بلوچستان میں دہشت گردی
بلوچستان میں انتہا پسندی اور دہشتگردی کی روک تھام کے لیے غیر روایتی اقدامات کی ضرورت ہے
کوئٹہ میں مستونگ روڈ پر تھانہ سونا خان کے قریب ایف سی کی گاڑی پر خود کش حملے میں 4ایف سی کے اہلکار شہید اور 16اہلکاروں سمیت 18افراد زخمی ہوگئے، دھماکے سے انسانی اعضاء بکھر گئے، قریبی عمارتوں کو نقصان پہنچا اور 5موٹر سائیکلیں اور ایک گاڑی بھی تباہ ہوگئی۔
بلوچستان میں افغانستان کی صورتحال اور طالبان کی حکومت سازی کی سر توڑ کوششوں کے تناظر میں دہشت گردی کی واردات نے اس بات کا حکمرانوں کو واضح عندیہ دیا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کا مائنڈ سیٹ تاحال متحرک ہے، اس کے اہداف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور مستونگ کو اسی باعث ٹارگٹ کیا گیا اورگزشتہ دنوں دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کی گئی جس کے بعد مستونگ ایک بار پھر دہشت گردوں کے لیے میدان جنگ بن گیا ہے، لیکن اس بار بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ تحریک طالبان پاکستان نے دہشت گردی کی ذمے داری قبول کی ہے۔
دہشت گردی مخالف ماہرین نے ٹی ٹی پی کے متحرک ہونے کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان نے کچھ سوچ کر پاکستان کو خبردارکیا تھا کہ ٹی ٹی پی سے ان کا کئی سروکار نہیں، یہ پاکستان کا معاملہ ہے جو اسے خود سنبھالنا ہوگا۔ اس مسئلے پر تجزیہ کار بہت پہلے بیان دے چکے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں دہشتگردی کوئی الگ واقعہ نہیں ہے، اسے خطے کی موجودہ صورتحال کے وسیع تر تناظر میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مستونگ انتہائی حساس محل وقوع ہے ، سیاسی اعتبار سے یہ دہشت گردی کے حوالے سے اہم مقام ہے جس کے اطراف دہشتگرد اور علیحدگی پسند سرگرم عمل رہتے ہیں۔
ذرایع کا کہنا ہے کہ یہیں سے انتہا پسند بلوچستان کے دیگر علاقوں میں نقل و حمل کے لیے کمک پہنچاتے ہیں ، حمایت اور حملوں کی منصوبہ بندی ، ٹارگٹ کرنے کی کارروائی ، منظم معلومات، سراغ رسانی اور ڈیٹا کلیکشن کے نتیجے میں کی جاتی ہے، سیکیورٹی فورسز کو ان دہشت گردوں کو اپنی قوت مجتمع ہونے کی مہلت نہیں دینی چاہیے ، تاہم حکومتی ذرایع کے مطابق ٹی ٹی پی کی حالیہ کارروائی طالبان کی حکومت سازی کے ابتدائی دنوں میں ایک لمحہ فکریہ ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے ایف سی کی چیک پوسٹ پر خودکش حملہ کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردوں کے غیرملکی پشت پناہی سے بنائے گئے منصوبوں کو ناکام اور ملک کو محفوظ بنانے کے لیے قربانیاں دینے والی سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اتوار کو ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے شہدا کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد شفایابی کی دعا کی ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال ، صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف، ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری، سربراہ جماعت اسلامی سراج الحق و دیگر رہنماؤں نے بھی خودکش حملہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کیا اور زخمیوں کی صحت یابی کے لیے دعا کی، کالعدم تحریک پاکستان نے کوئٹہ میں سیکیورٹی فورسز پر خودکش حملے کی ذمے داری قبول کرلی ہے۔
