افغانستان کی موجودہ صورتحال سے خطے میں اقتصادی ترقی کا خواب پورا ہوسکتا ہے
نئی طالبان قیادت کو عالمی امور کا ادراک...
امریکی انخلاء کے بعد افغانستان کی صورتحال میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے۔
افغان طالبان نے جس انداز اور کم وقت میں پورے افغانستان پر بغیر خون خرابے کے کنٹرول حاصل کیا ہے اس پر دنیا حیران ہے۔ماضی کے برعکس طالبان کے رویے میں نرمی نظر آرہی ہے۔
کابل پر قبضہ کے وقت طالبان نے عام معافی کا اعلان کردیا،خواتین کو حکومت میں شمولیت کی دعوت بھی دی اوردیگر ایسے اقدامات کیے جس سے افغانستان میں وہ افراتفری نہیں پھیلی جس کی توقع کی جارہی تھی۔ عالمی منظر نامے میں تبدیلیوں کی وجہ سے اس وقت افغانستان بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے ۔
چین نے حال ہی میں افغانستان کیلئے مالی امداد کا اعلان کیا ہے، پاکستان نے بھی جذبہ خیرسگالی کے تحت وہاں امدادی سامان بھیجا ہے جس سے یقینا وہاں کے لوگوں کو ریلیف ملے گا۔
''افغانستان کی موجودہ صورتحال اور خطے پر اس کے اثرات'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ ، سیاسی اور دفاعی تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا۔ ماہرین کی رائے نذرقارئین ہے۔
ڈاکٹر اعجاز بٹ
(ماہر امور خارجہ)
1973 ء کے بعد افغانستان میں پہلی مرتبہ ایسی حکومت آئی ہے جس کا کنٹرول پورے افغانستان پر ہے۔ خود طالبان کی ماضی کی حکومت میں بھی ان کے پاس افغانستان کا مکمل کنٹرول نہیں تھا لہٰذا میرے نزدیک خطے میںامن و استحکام، وسطی ایشیائی ممالک سے گیس معاہدوں پر عملدرآمد اور سب سے بڑھ کر سی پیک منصوبے کے خواب کو مکمل کرنے کیلئے پاکستان کے پاس سنہری موقع ہے۔
لہٰذا ہمیں سمجھداری کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ چین اور روس کھل کر طالبان کی سپورٹ کر رہے ہیں، ان کی مدد کرنا اور موجودہ مشکل حالات میں انہیں 'بیل آؤٹ' کرنا ان کے مفاد میں ہے، اس سے پاکستان کو بھی فائدہ ہوگا۔ ماضی میں چین، روس اور پاکستان میں بعض تحریکوں کوطالبان کی سپورٹ رہی ہے، مگر اب وہ یہ یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ یہ بہت بڑا دعویٰ ہے جو اتنا آسان نہیں ہوگا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان کی قیادت میں دو نظریات کے لوگ موجود ہیں، ایک وہ ہیں جنہوں نے افغانستان کے اندر جنگ لڑی ہے اور دوسرے وہ ہیں جنہیں مغرب اور عالمی امور کا تجربہ ہے لہٰذا ان کے نظریات میں ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے لیکن اگر طالبان اپنے دعووے کو پورا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس کا خطے کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔ پاکستان اس میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے کہ طالبان کے درمیان ٹکراؤ پیدا نہ ہونے دے ۔
9/11 کے وقت دنیا کی ہمدردیاں امریکاکے ساتھ تھی مگر آج دو دہائیوں کے بعد صورتحال یکطرفہ نہیں رہی بلکہ اب طالبان کے موجودہ کردار اور عالمی منظرنامے میں ممکنہ تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا کی سو چ میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔ امریکا نے افغانستان کے 10 ارب ڈالر کے فارن ریزرو منجمد کر دیئے اور صرف یہی نہیں بلکہ ا س کے کہنے پر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے بھی افغانستان پر پابندیاں لگا دی ہیں جس سے وہاں صورتحال خراب ہوسکتی ہے۔ افغانستان کے 90 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے ہیں۔
