یوم بڑبولا پن
طالبان کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے اب کشمیریوں کی آزادی کی منزل بھی قریب نظر آنے لگی ہے۔
ابھی تک تو مودی کو گجرات کے قصائی کے نام سے پکارا جاتا تھا مگر اب اسے بھارتیوں نے '' بڑ بولا '' کے خطاب سے نواز دیا ہے۔ گزشتہ دنوں مودی سے بیزار بھارتیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ مودی کا یوم پیدائش جو 17ستمبر کو منایا جاتا ہے اس دفعہ '' یوم بڑبولاپن '' کے نام سے منایا جائے گا۔
مودی کو اس خطاب کے نوازنے میں ان کے ایک پرانے چاہنے والے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ شخص بھارتی فلمی دنیا کا نامورکریکٹر ایکٹر انوپم کھیر ہے، وہ پہلے مودی کے جاں نثاروں میں شامل تھا۔ اسے مودی کا خاص آدمی سمجھا جاتا تھا۔ وہ مودی سے والہانہ محبت کرتا تھا اور اس کے خلاف بولنے والوں کے منہ بند کردیا کرتا تھا۔ وہ آئے دن مودی کے حق میں بیانات دیتا اور اس کے ہر جائز اور ناجائز فیصلے کا کھلے دل سے سواگت کیا کرتا تھا۔
ایک دفعہ نصیرالدین شاہ نے مودی کے خلاف کچھ کہہ دیا تھا تو انوپم کھیر نے انھیں بہت لتاڑا تھا اور بھارت کا دشمن قرار دے دیا تھا ساتھ ہی انھیں بھارت چھوڑنے اور پاکستان جانے کی تلقین بھی کردی تھی۔ اب وہی انوپم کھیر مودی کو بھارت کا دشمن قرار دے رہا ہے اور مودی سے نفرت کا یہ حال ہے کہ اس نے ہی بھارتیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بڑھ چڑھ کر باتیں کرنے والے مودی کے جنم دن کو '' یوم بڑبولا پن'' کے نام سے منائیں۔
اس نے اب مودی کی پالیسیوں کو بھارت کش قرار دیا ہے اور مودی کو یاد دلایا ہے کہ اس نے اپنے پہلے الیکشن کے دوران ہر ہندوستانی کو پندرہ لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا تھا اور ہر سال دو کروڑ ملازمتوں کی فراہمی کا بھی اعلان کیا تھا۔ یہ تمام وعدے اب ہوا میں اڑ چکے ہیں۔ بھارت معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے دوسری طرف اس کے دوست امبانی اور اڈانی وغیرہ کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔
لوگ بھوک سے مر رہے ہیں پھر کورونا نے پورے بھارت کو نرغے میں لے رکھا ہے مگر وہ اس بیماری کے تدارک کے لیے کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ ملک میں ان کی وجہ سے نفرت کا بازار گرم ہے۔ انوپم کھیر کی مودی کے خلاف بولنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ ایک کشمیری پنڈت خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
مودی نے اپنے پہلے الیکشن کے وقت وعدہ کیا تھا کہ وہ صرف ایک سال میں کشمیر میں کشمیری پنڈتوں کے لیے حالات سازگار بنا کر انھیں پھر سے وہاں آباد کردیں گے مگر اب سات سال بعد بھی ایسا نہیں ہو پایا ہے اور آگے بھی کوئی امید نہیں ہے کیونکہ اب وادی کے حالات پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہو چکے ہیں۔
مودی کے غلط فیصلوں کی وجہ سے اور خصوصاً بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے ختم کیے جانے کے بعد ایک طرف پورا جموں کشمیر ایک جیل خانے میں تبدیل ہو چکا ہے تو دوسری طرف تحریک آزادی پہلے سے کئی گنا زیادہ تیز ہوگئی ہے۔ پہلے عالمی برادری کشمیر پر کم ہی توجہ دیتی تھی مگر اب تو ہر ملک مودی کے غلط اقدامات اور کشمیریوں پر ظلم و ستم کی انتہا کرنے پر ان کی آزادی کے حق میں سوچنے لگا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عالمی برادری کی دلچسپی اتنی بڑھ گئی ہے کہ چین نے گزشتہ سال اس مسئلے کو تین مرتبہ سلامتی کونسل میں اٹھایا ہے اور کشمیریوں کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق خود اختیاری دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مسئلہ ماضی میں روس کے ویٹو کی وجہ سے حل نہیں ہو سکا تھا اور اب مغربی سامراجی ممالک اس کے حل کی راہ میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔
