مشاعرے نے ہندوستان میں شاعری کو بہت نقصان پہنچایا
معروف شاعر، سعود عثمانی کے حالات وخیالات
ISLAMABAD:
اُنکا تعلق عالموں کے ایسے گھرانے سے ہے، جس کو شعروشاعری سے گہرا شغف رہا ہے۔
اُن کے دادا مفتی محمد شفیع جو نام ور عالم دین تھے، عربی، فارسی اور اردو میں شعر کہتے۔ ان کا مجموعۂ کلام ''کشکول'' کے نام سے چھپا۔ چچا مفتی تقی عثمانی جنھیں عالم دین کی حیثیت سے ممتاز مقام حاصل ہے، وہ بھی شعرکہتے ہیں اور سعود عثمانی کے بہ قول، اگر وہ شاعری کو اپنی علمی تگ وتاز کا مرکز بناتے توبڑے بڑوں کا چراغ نہ جلتا۔ چچا ولی رازی جو سیرت پر''ہادیٔ عالم'' کے عنوان سے غیرمنقوط کتاب کے مصنف ہیں، وہ بھی شاعر ہیں۔ سعود عثمانی کے والد زکی کیفی کو اس اعتبار سے دونوں چھوٹے بھائیوں پر سبقت حاصل ہے کہ انھوں نے صرف شعر کہے نہیں، بلکہ مجموعہ چھپوانے کا چارہ بھی کیا۔''کیفیات''جس کا نام ہے۔ سعود عثمانی کی دو سگی پھوپھیاں بھی شاعرہیں۔
شاعری گویا ان کی گھٹی میں تھی۔ والد کے شاعر ہونے کی وجہ سے انھیں بچپن میں ادبی مجلسوں میں شرکت اور بڑے ادیبوں کو قریب سے دیکھنے اور ان سے سیکھنے کے مواقع میسرآئے۔ ان کے خیال میں شاعر پیدائشی ہوتا ہے، بس اسے ودیعت کردہ ہنر کو تراشنے خراشنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سعود عثمانی کے بہ قول، وہ بچپن ہی سے شعروزن میں پڑھا کرتے۔ پسند کے گیت بھی شوق سے گنگناتے۔ ساتویں جماعت کی بات ہے۔ ایک روز اسکول جاتے ہوئے، دوشعر کہے۔ آغازشاعری میں جس ہستی نے ان سے سب سے زیادہ امیدیں وابستہ کیں، وہ ان کے چچا مفتی تقی عثمانی ہیں جنھیں یقین رہا کہ یہ ان کے برادر بزرگوار کے حقیقی معنوں میں ادبی جانشین ثابت ہوں گے۔ خاندان سے باہر جس شخص نے ان میں چھپے جوہرکا اندازہ لگایا وہ ممتاز ادیب اشفاق احمد تھے، جنھوں نے ان کے والد کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا ''سعود کو جب میں نے اس کے لڑکپن میں دکان پرآتے جاتے دیکھا تھا، تو بھائی زکی سے اکثر کہا کرتا تھا کہ بھائی میاں! لڑکے کے تیور کڑے پڑتے ہیں، کہیں تمھاری متاع سخن کو لوٹ پیٹ کر نہ لے جائے۔ لیکن والدین چونکہ ہمیشہ غلطی پر ہوتے ہیں، اس لیے انھوں نے میرے اعلان خطر پر کوئی توجہ نہ دی اور اپنی غزل کی ساری کمائی لاڈلے سپوت، سعود کے ہاتھ دوسرے بچوں سے پوچھے بغیربیع کردی۔''