لہٰذا طالبان کیلئے ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے جو بیرونی تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے لہٰذا چین، روس اور پاکستان کو ان کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے۔ پاکستان سے زیادہ چین کے مفادات افغانستان سے وابستہ ہے، OBOR اور سی پیک منصوبے کی کامیابی افغانستان میں امن و استحکام سے جڑی ہے لہٰذا چین بھی موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، اس کی خواہش ہے کہ وہاں امن قائم ہو اور ترقی کی راہ ہموار ہوسکے۔ موجودہ مشکل صورتحال سے نمٹنے کیلئے چین نے افغانستان کیلئے 30 کروڑ ڈالر امداد کا اعلان کرکے اچھا کردار ادا کیا ہے۔
اس سے قدرے ریلیف ملے گا۔ افغانستان کے معاملے میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہاں بھارت کی سٹرٹیجک ہار اور پاکستان کی جیت ہوئی ہے۔طالبان کے کنٹرول سنبھالنے سے بھارت میں صف ماتم بچھ گئی ہے، اس کی ساری سرمایہ کاری ڈوب گئی ہے۔ طالبان کی حکومت آنے سے کشمیر کی تحریک کو بھی اخلاقی سپورٹ ملی ہے کیونکہ طالبان کشمیریوں کی جدوجہد آزدی کے حق میں ہیں لہٰذا اب بھارت مشکلات سے دوچار ہوگا۔ ہمارے لیے اہم یہ ہے کہ طالبان کس طرح ٹی ٹی پی کے عمل دخل کا مکمل خاتمہ کرتے ہیں۔
مغربی میڈیا میں افغان طالبان اور ان کی حکومت کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور انہیں ظالم دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آج افغانستان میں ایک بہت بڑا طبقہ پڑھا لکھا ہے جو ان کی سول سوسائٹی کا حصہ ہے۔ یہ طبقہ طالبان کے خلاف ہے لیکن اس کی تعداد کم ہے۔ افغانستان کی زیادہ تر آبادی افغان طالبان کو سپورٹ کر رہی ہے اور اسے امید ہے کہ طالبان جنگ کے بعد اب انہیں مشکلات سے بھی نکال لیں گے اور افغانستان تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔
بریگیڈیئر (ر) محمد یوسف
(دفاعی تجزیہ نگار )
افغانستان کی صورتحال پر مجھے سابق آئی ایس آئی چیف جنرل(ر) حمید گل کے وہ تاریخی الفاظ یاد آرہے ہیں جو اس وقت زبان زد عام ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جب افغانستان کی تاریخ لکھی جائے گی تو لکھا جائے گا کہ آئی ایس آئی نے امریکا کی مدد سے افغانستان میں روس کو شکست دی مگر اس کے بعد دوسرا جملہ لکھا جائے گا کہ آئی ایس آئی نے افغانستان میں امریکا کی مدد سے امریکا کو بھی شکست دی۔ آج جب امریکا افغانستان سے شکست کھا کر جاچکا ہے اور افغان طالبان پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں تو جنرل (ر) حمید گل کے یہ الفاظ افغانستان کی تاریخ بن چکے ہیں۔
افغانستان کے لوگ چٹان ہیںجنہوں نے تین عالمی طاقتوں برطانیہ، روس اور امریکا کو شکست دے کر خود کو منوایا ہے۔ احمد شاہ مسعود اور گلدین حکمت یار گروپوں کی آپس کی لڑائی سے افغانستان کا بہت نقصان ہو جس میں 59 ہزار افراد مارے گئے۔ اتنا نقصان بڑی طاقتوں سے لڑائی میں نہیں ہوا جتنا آپس کی لڑائی سے ہوا۔ آج کے طالبان ماضی جیسے نہیں رہے۔
طالبان کی موجودہ قیادت میں پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں، انہیں عالمی امور اور سٹرٹیجک معاملات کا ادراک ہے یہی وجہ ہے کہ وہ حالات کو سمجھتے ہوئے بہترین انداز میں کام کر رہے ہیں۔ کابل پر حملے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے عام معافی کا اعلان کیا جو بہترین تھا۔ دنیا حیران ہے کہ جن کے پاؤں میں جوتا نہیں اور کھانے کیلئے صرف سوکھی روٹی ہے انہوں نے کیسے ایک سپر پاور کو شکست دے دی۔ افغانستان کی صورتحال سے کسی کو فرق پڑے نہ پڑے پاکستان کو ضرور پڑے گا۔
پاکستان کا ایک طویل بارڈر افغانستان کے ساتھ ہے لہٰذا وہاں کے حالات کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑتا ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال ہمارے لیے سازگار ہے اور اس سے بہتر انداز میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس وقت افغانستان کے حوالے سے حکومت کی پالیسی درست ہے لہٰذا اس میں تبدیلی نہیں آنی چاہیے۔ ایک بات اہم ہے کہ بظاہر ابھی تک ہم امریکا کے اتحادی ہیں لہٰذاہمیں افغانستان کے معاملے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ انتہائی سمجھداری کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ امریکا اتنی آسانی سے افغانستان میں امن نہیں آنے دے گا بلکہ وہاں مسائل پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ امریکا چاہتا ہے کہ وہ پنج شیر کے جغرافیہ سے فائدہ اٹھائے اور وہاں طالبان کیلئے مسائل پیدا کرے۔ پاکستان، چین اور روس، تینوں ممالک کا افغانستان میں سٹیک ہے۔
