جلال الدین حقانی کےاہل خانہ کوبلیک لسٹ کرنا دوحہ معاہدےکیخلاف ہےترجمان طالبان
امریکا اشتعال انگیز بیانات افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہیں جس کی مذمت کرتے ہیں، ذبیح اللہ مجاہد
ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ جلال الدین حقانی کے اہل خانہ کو بلیک لسٹ میں شامل رکھنا دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پینٹاگون کی جانب سے افغان کابینہ کے کچھ ارکان جن میں جلال الدین حقانی کے اہل خانہ کو بلیک لسٹ میں رکھے جانے کی نشاندہی کی گئی ہے، اسلامی امارات حقانی خاندان کے افراد کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے کو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی تصور کرتی ہے جو نہ ہی افغانستان اور امریکا کے مفاد میں ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ جلال الدین حقانی کے اہل خانہ اسلامی امارات کا حصہ ہیں، ان کا نہ تو کوئی الگ نام ہے اور نہ ہی الگ تنظیم جب کہ دوحہ معاہدے کے مطابق اسلامی امارات کے تمام ارکان امریکا سے مذاکرات کا حصہ تھے، ان تمام افراد کے نام اقوام متحدہ اور امریکی بلیک لسٹ سے نکال دینے چاہیے تھے جو کہ ہمارا جائز مطالبہ ہے۔
ترجمان طالبان نے کہا کہ امریکا اور دیگر ممالک اس طرح کے اشتعال انگیز بیانات دیکر افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہے ہیں جس کی مذمت کرتے ہیں، اس طرح کے بیانات دیکر امریکا ماضی کے ناکام تجربات کی غلطیاں دہرا رہا ہے جو خود امریکا کے لیے نقصان دہ ہیں لہذا اس طرح کی پالیسی فوری طور پر سفارتی سطح پر تعاون کے ذریعے واپس لی جائیں۔
ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پینٹاگون کی جانب سے افغان کابینہ کے کچھ ارکان جن میں جلال الدین حقانی کے اہل خانہ کو بلیک لسٹ میں رکھے جانے کی نشاندہی کی گئی ہے، اسلامی امارات حقانی خاندان کے افراد کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے کو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی تصور کرتی ہے جو نہ ہی افغانستان اور امریکا کے مفاد میں ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ جلال الدین حقانی کے اہل خانہ اسلامی امارات کا حصہ ہیں، ان کا نہ تو کوئی الگ نام ہے اور نہ ہی الگ تنظیم جب کہ دوحہ معاہدے کے مطابق اسلامی امارات کے تمام ارکان امریکا سے مذاکرات کا حصہ تھے، ان تمام افراد کے نام اقوام متحدہ اور امریکی بلیک لسٹ سے نکال دینے چاہیے تھے جو کہ ہمارا جائز مطالبہ ہے۔
ترجمان طالبان نے کہا کہ امریکا اور دیگر ممالک اس طرح کے اشتعال انگیز بیانات دیکر افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہے ہیں جس کی مذمت کرتے ہیں، اس طرح کے بیانات دیکر امریکا ماضی کے ناکام تجربات کی غلطیاں دہرا رہا ہے جو خود امریکا کے لیے نقصان دہ ہیں لہذا اس طرح کی پالیسی فوری طور پر سفارتی سطح پر تعاون کے ذریعے واپس لی جائیں۔