بڑھتی عدم برداشت
بے روزگاری،مذہبی انتہا پسندی، لسانیت اور سیاسی وابستگی کی وجہ سے عدم برداشت کا مہلک رویہ جنم لے رہا ہے۔
عدم برداشت ایک بہت بُرا رویہ اور مہلک معاشرتی مرض ہے جس نے نہ صرف ہمارے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے بلکہ اس مہلک وباء سے ہمارا معاشرہ جاں بلب ہو چلا ہے۔
ویسے تو اس برے معاشرتی رویہ کی سیکڑوں وجوہات ہیں لیکن عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ بے روزگاری،مذہبی انتہا پسندی، لسانیت اور سیاسی وابستگی کی وجہ سے عدم برداشت کا مہلک رویہ جنم لے رہا ہے۔
ہم روزمرہ کے کاموں کے سلسلے میں جب گھر سے نکلتے ہیں تو گلی کوچے،سڑک، مارکیٹ،دفاتر،پبلک مقامات حتیٰ کہ عبادت گاہوں میں عدم برداشت کے رویوںسے دوچار ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ رویہ اتنا شدید اور جارحانہ ہوتا ہے کہ جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔
دیکھا جائے تو جب سے انسان نے زمین پر قبضہ جما کر اسے اپنی ملکیت میں لینا شروع کیا ہے اور مختلف عقیدوں میں بٹا ہے، اس وقت سے عدم برداشت کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ لیکن یہ جن، یہ عفریت کبھی اتنا قابو سے باہر نہیں ہوا تھا جتنا کوئی دو صدیوں سے دیکھنے کو ملا ہے۔
عدم برداشت کا رویہ عام ہو چکا ہے ۔اخبارات و رسائل اور ٹی وی چینلز عدم برداشت کے روز مرہ واقعات سے بھرے ہوتے ہیں۔حالانکہ یہ تکلیف دہ رویہ کوئی نئی بات نہیں لیکن موجودہ دور میں ایسے لگتا ہے کہ ہم کچھ زیادہ ہی عدم برداشت سے دوچار ہو رہے ہیں۔ مغربی دنیا اسلامو فوبیا کا شکار ہے ، وہاں یہ دور شدید عدم برداشت کا دور ہے۔
اختلاف ہونا اور اختلاف کرنا ہر عقل وشعور کے حامل انسان کا بنیادی حق ہے۔اﷲ اور اس کے رسول کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جس کی بات حتمی ہو، سچ ہو، حق ہو جس سے اختلاف نہ کیا جا سکے۔اختلاف اس وقت شر اور فساد بن جاتا ہے جب اختلاف کرنے والا اس بات پر تلا ہوتا ہے کہ صرف اسی کی بات ٹھیک ہے اور سب کو اسی طرح سوچنا سمجھنا ہو گا جس طرح وہ سوچ اور سمجھ رہا ہے۔ جب یہ انتہائی رویہ جنم لے لے تو سمجھیں کہ تباہی ہے۔اسی رویے،اسی سوچ سے فرقہ بندی جنم لیتی ہے۔اختلاف کی ایک عمومی وجہ لسانیت بھی ہے۔
زبان کیمونیکیشن کا بہت اہم ذریعہ ہے لیکن جب ایک زبان بولنے والے ایک ایسا گروہ بن جائیں جو ہر سہولت اپنے اہلِ زبان بھائیوں، بہنوں کو ہی دینا چاہیں لیکن دوسرے لسانی گروہوں کو دینے کو تیار نہ ہوں تو یہ رویہ ناقابلِ برداشت بن جاتاہے۔
ایوب خان کے زمانے میں کراچی میںایک موقع پر لسانی بنیادوں پر نزاع پیدا ہو گیا جس کی لپیٹ میں آ کر کئی قیمتی جانیں ضایع ہوئیں۔مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ابتدائی دوریاں بھی زبان کے مسئلے پر شروع ہوئیں اور یہ نزاع بڑھتے بڑھتے گہری رنجشوں میں بدل گیا۔اس وقت بھی پاکستان کی اکائیوں کی بڑی بنیاد زبان پر ہی ہے اور اکائیاں صرف اپنے اپنے ہم زبان کو ترجیح دیتی نظر آتی ہیں۔