ایک عرصے تک شعرصرف اپنی تسکین کے لیے کہتے اور ان کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں تھا کہ آگے چل کرشاعر کی حیثیت سے وہ اپنی شناخت قائم کرپائیں گے، اور یہ معاملہ یونیورسٹی کے زمانے تک رہا۔اس کے بعد رفتہ رفتہ ادبی محافل میں تھوڑا باقاعدگی سے جانے لگے اوروہاں توقعات سے بڑھ کر پزیرائی ملی۔ اب شاعری پرزیادہ توجہ مرکوز کی ۔کلام ادبی جرائد میں برابرجگہ پانے لگااور ہوتے ہوتے اتنامواد جمع ہوگیا کہ وہ صاحب تصنیف بننے کا سوچ سکیں۔ 1997ء میںان کی پہلی کتاب ''قوس'' شائع ہوئی تواسے ناقدین اور قارئین دونوں کی توجہ ملی ۔ وزیراعظم ادبی ایوارڈ کی مستحق ٹھہری۔ ممتازادیب ڈاکٹر خورشید رضوی کے بقول''اردو غزل کے جدید ترنمائندوں میں بہت کم لوگ ہیں جو سعود عثمانی کی نفاست کلام کو پہنچ سکتے ہیں۔سعود عثمانی نے ثابت کیا ہے کہ شعر ظاہر کے تجربوں سے نہیں باطن کے ولولوں سے زندہ رہتا ہے۔ اس نے کوئی نام نہاد جدت طرازی نہیں کی۔کوئی مضحکہ خیز تجربہ نہیں کیا۔کوئی نئی صنف یا ہیئت ایجاد کرنے کا روگ نہیں پالا۔ برتے ہوئے اسالیب کوبرتا ہے مگراس کے زندہ لمس سے خوابیدہ الفاظ اور غنودہ ترکیبیں جاگ اٹھی ہیں، اور ان میں زندہ مفاہیم لو دینے لگے ہیں۔''
سعودعثمانی کو شعر کہنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی شاعری سے حظ بھی اٹھاتے ہیں۔ ان کے والد میر، غالب، اصغرگونڈوی، جگر مراد آبادی اور فانی کو پسند کرتے تھے، اس لیے ان کے زیراثر شروع شروع میں انھی شاعروں کو زیادہ توجہ سے پڑھا۔ بعدازاں داغ، مومن اور آتش کی شاعری کا مطالعہ کیا۔ جدید شاعروں کو بھی ڈوب کرپڑھا اور معاصر شاعری سے بھی اعتنا کیا لیکن کوشش کی کہ کسی کا بھی اثر شاعری پر نہ آئے۔پہلی کتاب ترتیب دینے کے مرحلہ آیا تو ہر وہ شعرخارج کردیا، جس کے بارے میں انھیں لگا کہ اس پرکسی دوسرے شاعر کا پرتو ہے۔کہتے ہیں، بہت سے شاعر پسند ہیں لیکن ان کے انداز میں لکھنا نہیں چاہا کہ اپنی انفرادیت قائم رکھی جاسکے۔ کسی زمانے میں جوش ملیح آبادی کے لہجے کی گھن گرج، لفظیات اور شکوہ سے متاثرہوئے لیکن یہ عرصہ زیادہ لمبا نہ چلا۔وہ شاعرجس کی شاعری برابران کے زیرمطالعہ رہتی ہے وہ اقبال ہیں۔ سعود عثمانی مشاعرے کے کامیاب شاعر سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کا یقین ہے کہ شعر وہی ہے جو کاغذ پر بولتاہو۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مشاعرے میں کس قدربھی داد مل جائے لیکن شعر اگرکاغذ پربے جان ہوگا توتھوڑے عرصے بعد فراموش ہوجائے گا۔ ان کے نزدیک، مشاعرہ کبھی شاعری میں بڑے مقام کی بنیاد نہیں بن سکتا، لیکن اگر کوئی شعر معیاری بھی ہے اور مشاعرے میں مقبول بھی تواسے اضافی خوبی قراردیا جاسکتا ہے۔ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مشاعرے کی مقبولیت شاعرکو خراب بھی کرتی ہے۔ اس ضمن میں وہ ہندوستان کی مثال دیتے ہیں، جہاں اردو شاعری کو مشاعرے نے نقصان سے دوچار کیا ہے۔
