تربیّت اطفال مگر کیسے۔۔۔۔

اگر ہم نے اپنے فرائض احسن طریق سے ادا نہ کیے  تو ہمیں اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

اگر ہم نے اپنے فرائض احسن طریق سے ادا نہ کیے تو ہمیں اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ فوٹو: فائل

اولاد اﷲ کی ان نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، جس کا شمار کِیا ہی نہیں جاسکتا۔ جو اس نعمت سے محروم ہیں اس کی اہمیت ان سے پوچھی جائے تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ یہ خالق کائنات کا کتنا بڑا انعام ہے۔

اولاد سے محرومی صدہا روگ لے کر آتی ہے، جن کا دائرہ جذباتی اور نفسیاتی محرومیوں تک اور کبھی کبھار اپنی زندگی ختم کردینے جیسے سانحے میں بدل جاتا ہے، اسی لیے اولاد جیسے انعام کی قدر کرنا اور اس پر اپنے رب کا شُکر ادا کرنا ہم سب پر لازم ہے۔

جب یہ نعمت ہمیں ملتی ہے تو ہماری ساری زندگی اپنے بچوں کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے۔ اولاد کے ساتھ ہمارے رویّے مختلف ہوتے ہیں، اور یہ اس لیے ہے کہ ہم سب بھی ایک جیسے نہیں ہیں، ہم میں سے ہر ایک کو اﷲ نے مختلف صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے، جسمانی، ذہنی اور مالی تفریق بھی ہمیں ایک دوسرے سے مختلف بناتی ہے۔

لیکن اس سب کے باوجود والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دنیا بھر کی خوشیاں دیں، چاہے انہیں کچھ بھی اور کتنی ہی محنت کرنا پڑے، اور یہ خواہش فطری ہے اس میں کوئی دو رائے اور کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اگر یہ خواہشات مثبت اور اپنے دائرے کے تعیّن کے ساتھ ہوں تو بچے والدین کی خواہشات کی تکمیل کے ساتھ اچھے مسلم اور اپنے ملک و قوم کی خدمت بھی احسن طریق سے کرسکتے ہیں۔

لیکن ان سب حقائق کے باوجود اکثر والدین میں اپنی اولاد کے معاملے میں دو طرح کی انتہائیں دیکھی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ والدین اپنے بچوں کو بہت زیادہ لاڈ پیار میں رکھتے ہیں اتنا کہ بچے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں، اور یا پھر اتنی سختیاں کرتے ہیں کہ بچے اپنا اعتماد کھو دیتے اور والدین سے دُور ہوجاتے ہیں۔ اولاد کی تربیت میں میانہ روی بہت ضروری ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی اولاد کو دنیا جہاں کی آسائشیں دے دیں، اچھے کپڑے پہنا دیں، اعلیٰ اسکول میں پڑھا دیں یہ کافی ہے اور ہم نے اس طرح ان کا حق ادا کردیا۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے اصل حق ان کا یہ ہے کہ ان کی اچھی تربیّت کی جائے، اچھا انسان اور باعمل مسلمان بنایا جائے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے ۔۔۔ ؟


آپ نے غور کیا ہے کہ ہم سب اس بات سے پریشان ہیں کہ بچے کہنا نہیں سنتے، پہلے کے بچوں میں جو فرماں برداری تھی وہ ذرّا بھر بھی نظر نہیں آتی، ایسا کیوں ہے ۔۔۔ ؟

پہلے لوگ اپنے بچوں کو جتنا وقت دیتے تھے اتنا نہ سہی لیکن پھر بھی وہ انہیں وقت دیتے ہی ہیں۔ لیکن پہلے بچوں کی جائز فرمائشیں بھی اس طرح پوری کی جاتی تھیں کہ انہیں اس کی قدر رہے، آج ان کے منہ سے جو نکلتا ہے اور وہ پورا ہوجاتا ہے۔ پہلے گھروں میں ٹکنے اور رشتے داروں سے ملنے کا رواج تھا آج چاہے کوئی بھی چھٹی کا دن ہو کسی پارک یا ریسٹورنٹ نہیں تو شاپنگ مال کی نذر کرنا فیشن بن گیا ہے۔

اولاد کی خوشی اور ان کی بے جا فرمائشیں پوری کرنے کے لیے والدین جائز ناجائز طریقے سے مال کماتے ہیں، ان کی فرمائشیں غلط طریقے سے پوری کریں گے اور انہیں مشکوک رزق کھلائیں گے تو مسائل تو پیدا ہوں گے۔ بچے اگر گھروں میں ہوں تو ہم انہیں موبائیل اور ٹی وی کی نذر کردیتے ہیں کہ ہمیں ستائیں نہیں اور ہم اپنے کام بہ آسانی کرلیں۔ خود ان کے ساتھ کھیلنا، باتیں کرنا، ان کے مسائل سننا ہمیں مشکل لگنے لگا ہے۔ کیوں کہ ہمیں اپنی مصروفیات و دل چسپیاں زیادہ اہم لگتی ہیں۔

موبائیل نے ہم سے ہمارا وقت چھین لیا ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا ہمارے لیے زیادہ ضروری ہوگیا ہے بہ نسبت اس کے کہ ہم اپنے بچوں کو وقت دیں، انہیں اسلامی اور دیگر سبق آموز کہانیاں سنائیں، ان سے باتیں کریں، انہیں سکھائیں کہ وہ کیسے اچھے انسان اور مسلمان بن سکتے ہیں۔ بہ حیثیت ماں اولاد کی زیادہ تربیّت کی ذمے داری خواتین پر عاید ہوتی ہے اسی لیے ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم واقعی اپنی اولاد کو دائمی نقصان سے بچانے کے لیے اتنی جدوجہد کر رہے ہیں جتنی دنیاوی نقصان سے بچانے کے لیے کرتے ہیں؟

بچوں کے اگر امتحانات میں نمبر کم آئیں یا کسی مضمون میں کم زور ہو تو ہم کتنی تگ و دو کرتے ہیں، کیا یہ تگ و دو ہم اسے اچھا مسلمان بنانے کے لیے کرتے ہیں؟ بچوں کا دماغ سادہ تختی کی طرح ہوتا ہے جو ہم ابتداء میں سکھائیں گے وہ سیکھ لیں گے۔

اسی لیے ہمیں شروع ہی سے انہیں وہ باتیں سکھانا چاہییں جو انہیں اﷲ کے دین اسلام سے قریب کریں، انہیں سبق آموز کہانیاں سنائیں، اپنے ساتھ نماز پڑھائیں اور ان سب کے ساتھ ان کی اسلامی خطوط پر تربیّت کریں۔ اگر ہم نے اپنے فرائض احسن طریق سے ادا نہ کیے تو ہمیں اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

اﷲ تعالی ہمیں اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Load Next Story