پاکستان کا جوہری عدم پھیلاؤ کے موقف کا اعادہ
جوہری عدم پھیلاؤ کے نظریے نے سروں پرمنڈلاتے خطرات کو روکنے کے لیے، بین الاقوامی کوششوں کے لیے ضروری بنیاد فراہم کی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس ہوا، جس میں نیشنل کمانڈ اتھارٹی نے پاکستان کے اسٹرٹیجک اثاثوں کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے حفاظتی اقدامات پر مکمل اظہاراعتماد کرتے ہوئے دوبارہ اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان ایک ذمے دار ایٹمی ریاست کے طور پر جوہری سلامتی اور جوہری عدم پھیلاؤ کے اقدامات کو بہتر بنانے کی عالمی کوششوں میں معنی خیز کردار ادا کرتا رہے گا۔
اجلاس میں وفاقی وزرا، مسلح افواج کے سربراہان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور ڈی جی آئی ایس آئی نے بھی شرکت کی۔نیشنل کمانڈ اتھارٹی نے روایتی اور اسٹر ٹیجک ڈومینز میں بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی عدم استحکام پر تشویش کا اظہار کیا اوراس بات پر زور دیا کہ پاکستان ہتھیاروں کی دوڑ میں داخل ہوئے بغیر خطے میں اسٹرٹیجک استحکام کو یقینی بنانے کے لیے تمام اقدامات کرے گا۔
بلاشبہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے،جو جوہری عدم پھیلاؤ پر یقین کرتا ہے اوراسلحے کی کسی بھی دوڑ میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔ پاکستانی قیادت نے اپنے موقف کا اعادہ کرکے دنیا اور خطے میں امن کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے، کیونکہ آج کل، جنوبی ایشیاء کو عالمی تجزیہ کاروں نے دنیا کے ایک غیر مستحکم خطے میں درجہ بند کیا ہوا ہے۔
پاکستان کی ایٹمی صلاحیت جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن اور اپنی سلامتی کے لیے ہے لیکن کچھ ایٹمی ممالک نے عدم پھیلاؤ کے اصولوں کے برخلاف امتیازی جوہری معاہدے کر رکھے ہیں۔طاقتور ممالک کا دہرا معیار دوسرے ممالک میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتا ہے۔ اسلحے کی دوتہائی برآمدات دنیا کے چار ممالک کر رہے ہیں۔ طاقتور ممالک دوسروں کو جوہری ہتھیاروں سے پرہیز کی تاکید کرتے ہیں لیکن اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو کم نہیں کرتے۔
درحقیقت دنیا میں اسلحے اور ہتھیاروں کی دوڑ نے عالم انسانیت کے مسائل میں گوناگوں اضافہ کردیا ہے ، دنیا کے اکثرممالک کے بجٹ ایک بہت بڑا حصہ مہلک ہتھیاروں کی تیاری اور جدید جنگی وسازوسامان پر خرچ ہوجاتا ہے، جب کہ دنیا میں بھوک، غربت، افلاس، بے روزگاری، علاج معالجے کی عدم دستیابی بڑھتی جارہی ہے، انسانیت سسک رہی ہے ، جب کہ دوسری جانب جنگی جنون سر پر سوار ہے۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی بے جا نہ ہوگاجب امریکا نے دوسری عالمی جنگ کے دوران دو جاپانی شہروں، ناگا ساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرا ئے تو یک لخت ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے،حالانکہ جاپان ہتھیار پھینکنے پر تیار ہوچکاتھا ۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ مغرب خاص کر امریکا یہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اور ملک ایٹم بم بنائے۔
ہم اس حقیقت سے انکارنہیں کرسکتے کہ ایٹمی اسلحے کی اندھی دوڑ کے نتیجے میں بنی نوع انسان کی بقا کے سنگین مسائل، دفاعی اخراجات میں ہر سال اضافہ اور کرہ ارض پر بچی کھچی زمین جنگلوں، تالابوں اور میدانوں کا انسانی ہوس کے ہاتھوں نیست و نابود ہونا، بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی معاشی آمریت اور ماحولیات کی تباہی کی بدولت بے گھر ہونے والے لاکھوں پناہ گزینوں کی حالت ِزار، یہ سب ایک عام انسان کی بے بسی اور لاچاری کا نوحہ ہے اور اب ہماری بے حسی، خاموشی اور بے عملی نے ہمیں ایسی نوع میں بدل ڈالا ہے کہ جو اپنی تباہی کی خود ذمے دار ہوگی۔
