ملیرندی پرآبی ذخیرہ گاہیں اور ڈیم مرمت نہ ہونے سے لاکھوں کیوسک پانی ضائع
2 سال گزرنے کے باوجود میمن گوٹھ میں’ ویئرٹو‘ کی اگلی دیوار تعمیر نہ ہوسکی
وفاق پر سندھ کا پانی چوری کرنے کا الزام عائد کرنے و الی سندھ کی صوبائی حکومت ملیر ندی پر قائم پانی کی ذخیرہ گاہوں اور چھوٹے ڈیمز کی مرمت نہ کرسکی جس کی وجہ سے بارشوں سے ملیر ندی میں آنے و الا لاکھوں کیوسک پانی ضایع ہورہا ہے۔
2 سال قبل شدید بارشوں اورسیلابی ریلے کی وجہ سے ملیر ندی پر بنے چھوٹے ڈیمز کے انفرااسٹرکچر کو بھاری نقصان پہنچا تھا۔ ملیر ندی پر میمن گوٹھ کے علاقے میں پانی کی ذخیرہ گاہ ویئر ٹو کی پانی کے بہاؤ کی شدت کو کم کرنے والی دیوار مہندم ہوگئی تھی جبکہ دوسرے اور تیسرے اسٹیپ میں دیوہیکل بلاکس بھی اکھڑ گئے تھے دو سال گزرنے کے باوجود ویئر ٹو کی اگلی دیوار تعمیر نہ ہوسکی۔
اسی طرح تیسرے اسٹیپ کے دیوہیکل بلاکس بھی بکھرے پڑے ہیں جس سے ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم ہورہی ہے اور بارش کے ریلے سے آنے والا پانی اپنے ساتھ مٹی اور ریت بہاکر لے جارہا ہے اور ملیر ندی پر قائم پلوں کے ستونوں پر بھی دباؤ پڑ رہا ہے۔ میمن گوٹھ اولڈ تھانے کے قریب واقع 1970میں تعمیر ہونے والی پانی کی ذخیرہ گاہ ویئر ون بھی تباہی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
یہ ذخیرہ گاہ دو سال قبل سیلابی ریلے کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوگئی تھی اور اس ذخیرہ گاہ میں پانی رکنے کے بجائے مٹی کو کاٹ کر اپنا راستہ بناتے ہوئے براہ راست سمندر کی جانب جارہا ہے۔ میمن گوٹھ اور ملیر کے کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ ملیر ندی پر بننے والے یہ چھوٹے ڈیمز اس علاقے کے کاشتکاروں اور زراعت پیشہ لاکھوں افراد کی لائف لائن ہیں جنھیں سندھ حکومت نے مسلسل نظر انداز کیا ہے۔
کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ بارشوں کا پانی ان چھوٹے ڈیمز اور ذخیرہ گاہوں میں جمع ہوتا ہے تو زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوجاتی ہے جس سے کاشتکاری کے لیے پانی میسر آتا ہے اور اس علاقے میں 30کلو میٹر کے دائرے میں کاشتکاری کے لیے پانی کا واحد ذریعہ بھی کنویں اور بورنگ ہیں جو بارش کا پانی نہ ہونے کی وجہ سے سوکھ جاتے ہیں۔پانی کی قلت کی وجہ سے زرعی اراضی ہاؤسنگ اسکیموں کو فروخت کی جارہی ہے جس کی وجہ سے شہر کو سبزیوں اور پھلوں کی سپلائی بھی کم ہورہی ہے اور کراچی کے شہریوں کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
کاشتکاروں نے بتایا کہ ذخیرہ گاہوں کی خستہ حالی اور مرمت نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں کیوسک سیلابی پانی ضایع ہورہا ہے لیکن سندھ حکومت کا محکمہ آب پاشی منصوبہ بندیوں تک ہی محدود ہے عملی طور پر کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ کاشتکاروں نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملیر ندی پر قائم پانی کی ذخیرہ گاہوں کو فی الفور تعمیر کیا جائے تاکہ اس علاقے میں تیزی سے معدوم ہوتی زراعت کو بچایا جاسکے۔
2 سال قبل شدید بارشوں اورسیلابی ریلے کی وجہ سے ملیر ندی پر بنے چھوٹے ڈیمز کے انفرااسٹرکچر کو بھاری نقصان پہنچا تھا۔ ملیر ندی پر میمن گوٹھ کے علاقے میں پانی کی ذخیرہ گاہ ویئر ٹو کی پانی کے بہاؤ کی شدت کو کم کرنے والی دیوار مہندم ہوگئی تھی جبکہ دوسرے اور تیسرے اسٹیپ میں دیوہیکل بلاکس بھی اکھڑ گئے تھے دو سال گزرنے کے باوجود ویئر ٹو کی اگلی دیوار تعمیر نہ ہوسکی۔
اسی طرح تیسرے اسٹیپ کے دیوہیکل بلاکس بھی بکھرے پڑے ہیں جس سے ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم ہورہی ہے اور بارش کے ریلے سے آنے والا پانی اپنے ساتھ مٹی اور ریت بہاکر لے جارہا ہے اور ملیر ندی پر قائم پلوں کے ستونوں پر بھی دباؤ پڑ رہا ہے۔ میمن گوٹھ اولڈ تھانے کے قریب واقع 1970میں تعمیر ہونے والی پانی کی ذخیرہ گاہ ویئر ون بھی تباہی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
یہ ذخیرہ گاہ دو سال قبل سیلابی ریلے کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوگئی تھی اور اس ذخیرہ گاہ میں پانی رکنے کے بجائے مٹی کو کاٹ کر اپنا راستہ بناتے ہوئے براہ راست سمندر کی جانب جارہا ہے۔ میمن گوٹھ اور ملیر کے کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ ملیر ندی پر بننے والے یہ چھوٹے ڈیمز اس علاقے کے کاشتکاروں اور زراعت پیشہ لاکھوں افراد کی لائف لائن ہیں جنھیں سندھ حکومت نے مسلسل نظر انداز کیا ہے۔
کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ بارشوں کا پانی ان چھوٹے ڈیمز اور ذخیرہ گاہوں میں جمع ہوتا ہے تو زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوجاتی ہے جس سے کاشتکاری کے لیے پانی میسر آتا ہے اور اس علاقے میں 30کلو میٹر کے دائرے میں کاشتکاری کے لیے پانی کا واحد ذریعہ بھی کنویں اور بورنگ ہیں جو بارش کا پانی نہ ہونے کی وجہ سے سوکھ جاتے ہیں۔پانی کی قلت کی وجہ سے زرعی اراضی ہاؤسنگ اسکیموں کو فروخت کی جارہی ہے جس کی وجہ سے شہر کو سبزیوں اور پھلوں کی سپلائی بھی کم ہورہی ہے اور کراچی کے شہریوں کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
کاشتکاروں نے بتایا کہ ذخیرہ گاہوں کی خستہ حالی اور مرمت نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں کیوسک سیلابی پانی ضایع ہورہا ہے لیکن سندھ حکومت کا محکمہ آب پاشی منصوبہ بندیوں تک ہی محدود ہے عملی طور پر کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ کاشتکاروں نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملیر ندی پر قائم پانی کی ذخیرہ گاہوں کو فی الفور تعمیر کیا جائے تاکہ اس علاقے میں تیزی سے معدوم ہوتی زراعت کو بچایا جاسکے۔