یوم دفاع اور گلوکاروں کے گائے ہوئے جنگی ترانے

پاکستانی گلوکاروں، موسیقاروں کی کاوشیں صرف 6 ستمبر 1965 تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

پاکستانی گلوکاروں، موسیقاروں کی کاوشیں صرف 6 ستمبر 1965 تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ فوٹو: فائل

چھ ستمبر پاکستان کی تاریخ کا سنہرا دن مسلمانوں کے باہم اتحاد اور یگانگت کا عملی مظہر ہے جس نے پاکستان کا سر فخر سے بلند کر دیا اور جذبہ ایمانی کے ذریعے بھارت کے شب خون کا منہ توڑ جواب دیا۔

یوم دفاع تجدید عہد کا دن ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ مسلمان نفرتوں، عداوتوں کی خلیج کو پاٹ کر اپنی گم کردہ راہ کو پا لیں اور متحد ہو کر بیرونی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ باور کرادیں کہ ابھی ایمان کی حرارت دِلوں میں زندہ ہے۔ یہ وہی دن ہے جب جرات و بہادری کی وہ تاریخ رقم ہوئی جو رہتی دنیا تک درخشاں رہے گی۔اس دن کو ہم یوم دفاع کے طور پر مناتے ہیں۔ اس دن بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا مگر پاک فوج اور ہمارے لوگوں نے دشمن کو ایسا دندان شکن جواب دیا جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔

قدرت کا ایک اصول ہے کہ ہر تاریکی کا انجام اجالا ہے بلکہ ہر رات کی تاریکی صبح کے اجالے کا شدت سے انتظار کرتی ہے، چنانچہ رات جس قدر تاریک اور طویل ہوتی ہے اس کی صبح اسی قدر اجلی اور رنگین ہوتی ہے۔غرضیکہ سیاہی کا وجود ہی سفیدی کی اہمیت اور پہچان بنتا ہے اور ہر تعمیر، تخریب کی کوکھ سے جنم لیتی ہے اورہر تخریب کا انجام تعمیر ہوتا ہے اسی طرح فطرت ہزاروں ستاروں کا خون کرتی ہے تب سحر پیدا ہوتی ہے۔

چھ ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر جارحیت کی تو دھرتی کے سپاہیوں نے اپنی مقدس سرزمین کی حفاظت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ صدر ایوب کے اعلان پر پوری قوم ملک کی حفاظت کے لیے کھڑی ہو گئی۔ پاک فوج کے سپاہیوں کے پیچھے پوری قوم کھڑی تھی جو گھر کی چھوٹی چھوٹی چیز لے کر اپنے محافظوں کی نذر کرنے نکل آئی تھی۔ ایسے میں شاعروں، موسیقاروں، گلوکاروں اور فنکاروں کے خون نے بھی جوش مارا اور وہ ترانے اور گیت بنائے گئے جو پوری قوم کی آواز بن گئے۔

بعض گیت اور ترانے ایسے بھی تھے جو جنگ کے بعد بھی پاکستانیوں کا خون گرماتے رہے۔ اس نازک موڑ پر ریڈیو پاکستان کے کردار کو کبھی بھلایا نہ جاسکے گا، کیونکہ ریڈیو پاکستان سے گونجنے والے ملی اور جنگی نغموں نے اس جنگ کو پاکستانیوں کے لئے ایک رومانوی جنگ بنا دیا تھا۔ گلوکاروں، شاعروں اور موسیقاروں نے جذبہ حب الوطنی میں ایسے نغمے اور ترانے تخلیق کردیئے جو آج بھی جوش اور ولولے میں اضافہ کردیتے ہیں۔

1965ء کی جنگ میں لاہور ریڈیو پر صوفی تبسم کے ساتھ ساتھ دوسرے شعراء بھی بے حد فعال رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سب سے زیادہ پذیرائی صوفی تبسم کے والہانہ کلام اور ملکہ ترنم نور جہاں کی لازوال آواز کو ملی۔ لازوال نغموں اور جنگی ترانوں کی تخلیق و ترسیل میں ان دونوں کا نام جنگِ ستمبر1965ء کی تاریخ میں اَنمٹ اور یادگار رہے گا۔ ریڈیو پاکستان میں روزانہ ایک گانا ریکارڈ کیا جاتا تھا اور پورا پاکستان منتظر ہوتا تھا کہ اب کونسا نغمہ فضاؤں میں گونجے گا۔صوفی غلام تبسم نے کہا اے پْتر ہٹاں تے نئیں وکدے، تو نور جہاں نے انہیں گا کر انمول کردیا۔

