’’رزق حلال کے لئے محنت میرے لئے ایک اعزاز ہے‘‘

 لاہور میں ریڑھی لگا کر 5 بیٹیوں کا پیٹ بھرنے والی پارس بی بی کی کتّھا

 لاہور میں ریڑھی لگا کر 5 بیٹیوں کا پیٹ بھرنے والی پارس بی بی کی کتّھا ۔ فوٹو : فائل

KARACHI:
محبتیں، نفرتیں، عداوتیں، چاہتیں اور تلخیاں انسانی زندگی کے وہ نشیب و فراز ہیں، جو قدم قدم پر اپنی تمام تر حقیقتوں کے ساتھ موجود ہیں۔

جہاں زندگی خوشیوں اور دل آویز مسکراہٹوں سے مزین ہے، وہیں غموں کے بے رحم موسموں سے بھی آشنا ہے۔ ہم کبھی اپنی زندگی پر رشک کرتے ہیں تو کبھی ماتم، کبھی زندگی کو غموں کے بوجھ سے تعبیر کرتے ہیں تو کبھی خواہشات کے سمندر کو پالینے کو زندگی تصور کرتے ہیں۔ زندگی انسان کو تب ہی بھلی لگتی ہے جب وہ اس میں مقصدیت کو پالے، بصورت دیگر دکھوں کے مارے شخص کے لئے زندگی اپنے معنی ہی کھو بیٹھتی ہے۔

بلاشبہ زندگی ایک ایسا کٹھن سفر ہے، جس دوران بعض اوقات انسان بے بس ہو جاتا ہے، لیکن ایسے میں خود کو سیاہ پہاڑ کی مانند مضبوط ثابت کرنے والے ہی اشرف المخلوقات کا اعزاز اپنے نام کرنے کے حقدار ہیں۔

یہاں ہم آپ کو ایک ایسی ہی شخصیت سے ملوانے جا رہے ہیں، جس کے سر پر اینٹ، گارے کی کوئی چھت ہے نہ باپ، بھائی، شوہر یا بیٹے کا سہارا، 5 بیٹیوں کی کفالت میں خودی کو چکنا چور کرنے والے اس خاتون کے لئے بظاہر زندگی صرف ایک مصیبت کا نام ہے لیکن اس کی ہمت و استقلال نے زندگی کو رات کی رانی کے اس پودے کی مانند بنا دیا ہے، جو اپنی خوشبو سے اندھیری رات کو مہکا دے، یہ دیکھے بغیر کہ وہ کس جگہ یا مقام پر ہے۔

حافظ آباد سے آبائی تعلق رکھنے والی خاتون پارس بی بی کے والد ایک مویشی پال تھے، معاشی ناہمواریوں کے ساتھ 7 بچوں (4بھائی اور 3 بہنیں) کی کفالت کا بوجھ اس خاندان کو غربت کی دلدل میں ہی دھیکلتا رہا۔ ابتر گھریلو حالات کے باعث دنیاوی تعلیم حاصل نہ کر سکنے والے پارس بی بی قرآن پاک سے ضرور بہرہ مند ہیں، تاہم ان کے دل میں دنیاوی تعلیم حاصل نہ کرسکنے کی کسک آج بھی موجود ہے، جس کی تسکین کے لئے وہ اپنی بچیوں کو پڑھانا چاہتی ہیں۔

ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی اس خاتون کو ابتداء سے ہی زندگی صعوبتوں نے گھیر لیا۔ بچپن سے ہی والد کے ساتھ مویشیوں کی دیکھ بھال سے لے کر آج تک وہ محنت اور مشقت کی چکی میں پستی چلی آ رہی ہے۔ پارس بی بی نے اپنی کہانی کچھ یوں شروع کی کہ '' حافظ آباد سے لاہور آئے مجھے 4 سے 5 سال ہوئے ہیں، یہاں میں اپنی بچیوں کے ساتھ بستی سیدن شاہ میں ایک کرائے کے گھر میں مقیم ہوں۔

میری ساری زندگی مشکلات سے ہی عبارت ہے، والد کے گھر تھی تو 13 سال مسلسل میں نے تندور پر روٹیاں لگائیں پھر حالات کی ستم ظریفی لاہور کھینچ لائی، والد کے بعد شوہر اور پھر بھائیوں نے بھی دھتکار دیا، انہوں نے مجھے میری بچیوں سمیت گھر سے نکال دیا اور میں اپنی بچیوںکو اپنے پروں میں لئے لاہور آ گئی، جہاں پہلے پہل میں نے شیرپاؤ پل کے نیچے مکئی کے دانے بھوننے کے لئے چھوٹا سا اڈا بنایا لیکن اس میں گزارا نہ ہوا تو اب نان ٹکی اور پکوڑے سموسے بنا کر فروخت کرنے لگی ہوں۔