اے ایف پی کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے سائیٹ انٹیلی جنس گروپ کے حوالے سے ایک بیان میں کہا ہے کہ بمبار نے مستونگ روڈ پر ایف سی عناصر کو بارود سے بھری جیکٹ اور دھماکا خیز مواد سے بھری موٹرسائیکل سے نشانہ بنایا، ٹی ٹی پی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس حملے میں 30 سے زائد ایف سی اہلکار ہلاک و زخمی ہوئے۔ تجزیہ کاروں نے ٹی ٹی پی کی کارروائی کو اندوہ ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کے دیگر متحارب گروپس کو ایک بڑے گیم کے لیے تیار کرنے کی سازش کا پتہ لگایا گیا ہے۔ اس منصوبہ بندی میں بعض اہم کارندے شامل ہوسکتے ہیں، دہشتگردی کی اس کارروائی سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے پرانے سلیپر سیلز ایک بار پھر متحرک ہوگئے ہیں، سیکیورٹی حلقوں کا کہنا ہے کہ مستونگ میں سیاسی اضطراب کی وجوہ کا جائزہ لیتے ہوئے ان دہشتگردوں کی اجتماعی سرگرمیوں کو روکنا ناگزیر ہے جو مکران تک پھیلنے کے لیے مزید سیاسی خلفشار پیدا کرسکتے ہیں۔
ایک امکان یہ بھی ہے کہ سی پیک اور گوادر کی داخلی صورت حال سے متعلق جو افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں ان میں کچھ حقائق ایسے بھی ہیں جو علاقے میں سماجی، اقتصادی صورتحال سے متعلق ہیں۔عوام کو ان خطوط پر بدظن کیا جاسکتا ہے کہ پانی، روزگار اور ماہی گیری کے معاملات میں بہتری اور آسانیاں پیدا کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے لازمی ہیں، مین اسٹریم سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کے دو اسباب واضح طور پر داخلی سماجی اور سیاسی مسائل سے جڑے ہوئے ہیں جب کہ ان مسائل کے حل میں جتنی کم تاخیر ہو اتنا ہی بہتر ہے، بلوچستان میں غربت آج بھی ایک مسئلہ ہے، بلوچستان کے دور افتادہ علاقے علاج ، تعلیم، روزگار اور ٹرانسپورٹ کی سہولتوں سے محروم ہیں۔
عام بلوچ جدید دنیا کی سہولتوں سے فیض یاب نہیں، سماجی اور اقتصادی مصائب بے پناہ ہیں، کوئی اگر یہ سمجھتا ہے کہ بلوچستان میں عدم مساوات کی شرح برائے نام ہے، لوگ حکومتی اقدامات اور اقتصادی و سماجی پروگراموں سے مستفید ہورہے ہیں اور حکومتی تبدیلیوں اور اقتصادی اقدامات کے باعث عوام کو کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں ہے تو یہ حقیقت پسندانہ انداز فکر نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ دہشتگردی سے عام آدمی کی زندگی مسائل کا شکار ہے، لاتعداد لوگ انتہا پسندی کی وجہ سے نارمل زندگی گزار نہیں سکتے، دہشتگردی نے عدم اطمینان پیدا کیا ہے، لوگ حقیقی طمانیت سے محروم ہیں، سیکڑوں عمر رسیدہ خواتین اپنے پیاروں کے چہرے دیکھنے کی حسرت میں آنسو بہاتی ہیں۔