مہدی حسن اپنی جان و وفا پیش کرگئے، اور مشیر کاظمی نے شہیدوں کے نام سلام لکھا تو نسیم بیگم نے اسے امر کردیا۔ریڈیو پاکستان لاہور میں سترہ روزہ جنگِ ستمبر کے دوران ہمہ وقت، دن ہو یا رات باہر کرفیو اور بلیک آؤٹ اور اندر عجب جگمگ کا سماں رہتا تھا، لاہور کے سب ہی سرکردہ شاعر، ادیب، دانشور قلم کے محاذ پر سرگرم عمل تھے۔ بغیر کسی نام و نمود کی خواہش، لالچ یا بغیر کسی اعزازیے کے حصول کی طلب کے، ہر اہلِ قلم، دفاعِ وطن میں اپنا حصہ ڈالنے اور قلم کے ذریعے جہاد کے لئے ریڈیو پاکستان لاہورکا رْخ کر رہا تھا۔

پاکستانی قوم ان جنگی ترانوں کو کبھی نہیں بھولی اور سرحدوں کے باہر یا اندر جب بھی قوم پر کوئی امتحان کا وقت آیا، یہ ترانے ایک بار پھر پاکستان کے گلی کوچوں میں گونجنے لگے۔لاہور کے سٹوڈیوز ہمہ وقت اپنے موسیقاروں، سازندوں اور گْلوکاروں سے بھرے رہتے تھے۔ میڈم نور جہاں نے دن رات، بھوک پیاس کی پروا کئے بغیر ساز و آواز اور سْر تال کا محاذ سنبھالے رکھا۔


جن دنوں جنگ شروع ہوئی تو انہی دنوں فلم ساز و عکاس ریاض بخاری کی فلم ''مجاہد'' ریلیز ہوئی۔ اس فلم کا ایک ترانہ جسے، حمایت علی شاعر نے لکھا اور خلیل احمد نے اس کی دْھن بنائی، ''ساتھیو مجاہدو جاگ اٹھا ہے سارا وطن'' محمد علی، مسعود رانا ، شوکت علی اور ساتھیوں نے گایا تھا اور یہ وہ پہلا فلمی ترانہ تھا، جو پْورے پاکستان میں ریڈیو کے ذریعے نشر ہوا تھا۔علاوہ ازیں نغمہ نگار طفیل ہوشیار پوری کا لکھا ہوا ترانہ ، اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا، گلوکار عنایت حسین بھٹی اور ساتھیوں کی آوازوں میں سارے ملک میں گونج رہا تھا۔

اس روح کو گرمادینے والے ترانے کی دْھن رشید عطرے نے فلم ''چنگیز خان'' کے لیے بنائی تھی۔ جیسے جیسے جنگ میں شدت آ رہی تھی، ویسے ویسے پاکستانی فوج کے حوصلے بلند سے بلند تر ہورہے تھے۔ ایسے میں شہنشاہ غزل مہدی حسن خان کی آواز ریڈیو پر گونجی، ''خطہ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام''۔ ملکہ ترنم نورجہاں نے اس جنگی ماحول میں اپنی مترنم اآواز میں جمیل الدین عالی کا لکھا ہوا نغمہ'' اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمہارے لیے ہیں۔'' پیش کیا، جسے سْن کر فوجی بھائیوں میں ایک غیبی طاقت پیدا ہوگئی، جس نے اپنے سے چار گنا طاقت ور فوج کے چھکے چھڑا دیے، گلوکار تاج ملتانی مرحوم کا ولولہ انگیز ترانہ بھی سماعتوں کو نئے جذبوں سے آشنا کر رہا تھا۔

''جنگ کھیڈنئیں ہوندی زنانیاں دی''۔ چونڈا کے مقام پر بھارتی ٹینکوں کا سامنا کرنے والے جوانوں کے لیے میڈم نورجہاں کا یہ گیت ان کے حوصلوں کی صحیح ترجمانی کررہا تھا۔''ہو میریاں ڈھول سپاہیا تینوں رب دِیاں راکھا۔'' فلموں میں کام کرنے والے فن کار، ٹیکنیشنز سب ہی لوگ خون کے عطیات کے لیے عام لوگوں کے ساتھ لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے رہے۔ فلم سازوں نے اس فتح مبین کو اپنی فلموں کا موضوع بناتے ہوئے شجاعت اور قربانی سے لبریز ان کارناموں کو اپنی فلموں میں ٹری بیوٹ پیش کیا۔

