کراچی کیوں ہے پیاسا کون چھین رہا ہے شہر کا پانی
شہر کے گھریلو صارفین کے لیے صرف 37 فی صد پانی لائنوں میں دست یاب ہے!
یوں تو دنیا بھر میں پانی کی نایابی اہم ترین موضوعات میں سے ایک ہے۔۔۔ 'موسمی تغیرات' اور زمینی حدّت میں اضافے کے بعد یہاں تک خدشات ظاہر کیے گئے کہ آئندہ جنگیں بھی پانی کے مسئلے پر ہوں گی۔۔۔!
لیکن شہرِقائد میں پانی کی عدم فراہمی کے مسائل یہاں کے زیرزمین پانی کی پیچیدہ لائنوں سے زیادہ الجھے ہوئے اور گنجلک ہیں۔۔۔ دعوؤں اور اعلانات سے لے کر اعدادوشمار اور خدشات اور الزامات کا ایک ایسا گورکھ دھندا ہے کہ اچھے بھلے انسان کی عقل چکرا کر رہ جاتی ہے۔۔۔ نتیجتاً اس مسئلے کا سِرا کراچی کے پانی کی طرح ہماری رسائی سے بہت دور ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔۔۔
لیکن ہم نے بساط بھر کوشش کی کہ اس مسئلے کی ہر ممکن تہہ تک پہنچیں، اور 'ایکسپریس' کے قارئین کے لیے بلا کم وکاست حقائق اور معلومات سامنے لائیں۔۔۔ دوران تحقیق بہی خواہوں نے ہمیں خبردار بھی کیا ''میاں، ذرا سنبھال کے۔۔۔ یہ 'مافیا' بہت طاقت وَر ہے، ہزار، 500 روپے میں انسان کی بوری بنوا دیتی ہے۔۔۔!''
یہ تاثر کافی حد تک درست ہے کہ یہاں پانی کے کم ہونے سے زیادہ پانی کی تقسیم اور صحیح طور فراہم نہ ہونا بڑا مسئلہ ہے۔۔۔ تین ستمبر 2021ء کو وفاقی وزیر آبی وسائل مونس الٰہی نے بھی کراچی کے عوام کو ٹینکر مافیا کا شکار قرار دیا، وہ وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے صوبے کو 35 فی صد کم پانی ملنے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ مراد علی شاہ پہلے صوبے کے اندر پانی کی چوری روکیں۔
21 جون 2018ء کو اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے عزم کیا تھا کہ وہ کراچی کو ٹینکر مافیا سے نجات دلائیں گے۔۔۔۔ لیکن شاید ایسا ممکن نہ ہو سکا، تبھی 14 جون 2021ء کو چیف جسٹس گلزار احمد نے شدید برہمی ظاہر کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ ''جب ٹینکر کو پانی ملتا ہے، تو گھروں میں کیوں نہیں آتا۔۔۔؟ ہاکس بے پر سوسائیٹیاں بن رہی ہیں، سارا پانی وہاں چلا جاتا ہے۔ کراچی والے کیا کریں؟'' جسٹس گلزار احمد نے 'ایم ڈی' واٹر بورڈ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''پانی کی چوری میں سب ملوث ہیں، بااثر لوگوںکو تو پانی مل جاتا ہے، لیکن عام لوگوں کو نہیں ملتا، ایسے میں واٹر بورڈ کا پھر کیا مقصد رہ جاتا ہے۔ ختم کریں ایسا ادارہ!''
چند اعلیٰ حکام کی جانب سے اس مسئلے کی سنگینی کے اعتراف کے بعد واضح ہے کہ کراچی میں پانی کا بحران کس قدر سنگین ہو چکا ہے۔۔۔ ہم نے جب اہل کراچی سے پانی کی آمد کی بابت دریافت کیا تو کہا گیا یہ پوچھیے کہ کراچی میں پانی اب آتا کہاں ہے۔۔۔؟
ہمارے سروے کے دوران پتا چلا کہ بلدیہ ٹاؤن کے 80 فی صد علاقوں میں گذشتہ کئی برسوں سے پانی نہیں آیا، کورنگی 'ڈھائی' میں لگ بھگ 10سال سے پانی نایاب ہے، لانڈھی نمبر پانچ میں ایک سال اور گارڈن 'ایسٹ' میں چھے ماہ سے بالکل پانی نہیں۔ گلستان جوہر بلاک 12 اور بلاک 19 میں کئی ماہ سے مسئلہ ہے، بلاک ٹو کے بعضے علاقوں میں 'والو مین' کا رحم وکرم چلتا ہے۔ گلشن اقبال بلاک 13 ڈی کے کچھ علاقوں میں دو مہینے سے ایک قطرہ نہیں آیا۔
اورنگی ٹاؤن میں پمپنگ اسٹیشن کی کرم فرمائی کے سبب دو، دو ماہ پانی کا انتظار رہتا ہے۔ اس کے علاوہ کورنگی، شاہ فیصل کالونی میں بھی لوگ اب 'بورنگ' کے پانی پر گزارا کر رہے ہیں۔ 'شادمان ٹاؤن' میں پچھلے تین، چار سال سے بحران ہے۔ ڈیفینس میں کہیں 10 اور کہیں 15 برس سے ٹینکروں پر انحصار ہے۔ قیوم آباد میں مہینے میں دو بار بہ مشکل ایک گھنٹے پانی آتا ہے۔ نارتھ کراچی کے سیکٹر 9، سیکٹر 11 بی میں کئی سالوں سے ٹینکر چل رہے ہیں۔
دہلی کالونی (کلفٹن) کے سماجی راہ نما بابر جمال نے بتایا کہ 'پنجاب چورنگی' انڈر پاس بننے کے دوران فراہمیٔ آب کی 18 انچ کی نئی لائن ڈالی گئی، جس میں ہمارا 'گریوٹی' کا 12 انچ کا کنکشن 'کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن' نے 'غیرقانونی قرار دے کر نہیں جڑوایا اور صرف 2004ء میں ملنے والی پمپنگ اسٹیشن کی ناکافی لائن کو ہی 'قانونی' قرار دیا، سوال یہ ہے کہ کیا 2004ء سے پہلے تک 'کنٹونمنٹ بورڈ' ایک غیرقانونی لائن کے ٹیکس وصول کرتا آرہا تھا۔۔۔؟ واٹر بورڈ میں اس لائن کا صارف نمبر 4/21 ہے، جس کے سات کروڑ روپے 'کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن' کے ذمے ہیں، مبینہ طور پر یہی وجہ ہے کہ 'کنٹونمنٹ' نے اس پر سے ہاتھ اٹھا لیا، اس وقت پوری کالونی کے ذمے صرف ایک کروڑ 87 لاکھ ٹیکس واجب الادا ہے۔
اہل علاقہ یہ ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن کنٹونمنٹ بورڈ کہتا ہے کہ اس لائن کے پورے سات کروڑ روپے دینے ہوں گے، جو سراسر ظلم ہے۔'' ہم نے دہلی کالونی کے پمپنگ اسٹیشن سے کنٹونمنٹ کے ٹینکر بھرتے ہوئے دیکھے، واٹر بوڈ کے 'ذرایع' اسے 'ناجائز' قرار دیتے ہیں کہ یہاں 'واٹر بورڈ' لوگوں کے لیے پانی فراہم کرتا ہے، ٹینکروں کے لیے نہیں۔
منظورکالونی کے رہائشی ملک فہیم نے بتایا کہ ''علاقے کی 24 انچ قطر کی لائن میں 16 انچ کا ایک واضح 'کنڈا' لیا گیا ہے، اس کے علاوہ مبینہ طور پر قرب وجوار کی سوسائٹیوں اور بڑے رہائشی منصوبوں کو بھی کنکشن دیے گئے ہیں، جس کے نتیجے میں اب 24 انچ کا پائپ آدھا ہی بھرا ہوا آتا ہے، ہفتے میں ایک دن ہی ہمارے پانی کی باری آتی ہے۔''
ایکسپریس کے سینئر سب ایڈیٹر ندیم سبحان میو بتاتے ہیں کہ عرفات ٹاؤن، نارتھ ناظم آباد میں پانچ برس سے پانی نہیں آرہا، لیکن نصف کلومیٹر پر موجود سخی حسن ہائیڈرنٹ سے خوب ٹینکر بھرے جاتے ہیں۔ مبینہ طور پر رشوت نہ دینے کی پاداش میں بااثر 'والو مین' نے پانی بند کر رکھا ہے، بار بار درخواستوں کے باوجود کوئی شنوائی نہیں، پانی کے ستائے مکینوں نے سڑک بند کی، تو رینجرز نے انھیں سختی سے پیچھے دھکیل دیا۔ اب 'بورنگ' پر گزارا کر رہے ہیں، جب کہ پانی کے بل برابر آرہے ہیں۔
فیڈرل بی ایریا بلاک 5 کے رہائشی محمد عدنان نے 'ایکسپریس' کو بتایا کہ واٹر بورڈ کا ماہانہ 240 روپے کا بل جمع کرانے کے باوجود پانچ، چھے مہینے سے پانی بالکل نہیں ہے، علاقے کے ابتدا میں قائم غیرقانونی گھروں میں ہی پانی کا پریشر ٹوٹ جاتا ہے، یہ مکانات 25 سال پہلے مبینہ طور پر مسلم لیگ (ن) کے آشیرواد سے بنائے گئے۔
'کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ' کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر ٹیکنیکل سروسز علی محمد پلیجو (جو 40 سالہ خدمات کے بعد 20 گریڈ میں 16 جنوری 2013ء کو ریٹائر ہوئے) کے زمانے میں 'دھابے جی' کے بعد آگے ایک وسیع علاقے پر ''پلیجو اسٹیٹ'' قائم ہوئی، یعنی یہاں پانی کی تنصیبات کی ساری ذمہ داری پر کچھ مخصوص لوگ ہی تعینات کیے جاتے ہیں، دھابے جی سے آنے والا 25 فی صد پانی شہر تک پہنچنے سے پہلے ہی مختلف فارم ہاؤس اور کھیتوں وغیرہ میں استعمال ہو رہا ہے، باقی کسر کراچی کے اردگرد قائم غیرقانونی آبادیوں میں دیے جانے والے پانی سے پوری ہو جاتی ہے۔
معروف ٹی وی میزبان اقرار الحسن نے تین ماہ قبل کے پروگرام میں بتایا کہ 'دھابے جی' سے آنے والی 72 انچ کی لائن میں جا بجا نقب لگا کر مقامی وڈیرے اپنی قبضہ شدہ زمینوں کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ کچی آبادیوں کو پانی دے کر مقامی بااثر افراد اس کا بل بھی وصول کرتے ہیں۔ ہمیں خود ناظم آباد میں الطاف علی بریلوی روڈ پر گھروں سے پمپنگ اسٹیشن اور سڑک کے گرد بل کھاتے ہوئے پانی کے کنکشن کی کھدائی اور استرکاری کے سارے نشانات دکھائے گئے، جو مکینوں کے مطابق انھی کے پانی کو اِدھر اُدھر کیا گیا ہے۔۔۔
مختصر یہ کہ آپ کراچی کے کسی بھی علاقے میں نکل جائیے، آپ کو ہر فرد پانی کی اِس چوری چکاری اور 'دو نمبری' کی کہانی مع شواہد سناتا ہوا مل جائے گا کہ کون سے رہائشی منصوبے کو کتنے انچ کی لائن دی گئی، کس کارخانے اور صنعت کو نوازا گیا ہے اور کس سوسائٹی اور ادارے کے لیے کب، کیسے، کہاں سے اور کس کی سرپرستی میں کھانچا لگا کر پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ کراچی والوں کو تو سب پتا ہے، اگر نہیں پتا تو متعلقہ حکام اور ہمارے ذمہ دار اداروں کو۔۔۔ بلکہ ہمیں کہہ لینے دیجیے کہ شاید وہ 'تجاہل عارفانہ' سے کام لیتے ہیں۔۔۔
ہم اپنے سوالات لیے واٹر بورڈ کے دَر کو کھٹکھٹائے، کہ ہمیں فراہمی و تقسیم کے نظام پر کچھ معلومات ملے، ان دونوں امور کے ذمہ دار ظفر پلیجو اور سکندر زرداری سے رابطے کیے۔۔۔ ظفر پلیجو نے ہمیں دفتر آنے کی دعوت دی، ہم نے ساتھ ہی سکندر زرداری سے بھی وقت لینا چاہا، انھوں نے ملاقات 'پی آر او' قادر شیخ کی اجازت سے مشروط کردی۔۔۔ قادرشیخ ہمیں اسٹاف آفیسر 'ایم ڈی' موہن لال کے پاس لے گئے۔۔۔ ہماری اس 'رپورٹ' کے لیے ادارے کی طرف سے انھوں نے ہی ہمارے سارے سوالات کے جواب دیے، اور کچھ کے نہیں بھی دیے۔۔۔ پانی کی چوری کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ شکایات پر فوری کارروائی کرتے ہیں، کھلی نہر سے زرعی زمینوں کو 100 کے قریب کنکشن انھوں نے ختم کرائے۔
محسن رضا (سیکریٹری پیپلز لیبر یونین واٹر بورڈ ) نے 'ایکسپریس' کو بتایا کہ ''واٹر بورڈ کو 678 ملین گیلن یومیہ پانی مل رہا ہے، اس میں دھابے جی سے 550 ملین گیلن یومیہ یا 'ایم جی ڈی' (Millions of Gallons per Day)، حَب سے 100 ملین گیلن اور گھارو سے 28 ملین گیلن یومیہ شامل ہے۔ 1995ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پانی کا رسائو 30 فی صد تھا۔ آج اندازاً پانی کے رسائو اور چوری وغیرہ کا تناسب 40 فی صد تک ہے۔''
یعنی اگر ہم 678 ملین گیلن یومیہ پانی سے 40 فی صد نکالیں، تو یہ 271 ملین گیلن یومیہ بنتا ہے، باقی صرف 407 ملین گیلن یومیہ رہ جاتا ہے۔۔۔ اب اس میں سے 18.5 فی صد بَلک (Bulk) صارفین اور 4.5 فی صد ہائیڈرنٹ کا حصہ نکال دیجیے، تو 63 فی صد (427 ملین گیلن یومیہ) پانی تو یونہی کراچی کے 11 لاکھ 85 ہزار عام گھریلو صارفین کی لائنوں سے اُچک لیا جاتا ہے۔۔۔! یعنی مجموعی طور پر پانی کا یہ سارا جھگڑا 37 فی صد (250 ملین گیلن یومیہ) پر ہی رہ جاتا ہے۔۔۔ اب کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا۔۔۔!