دہشت گردی ایک مستقل ذہنی اذیت ہے، دوسری طرف کورونا کے مسائل نے بلوچستان کی سماجی زندگی کو ایک بے ترتیبی، انتشار اور بڑے ڈیمو گریفک تبدیلی سے الگ رکھا ہے، بلوچستان کے ایک ماہر تعلیم اور دانشور کا کہنا ہے کہ بلوچستان کو ٹرانسپورٹ کی جو سہولتیں نجی ٹرانسپورٹر دیتے ہیں، یہی سہولت اگر حکومت کی طرف سے عوام کو ملے تو ان کی زندگی میں تبدیلی کا مقصد نمایاں ہوجائیگا، ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بین الاضلاعی سرکاری ٹرانسپورٹ نہیں ہے جس سے عوام مشکلات کا شکار ہیں۔
گزشتہ برسوں میں روڈ حادثات میں ہلاکتوں سے ہونے والے جانی نقصان کی ہولناکی ہی کافی ہے، ان حادثات میں بہت سے افراد، خواتین اور بچے لقمہ اجل بنے اور حادثات کی نذر ہونے والوں کے ورثا کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔
بلوچستان میں انتہا پسندی اور دہشتگردی کی روک تھام کے لیے غیر روایتی اقدامات کی ضرورت ہے، جامعات سے نکلنے والے جوہر قابل کو ترقی کے مواقعے نہ ملنے کی شکایت عام ہے، بے پناہ ٹیلنٹ اور تخلیقی صلاحیتوں کی فراوانی کے باوجود خواتین اور نوجوان فنکار اور علم ودانش سے وابستہ عناصر جاب کے لیے نظر عنایت کے منتظر رہتے ہیں، میرٹ کی روایت دم توڑتی جا رہی ہے، فنون لطیفہ ، ادب اور ٹیکنیکل شعبوں سے وابستہ ہونے کی خواہش رکھنے والے اقربہ پروری اور سہولتوں کے فقدان کو بھی دہشتگردی اور انتہا پسندی کا ایک سبب قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ غربت بے بسی اور بیروزگاری دہشتگردی کا در کھول دیتی ہے، یہ در آج بھی کھلے ہوئے ہیں، بلوچستان میں ہر شعبہ ہائے حیات کے لیے پوٹینشل موجود ہے لیکن بعض لوگ علاقے میں داخل ہونے کو خطرناک قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کا عمومی خوف بدستور قائم ہے ، اجنبی لوگوں سے لگ گلے ملتے نہیں، ایک بے اعتباری ہے جو صرف دہشت گردی کے خاتمے سے ہی جائے گی اگرچہ جام کمال خان کی حکومت شائستگی ، شرافت اور سہولت دینے میں اپنا ایک مقام رکھتی ہے لیکن جن کو بلوچستان میں کسی کام کے حوالہ سے جانا پڑا ہے وہ بھی بے جا خوف کو بنیادی سبب بتاتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ دہشتگردی اور بم دھماکے رک جائیں تو بلوچستان سے بہتر سیاحتی مقام کوئی اور نہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی رہنما، سٹیک ہولڈرز اور فنکار بلوچستان کی علمی شہرت بحال کریں، اس صوبہ میں بے شمار اہل بصیرت ، مورخ، سیاسی مدبرین اور اہل فکر و نظر ہیں، جنھیں سرپرستی، احترام چاہیے۔
کسی نو وارد کو ویل کم کہنے کے لیے گوادر، مستونگ، خضدار اور کوئٹہ کو دہشتگردوں سے پاک رکھیں ، بلوچستان کے ادیبوں ، شاعروں، دانشوروں، مورخین اور فنکاروں کو ضروری سہولتیں دیں، بلوچ فٹبال کا شیدائی ہے، اسے بولان حکومت حوصلہ افزائی اور پروفیشنل بنیاد پر مضبوط کرے، ایک اچھی فٹبال ٹیم دہشتگردی کو منہ توڑ جواب ہے، بلوچستان نے بہترین باکسر پیدا کیے لیکن ان کو بدنصیبی نے آگے بڑھنے سے روکا، یا انھیں وہ وسائل نہیں مل سکے جو باکسنگ کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔
اسی طرح بلوچستان کا قیوم چنگیزی کسے یاد نہیں ہوگا جس کی شوٹنگ پاورکراچی کے کے ایم سی اسٹیڈیم میں ، ہر شخص کو تالیاں بجانے پر مجبور کرتی تھی، اب لازم ہے کہ نوجوان نسل کے کھلاڑیوں کو دہشت گردی سے دور رکھنے کے لیے سہولتوں سے محروم نہ رکھا جائے، یہ ناانصافی کب ختم ہوگی؟ عوام ناانصافی اور دہشتگردی دونوں کا ایک ساتھ خاتمہ چاہتے ہیں۔
بلوچستان میں افغانستان کی صورتحال اور طالبان کی حکومت سازی کی سر توڑ کوششوں کے تناظر میں دہشت گردی کی واردات نے اس بات کا حکمرانوں کو واضح عندیہ دیا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کا مائنڈ سیٹ تاحال متحرک ہے، اس کے اہداف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور مستونگ کو اسی باعث ٹارگٹ کیا گیا اورگزشتہ دنوں دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کی گئی جس کے بعد مستونگ ایک بار پھر دہشت گردوں کے لیے میدان جنگ بن گیا ہے، لیکن اس بار بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ تحریک طالبان پاکستان نے دہشت گردی کی ذمے داری قبول کی ہے۔
دہشت گردی مخالف ماہرین نے ٹی ٹی پی کے متحرک ہونے کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان نے کچھ سوچ کر پاکستان کو خبردارکیا تھا کہ ٹی ٹی پی سے ان کا کئی سروکار نہیں، یہ پاکستان کا معاملہ ہے جو اسے خود سنبھالنا ہوگا۔ اس مسئلے پر تجزیہ کار بہت پہلے بیان دے چکے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں دہشتگردی کوئی الگ واقعہ نہیں ہے، اسے خطے کی موجودہ صورتحال کے وسیع تر تناظر میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مستونگ انتہائی حساس محل وقوع ہے ، سیاسی اعتبار سے یہ دہشت گردی کے حوالے سے اہم مقام ہے جس کے اطراف دہشتگرد اور علیحدگی پسند سرگرم عمل رہتے ہیں۔
ذرایع کا کہنا ہے کہ یہیں سے انتہا پسند بلوچستان کے دیگر علاقوں میں نقل و حمل کے لیے کمک پہنچاتے ہیں ، حمایت اور حملوں کی منصوبہ بندی ، ٹارگٹ کرنے کی کارروائی ، منظم معلومات، سراغ رسانی اور ڈیٹا کلیکشن کے نتیجے میں کی جاتی ہے، سیکیورٹی فورسز کو ان دہشت گردوں کو اپنی قوت مجتمع ہونے کی مہلت نہیں دینی چاہیے ، تاہم حکومتی ذرایع کے مطابق ٹی ٹی پی کی حالیہ کارروائی طالبان کی حکومت سازی کے ابتدائی دنوں میں ایک لمحہ فکریہ ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے ایف سی کی چیک پوسٹ پر خودکش حملہ کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردوں کے غیرملکی پشت پناہی سے بنائے گئے منصوبوں کو ناکام اور ملک کو محفوظ بنانے کے لیے قربانیاں دینے والی سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اتوار کو ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے شہدا کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد شفایابی کی دعا کی ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال ، صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف، ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری، سربراہ جماعت اسلامی سراج الحق و دیگر رہنماؤں نے بھی خودکش حملہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کیا اور زخمیوں کی صحت یابی کے لیے دعا کی، کالعدم تحریک پاکستان نے کوئٹہ میں سیکیورٹی فورسز پر خودکش حملے کی ذمے داری قبول کرلی ہے۔