یہ بات با لکل سچ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں پر عالمی پابندی کے بعد قانونی طور پر ایٹم بم بنانا اخلاقی اور قانونی لحاظ سے جرم ہے مگر دوسری طرف بڑی طاقتوں نے ہر قسم کے مہلک ہتھیار بنانے میں کبھی کوئی کمی نہ کی بلکہ ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ کیمیائی ہتھیار بھی بنائے،بلکہ کہا جاتا ہے کہ ایک ایسا بم بھی بنایا جو کہ لوگوں کو مار دیتا ہے،مگر عمارتوں کو نقصان نہیں پہنچاتا۔اس المناک واقعے کے بعد دنیا میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ ایٹمی ہتھیاروں اور اس کے استعمال پر روک لگا کر امن کی طرف بڑھا جائے۔ لہٰذا جوہری عدم پھیلاؤ کے حوالے سے این پی ٹی کے تحت ایک معاہدہ طے پایا۔
اس معاہدے سے بین الاقوامی امن اور سلامتی کو تقویت ملتی ہے اور جوہری ہتھیاروں کے مزید پھیلاؤ کی روک تھام ہوتی ہے۔ امریکی سائنس دانوں کی فیڈریشن کے مطابق، آج 1950 کی دہائی کے بعد دنیا میں جوہری ہتھیاروں کے ذخیروں کی تعداد سب سے کم ہے۔ 5مارچ 1970 کو نافذالعمل ہونے والا اساسی بنیاد کا حامل یہ ایک ایسا عالمی معاہدہ ہے جو دنیا کے ممالک کو جوہری پھیلاؤ کو روکنے کا پابند بناتا ہے۔ تاریخ میں جوہری ہتھیاروں کے بارے میں کسی بھی دوسرے معاہدے کے مقابلے میں اس معاہدے کو سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے۔
این پی ٹی میں شامل ممالک نے چنداقدامات اٹھانے پر اتفاق کیا:1۔جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا۔2۔جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے لیے تعاون کو فروغ دینا۔ 3۔جوہری ہتھیاروں سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ تخفیف اسلحہ کے مذاکرات کی نیک نیتی سے پیروی کرنا۔
پاکستان بحیثیت پرامن ملک تمام عالمی معاہدوںکی پاسداری کررہا ہے جب کہ 1974 کے بعد سے،ہندوستان کے ارادے واضح ہیں کہ وہ کسی بھی قسم کی جدید ٹیکنالوجی، جو پرامن مقاصد کے تحت فراہم کی گئی ہے، کو اپنے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرے گا اور خطے میں تسلط برتنے کے لیے جوہری، خلائی اور میزائل پروگرام سے متعلق کسی بھی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرے گا۔ بھارت نے 1960 کی دہائی میں اپنا ایٹمی پروگرام شروع کر دیا تھا اور 80کی دہائی میں ایٹمی طاقت بن چکا تھا جس کی وجہ سے پاکستان کو مجبوراً اپنے دفاع کی خاطر ایٹمی پروگرام شروع کرنے کی ترغیب ملی۔
یہ حقیقت ہے کہ علاقائی بالادستی کے لیے ہندوستان کا نظریہ، جو جبر اور فوجی طاقت کے ذریعے تسلط حاصل کرنا چاہتا ہے، خطے میں عدم تحفظ اور اتار چڑھاؤ کی بنیادی وجہ ہے اور نام نہاد جوہری ہتھیاروں کی ریاست کے طور پر بھارت کا لاپرواہ طرز عمل جوہری جنگ کے اصل خطرہ سے زیادہ خطرناک ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ بین الاقوامی جوہری عدم پھیلاؤ کی حکمرانی کو نظرانداز کرتے ہوئے، ہندوستان نے اس خطے کو ایک طویل جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں دھکیل دیا ہے۔بھارت دنیا میں سب سے خطرناک ترین جوہری ہتھیاروں اور میزائل پروگراموں کو چلارہا ہے جو نہ صرف خطے کے لیے خطرہ ہیں بلکہ جوہری سلامتی اور سلامتی کے خام معیارات کی وجہ سے عالمی امن کو بھی خطرہ ہیں۔