واٹر بورڈ کے دیگر 'ذرایع' نے ہمیں بتایا کہ ظاہر کی گئی مقدار کے مطابق کراچی کو کبھی پانی نہیں ملا، سابقہ ایم ڈی واٹر بورڈ خالد محمود شیخ کہہ چکے ہیں کہ ہمیں عملاً 380 ملین گیلن یومیہ پانی ملتا ہے۔ اسٹاف آفیسر ایم ڈی واٹر بورڈ موہن لال اس کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''خالد محمود کے زمانے میں 'حَب ڈیم' خشک تھا، اب بارشوں کے بعد 100 ملین گیلن یومیہ دو سے ڈھائی سال کے لیے کافی ہے۔ دراصل کراچی کے لیے پانی ضرورت سے آدھا ہے۔ اگر ڈھائی کروڑ آبادی سمجھیے، تو 1000 ملین گیلن یومیہ پانی چاہیے۔ اس کے لیے 'کے فور' کے سوا کوئی حل نہیں ہے، جو 2023ء تک مکمل کر لیں گے۔ ہم نے کہا کہ تب تک تو شہر کی ضرورت اور بڑھ چکی ہوگی، انھوں نے کہا کہ وہ پانی 650 ملین گیلن یومیہ ہے، اس سے کافی ازالہ ہوگا۔''
موہن لال کراچی میں پانی کے مسئلے کا 'مستقل حل' ضرورت کے مطابق پانی کی فراہمی بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ 300 ملین گیلن یومیہ بھی مل جائے، تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اُن کے خیال میں پانی کم ہونے کی وجہ سے پمپنگ اسٹیشن سے دور کے گھروں (Tail end) میں نہیں پہنچ پاتا، ہم نے اس کے لیے مزید پمپنگ اسٹیشن قائم کرنے کا کہا، تو انھوں نے پانی پورا کیے بغیر اسے بے سود قرار دیا اور اس کے لیے واٹر ٹینکروں کو ہی ایک حل بتایا۔
'کنٹونمنٹ بورڈ فیصل' کے علاقے گلستان جوہر بلاک 19 سے جماعت اسلامی کے رکن بلال وراثی الزام لگاتے ہیں کہ 'والو مین' کی پوری مافیا نے رشوت ستانی کا بازار گرم کر رکھا ہے، اس کے تانے بانے موجودہ 'ایم کیو ایم' سے ملتے ہیں۔ واٹر بورڈ 'ذرایع' نے ہمیں بتایا کہ ''یہ بات درست ہے کہ بہت سے 'والو' سیاسی لوگ کنٹرول کرتے ہیں، لیکن لائن مینوں کی اجارہ داری ہمیشہ سے رہی ہے اور جہاں مفاد ہو، وہاں نہ کوئی سیاسی جماعت ہوتی ہے، نہ رنگ ونسل اور نہ ادارہ، بس مفاد ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ بھی براہ راست پانی کے بحران کے سبب ہے، کیوں کہ جب لائنوں میں پانی ہوگا اور 'والو مین' اسے روکیں گے تو لائن پھٹ جائے گی۔''
واٹر بورڈ کے اسٹاف آفیسر موہن لال 'والو لائن' کے معاملے کو پانی کی 'راشنگ' قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''والو لائن کی جب بھی شکایت آتی ہے، ہم فوری کارروائی کرتے ہیں۔ رشوت کا الزام تو سرکاری ملازمین پر مقناطیس کی طرح چپکتا ہے، ہمارے بھی مسائل ہوتے ہیں، کبھی بجلی نہیں، کہیں لائن پھٹ گئی، پانی نہ ملے تو لوگ ایسی باتیں کرنے لگتے ہیں۔''
موہن لال کسی بھی علاقے میں چھے، چھے ماہ تک پانی کی معطلی کی تردید کرتے ہیں کہ ایسا پہلے صرف بلدیہ ٹائون میں ہوا تھا۔ ہم نے کہا آج شہر کے بے شمار علاقے لائن کا پانی بھول چکے ہیں اور اب صرف 'بورنگ' کے پانی پر گزارا کر رہے ہیں، تو انھوں نے کچی آبادیوں کو دوش دیا، ہم نے کہا غیر قانونی آبادیوں میں تو پانی جا رہا ہے، لیکن شہر کے بیچوں بیچ قانونی آبادیوں میں پانی دست یاب نہیں۔۔۔! وہ کہتے ہیں کہ ''شکایات اور کمی بیشیاں ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ بہت سی جگہوں پر ہجوم آکر وال بند نہیں کرنے دیتا اور لوگ مسائل پیدا کرتے ہیں۔''
٭ پانی کا ضیاع اور متبادل بندوبست۔۔۔؟
شہر قائد میں 'فراہمیٔ آب' میں جہاں بے نظمی اور کچھ سیاسی اور کچھ ناگفتہ معاملات کو بہت زیادہ دوش ہے، وہیں پانی کی کمی سے بھی انکار ممکن نہیں ہے۔ ایسے میں لامحالہ یہ خیال آتا ہے کہ ہمارے پاس پانی محفوظ بنانے اور اس کے متبادل ذرایع کیا ہیں۔ ایک طرف یہ ذمہ داری عوام پر عائد ہوتی ہے۔۔۔ اکثر لوگ جب تک پانی کے سخت بحران سے نہ گزر جائیں، تب تک انھیں پانی کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا۔۔۔ شاذ ونادر ہی ہم کسی کو نَل بند کر کے، ایک طریقے سے ہاتھ دھوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔۔۔
اکثر لوگ ایک بار جب نَل کھولتے ہیں اور پھر صابن ملنے سے لے کر پورا ہاتھ دھلنے تک انھیں نَل بند کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔۔۔ یہی نہیں اکثر گھروں میں چھت کی ٹنکیاں اور زیرزمین ٹینک چھَلک جانے پر کوئی احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کی بے پروائی سے کتنی بڑی نعمت ضایع ہو رہی ہے۔۔۔ بہت سے علاقوں میں رات کو پانی آتا ہے، تو وہ اپنی موٹریں چلا کر سو جاتے ہیں اور پھر پانی بھر کر بہت دیر تک گلی میں دور تک بہتا چلا جاتا ہے۔۔۔ اس حوالے سے ہمیں بہت زیادہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری طرف حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیگر ذرایع سے پانی کی کم یابی کا سدباب کریں۔ صوبائی مشیر وقار مہدی نے پچھلے برس ہمیں انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارا سمندر کراچی کے تین ضلعوں جنوبی، غربی اور ملیر سے ملتا ہے۔ اگر کراچی کے تین ضلعے سمندری پانی سے ضرورت پوری کرلیں، تو باقی اضلاع کے لیے 'دریائے سندھ' کا پانی کافی ہوگا۔ دو ستمبر 2021ء کو وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر اور ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے ڈیفینس کے لیے 'ڈی سیلی نیشن پلانٹ' لگانے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے پہلے مرحلے میں ڈیفنس اور پھر شہر کے باقی حصوں میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔
ہم نے موہن لال صاحب سے متبادل ذرایع کے حوالے سے پوچھا تو پتا چلا کہ 'واٹربورڈ' کے پاس 'ری سائیکلنگ' اور سمندری پانی کو میٹھا کرنے وغیرہ کا کوئی منصوبہ موجود نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کام پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ میں ہو رہا ہے، وہی بتا سکتے ہیں، ہم فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے نہیں کر سکتے۔
٭ 2006ء کے بعد کراچی کے پانی میں ایک قطرہ بھی اضافہ ہیں ہوا!
کراچی میں فراہمیٔ آب کے نظام کے حوالے سے ایک خبری ویب سائٹ پر فواد احمد لکھتے ہیں کہ پہلے دریائے سندھ کا پانی کینجھر جھیل اور پھر بہ ذریعہ نہر دھابے جی پمپنگ اسٹیشن آتا ہے، یہاں سے 72 انچ قطر کی 10 لائنیں 200 فٹ بلند مقام 'فور بے' تک پانی پہنچاتی ہیں۔ فور بے کے مقام سے یہ پانی ڈھلان سے نارتھ ایسٹ کراچی، سپر ہائی وے پلانٹ پہنچایا جاتا ہے، اس میں 24 گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ 'نارتھ ایسٹ کراچی پلانٹ' (این ای کے) سے فلٹریشن اور پمپنگ کے مراحل طے کرتا ہوا شہر کے ضلع شرقی، غربی اور وسطی وغیرہ میں مختلف علاقوں کو پہنچاتا ہے۔
'دھابے جی' پمپنگ اسٹیشن سے روزانہ 145 ملین گیلن پانی پپری پمپنگ اسٹیشن بھیجا جاتا ہے۔ لانڈھی، قائدآباد تک 54 انچ قطر کی دو لائنیں ہیں، جن میں سے ایک لانڈھی کورنگی کے صنعتی اور رہائشی علاقوں کو پانی فراہم کرتی ہوئی 'ڈیفینس ویو' تک آتی ہے اور یہاں پر ڈیفنس کا پمپنگ اسٹیشن موجود ہے، جسے واٹر بورڈ طے شدہ معاہدے کے تحت 80 ملین گیلن پانی روزانہ فراہم کرتا ہے۔ دوسری لائن ملیر تک پانی فراہم کرتی ہے۔ حَب ڈیم کے پانی کا دار و مدار صرف بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں ہونے والی بارشوں پر ہے۔ حَب ڈیم سے پانی 'حَب کینال' سے منگھوپیر پمپنگ اسٹیشن تک آتا ہے، جہاں روزانہ 80 ملین گیلن فلٹر شدہ اور 20 ملین بغیر فلٹر پانی کراچی کے چار ٹاؤن کو فراہم کیا جاتا ہے۔
سابق ایم ڈی واٹر بورڈ مصباح الدین فرید نے 'یو آر سی' (اربن ریسورس سینٹر) کی ایک رپورٹ میں بتایا 100 ملین گیلن کا 'کے تھری' ایشیا کا کا سب سے بڑا فراہمی آب کا منصوبہ تھا۔ دنیا کا سب سے بڑا واٹر پمپنگ اسٹیشن دھابے جی پمپنگ کمپلکس 1958ء میں شروع ہوا اور 280ملین گیلن کا ایک سسٹم 'کے ڈی اے' کے زیرانتظام ڈالا گیا، جس کا نام 'گریٹر کراچی واٹر سپلائی اسکیم' رکھا گیا، لیکن اس میں ابتدائی طور پر پمپنگ کی صلاحیت صرف 72 لاکھ گیلن تھی، 1998ء میں کراچی کو 280 لاکھ گیلن کا کوٹا پورا فراہم ہو گیا اور دریائے سندھ سے 600 کیوسک کا کوٹا جنرل ضیا الحق نے 1200 کیوسک کر دیا تو 'عالمی بینک' کی 11 کروڑ کی امداد سے 'کے ٹو' واٹر سپلائی سسٹم دھابے جی میں لگایا گیا۔ 2002ء میں جنرل پرویز مشرف کی خصوصی منظوری لے کر چھے ارب روپے کی گرانٹ سے 'کے تھری' منصوبہ شروع کیا گیا۔
یہ منصوبہ 2003ء تا 2006ء رہا۔ یہ اسکیم 140ملین گیلن کی تھی، جس میں 100ملین گیلن سپلائی کرنا تھا اور 40 ملین کے پمپس اسٹینڈ بائے تھے۔ واٹر بورڈ کے ایک آفیسر نے 'کے تھری' کے حوالے سے 'ایکسپریس' بتایا کہ کراچی والے 'کے تھری' کا پانی تو تلاش کرتے ہی رہ گئے۔۔۔ 'کے تھری' صرف اِدھر کا پانی اُدھر کر کے چلایا گیا، اس سے کراچی میں فراہمی آب کو کوئی فرق نہیں پڑا۔' ہم نے یہی سوال اسٹاف آفیسر ایم ڈی موہن لال کے سامنے رکھا، تو انھوں نے کہا ''100 ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی کے منصوبے سے بہت فرق پڑا۔
دراصل جاپانی ادارے 'جائیکا' (JICA) کی تحقیق کے مطابق ہمیں ہر تین سال بعد 100 ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی بڑھانی چاہیے، جب کہ 2006-07ء کے بعد پانی کا ایک قطرہ بھی اضافہ نہیں ہو سکا۔''
'بورنگ' اور اس کی آڑ میں چلنے والے دھندے۔۔۔
14 جون 2021ء کو پانی سے متعلق سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ''لیاری ایکسپریس وے کے نیچے بورنگ ہو رہی ہے۔۔۔ یہ پُل کسی دن گر جائے گا۔۔۔!''
یہ بات بالکل درست ہے کہ بے دریغ بورنگ کراچی کی زمینی حالت کے لیے نہایت خطرناک ہے، لیکن پانی کے ستائے ہوئے لوگوں کے پاس آخری راستہ 'بورنگ' ہی رہ جاتا ہے، جس سے زیرِ زمین پانی گَھٹ رہا ہے اور زمین کے دھنسائو کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ 4 جون 2021ء کو 'کلب روڈ' پر بھی سڑک کے دھنسے کا ایک واقعہ پیش آیا، خدانخواستہ یہ دھنسائو اگر کسی بلند عمارت کی بنیادوں میں ہو تو صورت حال بہت خوف ناک ہوسکتی ہے!
'یوٹیوب' چینل 'دوہا ڈبیٹس' پر ماریہ کریم جی کی ایک رپورٹ کے مطابق اب لوگوں میں زیادہ سے زیادہ پانی کے حصول کے لیے گہری سے گہری بورنگ کرانے کا ایک 'مقابلہ' ہوتا ہے۔ گڈاپ ٹائون میں کنویں سے چھے سے 800 فٹ گہرائی پر پانی نکلتا ہے، اس لیے وہاں آٹھ سے 10 کلو میٹر دور (جہاں زیرزمین پانی ذرا اوپر ہے) سے پانی منگایا جاتا ہے۔
'بورنگ' یا 'سب سوائل' (Subsoil) کا معاملہ صرف نجی نہیں، بلکہ اب یہ باقاعدہ وسیع پیمانے پر جاری وساری ہے۔ بورنگ کے پانی نام پر شہر کے بیش تر علاقوں میں 'واٹر بورڈ' کی لائنوں میں نقب لگانے کی شکایات موجود ہیں۔ ناظم آباد میں پانی کی مرکزی لائن سے کچھ فاصلے پر باقاعدہ سرنگ کھود کر نقب لگانے کی واردات بھی سامنے آچکی ہے۔ کچھ عرصے قبل 'گل بہار' میں صرف پانی نکالنے کے لیے مہنگے داموں مکان خریدے گئے۔
نومبر 2020ء کی ایک نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق برساتی نالوں کے قریب مہنگے داموں گھر لے کر وہاں سے کروڑوں گیلن پانی بہ ذریعہ لائن صنعتوں کو فراہم کیا جا رہا ہے، جس سے مبینہ طور پر آٹھ ارب روپے سالانہ کمائے جا رہے ہیں۔ واٹر بورڈ پیپلز یونین کے سیکریٹری محسن رضا اس کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''زیرزمین پانی یعنی 'سب سوائل' واٹر کے نام پر انڈسٹریل ایریا میں بڑے پیمانے پر واٹر بورڈ کے مساوی لائنیں ڈال کر میٹھا پانی چوری کیا جا رہا ہے۔ ضلعی انتظامیہ اور 'واٹر بورڈ' کے افسران کی ملی بھگت سے 30 سے 40 کمپنیاں مختلف ناموں سے یہ کام کر رہی ہیں۔
نومبر 2020ء کی 'سما نیوز' کی رپورٹ کے مطابق بورنگ سے حاصل ہونے والا پانی پائپ لائنیں بچھا کر 'سائٹ' میں واقع صنعتوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کے صدر عبدالہادی کہتے ہیں کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے پاس صنعتوں کو دینے کے لیے پانی ہی نہیں، اس وقت سائٹ انڈسٹریل ایریا کی طلب 50 ملین گیلن یومیہ ہے۔ واٹر بورڈ 'سائٹ لیمیٹڈ' کے توسط سے ایک ملین گیلن روزانہ پانی فراہم کرتا ہے۔۔۔ 'سب سوائل' واٹر والوں سے جو پانی لیتے ہیں، وہ تقریباً 450 روپے ہزار گیلن ملتا ہے۔
پانی مافیا 'سائٹ' میں واقع صنعتوں کو یومیہ 49 ملین یعنی 4 کروڑ 90 لاکھ گیلن پانی، 45 پیسے فی گیلن کے حساب سے فروخت کرتا ہے، جس سے روزانہ 2 کروڑ 20 لاکھ، ماہانہ 66 کروڑ 15 لاکھ یعنی سالانہ 8 ارب روپے کمائے جاتے ہیں۔ سابق ایم ڈی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ خالد محمود شیخ کہتے ہیں کہ ادارہ بورنگ مافیا کے خلاف ایکشن لے ہی نہیں سکتا۔ ہم نے کئی دفعہ 'کریک ڈاؤن' کیا، لیکن پھر انڈسٹری کا پانی بند ہوتا ہے، واٹر بورڈ مجبور ہے کہ اس کے پاس انڈسٹری کو دینے کے لیے پانی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ 'مافیا' روز بروز پنپ رہا ہے، جو بغیر ٹیکس دیے روزانہ کروڑوں روپے کما رہا ہے۔
واٹر بورڈ آفیسر موہن لال سے جب ہم نے الطاف بریلوی روڈ پر سڑک کے درمیان رواں دواں پانی کی قوی ہیکل دو لائنوں کی بات کی، تو انھوں نے اسے 'بورنگ کی لائن' قرار دیا کہ عدالت میں بات ہوئی تھی کہ سائٹ کی 40 ملین گیلن یومیہ کی طلب ہے، ہم تین چار ملین گیلن دے پا رہے ہیں، تو انھوں نے اِس 'بورنگ' کے پانی کی اجازت لی۔
''اتنی لمبی لائن۔۔۔؟ جہاں پانی چاہیے وہیں بورنگ کیوں نہیں کراتے؟'' تو وہ بولے کہ ندی کے کنارے پانی اچھا ہوتا ہے۔
