ہم اتنے پسماندہ کیوں ہیں
آپ کے اردگرد‘بھرپور ناانصافی کی درجنوں نہیں بلکہ ہزاروں مثالیں بکھری پڑی ہونگیں۔
کارلاٹکر امریکی شہر ہوسٹن میں 1959 میں پیدا ہوئی۔ ماں باپ کی باہمی خانگی زندگی از حد خراب تھی۔ بچپن ہی سے کارلا نے گھر میں لڑائی جھگڑے اور فساد کے علاوہ کچھ نہیں دیکھاتھا۔ منفی ماحول نے اس پر حد درجہ نفسیاتی اثر ڈالا۔ دس برس کی عمر میں سگریٹ اور منشیات استعمال شروع کر دیں۔بچپن ہی سے عصمت فروشی کے پیشہ سے وابستہ ہو گئی۔
عین جوانی میں اس سے دو قتل ہو گئے۔ ٹکر نے ایک ہتھوڑے سے ڈین اورروتھ کو سفاکی سے قتل کر ڈالا۔ امریکا میں اس دہرے قتل سے طوفان برپا ہو گیا۔ 1983 میں کارلاٹکر کو گرفتارکر لیا گیا۔ اسی سال ٹیکساس کی عدالت سے اسے سزائے موت سنا دی۔ اسے ماوئٹن ویو بونٹ نامی جیل میں سزائے موت کی کال کوٹھڑی میں پابند سلاسل کر دیا گیا۔
جیل میں کارلاٹکر نے لائبریری سے بائبل لی۔ کچھ عرصے بعد جب مطالعہ ختم ہوا تو کارلا مکمل طور پر بدل چکی تھی۔ سارا سارا دن اور رات' خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتی تھی۔ اپنی پرانی زندگی پر شرمندگی کا اظہار کرتی تھی۔ اس تبدیلی پر پورا جیل کا عملہ اور اسیران ششدر تھے۔ ٹکر نے اپنی زندگی انسانوں کی بھلائی کے لیے وقف کر دی تھی۔
جیل میں کسی بھی قیدی کو معمولی سی بھی پریشانی ہوتی تو ٹکر اس کے پاس جا کر مشکل کا مداوا کرتی۔ نوجوان قیدی جو بھیانک جرائم میں سزا بھگت رہے تھے' ٹکر ان کو جا کر تبلیغ کرتی۔ گناہوں سے توبہ تائب کرواتی۔ کوشش کرتی کہ وہ نیکی کے راستے پر چلنا شروع کر دیں۔ ٹکر کی یہ نیک شہرت پورے امریکا میں پھیل گئی۔
بین الاقوامی جریدوں نے کارلا پر مضامین شایع کرنا شروع کر دیے۔ جیل کے وارڈن نے ایک عدالت میں بیان دیا کہ کارلا جیسی پارسا عورت اس نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھی۔ لہٰذا اس کی سزائے موت ختم کی جائے۔ کارلا کا کیس مقامی ریاست کے بورڈ کے پاس گیا ۔ وہاں بھی سزائے موت میں تخفیف نہ کی گئی۔ اب اسے جیل میں چودہ برس ہو چکے تھے۔
سزائے موت پر عملدرآمد کا وقت حد درجہ نزدیک تھا۔ پورے امریکا اور مغربی دنیا میں کارلا کی معافی کی مہم چلائی گئی۔ پوپ جون پال دوم تک نے امریکی حکومت کو رحم کی درخواست کر دی۔ اٹلی کے وزیراعظم اومنو پروڈی بھی کارلا کی سزائے موت ختم کرنے کے لیے آواز اٹھا رہا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ مقتولین کے بھائی نے بھی کارلا کی سزا معاف کرنے کی استدعا کر ڈالی۔ رحم کی آخری اپیل' ٹیکساس کے گورنر جارج بش کے پاس پیش کی گئی۔
گورنر پر پوری دنیا کے اکابرین کا دباؤ تھا۔ پھر کارلا اب ایک انتہائی مثبت مذہبی شخصیت کے طور پر سامنے آئی تھی۔ جارج بش نے اپیل کو غور سے پڑھا۔ قانونی ماہرین کی رائے طلب کی ۔ غور کرنے کے بعد کارلا کی سزائے موت برقرار رکھی گئی۔ یہ اٹھائس صفحات کا فیصلہ تھا۔