اے ایف پی کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے سائیٹ انٹیلی جنس گروپ کے حوالے سے ایک بیان میں کہا ہے کہ بمبار نے مستونگ روڈ پر ایف سی عناصر کو بارود سے بھری جیکٹ اور دھماکا خیز مواد سے بھری موٹرسائیکل سے نشانہ بنایا، ٹی ٹی پی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس حملے میں 30 سے زائد ایف سی اہلکار ہلاک و زخمی ہوئے۔ تجزیہ کاروں نے ٹی ٹی پی کی کارروائی کو اندوہ ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کے دیگر متحارب گروپس کو ایک بڑے گیم کے لیے تیار کرنے کی سازش کا پتہ لگایا گیا ہے۔ اس منصوبہ بندی میں بعض اہم کارندے شامل ہوسکتے ہیں، دہشتگردی کی اس کارروائی سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے پرانے سلیپر سیلز ایک بار پھر متحرک ہوگئے ہیں، سیکیورٹی حلقوں کا کہنا ہے کہ مستونگ میں سیاسی اضطراب کی وجوہ کا جائزہ لیتے ہوئے ان دہشتگردوں کی اجتماعی سرگرمیوں کو روکنا ناگزیر ہے جو مکران تک پھیلنے کے لیے مزید سیاسی خلفشار پیدا کرسکتے ہیں۔
ایک امکان یہ بھی ہے کہ سی پیک اور گوادر کی داخلی صورت حال سے متعلق جو افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں ان میں کچھ حقائق ایسے بھی ہیں جو علاقے میں سماجی، اقتصادی صورتحال سے متعلق ہیں۔عوام کو ان خطوط پر بدظن کیا جاسکتا ہے کہ پانی، روزگار اور ماہی گیری کے معاملات میں بہتری اور آسانیاں پیدا کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے لازمی ہیں، مین اسٹریم سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کے دو اسباب واضح طور پر داخلی سماجی اور سیاسی مسائل سے جڑے ہوئے ہیں جب کہ ان مسائل کے حل میں جتنی کم تاخیر ہو اتنا ہی بہتر ہے، بلوچستان میں غربت آج بھی ایک مسئلہ ہے، بلوچستان کے دور افتادہ علاقے علاج ، تعلیم، روزگار اور ٹرانسپورٹ کی سہولتوں سے محروم ہیں۔
عام بلوچ جدید دنیا کی سہولتوں سے فیض یاب نہیں، سماجی اور اقتصادی مصائب بے پناہ ہیں، کوئی اگر یہ سمجھتا ہے کہ بلوچستان میں عدم مساوات کی شرح برائے نام ہے، لوگ حکومتی اقدامات اور اقتصادی و سماجی پروگراموں سے مستفید ہورہے ہیں اور حکومتی تبدیلیوں اور اقتصادی اقدامات کے باعث عوام کو کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں ہے تو یہ حقیقت پسندانہ انداز فکر نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ دہشتگردی سے عام آدمی کی زندگی مسائل کا شکار ہے، لاتعداد لوگ انتہا پسندی کی وجہ سے نارمل زندگی گزار نہیں سکتے، دہشتگردی نے عدم اطمینان پیدا کیا ہے، لوگ حقیقی طمانیت سے محروم ہیں، سیکڑوں عمر رسیدہ خواتین اپنے پیاروں کے چہرے دیکھنے کی حسرت میں آنسو بہاتی ہیں۔
دہشت گردی ایک مستقل ذہنی اذیت ہے، دوسری طرف کورونا کے مسائل نے بلوچستان کی سماجی زندگی کو ایک بے ترتیبی، انتشار اور بڑے ڈیمو گریفک تبدیلی سے الگ رکھا ہے، بلوچستان کے ایک ماہر تعلیم اور دانشور کا کہنا ہے کہ بلوچستان کو ٹرانسپورٹ کی جو سہولتیں نجی ٹرانسپورٹر دیتے ہیں، یہی سہولت اگر حکومت کی طرف سے عوام کو ملے تو ان کی زندگی میں تبدیلی کا مقصد نمایاں ہوجائیگا، ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بین الاضلاعی سرکاری ٹرانسپورٹ نہیں ہے جس سے عوام مشکلات کا شکار ہیں۔