آج، نامعلوم پلاٹونیم اسٹاک IAEA کے معائنے کے تحت نہیں رہے ہیں اور ریاست ہائے متحدہ امریکا اور ہندوستان کے مابین امتیازی جوہری تعاون کے معاہدے کے تحت ہندوستانی اسلحے کی تیاری کی سہولیات چھوڑ چکے ہیں۔سویلین پلوٹونیم کے ذخائر جو IAEA کے حفاظتی اقدامات سے باہر ہیں اور اسٹرٹیجک مقاصد کے لیے نامزد کیے گئے ہیں، یہ تشویش کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ تین مراحل کے منصوبے میں، بھارت اپنے غیر محفوظ شدہ جوہری توانائی پروگرام میں توسیع جاری رکھے ہوئے ہے۔ متعدد جوہری ری ایکٹروں کی تنصیب کا اعلان نئی دہلی نے بھی کیا ہے۔اس صلاحیت سے بریڈر اور بحری ری ایکٹروں کے لیے ضروری ایندھن کے علاوہ ضرورت سے زیادہ مواد تیار ہوگا۔
سابقہ ہندوستانی وزیر اعظم واجپائی نے فروری 1998 میں اپنی انتخابی مہم کے دوران، جارحانہ طور پر اعلان کیا تھا کہ'' ان کی حکومت، کشمیر کے اس حصے کو، جو پاکستان کے قبضے میں ہے، واپس لے گی۔'' جب مئی 1998 میں بھارت نے خود کو ایک اوورٹ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ریاست کا اعلان کیا تو یہ بات واضح ہوگئی کہ بھارت کا اپنا جارحانہ مقصد اپنے بالادست مفادات کے حصول کے لیے پڑوسی ممالک کے خلاف کھلم کھلا دھمکی دینا، تعینات کرنا اور ان کا استعمال کرنا تھا۔
اگلے چند سالوں میں، بھارت، جوہری ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیتوں کے لحاظ سے چین، فرانس اور برطانیہ کو تبدیل کرنے کے قابل ہو گا تاکہ وہ امریکا اور روس کے پیچھے تیسرا مقام بن سکے۔ہندوستان کی بڑھتی ہوئی معیشت کے اثر و رسوخ کے تحت، ہم خیال مغربی تجزیہ کار تیزی سے بڑھتے ہوئے ہندوستانی جوہری ہتھیاروں کے پروگرام اور اس سے وابستہ خطرات سے پر امن ہمسایہ ممالک سے بین الاقوامی برادری کے خیال کو ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ہندوستانی پالیسی کا مقصد جوہری ہتھیاروں سے متعلق خطے میں اپنی بالادستی کو آگے بڑھانے کے لیے مکمل طور پر تعمیر کیا گیا ہے،اب وقت آگیا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو ہندوستانی جوہری خطرے کا احساس ہو۔
یہ بات خوش آیند ہے کہ جوہری عدم پھیلاؤ کے نظریے نے سروں پر منڈلاتے خطرات کو روکنے کے لیے، بین الاقوامی کوششوں کے لیے ضروری بنیاد فراہم کی ہے۔جوہری عدم پھیلاؤ کا انحصار دنیا کی ٹھوس اور مستقل کوششوں پر منحصر ہے۔
اجلاس میں وفاقی وزرا، مسلح افواج کے سربراہان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور ڈی جی آئی ایس آئی نے بھی شرکت کی۔نیشنل کمانڈ اتھارٹی نے روایتی اور اسٹر ٹیجک ڈومینز میں بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی عدم استحکام پر تشویش کا اظہار کیا اوراس بات پر زور دیا کہ پاکستان ہتھیاروں کی دوڑ میں داخل ہوئے بغیر خطے میں اسٹرٹیجک استحکام کو یقینی بنانے کے لیے تمام اقدامات کرے گا۔
بلاشبہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے،جو جوہری عدم پھیلاؤ پر یقین کرتا ہے اوراسلحے کی کسی بھی دوڑ میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔ پاکستانی قیادت نے اپنے موقف کا اعادہ کرکے دنیا اور خطے میں امن کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے، کیونکہ آج کل، جنوبی ایشیاء کو عالمی تجزیہ کاروں نے دنیا کے ایک غیر مستحکم خطے میں درجہ بند کیا ہوا ہے۔
پاکستان کی ایٹمی صلاحیت جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن اور اپنی سلامتی کے لیے ہے لیکن کچھ ایٹمی ممالک نے عدم پھیلاؤ کے اصولوں کے برخلاف امتیازی جوہری معاہدے کر رکھے ہیں۔طاقتور ممالک کا دہرا معیار دوسرے ممالک میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتا ہے۔ اسلحے کی دوتہائی برآمدات دنیا کے چار ممالک کر رہے ہیں۔ طاقتور ممالک دوسروں کو جوہری ہتھیاروں سے پرہیز کی تاکید کرتے ہیں لیکن اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو کم نہیں کرتے۔