سی پیک منصوبے کا مستقبل بھی افغانستان میں استحکام کے ساتھ جڑا ہے جبکہ وسطی ایشیائی ممالک سے گیس و دیگر ذخائر کے حوالے سے معاہدوں پر عملدرآمد میں بھی افغانستان کا امن ہے۔ افغانستان پر امریکا و عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے پابندیاں لگا دی گئی ہیں مگر افغانستان میں اتنے وسائل ہیں کے وہ مشکلات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ وہ سادہ لوگ ہیں جو سوکھی روٹی' پانی سے کھا کر بھی گزارہ کر لیتے ہیں لہٰذا میرے نزدیک تھوڑی سے مدد سے افغانستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکتا ہے۔اس حوالے سے چین، روس اور پاکستان کو اپنا کام کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر زمرد اعوان
(ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ سیاسیات ایف سی کالج یونیورسٹی )
نہ افغانستان پرانا ہے اور نہ ہی طالبان پرانے ہیں۔ اس وقت افغان عوام میں پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں اور طالبان قیادت میں ایسے افراد موجود ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں اور مغربی ممالک کا تجربہ رکھتے ہیں۔افغانستان پر طالبان کے حالیہ کنٹرول پر مغربی میڈیا منفی کردار ادا کر رہا ہے جبکہ مغربی ممالک کا کردار بھی قابل مذمت ہے۔
ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے امریکا کے کہنے پر افغانستان پر پابندیاں لگا دی حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ افغانستان کی 90 فیصد آبادی غریب ہے اور وہاں وسائل کی کمی ہے۔ اس سے امریکا کے کردار پر بھی سوالات اٹھتے ہیں کیونکہ ایک طرف وہ امن کی بات کرتا ہے جبکہ دوسری طرف غلط کردار ادا کر رہا ہے۔
اس کے کردار سے معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان کی بہتری میں امریکا کی کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ وہاں پر حالات مزید خراب کر کے طالبان کیلئے مشکلات پیدا کرنا چاہتا ہے۔چین کی جانب سے افغانستان کیلئے 31 ملین ڈالر کا اعلان انتہائی اہم ہے، اس کے ساتھ ساتھ کورونا ویکسین اور سرد موسم میں پہننے کیلئے کپڑے و دیگر سہولیات دینے کاا علان بھی کیا گیا ہے جو مثبت ہے۔ اس وقت چین ، روس اور پاکستان، افغانستان کیلئے اہم ہیں اور افغانستان ان کیلئے۔
کیونکہ ان سب کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہیں جس کا مرکز افغانستان ہے۔ افغانستان میں امن و استحکام سے پورے خطے کا امن و استحکام جڑا ہے۔ امریکا نے افغانستان میں ہمیشہ منفی کردار ادا کیا، بنیادی ڈھانچہ ختم کر دیا، لوگوں کو رشوت کی عادت ڈالی اور اداروں کو تباہ کر دیا، امریکا کی کوشش رہی کہ وہاں مرکزی جمہوریت قائم کرے جو وہاں کے حالات کے مطابق ممکن نہیں، وہاں تاجک، ازبک، ہزارہ و دیگر قومیت کے لوگ موجود ہیں، افغانستان میں صدارتی نظام کامیاب نہیں ہوسکتا، وہاں پارلیمانی جمہوری نظام ہونا چاہیے جس میں سب کی شمولیت ہو۔
افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے لیے ہر طرف مثبت نشانیاں ہیں، افغانستان میں امن و استحکام سے پاکستان کا امن اور ترقی جڑا ہے، روس، چین، ایران، ترکی اور پاکستان کو موجودہ مسائل سے نمٹنے میں طالبان کو مدد فراہم کرنی چاہیے۔ خواتین کے پردہ کے حوالے سے طالبان پر تنقید کی جارہی ہے، مغرب میں دوپٹہ لینا تنگ نظری سمجھا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے لہٰذا اگر طالبان، افغان خواتین کو انڈونیشیا، ایران، ترکی، پاکستان جیسے کردار دیتے ہیں اور انہیں حکومت میںشامل کرتے ہیں تو یہ کافی ہے۔