1970 کی دہائی سے پہلے سیاسی پارٹیوں کے درمیان اقتدار کے حصول کے لیے رسہ کشی تو بہت تھی لیکن عوام کے اندر سیاسی وابستگی کے حوالے سے کوئی عدم برداشت نہیں دیکھی گئی۔ سیاسی وابستگی نے اب ایک تکلیف دہ رُخ لے لیا ہے۔پہلی دفعہ مخالف سیاسی وابستگی کو باقاعدہ دشمنی سمجھا جا رہا ہے اور گالم گلوچ سے نوازا جا رہا ہے۔
ہر حربہ استعمال ہو رہا ہے کہ مخالف آواز کو یا تو بالکل خاموش کر دیا جائے یا پھر دبا دیا جائے۔ اس سے سیاسی ماحول انتہائی پراگندہ ہو گیا ہے۔فاشزم کیا ہوتا ہے یہ پہلی دفعہ تجربے میں آ رہا ہے۔اصولاً ہونا تو یہ چاہیے کہ مخالف سیاسی وابستگی کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے اور احترام ہی کے دائرے میں رہ کر مخالف کو قائل کیا جائے۔سیاسی مخالفت کو دشمنی میں نہ بدلا جائے۔ سیاست عوام کی خدمت ہے لیکن آجکل سیاست نہیں بے ہودگی ہو رہی ہے۔اگر ہم بڑھتی عدم برداشت کو نہ مانیں تو حقیقت سے آنکھ چرانے والی بات ہوگی۔
پاکستان میں بے روزگاری کا جن قابو سے باہر ہے۔کورونا وبا نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ نوجوان بے روزگار ہوں تو ان کے تلاطم خیز جذبات بے قابو ہو سکتے ہیں۔ہمارے نوجوان بھی اسی کیفیت کا شکار ہیں۔ایک تند خو رویہ ہے جو ہر طرف دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یہ رویہ اس وقت خطرناک ہو جاتا ہے جب نوجوان جتھے بنا کر قانون اپنے ہاتھ میں لینا شروع کر دیتے ہیں۔اس منفی ردِعمل سے سوسائٹی انارکی کا شکار ہو جاتی ہے۔عدم برداشت کا رویہ سب سے زیادہ سڑکوں پر اور مذہبی افراد میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔سڑک پر عدم برداشت ٹریفک حادثات کا موجب بنتا ہے۔
عمومی طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ ہم دوسرے کو راستہ دینے کو بھی تیار نہیں اور خود بھی ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کرتے۔جہاں سے صرف ایک گاڑی گزر سکتی ہے وہاں سے تین چار گاڑیاں گزرنے میں لگی ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں ٹریفک جام ہو جاتا ہے۔ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
ہر شخص دوڑتا ہے بھیِڑ کی طرف، پھر یہ بھی چاہتا ہے اسے راستہ ملے۔ ایک منہ زوری اور پاگل پن ہے جو دیکھنے کو مل رہا ہے۔ایسے میں قانون کا پابند شہری مشکل میں پڑ جاتا ہے۔عدم برداشت کا سب سے تکلیف دہ رویہ ہمارے مذہبی طبقے میں پایا جاتا ہے۔آپ جس بھی مذہبی مکتبہء فکر کے ہوں لیکن کسی کے کفر و ایمان اور جنتی و دوزخی ہونے کا فیصلہ کرنے کا بالکل حق نہیں رکھتے۔
ہمیں صرف اور صرف اپنی زندگیوں کو سنوارنے اور اپنے اعمال کو درست کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔دوسرے نقطہء نظر کے حامل افراد سے بات کرنے کی اگر ضرورت بھی پڑے تو اخلاق کے دائرے میں بہترین انداز میں گفتگو ہونی چاہیے۔یہی قرآن کا حکم ہے۔حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اس خوبصورت پیغام کے حامل افراد تشدد پر کمر باندھے ہوتے ہیں۔