جب ہم نے خود جا کر دیکھا، تو 18 اور 20 انچ کی دو قوی ہیکل لائنیں براہ راست ناظم آباد کے لیے قائم واٹر ٹینک سے نکل کر سامنے سڑک تک آرہی تھیں، اور پھر سڑک کے درمیان سے سائٹ یا بلدیہ کی سمت رواں دواں تھیں۔ یقیناً میٹھے پانی کے ٹینک سے نکلنے والی یہ لائنیں بورنگ کی نہیں ہو سکتیں۔ (دونوں تصاویر اوپر دیکھی جاسکتی ہیں) اس کے لیے واٹر بورڈ کو دوبارہ یہ سوال بھیجتے رہے، لیکن کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
ہائیڈرنٹ ختم کیوں نہیں کردیے جاتے۔۔۔؟
کراچی میں ایک اندازے کے مطابق سالانہ 45 ارب روپے ٹینکر مافیا کے حصے میں آتے ہیں۔ آٹھ نومبر 2018ء کو 'سماء نیوز' کے پروگرام میں اس وقت کے وفاقی وزیر پانی وبجلی فیصل واوڈا نے انکشاف کیا تھا کہ کراچی میں غیرقانونی ہائیڈرینٹ کی ڈیڑھ سے ڈھائی کروڑ روپے یومیہ کی آمدن ہے۔ انھوں نے واٹر بورڈ کو ایک مافیا قرار دیا اور بہت عزم ظاہر کیا کہ وہ ہائیڈرنٹ توڑ دیں گے۔
اسٹاف آفیسر ایم ڈی موہن لال کسی بھی 'غیرقانونی' ہائیڈرنٹ کی موجودگی سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عدالتی حکم کے مطابق ہر ضلعے میں صرف ایک ہائیڈرنٹ ہے، کراچی کے ساتویں ضلعے کیماڑی کا ابھی نہیں بنا، ساتواں ہائیڈرنٹ 'این ایل سی' (نیشنل لوجسٹک سیل) کا ہے۔ ہم نے اپنے ذرایع سے ملنے والے 40 غیرقانونی ہائیڈرنٹ کا ذکر کیا، تو انھوں نے تردید کی اور کہا کہ پہلے 100 کے قریب تھے، وہ سب مسمار کر دیے۔ ہم نے اپنے ہائیڈرنٹ کی تفصیل سارے 'اے ایس پیز' کو دی ہے، کیوں کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ غیرقانونی ہائیڈرنٹ کی صورت میں وہاں کا 'ایس ایچ او' اور 'ایس پی' ذمہ دار ہوگا۔ ہمارے علم میں ایسا جو بھی ہائیڈرنٹ آتا ہے، ہم فوری گرا دیتے ہیں۔
'واٹر بورڈ' کی فراہم کردہ تفصیل کے مطابق سخی حسن ہائیڈرنٹ (سخی حسن چورنگی نزد ڈی سی آفس)، لانڈھی (فیوچر کالونی پمپنگ اسٹیشن، لانڈھی)، صفورہ ہائیڈرینٹ (ملیر کینٹ، نزد ریس کورس گرائونڈ)، شیر پائو ہائیڈرنٹ (عقب اولڈ پپری اور اسٹیل ٹائون، رشین کالونی)، کرش پلانٹ (منگھوپیر روڈ)، نیپا ہائیڈرنٹ (گلشن اقبال بلاک 6) اس کے قائم کردہ ہیں، جو مختلف فرموں کے پاس ہیں۔
اب ہمارے ذہن میں یہ سوال تھا کہ جب 'واٹر بورڈ' کی ذمہ داری لائنوں میں پانی فراہمی کی ہے، تو آخر یہ چھے ہائیڈرنٹ کیوں۔۔۔؟ موہن لال کہتے ہیں کہ یہ ان لوگوں کے لیے ہیں، جو پمپنگ اسٹیشن سے دور رہتے ہیں، ڈیفینس یا شیریں جناح کالونی۔۔۔
ہم نے کہا یہ پانی لائن کے ذریعے پہنچائیے، تو کہنے لگے کہ یہ کُل پانی کا چار ساڑھے چار فی صد (18 ملین گیلن) ہے، وہاں باقاعدہ اس کے میٹر نصب ہیں، جس پر نیب بھی کبھی چیک کرتی ہے۔ اگر لائن میں شامل کردیں، تو کوئی فرق نہیں پڑے گا، اور 'ٹیل اینڈ' پر جہاں پانی نہیں پہنچ پا رہا، انھیں پریشانی ہوگی۔ ہم نے کہا اتنے الزامات ہیں کہ ٹینکر کی وجہ سے ہی ساری قلت پیدا کی جاتی ہے، تو انھیں ایک دفعہ ختم کر ہی ڈالیے، تو وہ کہتے ہیں کہ یہ تاثر غلط ہے، ہمیں ہائیڈرنٹ کا کوئی شوق نہیں، ہمیں حکومت کہے، تو ہم کل کے بہ جائے آج ہی ختم کر دیں۔
موہن لال ہائیڈرنٹ کی 12 انچ کی لائن اور 20 سے 24 گھنٹے پانی کی فراہمی کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چار انچ تک کی ایک لائن ہے اور انھیں معاہدے کے مطابق 18 گھنٹے پانی دیا جاتا ہے۔''ہائیڈرنٹ میں کبھی قلت کیوں نہیں ہوتی؟'' اس سوال پر بھی انھوں نے دوبارہ صرف 18 ملین گیلن یومیہ پانی کا تذکرہ کیا۔ اس حوالے سے محسن رضا (جنرل سیکریٹری پیپلز یونین، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ) کہتے ہیں بلدیہ، اورنگی، لانڈھی، نرسری، پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی، گلستانِ جوہر وغیرہ میں 'واٹر بورڈ' کے افسران کی ملی بھگت سے پانی کامصنوعی بحران پیدا کیا جاتا ہے اور 'ٹینکر مافیا' سے سازباز کرکے پانی بیچا جاتا ہے۔
واٹر بورڈ کے دیگر 'ذرایع' نے ہمیں بتایا کہ ''دراصل ہائیڈرنٹ مافیا پانی کا بحران دور کرنے نہیں دیتے، شہر میں آج بھی نہ صرف غیرقانونی ہائیڈرنٹ موجود ہیں، بلکہ واٹر بورڈ کی بڑی لائن میں جھاڑیوں کی آڑ میں نقب لگا کر ٹینکر بھی بھرے جا رہے ہیں۔ 'ہائیڈرنٹ مافیا' نے پیسے لگائے ہوئے ہیں، وہ باقاعدہ بحران پیدا کراتے ہیں اور اس میں ہر ایک کا حصہ ہے، اسے کوئی بند نہیں کرا سکتا۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جن کا نام لیتے ہوئے لوگ گھبراتے ہیں۔ ٹینکر خریدنے پر مجبور گلشن اقبال اور گلبرگ بھی کیا 'ٹیل اینڈ' ہیں۔۔۔؟
ہائیڈرنٹ کو 12 انچ کی لائنیں دی گئی ہیں، کسی کے پاس دو، دو لائنیں بھی ہیں۔ ان سے معاہدے کے تحت 12 سے 14 گھنٹے کا وقت ہے، لیکن عملاً انھیں 20 سے 24 گھنٹے فراہمی کی جاتی ہے۔ اس میں صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ کے خاص آدمی نعمت اللہ مہر اور شکیل مہر کا ہاتھ ہے۔'' ہم نے موہن لال سے ان اشخاص کا پوچھا، تو انھوں نے بتایا کہ ''نعمت اللہ مہر ہائیڈرنٹ سیل کے انچارج ہیں، جب کہ شکیل مہر کا ہمارے ادارے سے کوئی تعلق نہیں، وہ 'سب سوائل واٹر' کے آپریٹر ہیں۔''
اپریل 2021ء کو ایک خبری چینل کی ویب سائٹ پر شایع ہونے والی فواد احمد کی رپورٹ کے مطابق ہائیڈرینٹ کو فراہم کیا جانے والا پانی شہر کو ملنے والے کْل پانی کا تقریباً 20 فی صد ہے۔ کبھی بڑے بڑے ٹینکر 'ہائیڈرینٹ' سے پانی بھر کر مختلف علاقوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہاں 'نجی ٹینکر سروس' کے نام پر من پسند قیمت پر لوگوں کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے خریدار زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں فوری ٹینکر مطلوب ہوتا ہے۔
٭ ٹینکر اور ہائیڈرنٹ کی 'شروعات'
کراچی واٹربورڈ کے 'ذرایع' نے ٹینکر کی شروعات کے حوالے سے ہمیں جو معلومات فراہم کیں، اس کے مطابق واٹر بورڈ کا 'ڈی ایچ اے' سے 27 ملین گیلن یومیہ کا معاہدہ تھا، جسے پورا نہ کرسکے، تو پھر ٹینکر سے ازالہ کیا گیا، کیوں کہ پہلے 'واٹر بورڈ' پانی اور لانے کے اخراجات خود ادا کرتا تھا۔ یہ 'گورنمنٹ سپلائی' کہلاتی تھی۔ دراصل شہر کے صاحب ثروت علاقوں اور صنعتوں کو پانی کا بحران کر کے یہ 'ٹیسٹ' کیا گیا۔۔۔ اس سے 'پرائیویٹ ٹینکر' کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ اور یہ سلسلہ بڑھتا گیا۔
1990ء کی کی دہائی میں مسلم آباد ہائیڈرنٹ رینجرز نے اپنی تحویل میں لیا کہ یہاں سے پیسہ 'ایم کیو ایم' کو جاتا ہے۔ اس کے بعد ٹینکر کے چارجز لیے جانے شروع ہوئے، پھر ضلعی حکومتوں کے زمانے میں یہ ہائیڈرنٹ واپس ہوگئے۔ محسن رضا کہتے ہیں کہ 1999ء میں ٹینکر سپلائی پاکستان رینجرز کے پاس تھی، تو شہریوں سے سروس چارجز وصول کیے جانے لگے۔
2006ء میں ٹینکر سروس دوبارہ 'واٹر بورڈ' نے لی اور سروس چارجز کی وصولی بھی شروع کر دی گئی۔ اُس وقت شہر کے 18 ٹاؤن میں 23 ہائیڈرنٹ قائم کیے گئے اور ٹاؤن ایڈمنسٹریشن کے نام پر کمپیوٹرائزڈ بلنگ میٹر کے ذریعے کی جاتی تھی، مختلف ٹاؤن پر اس وقت تقریباً 50 کروڑ سے زیادہ کے بقایا جات تھے، جو وصول نہیں کیے جا سکے۔ یہ واٹر بورڈ کے بَلک کنزیومر کے ریکارڈ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
اب جو چھے ہائیڈرنٹ ہیں، ان کا بلنگ کا ریکارڈ 'بَلک ڈائریکٹر کے پاس بھی موجود نہیں، نہ کمپیوٹر سے کنزیومر نمبر الاٹ کیا گیا ہے، یعنی بڑے پیمانے پر کرپشن جاری ہے، جب پانی کا بھائو 242 روپے فی ہزار گیلن تھا تو وصولی تقریباً 9 سے 10 کروڑ روپے ہوتی تھی، آج پانی کا بھائو 372 روپے فی ہزار گیلن ہیں، مگر وصولی پانچ سے چھے کروڑ روپے ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف سرکاری اداروں کے اہل کاروں کے گھروں میں بھی بلا معاوضہ پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔
فواد احمد کی رپورٹ کے مطابق 2017ء سے قبل شہر میں تقریباً 90 ہائیڈرنٹ تھے، جن میں 22 کے قریب قانونی اور باقی مافیا کے زیرِانتظام تھے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ضلعی سطح پر صرف ایک ہائیڈرنٹ بنایا جائے، جس کے لیے واٹر بورڈ پانی کے نرخ کا تعین کرے اور تشہیر بھی کرے۔ پھر جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں واٹر کمیشن بنایا گیا، 2017ء میں واٹر کمیشن نے ہر ضلع کے لیے ایک ہائیڈرنٹ والے فیصلے پر عمل کروانا شروع کردیا تھا۔ اس وقت پانی کی فی ہزار گیلن قیمت ایک ہزار روپے ہے، جب کہ ٹینکر 10 کلومیٹر کے دائرے سے باہر ہر کلومیٹر کے 65 روپے فی کلو میٹر کرایہ وصول کرنے کا مجاز ہے۔
٭ کتنے ٹینکر ہیں۔۔۔؟
واٹر بورڈ کے اسٹاف آفیسر موہن لال صاحب ہمارے اس سوال کا جواب دینے سے قاصر تھے کہ واٹر بورڈ کے چھے ہائیڈرنٹ میں کُل کتنے ٹینکر موجود ہوں گے؟ کیوں کہ ہم جب بھی شہر میں نکلتے ہیں، تو بعضے وقت مسافر بسوں سے زیادہ تو پانی کے ٹینکر دندناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔
اس حوالے سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی پیپلز یونین کے جنرل سیکریٹری محسن رضا نے ہمیں بتایا کہ روزانہ 30 ملین گیلن پانی ہائیڈرنٹ سے جاتا ہے اور تقریباً 30 ہزار ٹینکر روزانہ بھرے جاتے ہیں، زیادہ تر ٹینکر ڈیفنس، کلفٹن اور انڈسٹریل ایریا میں پانی سپلائی کرتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر کوٹے میں 200 مفت ٹینکر منظور کیے تھے، اس کی تعداد بڑھتی اور گھٹتی رہتی ہے، یہ وہ ٹینکر ہیں جو ڈپٹی کمشنر کی صوابدید پر فراہم کیے جاتے ہیں۔
سابق ایم ڈی شیخ خالد محمود نے مفت ٹینکر ختم کردیے تھے اور آن لائن بکنگ کا سلسلہ شروع کرایا تھا۔ موجودہ ایم ڈی اسد اللہ خان نے دوبارہ مفت سروس شروع کر دی ہے اور بڑے پیمانے پر 'ڈی سی' کوٹے کے نام پر ٹینکر فروخت ہو رہے ہیں۔ ٹینکر کے
نرخ مندرجہ ذیل ہیں:
ایک ہزار گیلن (1000 روپے سے 1300 روپے)،
دو ہزار گیلن (1400 روپے تا 1820 روپے)،
تین ہزار گیلن (1800 روپے تا 2340 روپے)،
پانچ ہزار گیلن (2500 روپے تا 3250 روپے)۔
کمرشل نرخ:
ایک ہزار گیلن (2000 روپے تا 2600 روپے)،
دو ہزار گیلن (2500 روپے تا 3250 روپے)،
تین ہزار گیلن (3500 روپے تا 4550 روپے)،
پانچ ہزار گیلن (4000 روپے تا 5200 روپے)۔
گھریلو صارفین تقریباً 3 یا سوا تین لاکھ سے سروس چارجز تقریباً 25 سے 30 کروڑ ماہانہ وصول ہو پاتے ہیں۔ یعنی 25 سے 30 فی صد رہائشی صارفین سروس چارجز کی ادائیگی کرتے ہیں۔
٭ 'واٹر بورڈ' کے 'بَلک (Bulk)
صارفین' کا ماجرا۔۔۔
'کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ' کی فراہمیٔ آب کے نظام میں ایک بہت بڑا حصہ بَلک (Bulk) صارفین کا بھی ہے، یعنی جو 'واٹر بورڈ' سے براہ راست تھوک کے حساب سے پانی لیتے ہیں۔ اسٹاف آفیسر موہن لال نے اندازے کے مطابق جب ایسے سات آٹھ ہزار 'دیو قامت صارفین' کا ذکر کیا، تو ہمارے کان کھڑے ہوگئے۔۔۔ ہم نے استفسار کیا کہ کون؟ تو انھوں نے ڈی ایچ اے، کنٹونمنٹ، اسٹیل مل، پی آئی اے، پورٹ قاسم، سمیت کچھ نجی صنعتوں کے نام گنوائے۔
ہم نے پوچھا کہ یہ مقدار تناسب کے حساب سے کتنی بنتی ہے۔۔۔؟ تو انھوں نے بہ مشکل 10 سے 15 فی صد تک کی تصدیق کی اور بتایا کہ بہت سی سوسائٹیوں کو بھی اس طرح پانی فراہم کیا جاتا ہے، جسے آگے وہ خود تقسیم کرتے ہیں۔ 'واٹر بورڈ' کے پانچ 'بَلک' کے پمپنگ اسٹیشن ہیں، جہاں باقاعدہ میٹر نصب ہیں۔ چار سے چھے انچ کے دو کنکشن 'بحریہ ٹائون' کو بھی دیے گئے ہیں۔ ہم نے کہا کہ وہ تو اپنے لیے پانی خود نکال رہے ہیں، تو انھوں نے بتایا کہ اس کے باوجود انھیں تعمیرات اور پینے کے لیے چاہیے ہوتا ہے۔
ہم نے 'واٹر بورڈ' سے 'بَلک' صارفین کی فہرست مع پانی کی مقدار حاصل کرنا چاہی، جو کہ ہمیں فراہم نہیں کی گئی! تاہم محسن رضا (سیکریٹری پیپلز یونین) نے اس حوالے سے انکشاف کیا کہ ''واٹر بورڈ کے نو ہزار 'بلک کنزیومر' ہیں۔ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ 'بَلک' سے کنکشن لیتا ہے اور کراچی کے گوٹھوں اور کچی آبادیوں کو پانی دیتا ہے، ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی، پی آئی اے، پاکستان ریلوے، ایکسپورٹ پروسسنگ زون، پورٹ قاسم، کراچی پورٹ ٹرسٹ، سائٹ لمیٹڈ، بحریہ ٹائون وغیرہ بلک کنزیومر میں شامل ہیں۔
اندرونی فراہمی یہ ادارے خود کرتے ہیں اور پانی کے سروس چارجز بھی وصول کرتے ہیں۔ واٹر بورڈ میں 125 ملین گیلن یومیہ کی بلنگ 'بَلک' صارفین کو کی جاتی ہے، جس سے ماہانہ 50 سے 55 کروڑ روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 11 لاکھ 85 ہزار رہائشی کنکشن ہیں۔'' کراچی کے 678 ملین گیلن یومیہ پانی میں 'بَلک صارفین' کا تناسب تقریباً ساڑھے 18 فی صد بنتا ہے۔
'واٹر بورڈ' سے بڑے پیمانے پر پانی لے کر نجی طور پر بیچنے کے نظام کے حوالے سے واٹر بورڈ 'ذرایع' نے 'ایکسپریس' کو بتایا کہ ''آج کراچی کے تین صنعتی علاقوں (سائٹ، کورنگی اور نارتھ کراچی) میں 'پرائیویٹ مافیا' لائنوں سے پانی فراہم کر رہا ہے۔ واٹر بورڈ کا پانی آگے فروخت نہیں کیا جاسکتا۔۔۔! انھیں یہ اجازت کس نے دی۔۔۔؟ کسی ایک مخصوص شخص کی اتنی طاقت ہے کہ وہ سب کو پانی فراہم کر رہا ہے، اس کے پاس واٹر بورڈ کا پانی بھی ہے اور بورنگ ملا ہوا پانی بھی۔ صنعتوں میں پانی کی کھپَت لاکھوں گیلن ہے، ایک فیکٹری 50 لاکھ گیلن پانی لیتی ہے۔ وہاں اس کی باقاعدہ کمپیوٹرازڈ بلنگ ہوتی ہے۔
'سائٹ' میں 30 سال پہلے 'عَجب خان کا سسٹم' ہوتا تھا، وہ پرائیویٹ سپلائی کا بانی تھا، اب پتا نہیں وہ موجود ہے یا نہیں۔ جب 'واٹر بورڈ' ہے، تو پورے کراچی کا نظام اس کے پاس ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں 'منرل واٹر' والوں کے لیے ایک روپیہ فی لیٹر ٹیکس کی بات ہوئی تھی، لیکن حکومت سندھ اور واٹر بورڈ تاحال کوئی پالیسی نہیں بنا سکے۔''
٭ ''زیر زمین پانی بھی ٹیسٹ کرا کے استعمال کیجیے۔۔۔!''