ان کے بقول ''اگر شاعری کا مطلب مشاعرہ ہوجائے اور شاعرسے مراد مشاعرہ لوٹنے والا شاعر ہوجائے تو پھروہ ایسی شاعری کرے گا جو مقبول ہو، اور اس بات نے ادھراچھی شاعری کو پنپنے نہیں دیا۔ پاکستان میں اردو شاعری کا معیار ہندوستان سے کہیں زیادہ بلند ہے۔'' ادب میں گروپ بندی کے وہ ناقد ہیں، جس کی وجہ سے ادب پارے کو دیانت داری سے پرکھا نہیں جاسکتا۔ انھیں افسوس اس بات کا بھی ہے کہ زیادہ ترنقاد بھی گروپ بندی کا شکار ہیں۔ اردو نثر کے پرشوق قاری ہیں۔ مستنصرحسین تارڑپسندیدہ فکشن نگار ہیں۔ ابن انشا،مشتاق احمد یوسفی، مختارمسعود کی نثرکے بھی بہت قائل ہیں۔ شاعروں میں محمد اظہارالحق کی نثرمتاثر کرتی ہے ۔چند برس قبل پی ٹی وی نائٹ ٹائم ٹرانسمیشن کی میزبانی کا بار اٹھایا۔ ایک نجی ٹی وی چینل کیلئے بھی میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ ریڈیو کے بہت سے پروگراموں کی کمپیئرنگ کرتے رہے۔ ادبی مجلسوں اور مشاعروں کی نظامت کا سلسلہ یونیورسٹی کے زمانے سے جاری ہے ۔
کتاب سے ان کا رشتہ تین اعتبارات سے قائم ہے۔وہ قاری ہیں۔ مصنف ہیں اور ناشر بھی۔ 1948 میں ان کے والد زکی کیفی نے ادارہ اسلامیات کے نام سے جس اشاعتی کتاب گھر کی بنیاد رکھی، اسی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے خود کو وابستہ کیا۔ 6 دسمبر 1958ء کو لاہور میں آنکھ کھولنے والے سعودعثمانی تین بھائی ، تین بہنوں میں پانچویں نمبرپر ہیں۔ انھوں نے اسلامیہ کالج سول لائنز سے بی ایس سی کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے بزنس ایجوکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ تین بیٹے ہیں، بڑا بیٹا پچیس برس کا ہے۔ شعروادب سے بیٹوں کی عدم دلچسپی پرافسوس ظاہرکرتے ہیں۔ ان کے بقول، زندگی میں وہ آسودگی جو مطلوب ہوتی ہے وہ توپوری طرح نہیں ملتی لیکن خدا نے جوکچھ بھی نوازا ہے، اس پر شکراداکرتے ہیں۔
غزل اور نظم کے بارے میں چند باتیں
غزل کی کلاسیکی روایت کو رد کرنے سے غزل کو فائدے کے بجائے الٹانقصان ہوگا۔ کلاسیکی رچائو کے ساتھ نئی بات کہنی چاہیے۔ میں نے کلاسیکی روایت اور جدید طرزاحساس کے امتزاج کے ساتھ غزل کہی ہے۔ غزل میںگھسے پٹے خیالات اور پامال لفظیات سے بچنا چاہیے۔ غزل بڑی قاتل اورظالم صنف سخن ہے، اس نے ہردور کے تقاضوں کا ساتھ دیا ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ غزل نے اندر سے اپنے آپ کو تبدیل نہ کیا ہویا اس کی گنجائش نہ رکھی ہو۔ غزل میں لچک بھی ہے، اس لیے اگر اس میں سیاسی، معاشرتی، سماجی، باطنی، ظاہری جس قدر بھی رنگ شامل ہوجائیں، وہ پھربھی غزل رہتی ہے، اور اگریہ کسی خاص عہد سے منسوب ہوتی تو وہ مرچکی ہوتی۔آج بھی بہت عمدہ غزل کہی جارہی ہے۔