1966ء میں کراچی میں بننے والی فلم'' آزادی یا موت'' کا موضوع جنگ 6ستمبر تھا۔ اس فلم میں محمد عالم لوہار کی گائی ہوئی ''جگنی'' ، ہو دنیا جانے میرے وطن کی شان، نے قوم کا سر فخرسے بلند کردیا۔ ایک اور نغمہ جس کے بول تھے ، شیروں کا وہ نعرہ گونجا آزادی یا موت ، ہماری پاک فوج کی عظمت کو سلام پیش کررہا تھا۔ ان دونوں گیتوں کے خالق صہبا اختر تھے۔ محمدعلی اور شمیم آراء کی یادگار فلم ''آگ کا دریا'' ، جس کے ہدایت کار ہمایوں مرزا تھے۔

جوش ملیح آبادی کا ملی جذبے سے گھلا ہوا انقلابی ترانہ، ''اے وطن ہم ہیں تری شمع کے پروانوں میں''جسے مسعود رانا اور ساتھیوں نے گایا تھا، یہ وہ سال تھا، جب کئی فلموں میں اس طرح کے ملی ترانے اور مناظر شامل کیے گئے، جو 6ستمبر کی جنگ کے پس منظر سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک ایسی ہی فلم ''معجزہ'' بھی انہی دنوں ریلیز ہوئی تھی، جس کے ہدایت کار ایم اے رشید تھے۔ اس فلم میں حْب الوطنی کے جذبے اوراس کی حفاظت کرنے والوں کو اس نغمے میں خراج تحسین پیش کیا گیا، ''توحید کے متوالو، باطل کو مٹادیں گے''۔

اس ملی نغمے کو سلیم رضا، مسعود رانا اور ساتھیوں نے گایا تھا، جس کی طرز اختر حسین اور بول ساحل فارانی نے لکھے تھے۔۔ نغمہ نگار مشیر کاظمی کا لکھا ہوا ملی ترانہ ، اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو ، جسے گلوکارہ نسیم بیگم نے گایا اور اس ایمان افروز ترانے کو موسیقار سلیم اقبال نے تخلیق کیا۔ فلم ساز و ہدایت کار سیف الدین سیف کی فلم ''مادروطن'' کو اس غیر معمولی گیت کو شامل کیا گیا۔

محمدعلی اور دیبا نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ فلم ساز و ہدایت کار شباب کیرانوی نے بھی اس پس منظر میں فلم ''وطن کا سپاہی'' بنائی، جس میں محمدعلی اور فردوس نے مرکزی کردار ادا کیے۔ اس فلم میں محاذ جنگ پر جانے والے محبوب شوہر کو اس کی بیوی رخصت کرتے ہوئے ایک گیت گاتی ہے، جس کے بول تھے ، تجھے وطن نے پکارا ہے جا میرے محبوب۔ اسے اداکارہ فردوس پر فلمایا گیا۔ نورجہاں کے گائے ہوئے اس گیت کے موسیقار منظور اشرف تھے۔

فلم میں ایک اور ترانہ پوری قوم کے لہو کو گرمانے کے لیے اپنی مثال آپ تھا، جس کے بول تھے، پھر سومناتیوں نے اٹھایا ہے اپنا سر، اس نغمے کو مسعود رانا اور شوکت علی نے ریکارڈ کروایا تھا۔ پاکستانی گلوکاروں، موسیقاروں کی کاوشیں صرف 6 ستمبر 1965 تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے، موجودہ دور میں ساحر علی بگا، راحت فتح علی خان، عمران عباس، میگھا، ابرار الحق، علی ظفر، جنیدجمشید، جواد احمد، سارہ نسیم، حمیرا ارشد، حدیقہ کیانی، اسد امانت علی، شیر میانداد سمیت متعدد گلوکارو ں کے گائے ہوئے ترانے آج بھی پاکستانی قوم کے لہوکو گرماتے ہیں۔

 
Load Next Story