افغان طالبان نے جس انداز اور کم وقت میں پورے افغانستان پر بغیر خون خرابے کے کنٹرول حاصل کیا ہے اس پر دنیا حیران ہے۔ماضی کے برعکس طالبان کے رویے میں نرمی نظر آرہی ہے۔
کابل پر قبضہ کے وقت طالبان نے عام معافی کا اعلان کردیا،خواتین کو حکومت میں شمولیت کی دعوت بھی دی اوردیگر ایسے اقدامات کیے جس سے افغانستان میں وہ افراتفری نہیں پھیلی جس کی توقع کی جارہی تھی۔ عالمی منظر نامے میں تبدیلیوں کی وجہ سے اس وقت افغانستان بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے ۔
چین نے حال ہی میں افغانستان کیلئے مالی امداد کا اعلان کیا ہے، پاکستان نے بھی جذبہ خیرسگالی کے تحت وہاں امدادی سامان بھیجا ہے جس سے یقینا وہاں کے لوگوں کو ریلیف ملے گا۔
''افغانستان کی موجودہ صورتحال اور خطے پر اس کے اثرات'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ ، سیاسی اور دفاعی تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا۔ ماہرین کی رائے نذرقارئین ہے۔
ڈاکٹر اعجاز بٹ
(ماہر امور خارجہ)
1973 ء کے بعد افغانستان میں پہلی مرتبہ ایسی حکومت آئی ہے جس کا کنٹرول پورے افغانستان پر ہے۔ خود طالبان کی ماضی کی حکومت میں بھی ان کے پاس افغانستان کا مکمل کنٹرول نہیں تھا لہٰذا میرے نزدیک خطے میںامن و استحکام، وسطی ایشیائی ممالک سے گیس معاہدوں پر عملدرآمد اور سب سے بڑھ کر سی پیک منصوبے کے خواب کو مکمل کرنے کیلئے پاکستان کے پاس سنہری موقع ہے۔
لہٰذا ہمیں سمجھداری کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ چین اور روس کھل کر طالبان کی سپورٹ کر رہے ہیں، ان کی مدد کرنا اور موجودہ مشکل حالات میں انہیں 'بیل آؤٹ' کرنا ان کے مفاد میں ہے، اس سے پاکستان کو بھی فائدہ ہوگا۔ ماضی میں چین، روس اور پاکستان میں بعض تحریکوں کوطالبان کی سپورٹ رہی ہے، مگر اب وہ یہ یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ یہ بہت بڑا دعویٰ ہے جو اتنا آسان نہیں ہوگا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان کی قیادت میں دو نظریات کے لوگ موجود ہیں، ایک وہ ہیں جنہوں نے افغانستان کے اندر جنگ لڑی ہے اور دوسرے وہ ہیں جنہیں مغرب اور عالمی امور کا تجربہ ہے لہٰذا ان کے نظریات میں ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے لیکن اگر طالبان اپنے دعووے کو پورا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس کا خطے کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔ پاکستان اس میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے کہ طالبان کے درمیان ٹکراؤ پیدا نہ ہونے دے ۔
9/11 کے وقت دنیا کی ہمدردیاں امریکاکے ساتھ تھی مگر آج دو دہائیوں کے بعد صورتحال یکطرفہ نہیں رہی بلکہ اب طالبان کے موجودہ کردار اور عالمی منظرنامے میں ممکنہ تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا کی سو چ میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔ امریکا نے افغانستان کے 10 ارب ڈالر کے فارن ریزرو منجمد کر دیئے اور صرف یہی نہیں بلکہ ا س کے کہنے پر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے بھی افغانستان پر پابندیاں لگا دی ہیں جس سے وہاں صورتحال خراب ہوسکتی ہے۔ افغانستان کے 90 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے ہیں۔
لہٰذا طالبان کیلئے ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے جو بیرونی تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے لہٰذا چین، روس اور پاکستان کو ان کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے۔ پاکستان سے زیادہ چین کے مفادات افغانستان سے وابستہ ہے، OBOR اور سی پیک منصوبے کی کامیابی افغانستان میں امن و استحکام سے جڑی ہے لہٰذا چین بھی موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، اس کی خواہش ہے کہ وہاں امن قائم ہو اور ترقی کی راہ ہموار ہوسکے۔ موجودہ مشکل صورتحال سے نمٹنے کیلئے چین نے افغانستان کیلئے 30 کروڑ ڈالر امداد کا اعلان کرکے اچھا کردار ادا کیا ہے۔