بھارتی تجزیہ کار اگلے الیکشن میں مودی کے ہارنے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ مودی کی مقبولیت میں کمی کی وجہ اس کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کی ناکامی ہے۔ مودی کے غلط اقدامات کی وجہ سے افغانستان میں بھارت کے اربوں ڈالر ڈوب چکے ہیں اتنی رقم سے تو پورے بھارت میں غریب عوام کے لیے لیٹرین بنوائے جاسکتے تھے۔
اب بھارت کا افغانستان سے بوریا بستر گول کردیا گیا ہے۔ اس نے دراصل افغانستان میں اپنا ڈیرا پاکستان کے خلاف دہشت گردی پھیلانے کے لیے ڈالا ہوا تھا اب طالبان نے اعلان کردیا ہے کہ بھارت کیا اب کسی ملک کو افغانستان میں دہشت گردی کے اڈے قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے اب کشمیریوں کی آزادی کی منزل بھی قریب نظر آنے لگی ہے۔ طالبان کے ایک ترجمان نے ایک پریس کانفرنس میں واضح طور پر کہا ہے کہ انھیں کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھانے کا پورا حق حاصل ہے۔ مودی طالبان کے اس بیان پر سخت پریشان ہے ادھر کشمیری لیڈر محبوبہ مفتی نے مودی کو انتباہ کیا ہے کہ جب طالبان امریکی جیسی سپرپاور کو شکست دے کر اپنے ملک سے نکال سکتے ہیں تو پھر بھارت کی کیا حیثیت ہے۔
حال ہی میں عظیم کشمیری لیڈر علی گیلانی کی میت کے ساتھ بھارتی فوج نے جو وحشیانہ سلوک کیا ہے اس پر پورا جموں کشمیر سراپا احتجاج ہے۔ علی گیلانی نے اپنی پوری زندگی کشمیریوں کی آزادی کے لیے وقف کردی تھی وہ ساری عمر بھارتی سامراج سے ٹکر لیتے رہے۔ انھیں اس سلسلے میں اذیت ناک سزائیں دی گئیں، برسوں جیل میں رکھا گیا ان کے عزیز رشتے داروں پر بھی ظلم ڈھائے گئے مگر انھیں آزادی کے راستے سے نہیں ہٹایا جاسکا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے پاکستان ہمارا ہے اور ہم پاکستانی ہیں۔
پاکستان سے ان کی محبت ہم پاکستانیوں کے لیے ایک سبق ہے۔ ان کی پاکستان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ مرتے وقت بھی وہ پاک سرزمین کے لیے دعا کرتے رہے۔ یہ اعزاز کیا کم ہے کہ ان کی میت کو پاکستانی پرچم مین لپٹا ہوا قبر میں اتار گیا اور بھارتی فوجی کچھ نہ کرسکے۔ ان کی وفات نے کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو مزید بڑھا دیا ہے اور لگتا ہے اب کشمیریوں کی آزادی کو بھارتی سامراج نہیں روک سکے گا اور وہ جلد پاکستان کا شہری بن کر آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہوں گے۔
مودی کو اس خطاب کے نوازنے میں ان کے ایک پرانے چاہنے والے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ شخص بھارتی فلمی دنیا کا نامورکریکٹر ایکٹر انوپم کھیر ہے، وہ پہلے مودی کے جاں نثاروں میں شامل تھا۔ اسے مودی کا خاص آدمی سمجھا جاتا تھا۔ وہ مودی سے والہانہ محبت کرتا تھا اور اس کے خلاف بولنے والوں کے منہ بند کردیا کرتا تھا۔ وہ آئے دن مودی کے حق میں بیانات دیتا اور اس کے ہر جائز اور ناجائز فیصلے کا کھلے دل سے سواگت کیا کرتا تھا۔
ایک دفعہ نصیرالدین شاہ نے مودی کے خلاف کچھ کہہ دیا تھا تو انوپم کھیر نے انھیں بہت لتاڑا تھا اور بھارت کا دشمن قرار دے دیا تھا ساتھ ہی انھیں بھارت چھوڑنے اور پاکستان جانے کی تلقین بھی کردی تھی۔ اب وہی انوپم کھیر مودی کو بھارت کا دشمن قرار دے رہا ہے اور مودی سے نفرت کا یہ حال ہے کہ اس نے ہی بھارتیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بڑھ چڑھ کر باتیں کرنے والے مودی کے جنم دن کو '' یوم بڑبولا پن'' کے نام سے منائیں۔
اس نے اب مودی کی پالیسیوں کو بھارت کش قرار دیا ہے اور مودی کو یاد دلایا ہے کہ اس نے اپنے پہلے الیکشن کے دوران ہر ہندوستانی کو پندرہ لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا تھا اور ہر سال دو کروڑ ملازمتوں کی فراہمی کا بھی اعلان کیا تھا۔ یہ تمام وعدے اب ہوا میں اڑ چکے ہیں۔ بھارت معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے دوسری طرف اس کے دوست امبانی اور اڈانی وغیرہ کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔
لوگ بھوک سے مر رہے ہیں پھر کورونا نے پورے بھارت کو نرغے میں لے رکھا ہے مگر وہ اس بیماری کے تدارک کے لیے کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ ملک میں ان کی وجہ سے نفرت کا بازار گرم ہے۔ انوپم کھیر کی مودی کے خلاف بولنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ ایک کشمیری پنڈت خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
مودی نے اپنے پہلے الیکشن کے وقت وعدہ کیا تھا کہ وہ صرف ایک سال میں کشمیر میں کشمیری پنڈتوں کے لیے حالات سازگار بنا کر انھیں پھر سے وہاں آباد کردیں گے مگر اب سات سال بعد بھی ایسا نہیں ہو پایا ہے اور آگے بھی کوئی امید نہیں ہے کیونکہ اب وادی کے حالات پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہو چکے ہیں۔
مودی کے غلط فیصلوں کی وجہ سے اور خصوصاً بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے ختم کیے جانے کے بعد ایک طرف پورا جموں کشمیر ایک جیل خانے میں تبدیل ہو چکا ہے تو دوسری طرف تحریک آزادی پہلے سے کئی گنا زیادہ تیز ہوگئی ہے۔ پہلے عالمی برادری کشمیر پر کم ہی توجہ دیتی تھی مگر اب تو ہر ملک مودی کے غلط اقدامات اور کشمیریوں پر ظلم و ستم کی انتہا کرنے پر ان کی آزادی کے حق میں سوچنے لگا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عالمی برادری کی دلچسپی اتنی بڑھ گئی ہے کہ چین نے گزشتہ سال اس مسئلے کو تین مرتبہ سلامتی کونسل میں اٹھایا ہے اور کشمیریوں کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق خود اختیاری دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مسئلہ ماضی میں روس کے ویٹو کی وجہ سے حل نہیں ہو سکا تھا اور اب مغربی سامراجی ممالک اس کے حل کی راہ میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔
بھارتی تجزیہ کار اگلے الیکشن میں مودی کے ہارنے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ مودی کی مقبولیت میں کمی کی وجہ اس کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کی ناکامی ہے۔ مودی کے غلط اقدامات کی وجہ سے افغانستان میں بھارت کے اربوں ڈالر ڈوب چکے ہیں اتنی رقم سے تو پورے بھارت میں غریب عوام کے لیے لیٹرین بنوائے جاسکتے تھے۔
اب بھارت کا افغانستان سے بوریا بستر گول کردیا گیا ہے۔ اس نے دراصل افغانستان میں اپنا ڈیرا پاکستان کے خلاف دہشت گردی پھیلانے کے لیے ڈالا ہوا تھا اب طالبان نے اعلان کردیا ہے کہ بھارت کیا اب کسی ملک کو افغانستان میں دہشت گردی کے اڈے قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے اب کشمیریوں کی آزادی کی منزل بھی قریب نظر آنے لگی ہے۔ طالبان کے ایک ترجمان نے ایک پریس کانفرنس میں واضح طور پر کہا ہے کہ انھیں کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھانے کا پورا حق حاصل ہے۔ مودی طالبان کے اس بیان پر سخت پریشان ہے ادھر کشمیری لیڈر محبوبہ مفتی نے مودی کو انتباہ کیا ہے کہ جب طالبان امریکی جیسی سپرپاور کو شکست دے کر اپنے ملک سے نکال سکتے ہیں تو پھر بھارت کی کیا حیثیت ہے۔
حال ہی میں عظیم کشمیری لیڈر علی گیلانی کی میت کے ساتھ بھارتی فوج نے جو وحشیانہ سلوک کیا ہے اس پر پورا جموں کشمیر سراپا احتجاج ہے۔ علی گیلانی نے اپنی پوری زندگی کشمیریوں کی آزادی کے لیے وقف کردی تھی وہ ساری عمر بھارتی سامراج سے ٹکر لیتے رہے۔ انھیں اس سلسلے میں اذیت ناک سزائیں دی گئیں، برسوں جیل میں رکھا گیا ان کے عزیز رشتے داروں پر بھی ظلم ڈھائے گئے مگر انھیں آزادی کے راستے سے نہیں ہٹایا جاسکا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے پاکستان ہمارا ہے اور ہم پاکستانی ہیں۔
پاکستان سے ان کی محبت ہم پاکستانیوں کے لیے ایک سبق ہے۔ ان کی پاکستان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ مرتے وقت بھی وہ پاک سرزمین کے لیے دعا کرتے رہے۔ یہ اعزاز کیا کم ہے کہ ان کی میت کو پاکستانی پرچم مین لپٹا ہوا قبر میں اتار گیا اور بھارتی فوجی کچھ نہ کرسکے۔ ان کی وفات نے کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو مزید بڑھا دیا ہے اور لگتا ہے اب کشمیریوں کی آزادی کو بھارتی سامراج نہیں روک سکے گا اور وہ جلد پاکستان کا شہری بن کر آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہوں گے۔