وفاقی وزیر آبی وسائل مونس الٰہی نے تین ستمبر 2021ء کو اپنی 'ٹوئٹ' میں ملک میں 30 فی صد اموات اور 40 فی صد امراض کا سبب خراب پانی کو قرار دیا ہے۔۔۔! ملک کے نام وَر سرجن ڈاکٹر طاہر شمسی ملک کی آدھی بیماریوں کا سبب پانی سے جوڑتے ہیں، ان بیماریوں میں ہیپاٹائٹس، ٹائیفایڈ، ہیضہ، ملیریا اور ڈینگی وغیرہ شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فراہمی آب کی لائنوں کا پانی کراچی میں کہیں بھی ٹھیک نہیں، 'عالمی ادارہ صحت' اور دیگر اداروں کے مطابق مضر اجزا کی مقدار مقررہ حد سے 10 گنا تک زیادہ ہے۔
یہ پانی ابالنے کے باوجود 10 فی صد جراثیم باقی رہ جاتے ہیں، بوتلوں میں دست یاب زیادہ تر پانی میں بھی کچھ نہ کچھ آلودگی ہے، یہ بھی لازمی نہیں ہے کہ ایک کمپنی کی بوتل ہمیشہ ہی معیاری ہو۔ گندے پانی کی لائنوں سے رساؤ کے سبب 'بورنگ' کا پانی بھی آلودہ ہے، اس لیے 'بورنگ' کرانے کے بعد کسی بڑے اسپتال کی لیبارٹری سے پانی کا 'کلچر' ضرور کرائیں۔ اگر پانی صاف نہ ہو تو مزید گہرائی سے پانی نکالیں۔
ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ڈیولپمنٹ (ہینڈ) کی جنرل مینجر روبینہ جعفری کی 2013ء کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے 28 ذرایع کے پانی کا نمونہ جمع کیا گیا، جس میں ہمیں صرف دو ذرایع ہی محفوظ ملے۔ 86 فی صد پانی کے نمونے کلوروفارم سے مُبرا ملے، سات فی صد پانی میں سوڈیم، سلفائیٹ اور کلورائیڈ مخصوص حد سے تجاوز کرتے ہوئے پائے گئے۔ اسی طرح چار فی صد پانی کے نمونے میں کیلشیم، پوٹاشیم اور بھاری پن پایا گیا، جب کہ 18 فی صد میں آئرن کی زیادتی ملی۔ جس سے جگر اور گردے متاثر ہوتے ہیں۔ آلودہ پانی سے ہیضہ، السر، جلدی خارش جیسی بیماریاں عام ہوتی ہیں، ڈینگی اور ملیریا بھی پانی ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ اموات پانی کی ہی وجہ سے ہوتی ہیں۔ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں ہر ایک ہزار میں سے 101 اموات آلودہ پانی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس رپورٹ کے حوالے سے جب ہم نے روبینہ جعفری سے رابطہ کیا، تو انھوں نے بتایا کہ گذشتہ سات، آٹھ برسوں میں اب صورت حال اس سے بھی بدتر ہو چکی ہے!
گذشتہ ماہ شایع ہونے والی پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز کی تیار کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک کے 29 بڑے شہروں میں کروڑوں افراد آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں، جس میں کراچی میں فراہم کیا جانے والا پانی 93 فی صد آلودہ ہے
۔ محفوظ سطح سے نیچے پانی میں آرسینک کا استعمال صحت سے متعلقہ سنگین پیچیدگیوں کا باعث ہوتا ہے۔ غیرنامیاتی آرسینک کا استعمال جلد کے کینسر کا خطرہ ہوتا ہے۔ مُضرصحت پانی کے حوالے سے 'ایکسپریس' نے واٹر بورڈ حکام کے سامنے سوال رکھا تو وہاں موجود سپرینٹنڈنٹ انجینئر ملیر زاہد کہنے لگے کہ ''لوگ اپنی مرضی سے دوسرا کنکشن لیتے ہیں اور پرانا کنکشن کھلا چھوڑ دیتے ہیں، وہاں سے پانی خراب ہوتا ہے۔
پھر اتنے سارے 'سَکشن پمپ' چلتے ہیں تو پھر لائن پر اثر پڑتا ہے۔ اگر آدھے ہارس پاور کی 200 موٹرین چلیں، تو اس کا مطلب ہے 100 ایچ پی کی ایک موٹر چل رہی ہے، یہ بہت زیادہ دبائو ہوتا ہے جس سے لائن چُوک ہوتی ہے اور گندا پانی شامل ہوتا ہے۔'' ہم نے کہا 'نکاسیٔ آب' بھی تو آپ ہی کی ذمہ داری ہے، تو بولے کہ اس کے لیے کھربوں روپیا چاہیے، حکومت کتنا دے گی؟ ابھی 'بلدیۂ کراچی' نے نالا صاف کرتے ہوئے ہماری 33 انچ کی لائن 'پنکچر' کر دی۔
اب جب لائن میں پانی نہیں ہوگا، اور لوگ پانی کھینچیں گے، تو یہی گندا پانی جائے گا۔ ہم نے کہا پانی کی لائن نالے سے نہ گزاریں، تو انھوں نے بتایا کہ نالا راستے میں آتا ہے تو لے جانی پڑتی ہے۔ ہم نے 'فراہمیٔ آب' کی لائنوں کو گزارے کے لائق بنانے کے لیے درکار سرمائے کی لاگت پوچھی تو انھوں نے کوئی واضح رقم بتانے سے گریز کیا اور کہا کہ ہم کوئی بھی لائن خراب ہونے پر فوری کارروائی کرتے ہیں، لائن پھٹنے کی صورت میں متعلقہ والو فوری بند کیا جاتا ہے، بڑے پیمانے پر پانی بہنے کا سبب لائن میں جمع شدہ پانی کا رسائو ہوتا ہے۔
کراچی میں 'کلورین' نہ ملائے جانے کی وجہ سے آئے دن 'نیگلیریا' کی وجہ سے جانیں ضایع ہوتی ہیں۔ یہ جرثومہ ناک سے انسان کے دماغ میں پہنچ کر اسے نقصان پہنچاتا ہے۔ پانی کی ٹریٹمنٹ کے حوالے سے موہن لال بتاتے ہیں کہ پپری، سی او ڈی، جنوب مشرقی کراچی اور حَب وغیرہ پر فلٹر پلانٹ ہیں۔ باقاعدہ 'کلورنشن' کا نظام ہے، لیبارٹری ہے۔ پانی کے معیار کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ لوگوں کی ٹنکیوں میں بھی مسئلے ہوتے ہیں، لوگ پانی دیکھنے کے لیے ٹینک کے ڈھکنے کھولتے ہیں، یا کہیں ہماری لائن میں رسائو ہوتا ہے، تو جہاں 'کلورین' کو آکسیجین ملتی ہے، وہ ختم ہو جاتی ہے۔
وہ 'کے فور' کی لائن کیا ہوئی۔۔۔؟
پانی کو ترستے ہوئے کراچی والوں کے لیے 'کے فور' کا منصوبہ کسی 'مسئلہ کشمیر' کی طرح گنجلک ہو چکا ہے۔۔۔ پرویز مشرف کے دور میں شروع ہونے والے اس عظیم منصوبے کے کھٹائی میں پڑنے کا معاملہ بھی ایسا پیچیدہ ہے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ منصوبہ کون، کب اور کیسے پورا کرے گا۔۔۔؟ یو آر سی (اربن ریسورس پروگرام) کی 'کے فور' کے حوالے سے 2020ء کی مطبوعہ رپورٹ میں ایک نجی چینل کی ویب ایڈیٹر ماہم مہر بتاتی ہیں کہ پہلے 'کے فور' کا کام عثمانی اینڈ کمپنی کو دیا گیا۔ 'کے فور' پورا ایک ماحولیاتی نظام ہے۔ کینجھر جھیل سے نارتھ کراچی تک پانی لانا چاہتے ہیں، تو ایک نہر (کینال) بنا لیتے ہیں۔
اب وہ پانی کہیں پمپ کرے گا اور کہیں گریویٹی کرنی پڑے گی۔ پمپنگ کے لیے 'پمپ ہاؤس' بنانا پڑے گا، جس کے لیے بجلی، اور بجلی کے لیے پاور پلانٹ لگانا ہوگا۔ پاور پلانٹ کے لیے آپ کو عملہ اور عملے کے لیے رہائش و سہولتیں درکار ہوں گی۔ نہر کے دوسری طرف جانے کے لیے پُل بنانا ہوگا۔ واٹربورڈ والوں نے کہا جو کنسلٹنٹ ہے، وہ یہ تمام چیزیں مطالعہ کرے گا، ڈیزائن کرے گا اور اسے اس منصوبے کے لیے زمین خریدنی پڑے گی، 'فلٹریشن پلانٹ' کی تنصیب کے بعد آخری مرحلہ اسے واٹر بورڈ کے نظام میں داخل کرنا ہے۔
'عثمانی اینڈ کمپنی' ابتدائی طور پر 33 ملین روپے لیتی ہے، اور اس کام میں دو سال لگا دیتی ہے۔ 2005 میں وہ کام شروع کرتے ہیں اور 2007ء تک عثمانی اینڈ کمپنی نے اپنے کام یعنی 'کے فور' منصوبے کو پہلی شکل دی ہے۔ یہ 'واٹر بورڈ' اور حکومت سندھ کے سامنے آٹھ 'روٹس' (Routs) رکھتے ہیں، جس میں سے آٹھواں رُوٹ منظور ہوجاتا ہے، پھر مطالعہ اور کاغذی کارروائی کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے کہا کہ ہم ایک کے بہ جائے پہلے 260 ملین گیلن یومیہ کی اور پھر 260 ملین گیلن یومیہ کی نہریں بنائیں گے۔ پھر 130ملین گیلن یومیہ کی تیسری نہر بنائیں گے۔ واٹر بورڈ کو نہروں کے لیے زمین خریدنی ہے، خیال ہے کہ وہ پٹی جس سے نہر گزرے گی، وہ ایک ہزار فٹ لمبی ہوگی۔
'عثمانی اینڈ کمپنی' 2011ء میں واٹر بورڈ کو کہتے ہیں 29 بلین کا منصوبہ ہے۔ یہ منصوبہ مختلف مراحل سے ہوتا ہوا اسلام آباد آجاتا ہے۔ اسلام آباد والے کہتے ہیں کہ 29 بلین میں تو نہیں کریں گے، پھر یہ طے ہوتا ہے کہ 25 بلین روپے میں بنے گا، لیکن درمیان میں کیا ہوا ہمیں کچھ علم نہیں۔ 2014ء میں 'ایکنک' EXECUTIVE COMMITTEE OF THE NATIONAL ECONOMIC COUNCIL (ECNEC) کی منظوری آ جاتی ہے۔ 2016 میں حکومت سندھ کی ایما پر 2016ء میں 'ایف ڈبلیو او' (Frontier Works Organization) کو 25 بلین میں دے دیا گیا۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ اس کا ڈیزائن تو 2007ء کی طرز پر ہے اور 2016ء میں اب تو یہ 42 بلین پر جا رہا ہے۔
یہیں سے کام رک جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ اتنے پیسے نہیں ہیں۔ پھر کہا جاتا ہے کہ اچھا باقی چیزیں چھوڑ دو، پہلے نہر بنا لیتے ہیں۔ مطلب پاور پلانٹ، ڈیم، سڑکیں اور پُل چھوڑ دیجیے، کیوں کہ یہ مہنگا پڑ رہا ہے، اسی لیے اسے بعد میں بنالیں گے۔ اب پیکیج A اورB تعین کیے جاتے ہیں۔ 'کے فور' پیکیج A اور B دونوں میں شامل ہوتا ہے اور 'ایف ڈبلیو او' کو کہا جاتا ہے کہ 18 بلین میں یہ کام کیا جائے۔ 'ایف ڈبلیو او' کھدائی کا کام شروع کر دیتی ہے۔
2018 کے آخر میں 'ایف ڈبلیو او' کے ڈائریکٹر جنرل انعام حیدر ملک وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان تینوں نہروں یعنی 260, 260 اور 130 والی نہروں کے بہ جائے ایک ہی جو 260 کھود چکے ہیں اسی کو 650 کر لیتے ہیں۔ یہ سب 2018ء کے آخر میں ہوتا ہے۔ 2019 میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ مطالبہ کرتے ہیں کہ 'نیس پاک' (Nespak) کو اس ڈیزائن کو چیک کرنا ہے۔ 17 سال بعد وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ 'کے فور' بن نہیں رہا ہے اور 'عثمانی اینڈ کمپنی' کے ڈیزائن کو انجنیئر اپنی آزاد حیثیت میں چیک کریں گے۔ 'نیس پاک' کی رپورٹ میں یہی بات نکل کر آتی ہے کہ اسے عثمانی اینڈ کمپنی نے صحیح طرح ڈیزائن ہی نہیں کیا۔
'کے فور' کے لیے روٹ نمبر 8 کا انتخاب کیا گیا، جب نہر بناتے ہیں تو کھدائی بھی کرنی ہوتی ہے، ابھری ہوئی سطح کو برابر بھی کرنا ہوتا ہے اور جہاں گڑھا آ رہا ہے اسے بھرائی کے بعد ہموار کرنا ہوتا ہے، اگر پہاڑی علاقے میں نہر بنائیں گے تو نیچے اوپر کام کرنا ہوگا اس کی کٹائی اور بھرائی دونوں ہی ساتھ ساتھ چلیں گی۔ اب روٹ 8 کو جب جا کر دیکھا، تو وہ زمین بالکل ایک پہاڑی علاقے جیسی اونچی نیچی تھی۔ زمین کا مسئلہ اپنی جگہ تھا۔ معلوم نہیں روٹ 8 کا انتخاب کیوں ہوا۔ یہ بھی بتا دوں کہ یہ روٹ 'بحریہ ٹاؤن' سے گزر رہا ہے اور آگے 'ڈی ایچ اے سٹی' سے ملے گا۔
واٹر بورڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر اسد اﷲ خاں نے ایک لائن نکالی ہے، جس سے 8 ہزار سو گیلن پانی روزانہ 'بحریہ ٹائون کو دے رہے ہیں، لیکن ابھی تک یہ نہیں معلوم کہ 'کے فور' کے لیے 'بحریہ سٹی' نے پانی کے کوٹے کے لیے درخواست دی ہے یا نہیں۔ 'ڈی ایچ اے سٹی' کی ویب سائٹ پر لکھا ہوا ہے کہ 'کے فور' بن رہا ہے، جس سے 32 ایم جی ڈی مل جائے گا۔ جو پس منظر میں انجینیئر ہیں، میری ان سے بات ہوئی انھوں نے کہا کہ اگر 'بحریہ ٹائون' اور ملک ریاض نہیں آتے، تو 'کے فور' منصوبے کے پہیے نہیں چلتے۔ زمین کا ڈیزائن، رُوٹ کا انتخاب ان سب کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
'اربن ریسورس سینٹر' کی اسی رپورٹ میں سابق چیف انجینئر انجینیئر گلزار میمن کہتے ہیں کہ ''عثمانی اینڈ کمپنی' نے چھے، سات ماہ لگا کر اس کی فزیبلیٹی تیار کی۔ چوں کہ اسے پیسے نہیں ملے، لہٰذا اس نے کام کو 2009ء میں درمیان میں چھوڑ دیا۔ 'عثمانی اینڈ کمپنی' کی ادائیگی کے لیے کچھ دبائو ڈالا گیا کچھ نہ کچھ پیسے انھیں مل گئے۔ اس وقت میں ریٹائر ہوچکا تھا۔ فزیبلیٹی رپورٹ مل گئی اور منظور بھی ہوگئی بلکہ اس کے ٹینڈر کھولنے کی بات ہوئی۔ 2011ء میں 'پی سی ون بن' چکی تھی، اس کی پہلی پی سی ون 25 بلین کی منظور ہوئی تھی۔ PWDP یعنی Provincial Working Development Path اس کے اوپر CDWP(Central Development Working Party ) ہوتی ہے۔
سب جگہوں سے یہ منظور ہو کر آیا اور 'عثمانی' نے اس کی ڈیزائننگ شروع کردی۔ 2014ء میں اس کی ڈیزائننگ منظور ہوگئی اور 2014ء میں بغیر کسی ٹینڈرنگ کے اتنا بڑا ٹینڈر 'ایف ڈبلیو او' کو دینا سراسر غلط تھا۔ 2016ء سے 2018ء تک یہ ہوا، 'ایف ڈبلیو او' نے دو کنسلٹنٹ اپنے تعینات کرلیے۔ ان کے ڈیزائن آگئے ، عثمانی اینڈ کمپنی کی ٹیکنیکل اسسمنٹ میرے پاس ہے، ڈاکٹر بشیر لاکھانی کہتے ہیں کہ میں آپ کو یہ پانچ سال میں پورا کر کے دوں گا ، بشرطے کہ پورا کام مجھے دیا جائے۔''
ہم نے واٹر بورڈ کے اسٹاف آفیسر موہن لال سے 'کے فور' کے 'رُوٹ' میں تبدیلی کے بابت دریافت کیا، تو وہ ناواقفیت کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے کہ 'روٹ' تو منظور شدہ تھا اسی پر کام ہوا، اب یہ 'واپڈا' نے لے لیا ہے، تفصیل وہی بتائیں گے۔ ہم نے صوبائی مشیر وقار مہدی کے پچھلے سال ہمیں دیے گئے انٹرویو کا حوالہ دیا کہ انھوں نے تو کہا تھا کہ ''اس کے راستے میں قانونی رکاوٹیں آگئی تھیں۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ یہ 'بحریہ ٹائون' کے لیے کیا گیا ہے، وہ بولے کہ جب تشکیل ہوا تو 'ڈی ایچ اے سٹی' اور 'بحریہ ٹائون' کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ ہم نے کہا منصوبہ تو موجود ہوگا، تو وہ کہتے ہیں 2006-07ء میں تو نہیں ہوگا، یہ مصطفیٰ کمال کے دور میں فائنل ہوا، اس کے بعد میرے خیال میں اس کا راستہ تبدیل نہیں ہوا۔
صوبائی مشیر وقار مہدی نے 'ایکسپریس' کے لیے دیے گئے اپنے انٹرویو میں 'کے فور' کے حوالے سے بتایا تھا کہ ''2015-16ء میں وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے وفاق کے ساتھ آدھے آدھے تعاون پر معاملہ طے کرایا۔'' اب صورت حال یہ ہے کہ دو فرروری 2021ء کو وفاق نے خود یہ منصوبہ مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزارت پانی وبجلی اسے 2023ء تک مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ اب دیکھیے 'کیا گزرے ہے قطرے پہ گہُر ہونے تک۔۔۔!''
