افغانستان میں عبوری حکومت کا اعلان

افغان طالبان ایسی حکومت قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں جو بین الاقوامی سطح پر قابل قبول ہو۔

افغان طالبان ایسی حکومت قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں جو بین الاقوامی سطح پر قابل قبول ہو۔ فوٹو: فائل

افغان طالبان نے افغانستان کی نئی عبوری حکومت کا اعلان کر دیا ہے، ملا محمد حسن اخوند وزیراعظم، ملا عبدالغنی برادر اور مولوی عبدالسلام حنفی دونوں نائب وزیراعظم ہونگے۔

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک عبوری سیٹ اپ ہے جسے فی الوقت ملکی معاملات چلانے کے لیے قائم کیا گیا ہے، دنیا کے تمام ممالک سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں، امریکا کے ساتھ بھی جس نے ہمارے ساتھ جنگ کی۔

افغانستان کے معاملات میں پاکستان کی مبینہ مداخلت کے الزام اور طالبان کو مبینہ پاکستانی حمایت کے بارے میں اْنھوں نے کہا کہ یہ ایک پروپیگنڈا ہے اور وہ اسے رد کرتے ہیں۔ اس بات کو ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان ہماری مدد کر رہا ہے۔

بلاشبہ یہ بات انتہائی خوش آیند ہے کہ افغانستان میں حکومت سازی کے ضمن میں ایک عبوری حکومت کے قیام کا بروقت اعلان منظر عام پر آیا ہے ، سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ افغان طالبان کے ترجمان نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں پاکستان کے خلاف جاری پروپیگنڈے کی نفی کردی ہے۔ پاکستان پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ افغانستان کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول پر سختی سے کاربند رہے گا کیونکہ پاکستان اپنے پڑوس میں امن و استحکام چاہتا ہے اور سیاسی تصفیے میں سہولت کاری کے لیے عالمی برادری اور افغان اسٹیک ہولڈرز سے مل کر کام کرے گا۔

افغانستان کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کا بتدریج خاتمہ ہورہا ہے۔ حقیقت یہ ہے طالبان کے کسی بھی قسم کے بین الاقوامی عزائم نہیں ہیں بلکہ وہ اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں ۔ افغانستان کی سرحدیں پاکستان، ایران، چین، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان سے ملتی ہیں اور یہ سب اس کے حالات سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔

دراصل افغان طالبان ایسی حکومت قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں جو بین الاقوامی سطح پر قابل قبول ہو، جو پابندیاں ختم کروانے میں کامیاب ہوجائے اور امدادی رقوم کی ترسیل شروع کروا سکے اور بیرون ملک پڑے افغانستان کے اربوں ڈالر حاصل کرسکے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ مستقبل قریب میں اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکیں گے؟

افغان طالبان کے لیے مختلف مسائل، مشکلات اور ملکی اور بین الاقوامی تقاضوں کے پیش نظر ایک فعال اور قابل قبول حکومت قائم کرنا آسان نہیں ہے، گو افغان طالبان نے ماضی کے برعکس اس بار نرمی، رواداری، معافی، عوام سے حسن سلوک، سہولیات کی فراہمی اور جامع حکومت کے وعدے کیے ہیں۔

وہ دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں مگر بڑھتی ہوئی غربت، بے روزگاری، خراب معیشت، بدامنی کا خوف، ملک کا انتظام چلانے کے لیے ماہرین کی شدید قلت، نقد رقوم کی کمی، افغانستان پر عائد پابندیاں اور افغانستان کی تمام قوموں، عالمی مالیاتی اداروں اور مغرب کو قابل قبول حکومت کا قیام ان کے سامنے بڑے چیلنج ہیں۔

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے اور ایک ماہ بعد قحط اور ایک خوفناک انسانی بحران کا خدشہ ہے۔ امریکا نے اپنے فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک میں پڑے افغانستان کے تقریباً7.7بلین ڈالر منجمد کر دیے ہیں اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے اس فنڈ کی ترسیل سے انکار کر دیا ہے جو افغانستان کو کورونا وباء سے نمٹنے کے لیے ملنا تھا۔

بین الاقوامی امداد کے بغیر نچلے درجے کے افغان سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنا ناممکن ہو جائے گا، جب کہ دوسری جانب امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا کہ طالبان کو تسلیم کرنے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت کے قیام کے بعد امریکی صدر کا یہ پہلا بیان ہے۔


فی الوقت امریکا نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس نے فی الوقت افغانستان کی اربوں ڈالر کی وہ رقوم بھی جاری نہ کرنے کا اعلان کیا ہے جو امریکی بینکوں میں جمع ہیں۔

دوسری جانب روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ افغان حکومت کی تقریب حلف برداری میں شرکت اور طالبان حکومت کی معاونت صرف اسی صورت میں کریں گے جب حکومت سازی میں تمام دھڑوں کو شامل کیا جائے گا۔ اس دوران امریکی وزارت خارجہ نے طالبان کی نئی حکومت کے بارے میں کہا کہ ابھی وہ اس کا تجزیہ کر رہی ہے، تاہم ایک بیان میں کابینہ میں بعض ایسے افراد کی شمولیت پر تشویش کا بھی اظہار کیا گیا جو ماضی میں امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کو مطلوب رہے ہیں۔