گورنر نے درج کیا کہ'' دنیا میں امریکا وہ واحد ملک ہے جہاں انصاف کا انتہائی معیاری نظام پوری طاقت کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ نظام انصاف کے سامنے طاقتور اور کمزور برابر ہیں۔ کسی کی بھی یہ ہمت اور حیثیت نہیں کہ عدالتوں پر اثر انداز ہو سکے۔ جس بھی شخص نے کسی قسم کا بھی جرم کیا ہے۔ اسے سزا دینا' ا مریکی نظام کی سب سے بڑی قوت ہے۔ کارلا نے بھیانک طریقے سے دو قتل کیے ہیں۔ اس کی سزا اسے مل کر رہے گی۔جیل میں جا کر اس میں جو مثبت تبدیلی آئی ہے۔اس کا اندوہناک جرم سے رتی بھر بھی تعلق نہیں''۔
حکم کے تحت دو فروری 1998 کو کارلا کو زہر کا انجکشن دے کر ختم کر دیا گیا۔ کارلا ' ایک سو پینتیس برس میں ٹیکساس میں سزائے موت پانے والی پہلی عورت تھی۔ پوری دنیا سے رحم کی اپیلوںاور پوپ کی طرف سے معاف کر دینے کی التجا نے بھی امریکی نظام انصاف پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔ قاتلہ کو قرار واقعی سزا مل کر رہی۔
جب سے کارلا ٹکر اور امریکی نظام انصاف پر غور کرنا شروع کیا ہے۔ امریکا کی سپر پاور بننے کی بنیادی وجہ سمجھ میں آنے لگی ہے۔ امیر اور غریب ' طاقتور اور نحیف کے لیے یکساں انصاف نے اس ملک کو دنیا کی حکمرانی عطا کر دی ہے ۔ مگر یہیں سے ذہن میں ایک متضاد سوال بھی سراٹھاتا ہے۔ پاکستان کے دگرگوں اور مشکل حالات کیوں ہیں۔
کیا ایسا تو نہیں کہ ہمارا پورا معاشرتی ' سماجی' اقتصادی' سیاسی اور ریاستی نظام انصاف سے مبرا ہے۔ہمارے پورے ملک میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ برائی نہیں کر رہا۔ اپنے ملک کی بربادی کی اصل وجہ بیان کر رہا ہوں۔ انصاف کی عدم موجوگی ایک طرف' اور طاقتور اور کمزور کے لیے غیر یکساںترازو دوسری طرف۔ پاکستانی عدالتوں سے انصاف لینا ناممکنات میں سے ہے۔ مضبوط فریق کے پاس انصاف گھر چل کر آ جاتا ہے۔ کمزور' انصاف کے حصول کے لیے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتا ہے۔ کمزور فریق' ہر طرح کا ظلم سہہ کر بھی صرف اور صرف فریاد ہی کر سکتا ہے۔
آپ کے اردگرد'بھرپور ناانصافی کی درجنوں نہیں بلکہ ہزاروں مثالیں بکھری پڑی ہونگیں۔ آئین کسی بھی ریاست کا مقدس ترین مسودہ ہوتا ہے۔ کوئی ملک اپنے آئین کی توہین برداشت نہیں کرتا۔ مگر کیا یہ سیاسی المیہ نہیں ہے کہ تین مارشل لاؤں کی ابتداء ہی میں پاکستان کے آئین کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔
اس کوبیکار اور ناکارہ کاغذوں کا مسودہ قرار دے دیا گیا۔ کیا کسی مہذب ملک میں اتنا بڑا جرم کرنے کا تصور تک کیا جا سکتا ہے۔ بالکل نہیں۔ مگر ہماری عدالتوں میں انصاف کا ادنیٰ معیار دیکھیے کہ آئین کو پاؤں تلے کچلنے والے کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔ بلکہ انھیں مزید اختیار دیا گیا کہ جاؤ جو مرضی کرو' عدالتیں تمہارے ساتھ ہیں۔