اس سے قدرے ریلیف ملے گا۔ افغانستان کے معاملے میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہاں بھارت کی سٹرٹیجک ہار اور پاکستان کی جیت ہوئی ہے۔طالبان کے کنٹرول سنبھالنے سے بھارت میں صف ماتم بچھ گئی ہے، اس کی ساری سرمایہ کاری ڈوب گئی ہے۔ طالبان کی حکومت آنے سے کشمیر کی تحریک کو بھی اخلاقی سپورٹ ملی ہے کیونکہ طالبان کشمیریوں کی جدوجہد آزدی کے حق میں ہیں لہٰذا اب بھارت مشکلات سے دوچار ہوگا۔ ہمارے لیے اہم یہ ہے کہ طالبان کس طرح ٹی ٹی پی کے عمل دخل کا مکمل خاتمہ کرتے ہیں۔
مغربی میڈیا میں افغان طالبان اور ان کی حکومت کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور انہیں ظالم دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آج افغانستان میں ایک بہت بڑا طبقہ پڑھا لکھا ہے جو ان کی سول سوسائٹی کا حصہ ہے۔ یہ طبقہ طالبان کے خلاف ہے لیکن اس کی تعداد کم ہے۔ افغانستان کی زیادہ تر آبادی افغان طالبان کو سپورٹ کر رہی ہے اور اسے امید ہے کہ طالبان جنگ کے بعد اب انہیں مشکلات سے بھی نکال لیں گے اور افغانستان تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔
بریگیڈیئر (ر) محمد یوسف
(دفاعی تجزیہ نگار )
افغانستان کی صورتحال پر مجھے سابق آئی ایس آئی چیف جنرل(ر) حمید گل کے وہ تاریخی الفاظ یاد آرہے ہیں جو اس وقت زبان زد عام ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جب افغانستان کی تاریخ لکھی جائے گی تو لکھا جائے گا کہ آئی ایس آئی نے امریکا کی مدد سے افغانستان میں روس کو شکست دی مگر اس کے بعد دوسرا جملہ لکھا جائے گا کہ آئی ایس آئی نے افغانستان میں امریکا کی مدد سے امریکا کو بھی شکست دی۔ آج جب امریکا افغانستان سے شکست کھا کر جاچکا ہے اور افغان طالبان پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں تو جنرل (ر) حمید گل کے یہ الفاظ افغانستان کی تاریخ بن چکے ہیں۔
افغانستان کے لوگ چٹان ہیںجنہوں نے تین عالمی طاقتوں برطانیہ، روس اور امریکا کو شکست دے کر خود کو منوایا ہے۔ احمد شاہ مسعود اور گلدین حکمت یار گروپوں کی آپس کی لڑائی سے افغانستان کا بہت نقصان ہو جس میں 59 ہزار افراد مارے گئے۔ اتنا نقصان بڑی طاقتوں سے لڑائی میں نہیں ہوا جتنا آپس کی لڑائی سے ہوا۔ آج کے طالبان ماضی جیسے نہیں رہے۔
طالبان کی موجودہ قیادت میں پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں، انہیں عالمی امور اور سٹرٹیجک معاملات کا ادراک ہے یہی وجہ ہے کہ وہ حالات کو سمجھتے ہوئے بہترین انداز میں کام کر رہے ہیں۔ کابل پر حملے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے عام معافی کا اعلان کیا جو بہترین تھا۔ دنیا حیران ہے کہ جن کے پاؤں میں جوتا نہیں اور کھانے کیلئے صرف سوکھی روٹی ہے انہوں نے کیسے ایک سپر پاور کو شکست دے دی۔ افغانستان کی صورتحال سے کسی کو فرق پڑے نہ پڑے پاکستان کو ضرور پڑے گا۔
پاکستان کا ایک طویل بارڈر افغانستان کے ساتھ ہے لہٰذا وہاں کے حالات کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑتا ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال ہمارے لیے سازگار ہے اور اس سے بہتر انداز میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس وقت افغانستان کے حوالے سے حکومت کی پالیسی درست ہے لہٰذا اس میں تبدیلی نہیں آنی چاہیے۔ ایک بات اہم ہے کہ بظاہر ابھی تک ہم امریکا کے اتحادی ہیں لہٰذاہمیں افغانستان کے معاملے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ انتہائی سمجھداری کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ امریکا اتنی آسانی سے افغانستان میں امن نہیں آنے دے گا بلکہ وہاں مسائل پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ امریکا چاہتا ہے کہ وہ پنج شیر کے جغرافیہ سے فائدہ اٹھائے اور وہاں طالبان کیلئے مسائل پیدا کرے۔ پاکستان، چین اور روس، تینوں ممالک کا افغانستان میں سٹیک ہے۔