میں آج بھی کرائے کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہ رہی ہوں، میری بڑی خواہش ہے کہ کبھی اللہ پاک مجھے بھی اپنی چھت نصیب کرے۔ میں اپنی بچیوں کو لے کر جب لاہور آئی تو شدید بیمار ہو گئی مجھے کالے یرقان کا مرض لاحق ہو گیا اور اس دوران میری بچیاں فورٹرس میں محنت مزدوری کرتی رہیں تاکہ وہ اپنی ماں کا ہاتھ بٹا سکیں تاہم جلد ہی اللہ تعالی نے مجھے شفا عطا کی تو میں نے خود کام شروع کر دیا۔

2000ء میں میری شادی میرے پھوپھی زاد سے ہوئی، لیکن وہ نشے کی لت میں مبتلا تھا اور اس بات کی خبر میرے والد کو پہلے ہی تھے لیکن پھر بھی انہوں نے مجھے اس بھٹّی میں جھونک دیا، ان کا خیال تھا کہ شادی کے بعد وہ ٹھیک ہو جائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا، میرے والد نے تو اسے اپنے گھر میں ہی رکھ لیا تھا لیکن وہ اکثر گھر سا بھاگ جاتا اور کئی کئی مہینے واپس نہ لوٹتا، اس دوران میں 5 بچیوں کی ماں بن گئی لیکن وہ باپ نہ بن سکا کیوں کہ اس نے اپنے کندھوں پر کبھی کوئی ذمہ داری ہی نہیں لی، گھر میں ہر وقت لڑائی جھگڑے اور نشے کی لت نے حالات کو اس نہج تک پہنچا دیا کہ ہمارے درمیان طلاق ہو گئی۔


میں ہی اپنی بچیوں کو پال رہی ہوں۔ میری 5 بیٹیاں ہیں بیٹا کوئی نہیں، سب سے چھوٹی بیٹی 5 سال کی ہے۔ میں خود تو نہ پڑ سکی لیکن میں نے اپنی ساری بچیوں کو تعلیم دلوانے کی کوشش کی، میری بڑی بیٹی نے 12 جماعت تک تعلیم حاصل کی جبکہ دوسری میٹرک پاس ہی کر سکیں کیوں کہ اپنے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے اپنی دونوں بڑی بیٹوں کی شادی کر دی۔

ان دونوں سے چھوٹی تینوں بچیاں بھی سکول جا رہی ہیں اور جب تک مجھ میں دم ہیں میں انہیں سکول سے نہیں ہٹاؤں گی۔ اب صرف زندگی کی ایک ہی خواہش ہے کہ میں اپنی بچیوں کو پڑھا لکھا کر معاشرے سے عزت دلواؤں، ان کی شادیوں کے لئے جہیز بناؤں، جہیز ایک بہت بڑی لعنت ہے، جس نے اچھے خاصے گھرانوں کو تباہ کر دیا تو میری جیسی کی اوقات ہی کیا، میں نے اپنی دوبچیوں کی شادی ضرور کی ہے لیکن ان پر بھی کیا بیت رہی ہے۔

یہ میں جانتی ہوں یا میرا رب، میں ان بچیوں کو جہیز نہ دے سکی تو ان کے سسرال والے انہیں پریشان کرتے ہیں، جس کے باعث میری شادی شدہ بچیاں بھی کئی کئی مہینے میرے ہی پاس رہتی ہیں۔ بچیوں کے سسرال والوں نے شادی کے وقت تو کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا لیکن اب وہ جہیز نہ دینے کے باعث بچیوں کو بہت پریشان کرتے ہیں۔ اپنی بچیوں کے لئے بڑے خواب سجا کر رکھے ہیں لیکن افسوس ابھی تک ایک بھی خواب پورا نہیں ہوا''

معاشی حالات کا ذکر کرتے ہوئے محنت کش خاتون کا کہنا تھا کہ ''کرائے کے گھر میں رہتی ہوں لیکن مہنگائی کے اس طوفان میں کرایہ دینا بہت بڑا عذاب بن چکا ہے، کبھی کبھار تو کھانے کے بھی لالے پڑ جاتے ہیں، لیکن میں کبھی پریشان نہیں ہوئی کیوں کہ میں اپنے رب پر بھروسہ کرتی ہوں اور وہ مجھے اور میری بچیوں کو کھلاتا ہے۔