غزل کا معاملہ ایسا ہے کہ آپ قدیم شہرکی گنجان آبادی میں خوبصورت محل بنانے کی کوشش کررہے ہیں، جہاں جگہ کم ہے، دیگر مسائل بھی ہیں، لیکن اگرآپ جو چاہتے ہیں وہ کرگزریں تو کمال کی بات ہوگی۔ باکمال شاعروں نے ثابت کیا ہے کہ غزل میں ہربات کہی جاسکتی ہے۔ غالب نے یہ کہا توضرور کہ'' کچھ اور چاہیے وسعت، مرے بیان کے لیے'' لیکن کون سی بات ہے جو انھوں نے غزل کے ذریعے نہیں کی اوراس میںآپ ان کی فارسی غزل بھی شامل کرلیں۔ غزل کا مقابلہ کسی دوسری صنف سے نہیں ہوسکتا لیکن کسی دوسری صنف کو اپنانے سے مراد یہ تھوڑی ہے کہ آپ غزل کی نفی کررہے ہیں۔ نظم کا معاملہ یہ ہے کہ ایک وسیع میدان ہے، جس میں پہلے سے اتنی زیادہ آبادی نہیں، اور کھلی جگہ ہے آپ عالی شان عمارت کھڑی کرسکتے ہیں، اچھی نظم کہنے کی اپنی دشواریاں ہیں لیکن جگہ کی تنگی نہیں، غزل کا ڈسپلن بہت سخت ہے، اس کی وجہ سے بہت سے لوگ گبھرا کراس سے نکل جاتے ہیں۔
غزل کو ظاہری طور پربدلنا ناممکن ہے، جن لوگوں نے ایسے تجربات کئے، وہ ناکام ہوئے۔ اندر سے تبدیلی کا عمل جاری وساری رہتا ہے۔جب بھی غزل کے امکانات ختم ہونے کی بات کی گئی،ایسے شاعرپیدا ہوگئے جنھوں نے اسے غلط ثابت کردیا۔ ہمارے ہاں اب جو غزل لکھی جارہی ہے، اس میں علاقائی زبانوں کے الفاظ کے ساتھ انگریزی کے لفظ بھی شامل ہورہے ہیں۔ آزاد اور پابند نظم کی اپنی ایک خوبصورتی ہے۔ نظم بھی مجھے اپنی طرف کھنچتی ہے۔ اس میں وسعت اور موضوعات کا تنوع ہے اور بہت سے امکانات موجود ہیں۔میں شروع سے نظم کہتا ہوں ۔''قوس''کو میں صرف غزلوں کے مجموعے کی حیثیت سے سامنے لانا چاہتا تھا۔ ''بارش''میں نظمیں شامل ہیں اور اب زیرطبع تیسرے مجموعے میں غزلوں کے ساتھ نظمیں بھی شامل ہوں گی۔
نثری نظم کو لوگوں نے چوردروازے کے طورپراختیار کیا، تاکہ اس کے ذریعے سے شاعرکہلواسکیں۔ چند نثری نظم کہنے والے ایسے ضرور ہیں جن کی تخلیقات پڑھ کرلگتا ہے نثری نظم کا جوازپیدا ہونے کا امکانات بڑھے ہیں۔ان شاعروں میں افضال احمد سید، ذی شان ساحل، اظہارالحق اور تنویرانجم کا نام لیا جاسکتا ہے۔ میری دانست میں نثری نظم کا جوازصرف اس آدمی کے پاس ہے جو پہلے ثابت کرے کہ وہ پابند شاعری کرنے پرقادر ہے۔نثری نظم اس وقت جواز رکھتی ہے، جب ثابت ہوجائے کہ جو بات نثری نظم میں کہی جارہی ہے وہ پابند شاعری میں نہیں ہوسکتی تھی۔