اپنے ہم خیال کے علاوہ کسی دوسری رائے کو سننے کے متحمل نہیں ہوتے۔ کئی مسلح تنظیمیں بن گئی ہیں جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا اپنا مذہبی حق سمجھتی ہیں۔ہمیں اپنے آپ کو یہ باور کرانا ہو گا کہ میں حق پر ہوں لیکن اس بات کا امکان ہے کہ غلطی میرے اندر ہو۔مساجد مخصوص مکتبہء فکر نے قابو کر لی ہیں اور سادہ مسلمان کے لیے کوئی جگہ نہیں رہ گئی۔اگر ہم میں سے کوئی مسجد میں کسی رائے کا اظہار کر دے تو ساتھ ہی سخت ردِ عمل کے لیے بھی تیار ہو جائے۔اس کے اوپر ہر الزام لگ سکتا ہے اور پٹائی بھی ہو سکتی ہے۔جان بھی جا سکتی ہے۔
ہمارا میڈیا عدم برداشت کے رویوں سے جان چھڑانے میں بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ میڈیا کے اس دور میں گھر گھر آواز پہنچانے میں میڈیا سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں۔ سوشل میڈیا نے پانی بہت گدلا دیا ہے اور سچ کو جھوٹ سے علیحدہ کرنا مشکل ہو گیا ہے لیکن اگر Main Streamمیڈیا تہیہ کر لے اور ایک مشن کی صورت میں عدم برداشت کے عفریت کو قابو کرنے کی ٹھان لے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ جن قابو میں نہ آ سکے۔
ہمارے ٹی وی چینلز کو ریٹنگ کی دوڑ سے باہر آ کر یہ قومی فریضہ انجام دینا ہو گا۔ کالم نگاروں کو اصلاح کی کوشش کرنی ہوگی۔خدا کرے ہم عدم برداشت کے گہرے ہوتے سایوں سے نکل آئیں اور ان مہلک رویوں سے جان چھڑا کر ایک متحد پاکستانی قوم بن جائیں۔ ہماری اور انسانیت کی بقا اسی میں ہے۔
ویسے تو اس برے معاشرتی رویہ کی سیکڑوں وجوہات ہیں لیکن عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ بے روزگاری،مذہبی انتہا پسندی، لسانیت اور سیاسی وابستگی کی وجہ سے عدم برداشت کا مہلک رویہ جنم لے رہا ہے۔
ہم روزمرہ کے کاموں کے سلسلے میں جب گھر سے نکلتے ہیں تو گلی کوچے،سڑک، مارکیٹ،دفاتر،پبلک مقامات حتیٰ کہ عبادت گاہوں میں عدم برداشت کے رویوںسے دوچار ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ رویہ اتنا شدید اور جارحانہ ہوتا ہے کہ جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔
دیکھا جائے تو جب سے انسان نے زمین پر قبضہ جما کر اسے اپنی ملکیت میں لینا شروع کیا ہے اور مختلف عقیدوں میں بٹا ہے، اس وقت سے عدم برداشت کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ لیکن یہ جن، یہ عفریت کبھی اتنا قابو سے باہر نہیں ہوا تھا جتنا کوئی دو صدیوں سے دیکھنے کو ملا ہے۔
عدم برداشت کا رویہ عام ہو چکا ہے ۔اخبارات و رسائل اور ٹی وی چینلز عدم برداشت کے روز مرہ واقعات سے بھرے ہوتے ہیں۔حالانکہ یہ تکلیف دہ رویہ کوئی نئی بات نہیں لیکن موجودہ دور میں ایسے لگتا ہے کہ ہم کچھ زیادہ ہی عدم برداشت سے دوچار ہو رہے ہیں۔ مغربی دنیا اسلامو فوبیا کا شکار ہے ، وہاں یہ دور شدید عدم برداشت کا دور ہے۔