1970کے الیکشن کے نتائج کے مطابق شیخ مجیب الرحمن کو ملک کا وزیراعظم بننے کا قانونی اور سیاسی حق حاصل تھا۔ مگر سیاسی انصاف نہیں کیا گیا۔ ملک دو ٹکڑے کرنا گوارا کر لیا مگر شیخ مجیب الرحمن کا قانونی حق اسے نہیں دیا گیا۔ جس جس شخص یا ادارے نے سیاسی ناانصافی کی تھی ' اسے کسی قسم کی کوئی سزا نہیں ملی۔ معاملات جوں کے توں چلتے رہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی دنیا میں وہ پہلا واقعہ ہے جس میں اکثریت نے جنگ کر کے اقلیت سے آزادی حاصل کی تھی۔ وجہ صرف اور صرف سیاسی انصاف کا نہ ہونا تھا۔
یحییٰ خان نے اپنے ہی ملک میں لشکر کشی کر دی۔ جنگ ہار گیا' مگر اسے کوئی سزا نہیں ملی۔بالکل اسی طرح' الیکشن وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے عوام حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارا کوئی ایک الیکشن بھی شفاف نہیں ہو پایا۔ ہر حکمران فریق نے الیکشن کمیشن کے ذریعے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے۔ مگر کیا یہ شرمناک بات نہیں ہے کہ آج تک الیکشن کمیشن یا عبوری حکمرانوں میں سے کسی ایک کو بھی الیکشن کو گدلا کرنے کی سزا نہیں ملی۔ اس سے زیادہ قومی ناانصافی مزید کیا ہو گی۔
مالیاتی ناانصافی کو پرکھیے ۔ کیا ہمارے مقتدر سیاسی اور مذہبی حکمران' تین چار دہائیوں پہلے واقعی اتنے امیر تھے جتنے آج ہیں۔ ان کے بزرگوں نے شائد محنت کی ہو گی۔ مگر ان خاندانوں کے افراد نے تو کوئی کاروبار کیے بغیر اربوں ڈالر کما لیے یا خورد بردکر لیے۔ کیا آج تک کسی اہم لیڈر کو اس ہو شربا خیانت پر بھرپور سزا ملی۔ ہرگز نہیں۔ اگر عدالتوں سے سزا دلوائی بھی گئی تو اس کے سیاسی محرکات تھے۔ دراصل ہمارا پورا نظام کرپشن کو ختم کرنے میں معمولی سی بھی سنجیدگی نہیں رکھتا۔ ورنہ کرپشن تو بہت سے ممالک نے ختم کر کے دکھائی ہے۔
کیا برطانوی وزیراعظم اپنی مرضی سے کسی کو مالی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ جناب اس کی تو یہ مجال نہیں کہ سرکاری رہائش گاہ میں ایک اضافی کمرہ بنوا سکے۔ چند مذہبی رہنماؤں کی ذاتی جاہ و جلال اور دولت پر بھی تنقیدی نظر ڈالیے۔ اتنی خطیر رقم دیکھ کر آپ کا سانس بند ہو جائے گا۔ مگر ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ یہاں کارلا جیسی نیک ہو جانے والی عورت کوجرم کے مطابق سزائے موت دینے والا کوئی ادارہ نہیں ہے۔
یہاں ٹیکساس کے گورنر جیسا کوئی انتظامی انسان نہیں' جو یہ کہہ سکے کہ امریکا سپر پاور صرف اور صرف اپنے غیر جانبدارنہ نظام انصاف کی بدولت ہے۔ لہٰذا پاکستان ناانصافی کے سمندر میں ایسے ہی ڈوبا رہے گا۔ پھر دنیا کے ماہرین بلا کر پوچھے گا کہ ہم اتنے پسماندہ کیوں ہیں!