تاریخ کے اوراق پلٹیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کسی بین الافغان معاہدے سے قبل 1988 میں بھی امریکا نے افغان مسئلہ سے ہاتھ کھینچ لیے تھے اور افغانوں اور ان کے پڑوسیوں کو خانہ جنگی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا تھا اور وہی غلطی وہ اب دوبارہ کر چکا ہے۔ تب وہ جلد بازی سے جنیوا معاہدہ کروا کر افغانستان کو جنگجو گروہوں کے رحم وکرم پر چھوڑ گیا تھا۔

تاریخ کے اس موڑ پر کیا بھارت اپنے سازشی کردار کو ترک کردے گا ، یہ اہم ترین سوال ہے ، ایسا تقریباً ناممکن ہے، لہٰذا پاکستان کے ارباب اختیار اور پالیسی سازوں کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ، کیونکہ بھارت نے کبھی دل سے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ پاکستان کو دولخت کرنے میں بھی بھارت کا ہاتھ تھا ، جب کہ گزشتہ بیس برسوں میں افغانستان کی سرزمین سے جو بھی دہشت گردانہ حملے پاکستان میں ہوئے ان میں بھارت کی خفیہ ایجنسی را ملوث رہی ہے ۔

موجودہ صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد بھارت میں مسلم سیاست دانوں، صحافیوں، علما اور پروفیسروں کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی اور دوسری انتہا پسند پارٹیوں کے ارکان کی نفرت انگیز مہم شروع ہوگئی ہے۔

بھارتی سوشل میڈیا پر پہلے ''پاکستان جا'' اور اب ''افغانستان جا'' کی مہم جاری ہے۔ مسلمانوں کے لیے جس طرح پاکستانی یا 'جہادی' یا آتنک وادی کی اصطلاحات استعمال ہوتی تھیں، اب مسلمانوں کو طالبان ہونے کا طعنہ دیا جارہا ہے۔ اتر پردیش کے ایک مسلمان سیاستدان شفیق الرحمن برق کو افغانستان میں امریکا کے خلاف جدوجہد کو انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی جیسا قرار دینے پر غداری کے الزامات کا سامنا ہے۔ پچھلے سال ''کورونا جہاد'' کی مہم سے تبلیغی جماعت کو ہندوستان میں وائرس پھیلانے کا ذمے دار ٹھہرایا گیا اور '' لو جہاد'' کی مہم کے ذریعے ہندو لڑکیوں کی مسلمان لڑکوں سے شادی کے خلاف تحریک چلائی گئی۔

درحقیقت بھارت کے سازشی کردار اور منفی پروپیگنڈے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان اعتراف کر رہے ہیں کہ امریکا ان پر بھارت کو افغانستان میں کردار ادا کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ امریکا یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان کے چین سے تجارتی اور دوستانہ تعلقات ختم ہو جائیں۔ اس کے لیے بھی پاکستانی حکومت دباؤ میں ہے، مگر امید ہے کہ پاکستان اپنے اور اس خطے کے مفاد میں امریکی دباؤ قبول نہیں کرے گا۔ اس سے پہلے امریکی مفادات کی جنگ میں کود کر پاکستان جانی اور مالی نقصان سے دوچار ہو چکا ہے۔

پرویز مشرف حکومت خدشے کا شکار رہی کہ امریکا پاکستان کو تورا بورا بنا دے گا، مگر اب امریکا افغانستان میں لگنے والے گہرے زخم دیر تک چاٹتا رہے گا۔ بھارت افغانستان میں خانہ جنگی کی آگ بھڑکانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے تاکہ افغانستان سے لاکھوں مہاجرین پاکستان کے لیے معاشی اور امن عامہ کے مسائل پیدا کریں اور یہاں امن قائم نہ ہو سکے جب کہ سی پیک کا منصوبہ کامیاب ہونے کے لیے افغانستان میں امن کا قیام ناگزیر ہے ۔ اس وقت بھارتی میڈیا بھی تمام حدود پھلانگ چکا اور پاکستان کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے میں مصروف ہے۔ بلاشبہ پاکستان افغانستان کی بہتری اور تعمیر و ترقی کو ترجیح دے رہا ہے۔

ہمسائیگی، علاقائی اور عالمی صورتحال کا تقاضا بھی یہی ہے۔ خطے میں امن کے لیے پاکستان نے جانی، مالی قربانیوں کی لازوال تاریخ رقم کی ہے، لہٰذا بھارت کو بھی چاہیے کہ وہ خطے میں امن کے لیے اپنی پرانی سوچ، غیر ذمے دارانہ رویہ ترک کرے۔ ان سطور کے ذریعے صرف اس خواہش کا اظہار کیا جاسکتا ہے کہ بھارت افغانستان میں اپنے منفی اور سازشی کردار سے باز آجائے اور اس حقیقت کا ادراک کرے کہ افغانستان میں امن بھارت سمیت سب کے فائدے میںہے۔ بھارت پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ افغان عوام کو یقین دلائے کہ کابل کے معاملات میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔

پاکستان سمیت تمام علاقائی ممالک نے طالبان کو ایک سیاسی قوت تسلیم کیا ہے، اب یہ ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کوششیں کریں اور یہ یقینی بنائیں کہ افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کی طرف نہ جائے، افغانستان میں امن کے لیے عبوری حکومت قائم ہوچکی ہے، لہٰذا اب افہام وتفہیم سے معاملات کو آگے بڑھایا جائے، عالمی طاقتیں اور اقوام متحدہ پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ افغانستان میں مستقل قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرے ۔
Load Next Story