اختلاف ہونا اور اختلاف کرنا ہر عقل وشعور کے حامل انسان کا بنیادی حق ہے۔اﷲ اور اس کے رسول کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جس کی بات حتمی ہو، سچ ہو، حق ہو جس سے اختلاف نہ کیا جا سکے۔اختلاف اس وقت شر اور فساد بن جاتا ہے جب اختلاف کرنے والا اس بات پر تلا ہوتا ہے کہ صرف اسی کی بات ٹھیک ہے اور سب کو اسی طرح سوچنا سمجھنا ہو گا جس طرح وہ سوچ اور سمجھ رہا ہے۔ جب یہ انتہائی رویہ جنم لے لے تو سمجھیں کہ تباہی ہے۔اسی رویے،اسی سوچ سے فرقہ بندی جنم لیتی ہے۔اختلاف کی ایک عمومی وجہ لسانیت بھی ہے۔
زبان کیمونیکیشن کا بہت اہم ذریعہ ہے لیکن جب ایک زبان بولنے والے ایک ایسا گروہ بن جائیں جو ہر سہولت اپنے اہلِ زبان بھائیوں، بہنوں کو ہی دینا چاہیں لیکن دوسرے لسانی گروہوں کو دینے کو تیار نہ ہوں تو یہ رویہ ناقابلِ برداشت بن جاتاہے۔
ایوب خان کے زمانے میں کراچی میںایک موقع پر لسانی بنیادوں پر نزاع پیدا ہو گیا جس کی لپیٹ میں آ کر کئی قیمتی جانیں ضایع ہوئیں۔مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ابتدائی دوریاں بھی زبان کے مسئلے پر شروع ہوئیں اور یہ نزاع بڑھتے بڑھتے گہری رنجشوں میں بدل گیا۔اس وقت بھی پاکستان کی اکائیوں کی بڑی بنیاد زبان پر ہی ہے اور اکائیاں صرف اپنے اپنے ہم زبان کو ترجیح دیتی نظر آتی ہیں۔
1970 کی دہائی سے پہلے سیاسی پارٹیوں کے درمیان اقتدار کے حصول کے لیے رسہ کشی تو بہت تھی لیکن عوام کے اندر سیاسی وابستگی کے حوالے سے کوئی عدم برداشت نہیں دیکھی گئی۔ سیاسی وابستگی نے اب ایک تکلیف دہ رُخ لے لیا ہے۔پہلی دفعہ مخالف سیاسی وابستگی کو باقاعدہ دشمنی سمجھا جا رہا ہے اور گالم گلوچ سے نوازا جا رہا ہے۔
ہر حربہ استعمال ہو رہا ہے کہ مخالف آواز کو یا تو بالکل خاموش کر دیا جائے یا پھر دبا دیا جائے۔ اس سے سیاسی ماحول انتہائی پراگندہ ہو گیا ہے۔فاشزم کیا ہوتا ہے یہ پہلی دفعہ تجربے میں آ رہا ہے۔اصولاً ہونا تو یہ چاہیے کہ مخالف سیاسی وابستگی کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے اور احترام ہی کے دائرے میں رہ کر مخالف کو قائل کیا جائے۔سیاسی مخالفت کو دشمنی میں نہ بدلا جائے۔ سیاست عوام کی خدمت ہے لیکن آجکل سیاست نہیں بے ہودگی ہو رہی ہے۔اگر ہم بڑھتی عدم برداشت کو نہ مانیں تو حقیقت سے آنکھ چرانے والی بات ہوگی۔
پاکستان میں بے روزگاری کا جن قابو سے باہر ہے۔کورونا وبا نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ نوجوان بے روزگار ہوں تو ان کے تلاطم خیز جذبات بے قابو ہو سکتے ہیں۔ہمارے نوجوان بھی اسی کیفیت کا شکار ہیں۔ایک تند خو رویہ ہے جو ہر طرف دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یہ رویہ اس وقت خطرناک ہو جاتا ہے جب نوجوان جتھے بنا کر قانون اپنے ہاتھ میں لینا شروع کر دیتے ہیں۔اس منفی ردِعمل سے سوسائٹی انارکی کا شکار ہو جاتی ہے۔عدم برداشت کا رویہ سب سے زیادہ سڑکوں پر اور مذہبی افراد میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔سڑک پر عدم برداشت ٹریفک حادثات کا موجب بنتا ہے۔
