حضرت خواجہ نظام الدین اولیا ؒ

آپ کی ذات سے متعدد کرامات و واقعات ہیں جو حضرت نظام الدین اولیا پر لکھی گئی کتب میں موجود ہیں۔

سید نظام الدین اولیا کے جد امجد بخارا سے لاہور آئے، چند برس لاہور قیام کرنے کے بعد دہلی چلے گئے۔ دہلی سے بدایوں جا کر مستقل سکونت اختیار کرلی۔

26 صفر 636ھ بمطابق 19 اکتوبر1240 میں حضرت نظام الدین اولیا پیدا ہوئے۔ والدین نے آپ کا نام محمد نظام الدین رکھا ، آپ کے والد کا نام خواجہ سید احمد جو اپنے وقت کے زبردست عالم دین اور قاضی اسلام ہونے کے ساتھ ساتھ پیدائشی ولی تھے۔

آپ کی والدہ صاحبہ بھی نہایت نیک و تہجد گزار خاتون تھیں۔ 5 سال کے ہی تھے کہ آپ کے والد گرامی حضرت خواجہ سید احمد صاحب کا وصال ہوگیا۔

حضرت نظام الدین اولیا نے پاک پتن میں ایک سال قیام کیا،آپ کے پیر مرشد حضرت بابا فرید الدین گنج شکر نے 16 ربیع الاول655 ھ آپ کو خلافت سے نوازا۔ اس موقع پر آپ کے پیر و مرشدحضرت بابا فرید الدین گنج شکر نے فرمایا ''مولانا نظام الدین کو ہندوستان کی ولایت دیتے ہوئے ، میں نے اسے اللہ کی پناہ میں چھوڑا۔''

636ھ سے 725ھ تک حضرت نظام الدین اولیا کی زندگی میں دلی میں سات بادشاہوں کا دور گزرا، جس میں زیادہ آپ کے بے حد عقیدت مند بلکہ مرید تھے۔ دلی میں آپ کے ساتھ بہت سے واقعات ہوئے جو کرامات بن کر لوگوں کے سامنے آئے۔

جن کا ذکر کرنا مختصر سی تحریر میں بہت مشکل ہے۔ آپ کے بارے میں اگر شروع سے آخر تک بیان کیا جائے تو مزید کئی کتب لکھی جاسکتی ہیں، اتنا کہنا کافی ہوگا کہ ''غیاث پور'' دلی کو آپ نے بسایا مگر آج غیاث پور ہے وہ نظام الدین اولیا کے نام سے علاقہ منسوب ہے بلکہ ریلوے اسٹیشن بھی حضرت نظام الدین اولیا کے نام سے موجود ہے۔

ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی ہر کوئی آپ کی عزت و عظمت، قدر و منزلت کے سامنے اپنے دلوں کو جھکانا اپنے نصیب کی بلندی سمجھتے ہیں۔ یہ اللہ والوں کی شان ہے کہ جہاں آسن جما دیا وہاں دل و دماغ پر خدا کی اہمیت اور توحید کا چراغ جلنے لگا۔


8 ربیع الثانی 725ھ بروز بدھ بمطابق 9 اکتوبر 1238کو سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی گوہر نایاب حضرت سید نظام الدین اولیا ہمیشہ کے لیے اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ آج بھی آپ کے مزار پر سیکڑوں عقیدت مند ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی روز آتے ہیں اور فیضیاب ہو کر جاتے ہیں۔ ان کی زندگی سے یہ باؤلی کے پانی سے نہانے سے اکثر لوگ اپنی بیماری سے شفایاب ہوئے ہیں۔ دہلی کے اس بادشاہ کا چراغ ہمیشہ جلتا رہے گا اکثر لوگوں کو ان کی منزل کا پتا دے گا۔

کہا جاتا ہے آپ نے تقریباً چھ سو خلفائے چشتیہ نقش بندیہ مقرر کیے جن میں سے چند کے اسمائے گرامی ہیں نصیر الدین محمود ، چراغ دہلوی ، امیر خسرو ، برہان الدین ، جلال الدین پیر مانک بھاندڑی، سید محمود کش۔ آپ کی وصیت پر خواجہ محمد اقبال نے ہزاروں میں غلہ غربا و مساکین میں تقسیم کردیا اور ایک دانہ بھی نہ چھوڑا۔ ان کے پیر و مرشد میں بابا فرید الدین گنج شکر، قطب الدین بختیار کاکی اور خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی ہیں۔

روایت ہے حضرت نظام الدین اولیا مسجد کی تعمیر کروا رہے تھے چار افراد جو تعمیری کام کرنے میں سارا دن کوشاں تھے۔ بادشاہ وقت کی عمارات کی تعمیر ہو رہی تھی سارے راج مزدور بادشاہ کے محلات کی تعمیر میں سارا دن لگے رہتے۔ چار افراد رات میں حضرت نظام الدین اولیا کی مسجد کی تعمیر شب میں چراغوں کی روشنی میں کرتے۔ دن میں ان چاروں کو اونگ آتی جس پر کام کروانے والا پریشان تھا۔

معلوم کرنے پر پتا چلا رات کو چراغوں کی روشنی میں حضرت نظام الدین اولیا کے ہاں ہوتے ہیں اس نے بادشاہ وقت کو بتایا۔ بادشاہ کو حضرت کی کرامات کا علم نہ تھا اس نے اعلان کروایا، چراغ روشن کرنے کے لیے سرسوں کے تیل پر پابندی عائد کی۔

حضرت کو جب معلوم ہوا تو ان کو کہا '' باؤلی میں پانی ہے تھوڑا پانی لے آؤ۔'' باؤلی سے پانی لائے وہی باؤلی جو آج بھی موجود ہے اس کے پانی سے غسل کرنے میں بیماریوں میں شفا نصیب ہوتی ہے یہ عقیدہ لوگوں کا آج بھی ہے۔ نظام الدین اولیا نے باؤلی کا پانی چراغوں میں ڈلوایا اور چراغوں کی بتیوں کو جلوایا تمام چراغ روشن ہوگئے۔ اس بات کا حکمران وقت کو علم ہوا وہ نظام الدین اولیا کی خدمت میں خود حاضر ہوا اور معافی طلب کی۔

ایک مرتبہ دہلی میں کئی دنوں تک بارش نہ ہوئی لوگ بارش کے نہ ہونے سے بہت پریشان تھے۔ بہت سے لوگ اکٹھے ہوکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا حضور کئی دن ہو چکے ہیں دہلی میں بارش نہیں ہوئی۔ ہم اسی پریشانی کی وجہ سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں، آپ دعا فرمائیے تاکہ اللہ تعالیٰ دہلی پر مینہ برسائے۔ یہ بات سن کر حضرت نظام الدین اولیاؒ نے اپنی جیب سے اپنی والدہ ماجدہ کی قمیص کا ایک کپڑا نکال کر اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا۔

پھر یوں دعا فرمائی'' اے اللہ! اس کپڑے کی حرمت کے طفیل جوکہ ایک ضعیفہ کی قمیص کا ہے اور جس پر کسی نامحرم کی نگاہ نہیں پڑی، تُو بارش برسا دے۔'' ان کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پرکالی گھٹائیں چھا گئیں، چند بادل آئے اور مینہ برسا کر چلے گئے۔ آپ کی ذات سے متعدد کرامات و واقعات ہیں جو حضرت نظام الدین اولیا پر لکھی گئی کتب میں موجود ہیں۔
Load Next Story