اُنکا تعلق عالموں کے ایسے گھرانے سے ہے، جس کو شعروشاعری سے گہرا شغف رہا ہے۔
اُن کے دادا مفتی محمد شفیع جو نام ور عالم دین تھے، عربی، فارسی اور اردو میں شعر کہتے۔ ان کا مجموعۂ کلام ''کشکول'' کے نام سے چھپا۔ چچا مفتی تقی عثمانی جنھیں عالم دین کی حیثیت سے ممتاز مقام حاصل ہے، وہ بھی شعرکہتے ہیں اور سعود عثمانی کے بہ قول، اگر وہ شاعری کو اپنی علمی تگ وتاز کا مرکز بناتے توبڑے بڑوں کا چراغ نہ جلتا۔ چچا ولی رازی جو سیرت پر''ہادیٔ عالم'' کے عنوان سے غیرمنقوط کتاب کے مصنف ہیں، وہ بھی شاعر ہیں۔ سعود عثمانی کے والد زکی کیفی کو اس اعتبار سے دونوں چھوٹے بھائیوں پر سبقت حاصل ہے کہ انھوں نے صرف شعر کہے نہیں، بلکہ مجموعہ چھپوانے کا چارہ بھی کیا۔''کیفیات''جس کا نام ہے۔ سعود عثمانی کی دو سگی پھوپھیاں بھی شاعرہیں۔
شاعری گویا ان کی گھٹی میں تھی۔ والد کے شاعر ہونے کی وجہ سے انھیں بچپن میں ادبی مجلسوں میں شرکت اور بڑے ادیبوں کو قریب سے دیکھنے اور ان سے سیکھنے کے مواقع میسرآئے۔ ان کے خیال میں شاعر پیدائشی ہوتا ہے، بس اسے ودیعت کردہ ہنر کو تراشنے خراشنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سعود عثمانی کے بہ قول، وہ بچپن ہی سے شعروزن میں پڑھا کرتے۔ پسند کے گیت بھی شوق سے گنگناتے۔ ساتویں جماعت کی بات ہے۔ ایک روز اسکول جاتے ہوئے، دوشعر کہے۔ آغازشاعری میں جس ہستی نے ان سے سب سے زیادہ امیدیں وابستہ کیں، وہ ان کے چچا مفتی تقی عثمانی ہیں جنھیں یقین رہا کہ یہ ان کے برادر بزرگوار کے حقیقی معنوں میں ادبی جانشین ثابت ہوں گے۔ خاندان سے باہر جس شخص نے ان میں چھپے جوہرکا اندازہ لگایا وہ ممتاز ادیب اشفاق احمد تھے، جنھوں نے ان کے والد کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا ''سعود کو جب میں نے اس کے لڑکپن میں دکان پرآتے جاتے دیکھا تھا، تو بھائی زکی سے اکثر کہا کرتا تھا کہ بھائی میاں! لڑکے کے تیور کڑے پڑتے ہیں، کہیں تمھاری متاع سخن کو لوٹ پیٹ کر نہ لے جائے۔ لیکن والدین چونکہ ہمیشہ غلطی پر ہوتے ہیں، اس لیے انھوں نے میرے اعلان خطر پر کوئی توجہ نہ دی اور اپنی غزل کی ساری کمائی لاڈلے سپوت، سعود کے ہاتھ دوسرے بچوں سے پوچھے بغیربیع کردی۔''
