی کی وجہ سے منصوبوں کے ناقص عملدرآمد میں الجھا ہوا ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ، ترقیاتی اخراجات کی نگرانی اور ہم آہنگی کے نظام میں کئی بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ ان اقدامات کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ابھی ختم ہونے والے سال میں سب نے دیکھا کہ پورے پی ایس ڈی پی بجٹ کو دہائی میں پہلی بار استعمال کیا گیا۔ ورنہ ہر سال اربوں روپے کے قیمتی ترقیاتی بجٹ کو بے کار چھوڑ دیا جاتا ہے ، جس سے بہت زیادہ ترقیاتی کام سست پڑ جاتے ہیں۔
ترقیاتی اخراجات کی مانیٹرنگ اور ایولیویشن کے نظام کو نئی شکل دینے کے لیے تین اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔ پہلا قدم پلاننگ کمیشن کے اس ونگ کی ادارہ جاتی صلاحیت کو مضبوط کرنا ہے۔ دوسرا بڑا مرحلہ پروجیکٹس کی نگرانی کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال ہے اور ناقص یا غلط فیلڈ رپورٹس جیسے سست عوامل پر مکمل انحصار نہ کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے ، اسپارکو کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں تاکہ پروجیکٹ کی پیش رفت کو ٹریک کرنے کے لیے سیٹلائٹ پر مبنی مانیٹرنگ سسٹم استعمال کیا جا سکے۔
تیسرا اہم جزو اہم منصوبوں کی نگرانی کے لیے آؤٹ سورس معاہدوں کے ذریعے خصوصی فرموں کا استعمال کرنا ہے۔ ماہرین کو ٹیکنالوجی پر مبنی نگرانی اور آؤٹ سورسنگ کے استعمال کو متعارف کرانے سے ، نہ صرف منصوبوں کی موثر نگرانی بہتر ہوگی بلکہ ترقیاتی اخراجات میں زیادہ شفافیت پیدا ہوگی۔
اوپر بیان کردہ اصلاحات کے تین پہلوؤں کا حاصل یہ ہے کہ ایسے شعبوں پر خرچ کرنا جو زیادہ موثر ہیں،مانیٹرنگ سسٹم کے معیار کو بہتر بنانا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ پیسہ زیادہ موثر اور ایمانداری سے خرچ کیا جائے، جدید حکمت عملی و حربوں کے استعمال سے ٹیکس دہندگان کے پیسے کا درست فائدہ اٹھانا کہ حکومتی فنانسنگ سے کہیں زیادہ ترقیاتی بجٹ حاصل ہوسکے، اس کے نتیجے میں ایسے ترقیاتی نتائج برآمد ہوں گے جو قوم کی ضروریات کو پہلے سے بہتر انداز میں پورا کریں گے۔
( مضمون نگار وفاقی وزیر برائے پلاننگ، ڈویلپمنٹ، ریفارمز اینڈ اسپیشل انشیوٹیو ہیں)