عمومی طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ ہم دوسرے کو راستہ دینے کو بھی تیار نہیں اور خود بھی ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کرتے۔جہاں سے صرف ایک گاڑی گزر سکتی ہے وہاں سے تین چار گاڑیاں گزرنے میں لگی ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں ٹریفک جام ہو جاتا ہے۔ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
ہر شخص دوڑتا ہے بھیِڑ کی طرف، پھر یہ بھی چاہتا ہے اسے راستہ ملے۔ ایک منہ زوری اور پاگل پن ہے جو دیکھنے کو مل رہا ہے۔ایسے میں قانون کا پابند شہری مشکل میں پڑ جاتا ہے۔عدم برداشت کا سب سے تکلیف دہ رویہ ہمارے مذہبی طبقے میں پایا جاتا ہے۔آپ جس بھی مذہبی مکتبہء فکر کے ہوں لیکن کسی کے کفر و ایمان اور جنتی و دوزخی ہونے کا فیصلہ کرنے کا بالکل حق نہیں رکھتے۔
ہمیں صرف اور صرف اپنی زندگیوں کو سنوارنے اور اپنے اعمال کو درست کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔دوسرے نقطہء نظر کے حامل افراد سے بات کرنے کی اگر ضرورت بھی پڑے تو اخلاق کے دائرے میں بہترین انداز میں گفتگو ہونی چاہیے۔یہی قرآن کا حکم ہے۔حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اس خوبصورت پیغام کے حامل افراد تشدد پر کمر باندھے ہوتے ہیں۔
اپنے ہم خیال کے علاوہ کسی دوسری رائے کو سننے کے متحمل نہیں ہوتے۔ کئی مسلح تنظیمیں بن گئی ہیں جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا اپنا مذہبی حق سمجھتی ہیں۔ہمیں اپنے آپ کو یہ باور کرانا ہو گا کہ میں حق پر ہوں لیکن اس بات کا امکان ہے کہ غلطی میرے اندر ہو۔مساجد مخصوص مکتبہء فکر نے قابو کر لی ہیں اور سادہ مسلمان کے لیے کوئی جگہ نہیں رہ گئی۔اگر ہم میں سے کوئی مسجد میں کسی رائے کا اظہار کر دے تو ساتھ ہی سخت ردِ عمل کے لیے بھی تیار ہو جائے۔اس کے اوپر ہر الزام لگ سکتا ہے اور پٹائی بھی ہو سکتی ہے۔جان بھی جا سکتی ہے۔
ہمارا میڈیا عدم برداشت کے رویوں سے جان چھڑانے میں بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ میڈیا کے اس دور میں گھر گھر آواز پہنچانے میں میڈیا سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں۔ سوشل میڈیا نے پانی بہت گدلا دیا ہے اور سچ کو جھوٹ سے علیحدہ کرنا مشکل ہو گیا ہے لیکن اگر Main Streamمیڈیا تہیہ کر لے اور ایک مشن کی صورت میں عدم برداشت کے عفریت کو قابو کرنے کی ٹھان لے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ جن قابو میں نہ آ سکے۔
ہمارے ٹی وی چینلز کو ریٹنگ کی دوڑ سے باہر آ کر یہ قومی فریضہ انجام دینا ہو گا۔ کالم نگاروں کو اصلاح کی کوشش کرنی ہوگی۔خدا کرے ہم عدم برداشت کے گہرے ہوتے سایوں سے نکل آئیں اور ان مہلک رویوں سے جان چھڑا کر ایک متحد پاکستانی قوم بن جائیں۔ ہماری اور انسانیت کی بقا اسی میں ہے۔