سی پیک منصوبے کا مستقبل بھی افغانستان میں استحکام کے ساتھ جڑا ہے جبکہ وسطی ایشیائی ممالک سے گیس و دیگر ذخائر کے حوالے سے معاہدوں پر عملدرآمد میں بھی افغانستان کا امن ہے۔ افغانستان پر امریکا و عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے پابندیاں لگا دی گئی ہیں مگر افغانستان میں اتنے وسائل ہیں کے وہ مشکلات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ وہ سادہ لوگ ہیں جو سوکھی روٹی' پانی سے کھا کر بھی گزارہ کر لیتے ہیں لہٰذا میرے نزدیک تھوڑی سے مدد سے افغانستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکتا ہے۔اس حوالے سے چین، روس اور پاکستان کو اپنا کام کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر زمرد اعوان
(ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ سیاسیات ایف سی کالج یونیورسٹی )
نہ افغانستان پرانا ہے اور نہ ہی طالبان پرانے ہیں۔ اس وقت افغان عوام میں پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں اور طالبان قیادت میں ایسے افراد موجود ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں اور مغربی ممالک کا تجربہ رکھتے ہیں۔افغانستان پر طالبان کے حالیہ کنٹرول پر مغربی میڈیا منفی کردار ادا کر رہا ہے جبکہ مغربی ممالک کا کردار بھی قابل مذمت ہے۔
ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے امریکا کے کہنے پر افغانستان پر پابندیاں لگا دی حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ افغانستان کی 90 فیصد آبادی غریب ہے اور وہاں وسائل کی کمی ہے۔ اس سے امریکا کے کردار پر بھی سوالات اٹھتے ہیں کیونکہ ایک طرف وہ امن کی بات کرتا ہے جبکہ دوسری طرف غلط کردار ادا کر رہا ہے۔
اس کے کردار سے معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان کی بہتری میں امریکا کی کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ وہاں پر حالات مزید خراب کر کے طالبان کیلئے مشکلات پیدا کرنا چاہتا ہے۔چین کی جانب سے افغانستان کیلئے 31 ملین ڈالر کا اعلان انتہائی اہم ہے، اس کے ساتھ ساتھ کورونا ویکسین اور سرد موسم میں پہننے کیلئے کپڑے و دیگر سہولیات دینے کاا علان بھی کیا گیا ہے جو مثبت ہے۔ اس وقت چین ، روس اور پاکستان، افغانستان کیلئے اہم ہیں اور افغانستان ان کیلئے۔
کیونکہ ان سب کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہیں جس کا مرکز افغانستان ہے۔ افغانستان میں امن و استحکام سے پورے خطے کا امن و استحکام جڑا ہے۔ امریکا نے افغانستان میں ہمیشہ منفی کردار ادا کیا، بنیادی ڈھانچہ ختم کر دیا، لوگوں کو رشوت کی عادت ڈالی اور اداروں کو تباہ کر دیا، امریکا کی کوشش رہی کہ وہاں مرکزی جمہوریت قائم کرے جو وہاں کے حالات کے مطابق ممکن نہیں، وہاں تاجک، ازبک، ہزارہ و دیگر قومیت کے لوگ موجود ہیں، افغانستان میں صدارتی نظام کامیاب نہیں ہوسکتا، وہاں پارلیمانی جمہوری نظام ہونا چاہیے جس میں سب کی شمولیت ہو۔
افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے لیے ہر طرف مثبت نشانیاں ہیں، افغانستان میں امن و استحکام سے پاکستان کا امن اور ترقی جڑا ہے، روس، چین، ایران، ترکی اور پاکستان کو موجودہ مسائل سے نمٹنے میں طالبان کو مدد فراہم کرنی چاہیے۔ خواتین کے پردہ کے حوالے سے طالبان پر تنقید کی جارہی ہے، مغرب میں دوپٹہ لینا تنگ نظری سمجھا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے لہٰذا اگر طالبان، افغان خواتین کو انڈونیشیا، ایران، ترکی، پاکستان جیسے کردار دیتے ہیں اور انہیں حکومت میںشامل کرتے ہیں تو یہ کافی ہے۔