عین جوانی میں اس سے دو قتل ہو گئے۔ ٹکر نے ایک ہتھوڑے سے ڈین اورروتھ کو سفاکی سے قتل کر ڈالا۔ امریکا میں اس دہرے قتل سے طوفان برپا ہو گیا۔ 1983 میں کارلاٹکر کو گرفتارکر لیا گیا۔ اسی سال ٹیکساس کی عدالت سے اسے سزائے موت سنا دی۔ اسے ماوئٹن ویو بونٹ نامی جیل میں سزائے موت کی کال کوٹھڑی میں پابند سلاسل کر دیا گیا۔
جیل میں کارلاٹکر نے لائبریری سے بائبل لی۔ کچھ عرصے بعد جب مطالعہ ختم ہوا تو کارلا مکمل طور پر بدل چکی تھی۔ سارا سارا دن اور رات' خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتی تھی۔ اپنی پرانی زندگی پر شرمندگی کا اظہار کرتی تھی۔ اس تبدیلی پر پورا جیل کا عملہ اور اسیران ششدر تھے۔ ٹکر نے اپنی زندگی انسانوں کی بھلائی کے لیے وقف کر دی تھی۔
جیل میں کسی بھی قیدی کو معمولی سی بھی پریشانی ہوتی تو ٹکر اس کے پاس جا کر مشکل کا مداوا کرتی۔ نوجوان قیدی جو بھیانک جرائم میں سزا بھگت رہے تھے' ٹکر ان کو جا کر تبلیغ کرتی۔ گناہوں سے توبہ تائب کرواتی۔ کوشش کرتی کہ وہ نیکی کے راستے پر چلنا شروع کر دیں۔ ٹکر کی یہ نیک شہرت پورے امریکا میں پھیل گئی۔
بین الاقوامی جریدوں نے کارلا پر مضامین شایع کرنا شروع کر دیے۔ جیل کے وارڈن نے ایک عدالت میں بیان دیا کہ کارلا جیسی پارسا عورت اس نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھی۔ لہٰذا اس کی سزائے موت ختم کی جائے۔ کارلا کا کیس مقامی ریاست کے بورڈ کے پاس گیا ۔ وہاں بھی سزائے موت میں تخفیف نہ کی گئی۔ اب اسے جیل میں چودہ برس ہو چکے تھے۔
سزائے موت پر عملدرآمد کا وقت حد درجہ نزدیک تھا۔ پورے امریکا اور مغربی دنیا میں کارلا کی معافی کی مہم چلائی گئی۔ پوپ جون پال دوم تک نے امریکی حکومت کو رحم کی درخواست کر دی۔ اٹلی کے وزیراعظم اومنو پروڈی بھی کارلا کی سزائے موت ختم کرنے کے لیے آواز اٹھا رہا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ مقتولین کے بھائی نے بھی کارلا کی سزا معاف کرنے کی استدعا کر ڈالی۔ رحم کی آخری اپیل' ٹیکساس کے گورنر جارج بش کے پاس پیش کی گئی۔
گورنر پر پوری دنیا کے اکابرین کا دباؤ تھا۔ پھر کارلا اب ایک انتہائی مثبت مذہبی شخصیت کے طور پر سامنے آئی تھی۔ جارج بش نے اپیل کو غور سے پڑھا۔ قانونی ماہرین کی رائے طلب کی ۔ غور کرنے کے بعد کارلا کی سزائے موت برقرار رکھی گئی۔ یہ اٹھائس صفحات کا فیصلہ تھا۔