ایک عرصے تک شعرصرف اپنی تسکین کے لیے کہتے اور ان کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں تھا کہ آگے چل کرشاعر کی حیثیت سے وہ اپنی شناخت قائم کرپائیں گے، اور یہ معاملہ یونیورسٹی کے زمانے تک رہا۔اس کے بعد رفتہ رفتہ ادبی محافل میں تھوڑا باقاعدگی سے جانے لگے اوروہاں توقعات سے بڑھ کر پزیرائی ملی۔ اب شاعری پرزیادہ توجہ مرکوز کی ۔کلام ادبی جرائد میں برابرجگہ پانے لگااور ہوتے ہوتے اتنامواد جمع ہوگیا کہ وہ صاحب تصنیف بننے کا سوچ سکیں۔ 1997ء میںان کی پہلی کتاب ''قوس'' شائع ہوئی تواسے ناقدین اور قارئین دونوں کی توجہ ملی ۔ وزیراعظم ادبی ایوارڈ کی مستحق ٹھہری۔ ممتازادیب ڈاکٹر خورشید رضوی کے بقول''اردو غزل کے جدید ترنمائندوں میں بہت کم لوگ ہیں جو سعود عثمانی کی نفاست کلام کو پہنچ سکتے ہیں۔سعود عثمانی نے ثابت کیا ہے کہ شعر ظاہر کے تجربوں سے نہیں باطن کے ولولوں سے زندہ رہتا ہے۔ اس نے کوئی نام نہاد جدت طرازی نہیں کی۔کوئی مضحکہ خیز تجربہ نہیں کیا۔کوئی نئی صنف یا ہیئت ایجاد کرنے کا روگ نہیں پالا۔ برتے ہوئے اسالیب کوبرتا ہے مگراس کے زندہ لمس سے خوابیدہ الفاظ اور غنودہ ترکیبیں جاگ اٹھی ہیں، اور ان میں زندہ مفاہیم لو دینے لگے ہیں۔''
سعودعثمانی کو شعر کہنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی شاعری سے حظ بھی اٹھاتے ہیں۔ ان کے والد میر، غالب، اصغرگونڈوی، جگر مراد آبادی اور فانی کو پسند کرتے تھے، اس لیے ان کے زیراثر شروع شروع میں انھی شاعروں کو زیادہ توجہ سے پڑھا۔ بعدازاں داغ، مومن اور آتش کی شاعری کا مطالعہ کیا۔ جدید شاعروں کو بھی ڈوب کرپڑھا اور معاصر شاعری سے بھی اعتنا کیا لیکن کوشش کی کہ کسی کا بھی اثر شاعری پر نہ آئے۔پہلی کتاب ترتیب دینے کے مرحلہ آیا تو ہر وہ شعرخارج کردیا، جس کے بارے میں انھیں لگا کہ اس پرکسی دوسرے شاعر کا پرتو ہے۔کہتے ہیں، بہت سے شاعر پسند ہیں لیکن ان کے انداز میں لکھنا نہیں چاہا کہ اپنی انفرادیت قائم رکھی جاسکے۔ کسی زمانے میں جوش ملیح آبادی کے لہجے کی گھن گرج، لفظیات اور شکوہ سے متاثرہوئے لیکن یہ عرصہ زیادہ لمبا نہ چلا۔وہ شاعرجس کی شاعری برابران کے زیرمطالعہ رہتی ہے وہ اقبال ہیں۔ سعود عثمانی مشاعرے کے کامیاب شاعر سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کا یقین ہے کہ شعر وہی ہے جو کاغذ پر بولتاہو۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مشاعرے میں کس قدربھی داد مل جائے لیکن شعر اگرکاغذ پربے جان ہوگا توتھوڑے عرصے بعد فراموش ہوجائے گا۔ ان کے نزدیک، مشاعرہ کبھی شاعری میں بڑے مقام کی بنیاد نہیں بن سکتا، لیکن اگر کوئی شعر معیاری بھی ہے اور مشاعرے میں مقبول بھی تواسے اضافی خوبی قراردیا جاسکتا ہے۔ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مشاعرے کی مقبولیت شاعرکو خراب بھی کرتی ہے۔ اس ضمن میں وہ ہندوستان کی مثال دیتے ہیں، جہاں اردو شاعری کو مشاعرے نے نقصان سے دوچار کیا ہے۔