لیکن شہرِقائد میں پانی کی عدم فراہمی کے مسائل یہاں کے زیرزمین پانی کی پیچیدہ لائنوں سے زیادہ الجھے ہوئے اور گنجلک ہیں۔۔۔ دعوؤں اور اعلانات سے لے کر اعدادوشمار اور خدشات اور الزامات کا ایک ایسا گورکھ دھندا ہے کہ اچھے بھلے انسان کی عقل چکرا کر رہ جاتی ہے۔۔۔ نتیجتاً اس مسئلے کا سِرا کراچی کے پانی کی طرح ہماری رسائی سے بہت دور ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔۔۔
لیکن ہم نے بساط بھر کوشش کی کہ اس مسئلے کی ہر ممکن تہہ تک پہنچیں، اور 'ایکسپریس' کے قارئین کے لیے بلا کم وکاست حقائق اور معلومات سامنے لائیں۔۔۔ دوران تحقیق بہی خواہوں نے ہمیں خبردار بھی کیا ''میاں، ذرا سنبھال کے۔۔۔ یہ 'مافیا' بہت طاقت وَر ہے، ہزار، 500 روپے میں انسان کی بوری بنوا دیتی ہے۔۔۔!''
یہ تاثر کافی حد تک درست ہے کہ یہاں پانی کے کم ہونے سے زیادہ پانی کی تقسیم اور صحیح طور فراہم نہ ہونا بڑا مسئلہ ہے۔۔۔ تین ستمبر 2021ء کو وفاقی وزیر آبی وسائل مونس الٰہی نے بھی کراچی کے عوام کو ٹینکر مافیا کا شکار قرار دیا، وہ وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے صوبے کو 35 فی صد کم پانی ملنے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ مراد علی شاہ پہلے صوبے کے اندر پانی کی چوری روکیں۔
21 جون 2018ء کو اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے عزم کیا تھا کہ وہ کراچی کو ٹینکر مافیا سے نجات دلائیں گے۔۔۔۔ لیکن شاید ایسا ممکن نہ ہو سکا، تبھی 14 جون 2021ء کو چیف جسٹس گلزار احمد نے شدید برہمی ظاہر کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ ''جب ٹینکر کو پانی ملتا ہے، تو گھروں میں کیوں نہیں آتا۔۔۔؟ ہاکس بے پر سوسائیٹیاں بن رہی ہیں، سارا پانی وہاں چلا جاتا ہے۔ کراچی والے کیا کریں؟'' جسٹس گلزار احمد نے 'ایم ڈی' واٹر بورڈ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''پانی کی چوری میں سب ملوث ہیں، بااثر لوگوںکو تو پانی مل جاتا ہے، لیکن عام لوگوں کو نہیں ملتا، ایسے میں واٹر بورڈ کا پھر کیا مقصد رہ جاتا ہے۔ ختم کریں ایسا ادارہ!''
چند اعلیٰ حکام کی جانب سے اس مسئلے کی سنگینی کے اعتراف کے بعد واضح ہے کہ کراچی میں پانی کا بحران کس قدر سنگین ہو چکا ہے۔۔۔ ہم نے جب اہل کراچی سے پانی کی آمد کی بابت دریافت کیا تو کہا گیا یہ پوچھیے کہ کراچی میں پانی اب آتا کہاں ہے۔۔۔؟
ہمارے سروے کے دوران پتا چلا کہ بلدیہ ٹاؤن کے 80 فی صد علاقوں میں گذشتہ کئی برسوں سے پانی نہیں آیا، کورنگی 'ڈھائی' میں لگ بھگ 10سال سے پانی نایاب ہے، لانڈھی نمبر پانچ میں ایک سال اور گارڈن 'ایسٹ' میں چھے ماہ سے بالکل پانی نہیں۔ گلستان جوہر بلاک 12 اور بلاک 19 میں کئی ماہ سے مسئلہ ہے، بلاک ٹو کے بعضے علاقوں میں 'والو مین' کا رحم وکرم چلتا ہے۔ گلشن اقبال بلاک 13 ڈی کے کچھ علاقوں میں دو مہینے سے ایک قطرہ نہیں آیا۔
اورنگی ٹاؤن میں پمپنگ اسٹیشن کی کرم فرمائی کے سبب دو، دو ماہ پانی کا انتظار رہتا ہے۔ اس کے علاوہ کورنگی، شاہ فیصل کالونی میں بھی لوگ اب 'بورنگ' کے پانی پر گزارا کر رہے ہیں۔ 'شادمان ٹاؤن' میں پچھلے تین، چار سال سے بحران ہے۔ ڈیفینس میں کہیں 10 اور کہیں 15 برس سے ٹینکروں پر انحصار ہے۔ قیوم آباد میں مہینے میں دو بار بہ مشکل ایک گھنٹے پانی آتا ہے۔ نارتھ کراچی کے سیکٹر 9، سیکٹر 11 بی میں کئی سالوں سے ٹینکر چل رہے ہیں۔
دہلی کالونی (کلفٹن) کے سماجی راہ نما بابر جمال نے بتایا کہ 'پنجاب چورنگی' انڈر پاس بننے کے دوران فراہمیٔ آب کی 18 انچ کی نئی لائن ڈالی گئی، جس میں ہمارا 'گریوٹی' کا 12 انچ کا کنکشن 'کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن' نے 'غیرقانونی قرار دے کر نہیں جڑوایا اور صرف 2004ء میں ملنے والی پمپنگ اسٹیشن کی ناکافی لائن کو ہی 'قانونی' قرار دیا، سوال یہ ہے کہ کیا 2004ء سے پہلے تک 'کنٹونمنٹ بورڈ' ایک غیرقانونی لائن کے ٹیکس وصول کرتا آرہا تھا۔۔۔؟ واٹر بورڈ میں اس لائن کا صارف نمبر 4/21 ہے، جس کے سات کروڑ روپے 'کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن' کے ذمے ہیں، مبینہ طور پر یہی وجہ ہے کہ 'کنٹونمنٹ' نے اس پر سے ہاتھ اٹھا لیا، اس وقت پوری کالونی کے ذمے صرف ایک کروڑ 87 لاکھ ٹیکس واجب الادا ہے۔
اہل علاقہ یہ ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن کنٹونمنٹ بورڈ کہتا ہے کہ اس لائن کے پورے سات کروڑ روپے دینے ہوں گے، جو سراسر ظلم ہے۔'' ہم نے دہلی کالونی کے پمپنگ اسٹیشن سے کنٹونمنٹ کے ٹینکر بھرتے ہوئے دیکھے، واٹر بوڈ کے 'ذرایع' اسے 'ناجائز' قرار دیتے ہیں کہ یہاں 'واٹر بورڈ' لوگوں کے لیے پانی فراہم کرتا ہے، ٹینکروں کے لیے نہیں۔
منظورکالونی کے رہائشی ملک فہیم نے بتایا کہ ''علاقے کی 24 انچ قطر کی لائن میں 16 انچ کا ایک واضح 'کنڈا' لیا گیا ہے، اس کے علاوہ مبینہ طور پر قرب وجوار کی سوسائٹیوں اور بڑے رہائشی منصوبوں کو بھی کنکشن دیے گئے ہیں، جس کے نتیجے میں اب 24 انچ کا پائپ آدھا ہی بھرا ہوا آتا ہے، ہفتے میں ایک دن ہی ہمارے پانی کی باری آتی ہے۔''
ایکسپریس کے سینئر سب ایڈیٹر ندیم سبحان میو بتاتے ہیں کہ عرفات ٹاؤن، نارتھ ناظم آباد میں پانچ برس سے پانی نہیں آرہا، لیکن نصف کلومیٹر پر موجود سخی حسن ہائیڈرنٹ سے خوب ٹینکر بھرے جاتے ہیں۔ مبینہ طور پر رشوت نہ دینے کی پاداش میں بااثر 'والو مین' نے پانی بند کر رکھا ہے، بار بار درخواستوں کے باوجود کوئی شنوائی نہیں، پانی کے ستائے مکینوں نے سڑک بند کی، تو رینجرز نے انھیں سختی سے پیچھے دھکیل دیا۔ اب 'بورنگ' پر گزارا کر رہے ہیں، جب کہ پانی کے بل برابر آرہے ہیں۔
فیڈرل بی ایریا بلاک 5 کے رہائشی محمد عدنان نے 'ایکسپریس' کو بتایا کہ واٹر بورڈ کا ماہانہ 240 روپے کا بل جمع کرانے کے باوجود پانچ، چھے مہینے سے پانی بالکل نہیں ہے، علاقے کے ابتدا میں قائم غیرقانونی گھروں میں ہی پانی کا پریشر ٹوٹ جاتا ہے، یہ مکانات 25 سال پہلے مبینہ طور پر مسلم لیگ (ن) کے آشیرواد سے بنائے گئے۔
'کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ' کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر ٹیکنیکل سروسز علی محمد پلیجو (جو 40 سالہ خدمات کے بعد 20 گریڈ میں 16 جنوری 2013ء کو ریٹائر ہوئے) کے زمانے میں 'دھابے جی' کے بعد آگے ایک وسیع علاقے پر ''پلیجو اسٹیٹ'' قائم ہوئی، یعنی یہاں پانی کی تنصیبات کی ساری ذمہ داری پر کچھ مخصوص لوگ ہی تعینات کیے جاتے ہیں، دھابے جی سے آنے والا 25 فی صد پانی شہر تک پہنچنے سے پہلے ہی مختلف فارم ہاؤس اور کھیتوں وغیرہ میں استعمال ہو رہا ہے، باقی کسر کراچی کے اردگرد قائم غیرقانونی آبادیوں میں دیے جانے والے پانی سے پوری ہو جاتی ہے۔
معروف ٹی وی میزبان اقرار الحسن نے تین ماہ قبل کے پروگرام میں بتایا کہ 'دھابے جی' سے آنے والی 72 انچ کی لائن میں جا بجا نقب لگا کر مقامی وڈیرے اپنی قبضہ شدہ زمینوں کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ کچی آبادیوں کو پانی دے کر مقامی بااثر افراد اس کا بل بھی وصول کرتے ہیں۔ ہمیں خود ناظم آباد میں الطاف علی بریلوی روڈ پر گھروں سے پمپنگ اسٹیشن اور سڑک کے گرد بل کھاتے ہوئے پانی کے کنکشن کی کھدائی اور استرکاری کے سارے نشانات دکھائے گئے، جو مکینوں کے مطابق انھی کے پانی کو اِدھر اُدھر کیا گیا ہے۔۔۔
مختصر یہ کہ آپ کراچی کے کسی بھی علاقے میں نکل جائیے، آپ کو ہر فرد پانی کی اِس چوری چکاری اور 'دو نمبری' کی کہانی مع شواہد سناتا ہوا مل جائے گا کہ کون سے رہائشی منصوبے کو کتنے انچ کی لائن دی گئی، کس کارخانے اور صنعت کو نوازا گیا ہے اور کس سوسائٹی اور ادارے کے لیے کب، کیسے، کہاں سے اور کس کی سرپرستی میں کھانچا لگا کر پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ کراچی والوں کو تو سب پتا ہے، اگر نہیں پتا تو متعلقہ حکام اور ہمارے ذمہ دار اداروں کو۔۔۔ بلکہ ہمیں کہہ لینے دیجیے کہ شاید وہ 'تجاہل عارفانہ' سے کام لیتے ہیں۔۔۔
ہم اپنے سوالات لیے واٹر بورڈ کے دَر کو کھٹکھٹائے، کہ ہمیں فراہمی و تقسیم کے نظام پر کچھ معلومات ملے، ان دونوں امور کے ذمہ دار ظفر پلیجو اور سکندر زرداری سے رابطے کیے۔۔۔ ظفر پلیجو نے ہمیں دفتر آنے کی دعوت دی، ہم نے ساتھ ہی سکندر زرداری سے بھی وقت لینا چاہا، انھوں نے ملاقات 'پی آر او' قادر شیخ کی اجازت سے مشروط کردی۔۔۔ قادرشیخ ہمیں اسٹاف آفیسر 'ایم ڈی' موہن لال کے پاس لے گئے۔۔۔ ہماری اس 'رپورٹ' کے لیے ادارے کی طرف سے انھوں نے ہی ہمارے سارے سوالات کے جواب دیے، اور کچھ کے نہیں بھی دیے۔۔۔ پانی کی چوری کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ شکایات پر فوری کارروائی کرتے ہیں، کھلی نہر سے زرعی زمینوں کو 100 کے قریب کنکشن انھوں نے ختم کرائے۔
محسن رضا (سیکریٹری پیپلز لیبر یونین واٹر بورڈ ) نے 'ایکسپریس' کو بتایا کہ ''واٹر بورڈ کو 678 ملین گیلن یومیہ پانی مل رہا ہے، اس میں دھابے جی سے 550 ملین گیلن یومیہ یا 'ایم جی ڈی' (Millions of Gallons per Day)، حَب سے 100 ملین گیلن اور گھارو سے 28 ملین گیلن یومیہ شامل ہے۔ 1995ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پانی کا رسائو 30 فی صد تھا۔ آج اندازاً پانی کے رسائو اور چوری وغیرہ کا تناسب 40 فی صد تک ہے۔''
یعنی اگر ہم 678 ملین گیلن یومیہ پانی سے 40 فی صد نکالیں، تو یہ 271 ملین گیلن یومیہ بنتا ہے، باقی صرف 407 ملین گیلن یومیہ رہ جاتا ہے۔۔۔ اب اس میں سے 18.5 فی صد بَلک (Bulk) صارفین اور 4.5 فی صد ہائیڈرنٹ کا حصہ نکال دیجیے، تو 63 فی صد (427 ملین گیلن یومیہ) پانی تو یونہی کراچی کے 11 لاکھ 85 ہزار عام گھریلو صارفین کی لائنوں سے اُچک لیا جاتا ہے۔۔۔! یعنی مجموعی طور پر پانی کا یہ سارا جھگڑا 37 فی صد (250 ملین گیلن یومیہ) پر ہی رہ جاتا ہے۔۔۔ اب کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا۔۔۔!