کبھی ایسا ہوا کہ شام یا صبح کا کھانا نہیں تو اللہ رب العزت کسی نہ کسی اپنے بندے کے ہاتھ وہ بھجوا دیتا ہے۔ حالات کی ان سختیوں میں کسی رشتے دار یا حکومتی نمائندے نے کبھی نہیں پوچھا کہ ہم ماں بیٹیوں پر کیا بیت رہی ہے؟ لیکن میں بہت مضبوط ہوں اور الحمداللہ میری بیٹیاں بھی بہت مضبوط ہیں۔ کبھی کبھار میں بہت زیادہ تھک جاتی ہوں یا بیمار ہو جاتی ہوں تو کام پر آنا بہت مشکل ہو جاتا ہے لیکن جب اپنی بچیوں کو چہرہ دیکھتی ہوں، ان کی بھوک دیکھتی ہوں تو خودبخود بازار میں ریڑھی لئے پہنچ جاتی ہوں۔

ان حالات کی وجہ سے کبھی کبھار تو بے اختیار آنسو نکل جاتے ہیں، لیکن میں دنیا کے بجائے اپنے رب کے سامنے شکوہ کناں ہو جاتی ہوں کہ اے میرے رب! مجھ سے ایسا کیا ہو گیا کہ ساری زندگی ہی دکھوں سے بھری پڑی ہے، کوئی پرسان حال نہیں، تن تنہا اس دنیا میں بھٹک رہی ہوں''ریڑھی سے آمدن کے بارے میں پوچھے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ''صبح سے شام تک اس گرمی کے موسم میں آگ کے سامنے جھلسنے کے بعد تقریباً ایک ہزار سے 15 سو روپے کی دیہاڑی لگ جاتی ہے لیکن اس میں میٹریل کا خرچہ بھی شامل ہے۔ منافع بہت کم ہے لیکن یہ کام میرے لئے ایک اعزاز ہے، جو میں ہر صورت برقرار رکھنا چاہتی ہوں۔ میری محنت رزق حلال کے لئے ہے، جو میرے رب کی خوشنودی کا باعث بھی ہے''

ایک عورت ہونے کے ناطے مردوںکی طرح بازار میں ریڑھی لگانے سے کن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا کہ سوال پر گویا ہوئیں کہ '' مجھے اس بازار میں کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا کیوں کہ میں ان سب بازار والوں کا اپنا بھائی یا بیٹا سمجھتی ہوں اور یہ لوگ بھی میرے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں۔

یہاں سب مجھے ماں جی کہہ کر ہی پکارتے ہیں، جو میرے لئے بہت بڑی عزت ہے، آج تک میرے ساتھ کسی نہ کبھی کوئی بدتمیزی کی نہ مجھے کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔میں سمجھتی ہوں میری کوئی عزت نہیں بلکہ میں نے اپنی عزت خود کمائی ہے۔

بازار میں کسی کی اچھی تو کسی کی بری نظر معاشرے کا عام وطیرہ ہے لیکن میں ہر بندے کو عزت دیتی ہوں اور اسے اپنا بھائی یا بیٹا سمجھتی ہوں تو وہ بھی مجھے عزت دیتے ہیں'' غریبوں اور انصاف کے نام پر وجود میں آنے والی تحریک انصاف کی حکوت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ''میں نے عمران خان کو ووٹ دیا کیوں کہ ہمیں لگا تھا کہ یہ ہم جیسے غریبوں کے لئے کچھ کرے گا لیکن افسوسناک خان صاحب کے آنے کے بعد ہمارے حالات پہلے سے زیادہ بدتر ہو گئے۔ اس حکومت نے تو غریبوں کو غرق ہی کر دیا ہے۔

آج میں سوچتی ہوں کہ ان سے تو نواز شریف ہی بہت اچھا تھا، اس کے دور میں اتنی مہنگائی تو نہیں تھی اور وہ کچھ نہ کچھ غریبوں کے لئے کرتا بھی تھا'' آخر میں ''ایکسپریس'' کے توسط سے حکومت اور صاحب حیثیت لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے ایک بے بس و مجبور ماں کا کہنا تھا کہ ''خدارا! ان لوگوں کا بھی سوچیں، جن کے وسیلے سے اللہ رب العزت نے آپ کو یہ عزتیں عطا کی ہیں، جن کے اوپر آپ حکمران ہیں، ان کے دکھوں کا مداوا بھی کرنے کی سعی کریں کہ آپ سب لوگوں کو ایک روز بارگاہ الہی میں پیش ہو کر اس کا جواب دینا ہے کہ میرے جیسی کتنی طلاق یافتہ یا بیوہ خواتین دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی تھیں اور کوئی ہمارا پرسان حال نہ تھا''
Load Next Story