ان کے بقول ''اگر شاعری کا مطلب مشاعرہ ہوجائے اور شاعرسے مراد مشاعرہ لوٹنے والا شاعر ہوجائے تو پھروہ ایسی شاعری کرے گا جو مقبول ہو، اور اس بات نے ادھراچھی شاعری کو پنپنے نہیں دیا۔ پاکستان میں اردو شاعری کا معیار ہندوستان سے کہیں زیادہ بلند ہے۔'' ادب میں گروپ بندی کے وہ ناقد ہیں، جس کی وجہ سے ادب پارے کو دیانت داری سے پرکھا نہیں جاسکتا۔ انھیں افسوس اس بات کا بھی ہے کہ زیادہ ترنقاد بھی گروپ بندی کا شکار ہیں۔ اردو نثر کے پرشوق قاری ہیں۔ مستنصرحسین تارڑپسندیدہ فکشن نگار ہیں۔ ابن انشا،مشتاق احمد یوسفی، مختارمسعود کی نثرکے بھی بہت قائل ہیں۔ شاعروں میں محمد اظہارالحق کی نثرمتاثر کرتی ہے ۔چند برس قبل پی ٹی وی نائٹ ٹائم ٹرانسمیشن کی میزبانی کا بار اٹھایا۔ ایک نجی ٹی وی چینل کیلئے بھی میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ ریڈیو کے بہت سے پروگراموں کی کمپیئرنگ کرتے رہے۔ ادبی مجلسوں اور مشاعروں کی نظامت کا سلسلہ یونیورسٹی کے زمانے سے جاری ہے ۔
کتاب سے ان کا رشتہ تین اعتبارات سے قائم ہے۔وہ قاری ہیں۔ مصنف ہیں اور ناشر بھی۔ 1948 میں ان کے والد زکی کیفی نے ادارہ اسلامیات کے نام سے جس اشاعتی کتاب گھر کی بنیاد رکھی، اسی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے خود کو وابستہ کیا۔ 6 دسمبر 1958ء کو لاہور میں آنکھ کھولنے والے سعودعثمانی تین بھائی ، تین بہنوں میں پانچویں نمبرپر ہیں۔ انھوں نے اسلامیہ کالج سول لائنز سے بی ایس سی کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے بزنس ایجوکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ تین بیٹے ہیں، بڑا بیٹا پچیس برس کا ہے۔ شعروادب سے بیٹوں کی عدم دلچسپی پرافسوس ظاہرکرتے ہیں۔ ان کے بقول، زندگی میں وہ آسودگی جو مطلوب ہوتی ہے وہ توپوری طرح نہیں ملتی لیکن خدا نے جوکچھ بھی نوازا ہے، اس پر شکراداکرتے ہیں۔
غزل اور نظم کے بارے میں چند باتیں
غزل کی کلاسیکی روایت کو رد کرنے سے غزل کو فائدے کے بجائے الٹانقصان ہوگا۔ کلاسیکی رچائو کے ساتھ نئی بات کہنی چاہیے۔ میں نے کلاسیکی روایت اور جدید طرزاحساس کے امتزاج کے ساتھ غزل کہی ہے۔ غزل میںگھسے پٹے خیالات اور پامال لفظیات سے بچنا چاہیے۔ غزل بڑی قاتل اورظالم صنف سخن ہے، اس نے ہردور کے تقاضوں کا ساتھ دیا ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ غزل نے اندر سے اپنے آپ کو تبدیل نہ کیا ہویا اس کی گنجائش نہ رکھی ہو۔ غزل میں لچک بھی ہے، اس لیے اگر اس میں سیاسی، معاشرتی، سماجی، باطنی، ظاہری جس قدر بھی رنگ شامل ہوجائیں، وہ پھربھی غزل رہتی ہے، اور اگریہ کسی خاص عہد سے منسوب ہوتی تو وہ مرچکی ہوتی۔آج بھی بہت عمدہ غزل کہی جارہی ہے۔