گورنر نے درج کیا کہ'' دنیا میں امریکا وہ واحد ملک ہے جہاں انصاف کا انتہائی معیاری نظام پوری طاقت کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ نظام انصاف کے سامنے طاقتور اور کمزور برابر ہیں۔ کسی کی بھی یہ ہمت اور حیثیت نہیں کہ عدالتوں پر اثر انداز ہو سکے۔ جس بھی شخص نے کسی قسم کا بھی جرم کیا ہے۔ اسے سزا دینا' ا مریکی نظام کی سب سے بڑی قوت ہے۔ کارلا نے بھیانک طریقے سے دو قتل کیے ہیں۔ اس کی سزا اسے مل کر رہے گی۔جیل میں جا کر اس میں جو مثبت تبدیلی آئی ہے۔اس کا اندوہناک جرم سے رتی بھر بھی تعلق نہیں''۔
حکم کے تحت دو فروری 1998 کو کارلا کو زہر کا انجکشن دے کر ختم کر دیا گیا۔ کارلا ' ایک سو پینتیس برس میں ٹیکساس میں سزائے موت پانے والی پہلی عورت تھی۔ پوری دنیا سے رحم کی اپیلوںاور پوپ کی طرف سے معاف کر دینے کی التجا نے بھی امریکی نظام انصاف پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔ قاتلہ کو قرار واقعی سزا مل کر رہی۔
جب سے کارلا ٹکر اور امریکی نظام انصاف پر غور کرنا شروع کیا ہے۔ امریکا کی سپر پاور بننے کی بنیادی وجہ سمجھ میں آنے لگی ہے۔ امیر اور غریب ' طاقتور اور نحیف کے لیے یکساں انصاف نے اس ملک کو دنیا کی حکمرانی عطا کر دی ہے ۔ مگر یہیں سے ذہن میں ایک متضاد سوال بھی سراٹھاتا ہے۔ پاکستان کے دگرگوں اور مشکل حالات کیوں ہیں۔
کیا ایسا تو نہیں کہ ہمارا پورا معاشرتی ' سماجی' اقتصادی' سیاسی اور ریاستی نظام انصاف سے مبرا ہے۔ہمارے پورے ملک میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ برائی نہیں کر رہا۔ اپنے ملک کی بربادی کی اصل وجہ بیان کر رہا ہوں۔ انصاف کی عدم موجوگی ایک طرف' اور طاقتور اور کمزور کے لیے غیر یکساںترازو دوسری طرف۔ پاکستانی عدالتوں سے انصاف لینا ناممکنات میں سے ہے۔ مضبوط فریق کے پاس انصاف گھر چل کر آ جاتا ہے۔ کمزور' انصاف کے حصول کے لیے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتا ہے۔ کمزور فریق' ہر طرح کا ظلم سہہ کر بھی صرف اور صرف فریاد ہی کر سکتا ہے۔
آپ کے اردگرد'بھرپور ناانصافی کی درجنوں نہیں بلکہ ہزاروں مثالیں بکھری پڑی ہونگیں۔ آئین کسی بھی ریاست کا مقدس ترین مسودہ ہوتا ہے۔ کوئی ملک اپنے آئین کی توہین برداشت نہیں کرتا۔ مگر کیا یہ سیاسی المیہ نہیں ہے کہ تین مارشل لاؤں کی ابتداء ہی میں پاکستان کے آئین کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔
اس کوبیکار اور ناکارہ کاغذوں کا مسودہ قرار دے دیا گیا۔ کیا کسی مہذب ملک میں اتنا بڑا جرم کرنے کا تصور تک کیا جا سکتا ہے۔ بالکل نہیں۔ مگر ہماری عدالتوں میں انصاف کا ادنیٰ معیار دیکھیے کہ آئین کو پاؤں تلے کچلنے والے کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔ بلکہ انھیں مزید اختیار دیا گیا کہ جاؤ جو مرضی کرو' عدالتیں تمہارے ساتھ ہیں۔