واٹر بورڈ کے دیگر 'ذرایع' نے ہمیں بتایا کہ ظاہر کی گئی مقدار کے مطابق کراچی کو کبھی پانی نہیں ملا، سابقہ ایم ڈی واٹر بورڈ خالد محمود شیخ کہہ چکے ہیں کہ ہمیں عملاً 380 ملین گیلن یومیہ پانی ملتا ہے۔ اسٹاف آفیسر ایم ڈی واٹر بورڈ موہن لال اس کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''خالد محمود کے زمانے میں 'حَب ڈیم' خشک تھا، اب بارشوں کے بعد 100 ملین گیلن یومیہ دو سے ڈھائی سال کے لیے کافی ہے۔ دراصل کراچی کے لیے پانی ضرورت سے آدھا ہے۔ اگر ڈھائی کروڑ آبادی سمجھیے، تو 1000 ملین گیلن یومیہ پانی چاہیے۔ اس کے لیے 'کے فور' کے سوا کوئی حل نہیں ہے، جو 2023ء تک مکمل کر لیں گے۔ ہم نے کہا کہ تب تک تو شہر کی ضرورت اور بڑھ چکی ہوگی، انھوں نے کہا کہ وہ پانی 650 ملین گیلن یومیہ ہے، اس سے کافی ازالہ ہوگا۔''
موہن لال کراچی میں پانی کے مسئلے کا 'مستقل حل' ضرورت کے مطابق پانی کی فراہمی بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ 300 ملین گیلن یومیہ بھی مل جائے، تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اُن کے خیال میں پانی کم ہونے کی وجہ سے پمپنگ اسٹیشن سے دور کے گھروں (Tail end) میں نہیں پہنچ پاتا، ہم نے اس کے لیے مزید پمپنگ اسٹیشن قائم کرنے کا کہا، تو انھوں نے پانی پورا کیے بغیر اسے بے سود قرار دیا اور اس کے لیے واٹر ٹینکروں کو ہی ایک حل بتایا۔
'کنٹونمنٹ بورڈ فیصل' کے علاقے گلستان جوہر بلاک 19 سے جماعت اسلامی کے رکن بلال وراثی الزام لگاتے ہیں کہ 'والو مین' کی پوری مافیا نے رشوت ستانی کا بازار گرم کر رکھا ہے، اس کے تانے بانے موجودہ 'ایم کیو ایم' سے ملتے ہیں۔ واٹر بورڈ 'ذرایع' نے ہمیں بتایا کہ ''یہ بات درست ہے کہ بہت سے 'والو' سیاسی لوگ کنٹرول کرتے ہیں، لیکن لائن مینوں کی اجارہ داری ہمیشہ سے رہی ہے اور جہاں مفاد ہو، وہاں نہ کوئی سیاسی جماعت ہوتی ہے، نہ رنگ ونسل اور نہ ادارہ، بس مفاد ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ بھی براہ راست پانی کے بحران کے سبب ہے، کیوں کہ جب لائنوں میں پانی ہوگا اور 'والو مین' اسے روکیں گے تو لائن پھٹ جائے گی۔''
واٹر بورڈ کے اسٹاف آفیسر موہن لال 'والو لائن' کے معاملے کو پانی کی 'راشنگ' قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''والو لائن کی جب بھی شکایت آتی ہے، ہم فوری کارروائی کرتے ہیں۔ رشوت کا الزام تو سرکاری ملازمین پر مقناطیس کی طرح چپکتا ہے، ہمارے بھی مسائل ہوتے ہیں، کبھی بجلی نہیں، کہیں لائن پھٹ گئی، پانی نہ ملے تو لوگ ایسی باتیں کرنے لگتے ہیں۔''
موہن لال کسی بھی علاقے میں چھے، چھے ماہ تک پانی کی معطلی کی تردید کرتے ہیں کہ ایسا پہلے صرف بلدیہ ٹائون میں ہوا تھا۔ ہم نے کہا آج شہر کے بے شمار علاقے لائن کا پانی بھول چکے ہیں اور اب صرف 'بورنگ' کے پانی پر گزارا کر رہے ہیں، تو انھوں نے کچی آبادیوں کو دوش دیا، ہم نے کہا غیر قانونی آبادیوں میں تو پانی جا رہا ہے، لیکن شہر کے بیچوں بیچ قانونی آبادیوں میں پانی دست یاب نہیں۔۔۔! وہ کہتے ہیں کہ ''شکایات اور کمی بیشیاں ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ بہت سی جگہوں پر ہجوم آکر وال بند نہیں کرنے دیتا اور لوگ مسائل پیدا کرتے ہیں۔''
٭ پانی کا ضیاع اور متبادل بندوبست۔۔۔؟
شہر قائد میں 'فراہمیٔ آب' میں جہاں بے نظمی اور کچھ سیاسی اور کچھ ناگفتہ معاملات کو بہت زیادہ دوش ہے، وہیں پانی کی کمی سے بھی انکار ممکن نہیں ہے۔ ایسے میں لامحالہ یہ خیال آتا ہے کہ ہمارے پاس پانی محفوظ بنانے اور اس کے متبادل ذرایع کیا ہیں۔ ایک طرف یہ ذمہ داری عوام پر عائد ہوتی ہے۔۔۔ اکثر لوگ جب تک پانی کے سخت بحران سے نہ گزر جائیں، تب تک انھیں پانی کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا۔۔۔ شاذ ونادر ہی ہم کسی کو نَل بند کر کے، ایک طریقے سے ہاتھ دھوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔۔۔
اکثر لوگ ایک بار جب نَل کھولتے ہیں اور پھر صابن ملنے سے لے کر پورا ہاتھ دھلنے تک انھیں نَل بند کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔۔۔ یہی نہیں اکثر گھروں میں چھت کی ٹنکیاں اور زیرزمین ٹینک چھَلک جانے پر کوئی احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کی بے پروائی سے کتنی بڑی نعمت ضایع ہو رہی ہے۔۔۔ بہت سے علاقوں میں رات کو پانی آتا ہے، تو وہ اپنی موٹریں چلا کر سو جاتے ہیں اور پھر پانی بھر کر بہت دیر تک گلی میں دور تک بہتا چلا جاتا ہے۔۔۔ اس حوالے سے ہمیں بہت زیادہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری طرف حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیگر ذرایع سے پانی کی کم یابی کا سدباب کریں۔ صوبائی مشیر وقار مہدی نے پچھلے برس ہمیں انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارا سمندر کراچی کے تین ضلعوں جنوبی، غربی اور ملیر سے ملتا ہے۔ اگر کراچی کے تین ضلعے سمندری پانی سے ضرورت پوری کرلیں، تو باقی اضلاع کے لیے 'دریائے سندھ' کا پانی کافی ہوگا۔ دو ستمبر 2021ء کو وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر اور ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے ڈیفینس کے لیے 'ڈی سیلی نیشن پلانٹ' لگانے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے پہلے مرحلے میں ڈیفنس اور پھر شہر کے باقی حصوں میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔
ہم نے موہن لال صاحب سے متبادل ذرایع کے حوالے سے پوچھا تو پتا چلا کہ 'واٹربورڈ' کے پاس 'ری سائیکلنگ' اور سمندری پانی کو میٹھا کرنے وغیرہ کا کوئی منصوبہ موجود نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کام پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ میں ہو رہا ہے، وہی بتا سکتے ہیں، ہم فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے نہیں کر سکتے۔
٭ 2006ء کے بعد کراچی کے پانی میں ایک قطرہ بھی اضافہ ہیں ہوا!
کراچی میں فراہمیٔ آب کے نظام کے حوالے سے ایک خبری ویب سائٹ پر فواد احمد لکھتے ہیں کہ پہلے دریائے سندھ کا پانی کینجھر جھیل اور پھر بہ ذریعہ نہر دھابے جی پمپنگ اسٹیشن آتا ہے، یہاں سے 72 انچ قطر کی 10 لائنیں 200 فٹ بلند مقام 'فور بے' تک پانی پہنچاتی ہیں۔ فور بے کے مقام سے یہ پانی ڈھلان سے نارتھ ایسٹ کراچی، سپر ہائی وے پلانٹ پہنچایا جاتا ہے، اس میں 24 گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ 'نارتھ ایسٹ کراچی پلانٹ' (این ای کے) سے فلٹریشن اور پمپنگ کے مراحل طے کرتا ہوا شہر کے ضلع شرقی، غربی اور وسطی وغیرہ میں مختلف علاقوں کو پہنچاتا ہے۔
'دھابے جی' پمپنگ اسٹیشن سے روزانہ 145 ملین گیلن پانی پپری پمپنگ اسٹیشن بھیجا جاتا ہے۔ لانڈھی، قائدآباد تک 54 انچ قطر کی دو لائنیں ہیں، جن میں سے ایک لانڈھی کورنگی کے صنعتی اور رہائشی علاقوں کو پانی فراہم کرتی ہوئی 'ڈیفینس ویو' تک آتی ہے اور یہاں پر ڈیفنس کا پمپنگ اسٹیشن موجود ہے، جسے واٹر بورڈ طے شدہ معاہدے کے تحت 80 ملین گیلن پانی روزانہ فراہم کرتا ہے۔ دوسری لائن ملیر تک پانی فراہم کرتی ہے۔ حَب ڈیم کے پانی کا دار و مدار صرف بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں ہونے والی بارشوں پر ہے۔ حَب ڈیم سے پانی 'حَب کینال' سے منگھوپیر پمپنگ اسٹیشن تک آتا ہے، جہاں روزانہ 80 ملین گیلن فلٹر شدہ اور 20 ملین بغیر فلٹر پانی کراچی کے چار ٹاؤن کو فراہم کیا جاتا ہے۔
سابق ایم ڈی واٹر بورڈ مصباح الدین فرید نے 'یو آر سی' (اربن ریسورس سینٹر) کی ایک رپورٹ میں بتایا 100 ملین گیلن کا 'کے تھری' ایشیا کا کا سب سے بڑا فراہمی آب کا منصوبہ تھا۔ دنیا کا سب سے بڑا واٹر پمپنگ اسٹیشن دھابے جی پمپنگ کمپلکس 1958ء میں شروع ہوا اور 280ملین گیلن کا ایک سسٹم 'کے ڈی اے' کے زیرانتظام ڈالا گیا، جس کا نام 'گریٹر کراچی واٹر سپلائی اسکیم' رکھا گیا، لیکن اس میں ابتدائی طور پر پمپنگ کی صلاحیت صرف 72 لاکھ گیلن تھی، 1998ء میں کراچی کو 280 لاکھ گیلن کا کوٹا پورا فراہم ہو گیا اور دریائے سندھ سے 600 کیوسک کا کوٹا جنرل ضیا الحق نے 1200 کیوسک کر دیا تو 'عالمی بینک' کی 11 کروڑ کی امداد سے 'کے ٹو' واٹر سپلائی سسٹم دھابے جی میں لگایا گیا۔ 2002ء میں جنرل پرویز مشرف کی خصوصی منظوری لے کر چھے ارب روپے کی گرانٹ سے 'کے تھری' منصوبہ شروع کیا گیا۔
یہ منصوبہ 2003ء تا 2006ء رہا۔ یہ اسکیم 140ملین گیلن کی تھی، جس میں 100ملین گیلن سپلائی کرنا تھا اور 40 ملین کے پمپس اسٹینڈ بائے تھے۔ واٹر بورڈ کے ایک آفیسر نے 'کے تھری' کے حوالے سے 'ایکسپریس' بتایا کہ کراچی والے 'کے تھری' کا پانی تو تلاش کرتے ہی رہ گئے۔۔۔ 'کے تھری' صرف اِدھر کا پانی اُدھر کر کے چلایا گیا، اس سے کراچی میں فراہمی آب کو کوئی فرق نہیں پڑا۔' ہم نے یہی سوال اسٹاف آفیسر ایم ڈی موہن لال کے سامنے رکھا، تو انھوں نے کہا ''100 ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی کے منصوبے سے بہت فرق پڑا۔
دراصل جاپانی ادارے 'جائیکا' (JICA) کی تحقیق کے مطابق ہمیں ہر تین سال بعد 100 ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی بڑھانی چاہیے، جب کہ 2006-07ء کے بعد پانی کا ایک قطرہ بھی اضافہ نہیں ہو سکا۔''
'بورنگ' اور اس کی آڑ میں چلنے والے دھندے۔۔۔
14 جون 2021ء کو پانی سے متعلق سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ''لیاری ایکسپریس وے کے نیچے بورنگ ہو رہی ہے۔۔۔ یہ پُل کسی دن گر جائے گا۔۔۔!''
یہ بات بالکل درست ہے کہ بے دریغ بورنگ کراچی کی زمینی حالت کے لیے نہایت خطرناک ہے، لیکن پانی کے ستائے ہوئے لوگوں کے پاس آخری راستہ 'بورنگ' ہی رہ جاتا ہے، جس سے زیرِ زمین پانی گَھٹ رہا ہے اور زمین کے دھنسائو کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ 4 جون 2021ء کو 'کلب روڈ' پر بھی سڑک کے دھنسے کا ایک واقعہ پیش آیا، خدانخواستہ یہ دھنسائو اگر کسی بلند عمارت کی بنیادوں میں ہو تو صورت حال بہت خوف ناک ہوسکتی ہے!
'یوٹیوب' چینل 'دوہا ڈبیٹس' پر ماریہ کریم جی کی ایک رپورٹ کے مطابق اب لوگوں میں زیادہ سے زیادہ پانی کے حصول کے لیے گہری سے گہری بورنگ کرانے کا ایک 'مقابلہ' ہوتا ہے۔ گڈاپ ٹائون میں کنویں سے چھے سے 800 فٹ گہرائی پر پانی نکلتا ہے، اس لیے وہاں آٹھ سے 10 کلو میٹر دور (جہاں زیرزمین پانی ذرا اوپر ہے) سے پانی منگایا جاتا ہے۔
'بورنگ' یا 'سب سوائل' (Subsoil) کا معاملہ صرف نجی نہیں، بلکہ اب یہ باقاعدہ وسیع پیمانے پر جاری وساری ہے۔ بورنگ کے پانی نام پر شہر کے بیش تر علاقوں میں 'واٹر بورڈ' کی لائنوں میں نقب لگانے کی شکایات موجود ہیں۔ ناظم آباد میں پانی کی مرکزی لائن سے کچھ فاصلے پر باقاعدہ سرنگ کھود کر نقب لگانے کی واردات بھی سامنے آچکی ہے۔ کچھ عرصے قبل 'گل بہار' میں صرف پانی نکالنے کے لیے مہنگے داموں مکان خریدے گئے۔
نومبر 2020ء کی ایک نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق برساتی نالوں کے قریب مہنگے داموں گھر لے کر وہاں سے کروڑوں گیلن پانی بہ ذریعہ لائن صنعتوں کو فراہم کیا جا رہا ہے، جس سے مبینہ طور پر آٹھ ارب روپے سالانہ کمائے جا رہے ہیں۔ واٹر بورڈ پیپلز یونین کے سیکریٹری محسن رضا اس کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''زیرزمین پانی یعنی 'سب سوائل' واٹر کے نام پر انڈسٹریل ایریا میں بڑے پیمانے پر واٹر بورڈ کے مساوی لائنیں ڈال کر میٹھا پانی چوری کیا جا رہا ہے۔ ضلعی انتظامیہ اور 'واٹر بورڈ' کے افسران کی ملی بھگت سے 30 سے 40 کمپنیاں مختلف ناموں سے یہ کام کر رہی ہیں۔
نومبر 2020ء کی 'سما نیوز' کی رپورٹ کے مطابق بورنگ سے حاصل ہونے والا پانی پائپ لائنیں بچھا کر 'سائٹ' میں واقع صنعتوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کے صدر عبدالہادی کہتے ہیں کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے پاس صنعتوں کو دینے کے لیے پانی ہی نہیں، اس وقت سائٹ انڈسٹریل ایریا کی طلب 50 ملین گیلن یومیہ ہے۔ واٹر بورڈ 'سائٹ لیمیٹڈ' کے توسط سے ایک ملین گیلن روزانہ پانی فراہم کرتا ہے۔۔۔ 'سب سوائل' واٹر والوں سے جو پانی لیتے ہیں، وہ تقریباً 450 روپے ہزار گیلن ملتا ہے۔
پانی مافیا 'سائٹ' میں واقع صنعتوں کو یومیہ 49 ملین یعنی 4 کروڑ 90 لاکھ گیلن پانی، 45 پیسے فی گیلن کے حساب سے فروخت کرتا ہے، جس سے روزانہ 2 کروڑ 20 لاکھ، ماہانہ 66 کروڑ 15 لاکھ یعنی سالانہ 8 ارب روپے کمائے جاتے ہیں۔ سابق ایم ڈی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ خالد محمود شیخ کہتے ہیں کہ ادارہ بورنگ مافیا کے خلاف ایکشن لے ہی نہیں سکتا۔ ہم نے کئی دفعہ 'کریک ڈاؤن' کیا، لیکن پھر انڈسٹری کا پانی بند ہوتا ہے، واٹر بورڈ مجبور ہے کہ اس کے پاس انڈسٹری کو دینے کے لیے پانی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ 'مافیا' روز بروز پنپ رہا ہے، جو بغیر ٹیکس دیے روزانہ کروڑوں روپے کما رہا ہے۔
واٹر بورڈ آفیسر موہن لال سے جب ہم نے الطاف بریلوی روڈ پر سڑک کے درمیان رواں دواں پانی کی قوی ہیکل دو لائنوں کی بات کی، تو انھوں نے اسے 'بورنگ کی لائن' قرار دیا کہ عدالت میں بات ہوئی تھی کہ سائٹ کی 40 ملین گیلن یومیہ کی طلب ہے، ہم تین چار ملین گیلن دے پا رہے ہیں، تو انھوں نے اِس 'بورنگ' کے پانی کی اجازت لی۔
''اتنی لمبی لائن۔۔۔؟ جہاں پانی چاہیے وہیں بورنگ کیوں نہیں کراتے؟'' تو وہ بولے کہ ندی کے کنارے پانی اچھا ہوتا ہے۔