درحقیقت دنیا میں اسلحے اور ہتھیاروں کی دوڑ نے عالم انسانیت کے مسائل میں گوناگوں اضافہ کردیا ہے ، دنیا کے اکثرممالک کے بجٹ ایک بہت بڑا حصہ مہلک ہتھیاروں کی تیاری اور جدید جنگی وسازوسامان پر خرچ ہوجاتا ہے، جب کہ دنیا میں بھوک، غربت، افلاس، بے روزگاری، علاج معالجے کی عدم دستیابی بڑھتی جارہی ہے، انسانیت سسک رہی ہے ، جب کہ دوسری جانب جنگی جنون سر پر سوار ہے۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی بے جا نہ ہوگاجب امریکا نے دوسری عالمی جنگ کے دوران دو جاپانی شہروں، ناگا ساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرا ئے تو یک لخت ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے،حالانکہ جاپان ہتھیار پھینکنے پر تیار ہوچکاتھا ۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ مغرب خاص کر امریکا یہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اور ملک ایٹم بم بنائے۔
ہم اس حقیقت سے انکارنہیں کرسکتے کہ ایٹمی اسلحے کی اندھی دوڑ کے نتیجے میں بنی نوع انسان کی بقا کے سنگین مسائل، دفاعی اخراجات میں ہر سال اضافہ اور کرہ ارض پر بچی کھچی زمین جنگلوں، تالابوں اور میدانوں کا انسانی ہوس کے ہاتھوں نیست و نابود ہونا، بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی معاشی آمریت اور ماحولیات کی تباہی کی بدولت بے گھر ہونے والے لاکھوں پناہ گزینوں کی حالت ِزار، یہ سب ایک عام انسان کی بے بسی اور لاچاری کا نوحہ ہے اور اب ہماری بے حسی، خاموشی اور بے عملی نے ہمیں ایسی نوع میں بدل ڈالا ہے کہ جو اپنی تباہی کی خود ذمے دار ہوگی۔
یہ بات با لکل سچ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں پر عالمی پابندی کے بعد قانونی طور پر ایٹم بم بنانا اخلاقی اور قانونی لحاظ سے جرم ہے مگر دوسری طرف بڑی طاقتوں نے ہر قسم کے مہلک ہتھیار بنانے میں کبھی کوئی کمی نہ کی بلکہ ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ کیمیائی ہتھیار بھی بنائے،بلکہ کہا جاتا ہے کہ ایک ایسا بم بھی بنایا جو کہ لوگوں کو مار دیتا ہے،مگر عمارتوں کو نقصان نہیں پہنچاتا۔اس المناک واقعے کے بعد دنیا میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ ایٹمی ہتھیاروں اور اس کے استعمال پر روک لگا کر امن کی طرف بڑھا جائے۔ لہٰذا جوہری عدم پھیلاؤ کے حوالے سے این پی ٹی کے تحت ایک معاہدہ طے پایا۔
اس معاہدے سے بین الاقوامی امن اور سلامتی کو تقویت ملتی ہے اور جوہری ہتھیاروں کے مزید پھیلاؤ کی روک تھام ہوتی ہے۔ امریکی سائنس دانوں کی فیڈریشن کے مطابق، آج 1950 کی دہائی کے بعد دنیا میں جوہری ہتھیاروں کے ذخیروں کی تعداد سب سے کم ہے۔ 5مارچ 1970 کو نافذالعمل ہونے والا اساسی بنیاد کا حامل یہ ایک ایسا عالمی معاہدہ ہے جو دنیا کے ممالک کو جوہری پھیلاؤ کو روکنے کا پابند بناتا ہے۔ تاریخ میں جوہری ہتھیاروں کے بارے میں کسی بھی دوسرے معاہدے کے مقابلے میں اس معاہدے کو سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے۔
این پی ٹی میں شامل ممالک نے چنداقدامات اٹھانے پر اتفاق کیا:1۔جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا۔2۔جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے لیے تعاون کو فروغ دینا۔ 3۔جوہری ہتھیاروں سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ تخفیف اسلحہ کے مذاکرات کی نیک نیتی سے پیروی کرنا۔