1970کے الیکشن کے نتائج کے مطابق شیخ مجیب الرحمن کو ملک کا وزیراعظم بننے کا قانونی اور سیاسی حق حاصل تھا۔ مگر سیاسی انصاف نہیں کیا گیا۔ ملک دو ٹکڑے کرنا گوارا کر لیا مگر شیخ مجیب الرحمن کا قانونی حق اسے نہیں دیا گیا۔ جس جس شخص یا ادارے نے سیاسی ناانصافی کی تھی ' اسے کسی قسم کی کوئی سزا نہیں ملی۔ معاملات جوں کے توں چلتے رہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی دنیا میں وہ پہلا واقعہ ہے جس میں اکثریت نے جنگ کر کے اقلیت سے آزادی حاصل کی تھی۔ وجہ صرف اور صرف سیاسی انصاف کا نہ ہونا تھا۔
یحییٰ خان نے اپنے ہی ملک میں لشکر کشی کر دی۔ جنگ ہار گیا' مگر اسے کوئی سزا نہیں ملی۔بالکل اسی طرح' الیکشن وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے عوام حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارا کوئی ایک الیکشن بھی شفاف نہیں ہو پایا۔ ہر حکمران فریق نے الیکشن کمیشن کے ذریعے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے۔ مگر کیا یہ شرمناک بات نہیں ہے کہ آج تک الیکشن کمیشن یا عبوری حکمرانوں میں سے کسی ایک کو بھی الیکشن کو گدلا کرنے کی سزا نہیں ملی۔ اس سے زیادہ قومی ناانصافی مزید کیا ہو گی۔
مالیاتی ناانصافی کو پرکھیے ۔ کیا ہمارے مقتدر سیاسی اور مذہبی حکمران' تین چار دہائیوں پہلے واقعی اتنے امیر تھے جتنے آج ہیں۔ ان کے بزرگوں نے شائد محنت کی ہو گی۔ مگر ان خاندانوں کے افراد نے تو کوئی کاروبار کیے بغیر اربوں ڈالر کما لیے یا خورد بردکر لیے۔ کیا آج تک کسی اہم لیڈر کو اس ہو شربا خیانت پر بھرپور سزا ملی۔ ہرگز نہیں۔ اگر عدالتوں سے سزا دلوائی بھی گئی تو اس کے سیاسی محرکات تھے۔ دراصل ہمارا پورا نظام کرپشن کو ختم کرنے میں معمولی سی بھی سنجیدگی نہیں رکھتا۔ ورنہ کرپشن تو بہت سے ممالک نے ختم کر کے دکھائی ہے۔
کیا برطانوی وزیراعظم اپنی مرضی سے کسی کو مالی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ جناب اس کی تو یہ مجال نہیں کہ سرکاری رہائش گاہ میں ایک اضافی کمرہ بنوا سکے۔ چند مذہبی رہنماؤں کی ذاتی جاہ و جلال اور دولت پر بھی تنقیدی نظر ڈالیے۔ اتنی خطیر رقم دیکھ کر آپ کا سانس بند ہو جائے گا۔ مگر ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ یہاں کارلا جیسی نیک ہو جانے والی عورت کوجرم کے مطابق سزائے موت دینے والا کوئی ادارہ نہیں ہے۔
یہاں ٹیکساس کے گورنر جیسا کوئی انتظامی انسان نہیں' جو یہ کہہ سکے کہ امریکا سپر پاور صرف اور صرف اپنے غیر جانبدارنہ نظام انصاف کی بدولت ہے۔ لہٰذا پاکستان ناانصافی کے سمندر میں ایسے ہی ڈوبا رہے گا۔ پھر دنیا کے ماہرین بلا کر پوچھے گا کہ ہم اتنے پسماندہ کیوں ہیں!