جب ہم نے خود جا کر دیکھا، تو 18 اور 20 انچ کی دو قوی ہیکل لائنیں براہ راست ناظم آباد کے لیے قائم واٹر ٹینک سے نکل کر سامنے سڑک تک آرہی تھیں، اور پھر سڑک کے درمیان سے سائٹ یا بلدیہ کی سمت رواں دواں تھیں۔ یقیناً میٹھے پانی کے ٹینک سے نکلنے والی یہ لائنیں بورنگ کی نہیں ہو سکتیں۔ (دونوں تصاویر اوپر دیکھی جاسکتی ہیں) اس کے لیے واٹر بورڈ کو دوبارہ یہ سوال بھیجتے رہے، لیکن کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
ہائیڈرنٹ ختم کیوں نہیں کردیے جاتے۔۔۔؟
کراچی میں ایک اندازے کے مطابق سالانہ 45 ارب روپے ٹینکر مافیا کے حصے میں آتے ہیں۔ آٹھ نومبر 2018ء کو 'سماء نیوز' کے پروگرام میں اس وقت کے وفاقی وزیر پانی وبجلی فیصل واوڈا نے انکشاف کیا تھا کہ کراچی میں غیرقانونی ہائیڈرینٹ کی ڈیڑھ سے ڈھائی کروڑ روپے یومیہ کی آمدن ہے۔ انھوں نے واٹر بورڈ کو ایک مافیا قرار دیا اور بہت عزم ظاہر کیا کہ وہ ہائیڈرنٹ توڑ دیں گے۔
اسٹاف آفیسر ایم ڈی موہن لال کسی بھی 'غیرقانونی' ہائیڈرنٹ کی موجودگی سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عدالتی حکم کے مطابق ہر ضلعے میں صرف ایک ہائیڈرنٹ ہے، کراچی کے ساتویں ضلعے کیماڑی کا ابھی نہیں بنا، ساتواں ہائیڈرنٹ 'این ایل سی' (نیشنل لوجسٹک سیل) کا ہے۔ ہم نے اپنے ذرایع سے ملنے والے 40 غیرقانونی ہائیڈرنٹ کا ذکر کیا، تو انھوں نے تردید کی اور کہا کہ پہلے 100 کے قریب تھے، وہ سب مسمار کر دیے۔ ہم نے اپنے ہائیڈرنٹ کی تفصیل سارے 'اے ایس پیز' کو دی ہے، کیوں کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ غیرقانونی ہائیڈرنٹ کی صورت میں وہاں کا 'ایس ایچ او' اور 'ایس پی' ذمہ دار ہوگا۔ ہمارے علم میں ایسا جو بھی ہائیڈرنٹ آتا ہے، ہم فوری گرا دیتے ہیں۔
'واٹر بورڈ' کی فراہم کردہ تفصیل کے مطابق سخی حسن ہائیڈرنٹ (سخی حسن چورنگی نزد ڈی سی آفس)، لانڈھی (فیوچر کالونی پمپنگ اسٹیشن، لانڈھی)، صفورہ ہائیڈرینٹ (ملیر کینٹ، نزد ریس کورس گرائونڈ)، شیر پائو ہائیڈرنٹ (عقب اولڈ پپری اور اسٹیل ٹائون، رشین کالونی)، کرش پلانٹ (منگھوپیر روڈ)، نیپا ہائیڈرنٹ (گلشن اقبال بلاک 6) اس کے قائم کردہ ہیں، جو مختلف فرموں کے پاس ہیں۔
اب ہمارے ذہن میں یہ سوال تھا کہ جب 'واٹر بورڈ' کی ذمہ داری لائنوں میں پانی فراہمی کی ہے، تو آخر یہ چھے ہائیڈرنٹ کیوں۔۔۔؟ موہن لال کہتے ہیں کہ یہ ان لوگوں کے لیے ہیں، جو پمپنگ اسٹیشن سے دور رہتے ہیں، ڈیفینس یا شیریں جناح کالونی۔۔۔
ہم نے کہا یہ پانی لائن کے ذریعے پہنچائیے، تو کہنے لگے کہ یہ کُل پانی کا چار ساڑھے چار فی صد (18 ملین گیلن) ہے، وہاں باقاعدہ اس کے میٹر نصب ہیں، جس پر نیب بھی کبھی چیک کرتی ہے۔ اگر لائن میں شامل کردیں، تو کوئی فرق نہیں پڑے گا، اور 'ٹیل اینڈ' پر جہاں پانی نہیں پہنچ پا رہا، انھیں پریشانی ہوگی۔ ہم نے کہا اتنے الزامات ہیں کہ ٹینکر کی وجہ سے ہی ساری قلت پیدا کی جاتی ہے، تو انھیں ایک دفعہ ختم کر ہی ڈالیے، تو وہ کہتے ہیں کہ یہ تاثر غلط ہے، ہمیں ہائیڈرنٹ کا کوئی شوق نہیں، ہمیں حکومت کہے، تو ہم کل کے بہ جائے آج ہی ختم کر دیں۔
موہن لال ہائیڈرنٹ کی 12 انچ کی لائن اور 20 سے 24 گھنٹے پانی کی فراہمی کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چار انچ تک کی ایک لائن ہے اور انھیں معاہدے کے مطابق 18 گھنٹے پانی دیا جاتا ہے۔''ہائیڈرنٹ میں کبھی قلت کیوں نہیں ہوتی؟'' اس سوال پر بھی انھوں نے دوبارہ صرف 18 ملین گیلن یومیہ پانی کا تذکرہ کیا۔ اس حوالے سے محسن رضا (جنرل سیکریٹری پیپلز یونین، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ) کہتے ہیں بلدیہ، اورنگی، لانڈھی، نرسری، پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی، گلستانِ جوہر وغیرہ میں 'واٹر بورڈ' کے افسران کی ملی بھگت سے پانی کامصنوعی بحران پیدا کیا جاتا ہے اور 'ٹینکر مافیا' سے سازباز کرکے پانی بیچا جاتا ہے۔
واٹر بورڈ کے دیگر 'ذرایع' نے ہمیں بتایا کہ ''دراصل ہائیڈرنٹ مافیا پانی کا بحران دور کرنے نہیں دیتے، شہر میں آج بھی نہ صرف غیرقانونی ہائیڈرنٹ موجود ہیں، بلکہ واٹر بورڈ کی بڑی لائن میں جھاڑیوں کی آڑ میں نقب لگا کر ٹینکر بھی بھرے جا رہے ہیں۔ 'ہائیڈرنٹ مافیا' نے پیسے لگائے ہوئے ہیں، وہ باقاعدہ بحران پیدا کراتے ہیں اور اس میں ہر ایک کا حصہ ہے، اسے کوئی بند نہیں کرا سکتا۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جن کا نام لیتے ہوئے لوگ گھبراتے ہیں۔ ٹینکر خریدنے پر مجبور گلشن اقبال اور گلبرگ بھی کیا 'ٹیل اینڈ' ہیں۔۔۔؟
ہائیڈرنٹ کو 12 انچ کی لائنیں دی گئی ہیں، کسی کے پاس دو، دو لائنیں بھی ہیں۔ ان سے معاہدے کے تحت 12 سے 14 گھنٹے کا وقت ہے، لیکن عملاً انھیں 20 سے 24 گھنٹے فراہمی کی جاتی ہے۔ اس میں صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ کے خاص آدمی نعمت اللہ مہر اور شکیل مہر کا ہاتھ ہے۔'' ہم نے موہن لال سے ان اشخاص کا پوچھا، تو انھوں نے بتایا کہ ''نعمت اللہ مہر ہائیڈرنٹ سیل کے انچارج ہیں، جب کہ شکیل مہر کا ہمارے ادارے سے کوئی تعلق نہیں، وہ 'سب سوائل واٹر' کے آپریٹر ہیں۔''
اپریل 2021ء کو ایک خبری چینل کی ویب سائٹ پر شایع ہونے والی فواد احمد کی رپورٹ کے مطابق ہائیڈرینٹ کو فراہم کیا جانے والا پانی شہر کو ملنے والے کْل پانی کا تقریباً 20 فی صد ہے۔ کبھی بڑے بڑے ٹینکر 'ہائیڈرینٹ' سے پانی بھر کر مختلف علاقوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہاں 'نجی ٹینکر سروس' کے نام پر من پسند قیمت پر لوگوں کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے خریدار زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں فوری ٹینکر مطلوب ہوتا ہے۔
٭ ٹینکر اور ہائیڈرنٹ کی 'شروعات'
کراچی واٹربورڈ کے 'ذرایع' نے ٹینکر کی شروعات کے حوالے سے ہمیں جو معلومات فراہم کیں، اس کے مطابق واٹر بورڈ کا 'ڈی ایچ اے' سے 27 ملین گیلن یومیہ کا معاہدہ تھا، جسے پورا نہ کرسکے، تو پھر ٹینکر سے ازالہ کیا گیا، کیوں کہ پہلے 'واٹر بورڈ' پانی اور لانے کے اخراجات خود ادا کرتا تھا۔ یہ 'گورنمنٹ سپلائی' کہلاتی تھی۔ دراصل شہر کے صاحب ثروت علاقوں اور صنعتوں کو پانی کا بحران کر کے یہ 'ٹیسٹ' کیا گیا۔۔۔ اس سے 'پرائیویٹ ٹینکر' کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ اور یہ سلسلہ بڑھتا گیا۔
1990ء کی کی دہائی میں مسلم آباد ہائیڈرنٹ رینجرز نے اپنی تحویل میں لیا کہ یہاں سے پیسہ 'ایم کیو ایم' کو جاتا ہے۔ اس کے بعد ٹینکر کے چارجز لیے جانے شروع ہوئے، پھر ضلعی حکومتوں کے زمانے میں یہ ہائیڈرنٹ واپس ہوگئے۔ محسن رضا کہتے ہیں کہ 1999ء میں ٹینکر سپلائی پاکستان رینجرز کے پاس تھی، تو شہریوں سے سروس چارجز وصول کیے جانے لگے۔
2006ء میں ٹینکر سروس دوبارہ 'واٹر بورڈ' نے لی اور سروس چارجز کی وصولی بھی شروع کر دی گئی۔ اُس وقت شہر کے 18 ٹاؤن میں 23 ہائیڈرنٹ قائم کیے گئے اور ٹاؤن ایڈمنسٹریشن کے نام پر کمپیوٹرائزڈ بلنگ میٹر کے ذریعے کی جاتی تھی، مختلف ٹاؤن پر اس وقت تقریباً 50 کروڑ سے زیادہ کے بقایا جات تھے، جو وصول نہیں کیے جا سکے۔ یہ واٹر بورڈ کے بَلک کنزیومر کے ریکارڈ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
اب جو چھے ہائیڈرنٹ ہیں، ان کا بلنگ کا ریکارڈ 'بَلک ڈائریکٹر کے پاس بھی موجود نہیں، نہ کمپیوٹر سے کنزیومر نمبر الاٹ کیا گیا ہے، یعنی بڑے پیمانے پر کرپشن جاری ہے، جب پانی کا بھائو 242 روپے فی ہزار گیلن تھا تو وصولی تقریباً 9 سے 10 کروڑ روپے ہوتی تھی، آج پانی کا بھائو 372 روپے فی ہزار گیلن ہیں، مگر وصولی پانچ سے چھے کروڑ روپے ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف سرکاری اداروں کے اہل کاروں کے گھروں میں بھی بلا معاوضہ پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔
فواد احمد کی رپورٹ کے مطابق 2017ء سے قبل شہر میں تقریباً 90 ہائیڈرنٹ تھے، جن میں 22 کے قریب قانونی اور باقی مافیا کے زیرِانتظام تھے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ضلعی سطح پر صرف ایک ہائیڈرنٹ بنایا جائے، جس کے لیے واٹر بورڈ پانی کے نرخ کا تعین کرے اور تشہیر بھی کرے۔ پھر جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں واٹر کمیشن بنایا گیا، 2017ء میں واٹر کمیشن نے ہر ضلع کے لیے ایک ہائیڈرنٹ والے فیصلے پر عمل کروانا شروع کردیا تھا۔ اس وقت پانی کی فی ہزار گیلن قیمت ایک ہزار روپے ہے، جب کہ ٹینکر 10 کلومیٹر کے دائرے سے باہر ہر کلومیٹر کے 65 روپے فی کلو میٹر کرایہ وصول کرنے کا مجاز ہے۔
٭ کتنے ٹینکر ہیں۔۔۔؟
واٹر بورڈ کے اسٹاف آفیسر موہن لال صاحب ہمارے اس سوال کا جواب دینے سے قاصر تھے کہ واٹر بورڈ کے چھے ہائیڈرنٹ میں کُل کتنے ٹینکر موجود ہوں گے؟ کیوں کہ ہم جب بھی شہر میں نکلتے ہیں، تو بعضے وقت مسافر بسوں سے زیادہ تو پانی کے ٹینکر دندناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔
اس حوالے سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی پیپلز یونین کے جنرل سیکریٹری محسن رضا نے ہمیں بتایا کہ روزانہ 30 ملین گیلن پانی ہائیڈرنٹ سے جاتا ہے اور تقریباً 30 ہزار ٹینکر روزانہ بھرے جاتے ہیں، زیادہ تر ٹینکر ڈیفنس، کلفٹن اور انڈسٹریل ایریا میں پانی سپلائی کرتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر کوٹے میں 200 مفت ٹینکر منظور کیے تھے، اس کی تعداد بڑھتی اور گھٹتی رہتی ہے، یہ وہ ٹینکر ہیں جو ڈپٹی کمشنر کی صوابدید پر فراہم کیے جاتے ہیں۔
سابق ایم ڈی شیخ خالد محمود نے مفت ٹینکر ختم کردیے تھے اور آن لائن بکنگ کا سلسلہ شروع کرایا تھا۔ موجودہ ایم ڈی اسد اللہ خان نے دوبارہ مفت سروس شروع کر دی ہے اور بڑے پیمانے پر 'ڈی سی' کوٹے کے نام پر ٹینکر فروخت ہو رہے ہیں۔ ٹینکر کے
نرخ مندرجہ ذیل ہیں:
ایک ہزار گیلن (1000 روپے سے 1300 روپے)،
دو ہزار گیلن (1400 روپے تا 1820 روپے)،
تین ہزار گیلن (1800 روپے تا 2340 روپے)،
پانچ ہزار گیلن (2500 روپے تا 3250 روپے)۔
کمرشل نرخ:
ایک ہزار گیلن (2000 روپے تا 2600 روپے)،
دو ہزار گیلن (2500 روپے تا 3250 روپے)،
تین ہزار گیلن (3500 روپے تا 4550 روپے)،
پانچ ہزار گیلن (4000 روپے تا 5200 روپے)۔
گھریلو صارفین تقریباً 3 یا سوا تین لاکھ سے سروس چارجز تقریباً 25 سے 30 کروڑ ماہانہ وصول ہو پاتے ہیں۔ یعنی 25 سے 30 فی صد رہائشی صارفین سروس چارجز کی ادائیگی کرتے ہیں۔
٭ 'واٹر بورڈ' کے 'بَلک (Bulk)
صارفین' کا ماجرا۔۔۔
'کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ' کی فراہمیٔ آب کے نظام میں ایک بہت بڑا حصہ بَلک (Bulk) صارفین کا بھی ہے، یعنی جو 'واٹر بورڈ' سے براہ راست تھوک کے حساب سے پانی لیتے ہیں۔ اسٹاف آفیسر موہن لال نے اندازے کے مطابق جب ایسے سات آٹھ ہزار 'دیو قامت صارفین' کا ذکر کیا، تو ہمارے کان کھڑے ہوگئے۔۔۔ ہم نے استفسار کیا کہ کون؟ تو انھوں نے ڈی ایچ اے، کنٹونمنٹ، اسٹیل مل، پی آئی اے، پورٹ قاسم، سمیت کچھ نجی صنعتوں کے نام گنوائے۔
ہم نے پوچھا کہ یہ مقدار تناسب کے حساب سے کتنی بنتی ہے۔۔۔؟ تو انھوں نے بہ مشکل 10 سے 15 فی صد تک کی تصدیق کی اور بتایا کہ بہت سی سوسائٹیوں کو بھی اس طرح پانی فراہم کیا جاتا ہے، جسے آگے وہ خود تقسیم کرتے ہیں۔ 'واٹر بورڈ' کے پانچ 'بَلک' کے پمپنگ اسٹیشن ہیں، جہاں باقاعدہ میٹر نصب ہیں۔ چار سے چھے انچ کے دو کنکشن 'بحریہ ٹائون' کو بھی دیے گئے ہیں۔ ہم نے کہا کہ وہ تو اپنے لیے پانی خود نکال رہے ہیں، تو انھوں نے بتایا کہ اس کے باوجود انھیں تعمیرات اور پینے کے لیے چاہیے ہوتا ہے۔
ہم نے 'واٹر بورڈ' سے 'بَلک' صارفین کی فہرست مع پانی کی مقدار حاصل کرنا چاہی، جو کہ ہمیں فراہم نہیں کی گئی! تاہم محسن رضا (سیکریٹری پیپلز یونین) نے اس حوالے سے انکشاف کیا کہ ''واٹر بورڈ کے نو ہزار 'بلک کنزیومر' ہیں۔ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ 'بَلک' سے کنکشن لیتا ہے اور کراچی کے گوٹھوں اور کچی آبادیوں کو پانی دیتا ہے، ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی، پی آئی اے، پاکستان ریلوے، ایکسپورٹ پروسسنگ زون، پورٹ قاسم، کراچی پورٹ ٹرسٹ، سائٹ لمیٹڈ، بحریہ ٹائون وغیرہ بلک کنزیومر میں شامل ہیں۔
اندرونی فراہمی یہ ادارے خود کرتے ہیں اور پانی کے سروس چارجز بھی وصول کرتے ہیں۔ واٹر بورڈ میں 125 ملین گیلن یومیہ کی بلنگ 'بَلک' صارفین کو کی جاتی ہے، جس سے ماہانہ 50 سے 55 کروڑ روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 11 لاکھ 85 ہزار رہائشی کنکشن ہیں۔'' کراچی کے 678 ملین گیلن یومیہ پانی میں 'بَلک صارفین' کا تناسب تقریباً ساڑھے 18 فی صد بنتا ہے۔
'واٹر بورڈ' سے بڑے پیمانے پر پانی لے کر نجی طور پر بیچنے کے نظام کے حوالے سے واٹر بورڈ 'ذرایع' نے 'ایکسپریس' کو بتایا کہ ''آج کراچی کے تین صنعتی علاقوں (سائٹ، کورنگی اور نارتھ کراچی) میں 'پرائیویٹ مافیا' لائنوں سے پانی فراہم کر رہا ہے۔ واٹر بورڈ کا پانی آگے فروخت نہیں کیا جاسکتا۔۔۔! انھیں یہ اجازت کس نے دی۔۔۔؟ کسی ایک مخصوص شخص کی اتنی طاقت ہے کہ وہ سب کو پانی فراہم کر رہا ہے، اس کے پاس واٹر بورڈ کا پانی بھی ہے اور بورنگ ملا ہوا پانی بھی۔ صنعتوں میں پانی کی کھپَت لاکھوں گیلن ہے، ایک فیکٹری 50 لاکھ گیلن پانی لیتی ہے۔ وہاں اس کی باقاعدہ کمپیوٹرازڈ بلنگ ہوتی ہے۔
'سائٹ' میں 30 سال پہلے 'عَجب خان کا سسٹم' ہوتا تھا، وہ پرائیویٹ سپلائی کا بانی تھا، اب پتا نہیں وہ موجود ہے یا نہیں۔ جب 'واٹر بورڈ' ہے، تو پورے کراچی کا نظام اس کے پاس ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں 'منرل واٹر' والوں کے لیے ایک روپیہ فی لیٹر ٹیکس کی بات ہوئی تھی، لیکن حکومت سندھ اور واٹر بورڈ تاحال کوئی پالیسی نہیں بنا سکے۔''
٭ ''زیر زمین پانی بھی ٹیسٹ کرا کے استعمال کیجیے۔۔۔!''
