طالبان کا خواتین کونقاب کےساتھ تعلیم حاصل کرنے کا حکم

جامعات میں طالبات کے لیے خواتین اساتذہ کی بھرتی کے ساتھ مرد و خواتین کے راستے بھی علیحدہ کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں

جامعات میں طالبات کے لیے خواتین اساتذہ کی بھرتی کے ساتھ مرد و خواتین کے راستے بھی علحیدہ کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔(فوٹو: اے ایف پی)

طالبان نے یونیورسٹی اور کالجز کی طالبات کو پورے نقاب کے ساتھ تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان نے نجی کالجوں اور جامعات کو کل (پیر) سے کھولنے کی مشروط اجازت دیتے ہوئے حکم جاری کیا ہے کہ یونیورسٹیز میں لڑکے اور لڑکیوں کی علیحدہ کلاسز یا کم از کم انہیں ایک پردے سے الگ کیا جائے۔ جب کہ طالبات کے لیے عبایا اور ایسا نقاب کرنا لازم ہوگا جن سے آنکھوں کے علاوہ ان کا پورا چہرہ چھپ جائے۔

طالبان کی وزارت تعلیم کی جانب سے جاری ہونے والی طویل دستاویزات کے مطابق طالبات کو صرف خواتین ہی پڑھا سکتی ہیں تاہم اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر اچھے کردار کے حامل کسی بوڑھے شخص کو اس کام کے لیے رکھا جائے۔ یہ حکم نامہ ان تمام نجی کالجز اور جامعات پر لاگو ہوتا ہے جن کی تعداد میں 2001 کے بعد طالبان کا پہلا دور اقتدار ختم ہونے کے بعد بہت تیزی سے اضافہ ہوا اور کل سے انہیں دوبارہ کھولنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔

طالبان کے پہلے دور حکومت میں مخلوط تعلیم اور کسی محرم کے بغیر باہر نکلنے پر پابندی کی وجہ سے زیادہ تر بچیوں اور خواتین نے تعلیم ادھوری چھوڑی دی تھی۔


گزشتہ روز جاری ہونے والے احکامات کے مطابق خواتین پر شٹل کاک برقعہ ( سر کے بال سے پیر کے ناخن تک کو ڈھاپنے والا برقعہ) پہننا لازم قرار نہیں دیا گیا تاہم گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کے لیے ایسا نقاب کرنا لازم ہوگا جس میں صرف ان کی آنکھیں دکھائی دیں۔

واضح رہے کہ طالبان سے پہلے کابل کی سڑکوں سے برقعہ اور نقاب تقریباً غائب ہو کر چھوٹے شہروں اور قصبوں تک محدود ہوگیا تھا۔

جامعات کے لیے جاری کیے گئے نئے احکامات میں طالبات کے لیے خواتین اساتذہ کی بھرتی کے ساتھ مرد و خواتین کے لیے آنے اور جانے کے راستے بھی علیحدہ کرنےکی ہدایات دی گئیں ہیں۔ جب کہ خواتین کی چھٹی بھی 5 منٹ قبل کی جائے تاکہ وہ اپنے مرد ہم جماعتوں کے ساتھ باہر نہ مل سکیں۔

طالبان کی وزارت تعلیم کی جانب سے جاری ہونے والے حکم نامے کے بارے میں ایک یونیورسٹی پروفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عملی طور پر ایسا کرنا بہت مشکل ہے، لڑکیوں کو الگ سے تعلیم دینےکے لیے ہمارے پاس خواتین اساتذہ کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ تاہم انہوں( طالبان) نے بچیوں اور خواتین کو اسکول جانےکی اجازت دے دی یہ بھی بہت بڑی بات ہے۔
Load Next Story