پاکستان بحیثیت پرامن ملک تمام عالمی معاہدوںکی پاسداری کررہا ہے جب کہ 1974 کے بعد سے،ہندوستان کے ارادے واضح ہیں کہ وہ کسی بھی قسم کی جدید ٹیکنالوجی، جو پرامن مقاصد کے تحت فراہم کی گئی ہے، کو اپنے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرے گا اور خطے میں تسلط برتنے کے لیے جوہری، خلائی اور میزائل پروگرام سے متعلق کسی بھی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرے گا۔ بھارت نے 1960 کی دہائی میں اپنا ایٹمی پروگرام شروع کر دیا تھا اور 80کی دہائی میں ایٹمی طاقت بن چکا تھا جس کی وجہ سے پاکستان کو مجبوراً اپنے دفاع کی خاطر ایٹمی پروگرام شروع کرنے کی ترغیب ملی۔
یہ حقیقت ہے کہ علاقائی بالادستی کے لیے ہندوستان کا نظریہ، جو جبر اور فوجی طاقت کے ذریعے تسلط حاصل کرنا چاہتا ہے، خطے میں عدم تحفظ اور اتار چڑھاؤ کی بنیادی وجہ ہے اور نام نہاد جوہری ہتھیاروں کی ریاست کے طور پر بھارت کا لاپرواہ طرز عمل جوہری جنگ کے اصل خطرہ سے زیادہ خطرناک ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ بین الاقوامی جوہری عدم پھیلاؤ کی حکمرانی کو نظرانداز کرتے ہوئے، ہندوستان نے اس خطے کو ایک طویل جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں دھکیل دیا ہے۔بھارت دنیا میں سب سے خطرناک ترین جوہری ہتھیاروں اور میزائل پروگراموں کو چلارہا ہے جو نہ صرف خطے کے لیے خطرہ ہیں بلکہ جوہری سلامتی اور سلامتی کے خام معیارات کی وجہ سے عالمی امن کو بھی خطرہ ہیں۔
آج، نامعلوم پلاٹونیم اسٹاک IAEA کے معائنے کے تحت نہیں رہے ہیں اور ریاست ہائے متحدہ امریکا اور ہندوستان کے مابین امتیازی جوہری تعاون کے معاہدے کے تحت ہندوستانی اسلحے کی تیاری کی سہولیات چھوڑ چکے ہیں۔سویلین پلوٹونیم کے ذخائر جو IAEA کے حفاظتی اقدامات سے باہر ہیں اور اسٹرٹیجک مقاصد کے لیے نامزد کیے گئے ہیں، یہ تشویش کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ تین مراحل کے منصوبے میں، بھارت اپنے غیر محفوظ شدہ جوہری توانائی پروگرام میں توسیع جاری رکھے ہوئے ہے۔ متعدد جوہری ری ایکٹروں کی تنصیب کا اعلان نئی دہلی نے بھی کیا ہے۔اس صلاحیت سے بریڈر اور بحری ری ایکٹروں کے لیے ضروری ایندھن کے علاوہ ضرورت سے زیادہ مواد تیار ہوگا۔
سابقہ ہندوستانی وزیر اعظم واجپائی نے فروری 1998 میں اپنی انتخابی مہم کے دوران، جارحانہ طور پر اعلان کیا تھا کہ'' ان کی حکومت، کشمیر کے اس حصے کو، جو پاکستان کے قبضے میں ہے، واپس لے گی۔'' جب مئی 1998 میں بھارت نے خود کو ایک اوورٹ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ریاست کا اعلان کیا تو یہ بات واضح ہوگئی کہ بھارت کا اپنا جارحانہ مقصد اپنے بالادست مفادات کے حصول کے لیے پڑوسی ممالک کے خلاف کھلم کھلا دھمکی دینا، تعینات کرنا اور ان کا استعمال کرنا تھا۔
اگلے چند سالوں میں، بھارت، جوہری ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیتوں کے لحاظ سے چین، فرانس اور برطانیہ کو تبدیل کرنے کے قابل ہو گا تاکہ وہ امریکا اور روس کے پیچھے تیسرا مقام بن سکے۔ہندوستان کی بڑھتی ہوئی معیشت کے اثر و رسوخ کے تحت، ہم خیال مغربی تجزیہ کار تیزی سے بڑھتے ہوئے ہندوستانی جوہری ہتھیاروں کے پروگرام اور اس سے وابستہ خطرات سے پر امن ہمسایہ ممالک سے بین الاقوامی برادری کے خیال کو ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ہندوستانی پالیسی کا مقصد جوہری ہتھیاروں سے متعلق خطے میں اپنی بالادستی کو آگے بڑھانے کے لیے مکمل طور پر تعمیر کیا گیا ہے،اب وقت آگیا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو ہندوستانی جوہری خطرے کا احساس ہو۔
یہ بات خوش آیند ہے کہ جوہری عدم پھیلاؤ کے نظریے نے سروں پر منڈلاتے خطرات کو روکنے کے لیے، بین الاقوامی کوششوں کے لیے ضروری بنیاد فراہم کی ہے۔جوہری عدم پھیلاؤ کا انحصار دنیا کی ٹھوس اور مستقل کوششوں پر منحصر ہے۔