وفاقی وزیر آبی وسائل مونس الٰہی نے تین ستمبر 2021ء کو اپنی 'ٹوئٹ' میں ملک میں 30 فی صد اموات اور 40 فی صد امراض کا سبب خراب پانی کو قرار دیا ہے۔۔۔! ملک کے نام وَر سرجن ڈاکٹر طاہر شمسی ملک کی آدھی بیماریوں کا سبب پانی سے جوڑتے ہیں، ان بیماریوں میں ہیپاٹائٹس، ٹائیفایڈ، ہیضہ، ملیریا اور ڈینگی وغیرہ شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فراہمی آب کی لائنوں کا پانی کراچی میں کہیں بھی ٹھیک نہیں، 'عالمی ادارہ صحت' اور دیگر اداروں کے مطابق مضر اجزا کی مقدار مقررہ حد سے 10 گنا تک زیادہ ہے۔
یہ پانی ابالنے کے باوجود 10 فی صد جراثیم باقی رہ جاتے ہیں، بوتلوں میں دست یاب زیادہ تر پانی میں بھی کچھ نہ کچھ آلودگی ہے، یہ بھی لازمی نہیں ہے کہ ایک کمپنی کی بوتل ہمیشہ ہی معیاری ہو۔ گندے پانی کی لائنوں سے رساؤ کے سبب 'بورنگ' کا پانی بھی آلودہ ہے، اس لیے 'بورنگ' کرانے کے بعد کسی بڑے اسپتال کی لیبارٹری سے پانی کا 'کلچر' ضرور کرائیں۔ اگر پانی صاف نہ ہو تو مزید گہرائی سے پانی نکالیں۔
ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ڈیولپمنٹ (ہینڈ) کی جنرل مینجر روبینہ جعفری کی 2013ء کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے 28 ذرایع کے پانی کا نمونہ جمع کیا گیا، جس میں ہمیں صرف دو ذرایع ہی محفوظ ملے۔ 86 فی صد پانی کے نمونے کلوروفارم سے مُبرا ملے، سات فی صد پانی میں سوڈیم، سلفائیٹ اور کلورائیڈ مخصوص حد سے تجاوز کرتے ہوئے پائے گئے۔ اسی طرح چار فی صد پانی کے نمونے میں کیلشیم، پوٹاشیم اور بھاری پن پایا گیا، جب کہ 18 فی صد میں آئرن کی زیادتی ملی۔ جس سے جگر اور گردے متاثر ہوتے ہیں۔ آلودہ پانی سے ہیضہ، السر، جلدی خارش جیسی بیماریاں عام ہوتی ہیں، ڈینگی اور ملیریا بھی پانی ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ اموات پانی کی ہی وجہ سے ہوتی ہیں۔ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں ہر ایک ہزار میں سے 101 اموات آلودہ پانی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس رپورٹ کے حوالے سے جب ہم نے روبینہ جعفری سے رابطہ کیا، تو انھوں نے بتایا کہ گذشتہ سات، آٹھ برسوں میں اب صورت حال اس سے بھی بدتر ہو چکی ہے!
گذشتہ ماہ شایع ہونے والی پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز کی تیار کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک کے 29 بڑے شہروں میں کروڑوں افراد آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں، جس میں کراچی میں فراہم کیا جانے والا پانی 93 فی صد آلودہ ہے
۔ محفوظ سطح سے نیچے پانی میں آرسینک کا استعمال صحت سے متعلقہ سنگین پیچیدگیوں کا باعث ہوتا ہے۔ غیرنامیاتی آرسینک کا استعمال جلد کے کینسر کا خطرہ ہوتا ہے۔ مُضرصحت پانی کے حوالے سے 'ایکسپریس' نے واٹر بورڈ حکام کے سامنے سوال رکھا تو وہاں موجود سپرینٹنڈنٹ انجینئر ملیر زاہد کہنے لگے کہ ''لوگ اپنی مرضی سے دوسرا کنکشن لیتے ہیں اور پرانا کنکشن کھلا چھوڑ دیتے ہیں، وہاں سے پانی خراب ہوتا ہے۔
پھر اتنے سارے 'سَکشن پمپ' چلتے ہیں تو پھر لائن پر اثر پڑتا ہے۔ اگر آدھے ہارس پاور کی 200 موٹرین چلیں، تو اس کا مطلب ہے 100 ایچ پی کی ایک موٹر چل رہی ہے، یہ بہت زیادہ دبائو ہوتا ہے جس سے لائن چُوک ہوتی ہے اور گندا پانی شامل ہوتا ہے۔'' ہم نے کہا 'نکاسیٔ آب' بھی تو آپ ہی کی ذمہ داری ہے، تو بولے کہ اس کے لیے کھربوں روپیا چاہیے، حکومت کتنا دے گی؟ ابھی 'بلدیۂ کراچی' نے نالا صاف کرتے ہوئے ہماری 33 انچ کی لائن 'پنکچر' کر دی۔
اب جب لائن میں پانی نہیں ہوگا، اور لوگ پانی کھینچیں گے، تو یہی گندا پانی جائے گا۔ ہم نے کہا پانی کی لائن نالے سے نہ گزاریں، تو انھوں نے بتایا کہ نالا راستے میں آتا ہے تو لے جانی پڑتی ہے۔ ہم نے 'فراہمیٔ آب' کی لائنوں کو گزارے کے لائق بنانے کے لیے درکار سرمائے کی لاگت پوچھی تو انھوں نے کوئی واضح رقم بتانے سے گریز کیا اور کہا کہ ہم کوئی بھی لائن خراب ہونے پر فوری کارروائی کرتے ہیں، لائن پھٹنے کی صورت میں متعلقہ والو فوری بند کیا جاتا ہے، بڑے پیمانے پر پانی بہنے کا سبب لائن میں جمع شدہ پانی کا رسائو ہوتا ہے۔
کراچی میں 'کلورین' نہ ملائے جانے کی وجہ سے آئے دن 'نیگلیریا' کی وجہ سے جانیں ضایع ہوتی ہیں۔ یہ جرثومہ ناک سے انسان کے دماغ میں پہنچ کر اسے نقصان پہنچاتا ہے۔ پانی کی ٹریٹمنٹ کے حوالے سے موہن لال بتاتے ہیں کہ پپری، سی او ڈی، جنوب مشرقی کراچی اور حَب وغیرہ پر فلٹر پلانٹ ہیں۔ باقاعدہ 'کلورنشن' کا نظام ہے، لیبارٹری ہے۔ پانی کے معیار کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ لوگوں کی ٹنکیوں میں بھی مسئلے ہوتے ہیں، لوگ پانی دیکھنے کے لیے ٹینک کے ڈھکنے کھولتے ہیں، یا کہیں ہماری لائن میں رسائو ہوتا ہے، تو جہاں 'کلورین' کو آکسیجین ملتی ہے، وہ ختم ہو جاتی ہے۔
وہ 'کے فور' کی لائن کیا ہوئی۔۔۔؟
پانی کو ترستے ہوئے کراچی والوں کے لیے 'کے فور' کا منصوبہ کسی 'مسئلہ کشمیر' کی طرح گنجلک ہو چکا ہے۔۔۔ پرویز مشرف کے دور میں شروع ہونے والے اس عظیم منصوبے کے کھٹائی میں پڑنے کا معاملہ بھی ایسا پیچیدہ ہے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ منصوبہ کون، کب اور کیسے پورا کرے گا۔۔۔؟ یو آر سی (اربن ریسورس پروگرام) کی 'کے فور' کے حوالے سے 2020ء کی مطبوعہ رپورٹ میں ایک نجی چینل کی ویب ایڈیٹر ماہم مہر بتاتی ہیں کہ پہلے 'کے فور' کا کام عثمانی اینڈ کمپنی کو دیا گیا۔ 'کے فور' پورا ایک ماحولیاتی نظام ہے۔ کینجھر جھیل سے نارتھ کراچی تک پانی لانا چاہتے ہیں، تو ایک نہر (کینال) بنا لیتے ہیں۔
اب وہ پانی کہیں پمپ کرے گا اور کہیں گریویٹی کرنی پڑے گی۔ پمپنگ کے لیے 'پمپ ہاؤس' بنانا پڑے گا، جس کے لیے بجلی، اور بجلی کے لیے پاور پلانٹ لگانا ہوگا۔ پاور پلانٹ کے لیے آپ کو عملہ اور عملے کے لیے رہائش و سہولتیں درکار ہوں گی۔ نہر کے دوسری طرف جانے کے لیے پُل بنانا ہوگا۔ واٹربورڈ والوں نے کہا جو کنسلٹنٹ ہے، وہ یہ تمام چیزیں مطالعہ کرے گا، ڈیزائن کرے گا اور اسے اس منصوبے کے لیے زمین خریدنی پڑے گی، 'فلٹریشن پلانٹ' کی تنصیب کے بعد آخری مرحلہ اسے واٹر بورڈ کے نظام میں داخل کرنا ہے۔
'عثمانی اینڈ کمپنی' ابتدائی طور پر 33 ملین روپے لیتی ہے، اور اس کام میں دو سال لگا دیتی ہے۔ 2005 میں وہ کام شروع کرتے ہیں اور 2007ء تک عثمانی اینڈ کمپنی نے اپنے کام یعنی 'کے فور' منصوبے کو پہلی شکل دی ہے۔ یہ 'واٹر بورڈ' اور حکومت سندھ کے سامنے آٹھ 'روٹس' (Routs) رکھتے ہیں، جس میں سے آٹھواں رُوٹ منظور ہوجاتا ہے، پھر مطالعہ اور کاغذی کارروائی کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے کہا کہ ہم ایک کے بہ جائے پہلے 260 ملین گیلن یومیہ کی اور پھر 260 ملین گیلن یومیہ کی نہریں بنائیں گے۔ پھر 130ملین گیلن یومیہ کی تیسری نہر بنائیں گے۔ واٹر بورڈ کو نہروں کے لیے زمین خریدنی ہے، خیال ہے کہ وہ پٹی جس سے نہر گزرے گی، وہ ایک ہزار فٹ لمبی ہوگی۔
'عثمانی اینڈ کمپنی' 2011ء میں واٹر بورڈ کو کہتے ہیں 29 بلین کا منصوبہ ہے۔ یہ منصوبہ مختلف مراحل سے ہوتا ہوا اسلام آباد آجاتا ہے۔ اسلام آباد والے کہتے ہیں کہ 29 بلین میں تو نہیں کریں گے، پھر یہ طے ہوتا ہے کہ 25 بلین روپے میں بنے گا، لیکن درمیان میں کیا ہوا ہمیں کچھ علم نہیں۔ 2014ء میں 'ایکنک' EXECUTIVE COMMITTEE OF THE NATIONAL ECONOMIC COUNCIL (ECNEC) کی منظوری آ جاتی ہے۔ 2016 میں حکومت سندھ کی ایما پر 2016ء میں 'ایف ڈبلیو او' (Frontier Works Organization) کو 25 بلین میں دے دیا گیا۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ اس کا ڈیزائن تو 2007ء کی طرز پر ہے اور 2016ء میں اب تو یہ 42 بلین پر جا رہا ہے۔
یہیں سے کام رک جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ اتنے پیسے نہیں ہیں۔ پھر کہا جاتا ہے کہ اچھا باقی چیزیں چھوڑ دو، پہلے نہر بنا لیتے ہیں۔ مطلب پاور پلانٹ، ڈیم، سڑکیں اور پُل چھوڑ دیجیے، کیوں کہ یہ مہنگا پڑ رہا ہے، اسی لیے اسے بعد میں بنالیں گے۔ اب پیکیج A اورB تعین کیے جاتے ہیں۔ 'کے فور' پیکیج A اور B دونوں میں شامل ہوتا ہے اور 'ایف ڈبلیو او' کو کہا جاتا ہے کہ 18 بلین میں یہ کام کیا جائے۔ 'ایف ڈبلیو او' کھدائی کا کام شروع کر دیتی ہے۔
2018 کے آخر میں 'ایف ڈبلیو او' کے ڈائریکٹر جنرل انعام حیدر ملک وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان تینوں نہروں یعنی 260, 260 اور 130 والی نہروں کے بہ جائے ایک ہی جو 260 کھود چکے ہیں اسی کو 650 کر لیتے ہیں۔ یہ سب 2018ء کے آخر میں ہوتا ہے۔ 2019 میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ مطالبہ کرتے ہیں کہ 'نیس پاک' (Nespak) کو اس ڈیزائن کو چیک کرنا ہے۔ 17 سال بعد وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ 'کے فور' بن نہیں رہا ہے اور 'عثمانی اینڈ کمپنی' کے ڈیزائن کو انجنیئر اپنی آزاد حیثیت میں چیک کریں گے۔ 'نیس پاک' کی رپورٹ میں یہی بات نکل کر آتی ہے کہ اسے عثمانی اینڈ کمپنی نے صحیح طرح ڈیزائن ہی نہیں کیا۔
'کے فور' کے لیے روٹ نمبر 8 کا انتخاب کیا گیا، جب نہر بناتے ہیں تو کھدائی بھی کرنی ہوتی ہے، ابھری ہوئی سطح کو برابر بھی کرنا ہوتا ہے اور جہاں گڑھا آ رہا ہے اسے بھرائی کے بعد ہموار کرنا ہوتا ہے، اگر پہاڑی علاقے میں نہر بنائیں گے تو نیچے اوپر کام کرنا ہوگا اس کی کٹائی اور بھرائی دونوں ہی ساتھ ساتھ چلیں گی۔ اب روٹ 8 کو جب جا کر دیکھا، تو وہ زمین بالکل ایک پہاڑی علاقے جیسی اونچی نیچی تھی۔ زمین کا مسئلہ اپنی جگہ تھا۔ معلوم نہیں روٹ 8 کا انتخاب کیوں ہوا۔ یہ بھی بتا دوں کہ یہ روٹ 'بحریہ ٹاؤن' سے گزر رہا ہے اور آگے 'ڈی ایچ اے سٹی' سے ملے گا۔
واٹر بورڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر اسد اﷲ خاں نے ایک لائن نکالی ہے، جس سے 8 ہزار سو گیلن پانی روزانہ 'بحریہ ٹائون کو دے رہے ہیں، لیکن ابھی تک یہ نہیں معلوم کہ 'کے فور' کے لیے 'بحریہ سٹی' نے پانی کے کوٹے کے لیے درخواست دی ہے یا نہیں۔ 'ڈی ایچ اے سٹی' کی ویب سائٹ پر لکھا ہوا ہے کہ 'کے فور' بن رہا ہے، جس سے 32 ایم جی ڈی مل جائے گا۔ جو پس منظر میں انجینیئر ہیں، میری ان سے بات ہوئی انھوں نے کہا کہ اگر 'بحریہ ٹائون' اور ملک ریاض نہیں آتے، تو 'کے فور' منصوبے کے پہیے نہیں چلتے۔ زمین کا ڈیزائن، رُوٹ کا انتخاب ان سب کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
'اربن ریسورس سینٹر' کی اسی رپورٹ میں سابق چیف انجینئر انجینیئر گلزار میمن کہتے ہیں کہ ''عثمانی اینڈ کمپنی' نے چھے، سات ماہ لگا کر اس کی فزیبلیٹی تیار کی۔ چوں کہ اسے پیسے نہیں ملے، لہٰذا اس نے کام کو 2009ء میں درمیان میں چھوڑ دیا۔ 'عثمانی اینڈ کمپنی' کی ادائیگی کے لیے کچھ دبائو ڈالا گیا کچھ نہ کچھ پیسے انھیں مل گئے۔ اس وقت میں ریٹائر ہوچکا تھا۔ فزیبلیٹی رپورٹ مل گئی اور منظور بھی ہوگئی بلکہ اس کے ٹینڈر کھولنے کی بات ہوئی۔ 2011ء میں 'پی سی ون بن' چکی تھی، اس کی پہلی پی سی ون 25 بلین کی منظور ہوئی تھی۔ PWDP یعنی Provincial Working Development Path اس کے اوپر CDWP(Central Development Working Party ) ہوتی ہے۔
سب جگہوں سے یہ منظور ہو کر آیا اور 'عثمانی' نے اس کی ڈیزائننگ شروع کردی۔ 2014ء میں اس کی ڈیزائننگ منظور ہوگئی اور 2014ء میں بغیر کسی ٹینڈرنگ کے اتنا بڑا ٹینڈر 'ایف ڈبلیو او' کو دینا سراسر غلط تھا۔ 2016ء سے 2018ء تک یہ ہوا، 'ایف ڈبلیو او' نے دو کنسلٹنٹ اپنے تعینات کرلیے۔ ان کے ڈیزائن آگئے ، عثمانی اینڈ کمپنی کی ٹیکنیکل اسسمنٹ میرے پاس ہے، ڈاکٹر بشیر لاکھانی کہتے ہیں کہ میں آپ کو یہ پانچ سال میں پورا کر کے دوں گا ، بشرطے کہ پورا کام مجھے دیا جائے۔''
ہم نے واٹر بورڈ کے اسٹاف آفیسر موہن لال سے 'کے فور' کے 'رُوٹ' میں تبدیلی کے بابت دریافت کیا، تو وہ ناواقفیت کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے کہ 'روٹ' تو منظور شدہ تھا اسی پر کام ہوا، اب یہ 'واپڈا' نے لے لیا ہے، تفصیل وہی بتائیں گے۔ ہم نے صوبائی مشیر وقار مہدی کے پچھلے سال ہمیں دیے گئے انٹرویو کا حوالہ دیا کہ انھوں نے تو کہا تھا کہ ''اس کے راستے میں قانونی رکاوٹیں آگئی تھیں۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ یہ 'بحریہ ٹائون' کے لیے کیا گیا ہے، وہ بولے کہ جب تشکیل ہوا تو 'ڈی ایچ اے سٹی' اور 'بحریہ ٹائون' کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ ہم نے کہا منصوبہ تو موجود ہوگا، تو وہ کہتے ہیں 2006-07ء میں تو نہیں ہوگا، یہ مصطفیٰ کمال کے دور میں فائنل ہوا، اس کے بعد میرے خیال میں اس کا راستہ تبدیل نہیں ہوا۔
صوبائی مشیر وقار مہدی نے 'ایکسپریس' کے لیے دیے گئے اپنے انٹرویو میں 'کے فور' کے حوالے سے بتایا تھا کہ ''2015-16ء میں وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے وفاق کے ساتھ آدھے آدھے تعاون پر معاملہ طے کرایا۔'' اب صورت حال یہ ہے کہ دو فرروری 2021ء کو وفاق نے خود یہ منصوبہ مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزارت پانی وبجلی اسے 2023ء تک مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ اب دیکھیے 'کیا گزرے ہے قطرے پہ گہُر ہونے تک۔۔۔!''