گزشتہ برسوں میں روڈ حادثات میں ہلاکتوں سے ہونے والے جانی نقصان کی ہولناکی ہی کافی ہے، ان حادثات میں بہت سے افراد، خواتین اور بچے لقمہ اجل بنے اور حادثات کی نذر ہونے والوں کے ورثا کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔
بلوچستان میں انتہا پسندی اور دہشتگردی کی روک تھام کے لیے غیر روایتی اقدامات کی ضرورت ہے، جامعات سے نکلنے والے جوہر قابل کو ترقی کے مواقعے نہ ملنے کی شکایت عام ہے، بے پناہ ٹیلنٹ اور تخلیقی صلاحیتوں کی فراوانی کے باوجود خواتین اور نوجوان فنکار اور علم ودانش سے وابستہ عناصر جاب کے لیے نظر عنایت کے منتظر رہتے ہیں، میرٹ کی روایت دم توڑتی جا رہی ہے، فنون لطیفہ ، ادب اور ٹیکنیکل شعبوں سے وابستہ ہونے کی خواہش رکھنے والے اقربہ پروری اور سہولتوں کے فقدان کو بھی دہشتگردی اور انتہا پسندی کا ایک سبب قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ غربت بے بسی اور بیروزگاری دہشتگردی کا در کھول دیتی ہے، یہ در آج بھی کھلے ہوئے ہیں، بلوچستان میں ہر شعبہ ہائے حیات کے لیے پوٹینشل موجود ہے لیکن بعض لوگ علاقے میں داخل ہونے کو خطرناک قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کا عمومی خوف بدستور قائم ہے ، اجنبی لوگوں سے لگ گلے ملتے نہیں، ایک بے اعتباری ہے جو صرف دہشت گردی کے خاتمے سے ہی جائے گی اگرچہ جام کمال خان کی حکومت شائستگی ، شرافت اور سہولت دینے میں اپنا ایک مقام رکھتی ہے لیکن جن کو بلوچستان میں کسی کام کے حوالہ سے جانا پڑا ہے وہ بھی بے جا خوف کو بنیادی سبب بتاتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ دہشتگردی اور بم دھماکے رک جائیں تو بلوچستان سے بہتر سیاحتی مقام کوئی اور نہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی رہنما، سٹیک ہولڈرز اور فنکار بلوچستان کی علمی شہرت بحال کریں، اس صوبہ میں بے شمار اہل بصیرت ، مورخ، سیاسی مدبرین اور اہل فکر و نظر ہیں، جنھیں سرپرستی، احترام چاہیے۔
کسی نو وارد کو ویل کم کہنے کے لیے گوادر، مستونگ، خضدار اور کوئٹہ کو دہشتگردوں سے پاک رکھیں ، بلوچستان کے ادیبوں ، شاعروں، دانشوروں، مورخین اور فنکاروں کو ضروری سہولتیں دیں، بلوچ فٹبال کا شیدائی ہے، اسے بولان حکومت حوصلہ افزائی اور پروفیشنل بنیاد پر مضبوط کرے، ایک اچھی فٹبال ٹیم دہشتگردی کو منہ توڑ جواب ہے، بلوچستان نے بہترین باکسر پیدا کیے لیکن ان کو بدنصیبی نے آگے بڑھنے سے روکا، یا انھیں وہ وسائل نہیں مل سکے جو باکسنگ کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔
اسی طرح بلوچستان کا قیوم چنگیزی کسے یاد نہیں ہوگا جس کی شوٹنگ پاورکراچی کے کے ایم سی اسٹیڈیم میں ، ہر شخص کو تالیاں بجانے پر مجبور کرتی تھی، اب لازم ہے کہ نوجوان نسل کے کھلاڑیوں کو دہشت گردی سے دور رکھنے کے لیے سہولتوں سے محروم نہ رکھا جائے، یہ ناانصافی کب ختم ہوگی؟ عوام ناانصافی اور دہشتگردی دونوں کا ایک ساتھ خاتمہ چاہتے ہیں۔