غزل کا معاملہ ایسا ہے کہ آپ قدیم شہرکی گنجان آبادی میں خوبصورت محل بنانے کی کوشش کررہے ہیں، جہاں جگہ کم ہے، دیگر مسائل بھی ہیں، لیکن اگرآپ جو چاہتے ہیں وہ کرگزریں تو کمال کی بات ہوگی۔ باکمال شاعروں نے ثابت کیا ہے کہ غزل میں ہربات کہی جاسکتی ہے۔ غالب نے یہ کہا توضرور کہ'' کچھ اور چاہیے وسعت، مرے بیان کے لیے'' لیکن کون سی بات ہے جو انھوں نے غزل کے ذریعے نہیں کی اوراس میںآپ ان کی فارسی غزل بھی شامل کرلیں۔ غزل کا مقابلہ کسی دوسری صنف سے نہیں ہوسکتا لیکن کسی دوسری صنف کو اپنانے سے مراد یہ تھوڑی ہے کہ آپ غزل کی نفی کررہے ہیں۔ نظم کا معاملہ یہ ہے کہ ایک وسیع میدان ہے، جس میں پہلے سے اتنی زیادہ آبادی نہیں، اور کھلی جگہ ہے آپ عالی شان عمارت کھڑی کرسکتے ہیں، اچھی نظم کہنے کی اپنی دشواریاں ہیں لیکن جگہ کی تنگی نہیں، غزل کا ڈسپلن بہت سخت ہے، اس کی وجہ سے بہت سے لوگ گبھرا کراس سے نکل جاتے ہیں۔
غزل کو ظاہری طور پربدلنا ناممکن ہے، جن لوگوں نے ایسے تجربات کئے، وہ ناکام ہوئے۔ اندر سے تبدیلی کا عمل جاری وساری رہتا ہے۔جب بھی غزل کے امکانات ختم ہونے کی بات کی گئی،ایسے شاعرپیدا ہوگئے جنھوں نے اسے غلط ثابت کردیا۔ ہمارے ہاں اب جو غزل لکھی جارہی ہے، اس میں علاقائی زبانوں کے الفاظ کے ساتھ انگریزی کے لفظ بھی شامل ہورہے ہیں۔ آزاد اور پابند نظم کی اپنی ایک خوبصورتی ہے۔ نظم بھی مجھے اپنی طرف کھنچتی ہے۔ اس میں وسعت اور موضوعات کا تنوع ہے اور بہت سے امکانات موجود ہیں۔میں شروع سے نظم کہتا ہوں ۔''قوس''کو میں صرف غزلوں کے مجموعے کی حیثیت سے سامنے لانا چاہتا تھا۔ ''بارش''میں نظمیں شامل ہیں اور اب زیرطبع تیسرے مجموعے میں غزلوں کے ساتھ نظمیں بھی شامل ہوں گی۔
نثری نظم کو لوگوں نے چوردروازے کے طورپراختیار کیا، تاکہ اس کے ذریعے سے شاعرکہلواسکیں۔ چند نثری نظم کہنے والے ایسے ضرور ہیں جن کی تخلیقات پڑھ کرلگتا ہے نثری نظم کا جوازپیدا ہونے کا امکانات بڑھے ہیں۔ان شاعروں میں افضال احمد سید، ذی شان ساحل، اظہارالحق اور تنویرانجم کا نام لیا جاسکتا ہے۔ میری دانست میں نثری نظم کا جوازصرف اس آدمی کے پاس ہے جو پہلے ثابت کرے کہ وہ پابند شاعری کرنے پرقادر ہے۔نثری نظم اس وقت جواز رکھتی ہے، جب ثابت ہوجائے کہ جو بات نثری نظم میں کہی جارہی ہے وہ پابند شاعری میں نہیں ہوسکتی تھی۔