زہرہ ایک رومانی سیارہ
ہاروت ماروت نام کے دواچھے لوگ اس کم بخت ’’زہرہ‘‘کی قربت کی سزا پا چکے ہیں۔
خبر بڑی دلچسپ ہے، یورپی خلائی ادارہ، امریکی خلائی ادارے کے ساتھ مل کر خلا میں ایسے دوجہازبھیج رہا ہے جو ''سیارہ زہرہ''عرف وینس کے قریب سے گزر کر اس کی تصویریں اتاریں گے ۔ ہم سے پوچھئے تو یہ انتہائی خطرناک مشن ہے اورایسا بہت پہلے ہوبھی چکا ہے۔
ہاروت ماروت نام کے دواچھے لوگ اس کم بخت ''زہرہ''کی قربت کی سزا پا چکے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ خلائی جہازبھی زہرہ کا شکار ہوکر کسی بلیک ہول میں الٹے لٹک نہ جائیں۔ اس زہرہ ستارے کے بڑے دلچسپ چرچے ہوتے رہے ہیں جو آج کل بھی سنائے جاتے ہیں۔
اس '' زہرہ'' کوبابل وعراق میں عشتار ، یونان میں ایفروڈائٹ، روم میں وینس،شام ولبنان میں آستر،مصر میں است، فارس یا پارس میں اناہیتا(ناہید)اورعرب میں ''زہرہ'' کہاگیاہے اوربہت سارے رومانی قصے اس سے وابستہ کیے گئے ہیں حالانکہ زہرہ محض ایک ستارہ ہے جو بقول علامہ اقبال خودہی افلاک کی گردش میں خواروزبوں پھر رہا ہے۔ زہرہ سیارے کے بارے بہت سی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔
خیرتو بات زہرہ ستارے کی ہورہی ہے ،اصل میں یہ ایک ستارہ ہے جو سبزرنگ کاہے اورجس خطے میں یہ دیوی کے طورپر تخلیق ہوا ہے یعنی ہندوکش کے برفستانوں میں، وہاں یہ بہارکی ابتدا میں نمودارہوتاہے، اس لیے اسے بہارکی دیوی کہاجاتاہے لیکن چوں کہ تہذیب وتمدن، لکھت پڑھت کاآغازبیبلونیا میں ہوا ہے، اس لیے یہاں اسے عشتار کے نام سے باقاعدہ لکھا گیا اور اس سے ایک کہانی بھی وابستہ کی گئی جو محض موسم کی تبدیلی کااساطیری استعارہ ہے۔
اس کہانی کے مطابق عشتار سرسبزی ،بہار ، ہریالی اوربارآوری کی دیوی ہے، اس کامحبوب ''تموز''سخت بیمارہوجاتاہے جوسورج کااستعارہ ہے اورکہانی میں ایک گڈریا سے تشبیہ دی گئی ہے، اس تہذیب میں سورج کو بھی آسمان کا گڈریا کہا جاتا تھا۔اپنے محبوب کے علاج کے لیے عشتار پاتال میں چلی جاتی ہے اوراس کی چارمہینے کی اس غیرموجودگی میں ساراسبزہ جل جاتا ہے۔
یہ سردی اوربرف باری کے چارمہینے کااستعارہ ہے۔ چار مہینے دیوی کے پاتال میں چلے جانے کی وجہ سے زمین پرروئیدگی اورہریالی کانام ونشان نہیں رہتا اورجب وہ چار مہینے بعد لوٹ آتی ہے تو پھر سبزہ اگ آتاہے ،پھول کھل جاتے ہیں اور ہر طرف بہارہی بہار ہوجاتی ہے ،اس کامحبوب بھی صحت یاب ہوجاتا ہے ،سورج کی واپسی کااستعارہ یہی ہے،یہ ایک سیدھی سادی موسمی تبدیلی ہے ،کوئی ماورائیت یادیوی دیوتاکااس میں عمل دخل نہیں ہے ،موسمی تبدیلیاں اور ارضی وسماوی عوامل رب جلیل کے بنائے ہوئے غیرمبدل قانون''سنت الٰہی''کے مطابق چلتے ہیں لیکن انسان کہانی اور قصہ پسند ہے، اس لیے ارضی وسماوی آفات عوامل اورتبدیلیوں کو دیوی دیوتا بنا کر کہانیاں بناتا رہتا ہے ۔
آگے بڑھنے سے پہلے لفظ ''عشتار''کاتجزیہ کرتے ہیں۔ عشتار، عشتر،آستر، عشر سب کامادہ اختیر اورآستیر ہے۔ فارسی میں ''یخ'' سردی اوربرف کو کہتے ہیں، پشتو میں بھی یہی الفاظ شامل ہوئے ہیں، جب کہ تیر کا مطلب ہے گزرنا ،اکثرزبانوں جہاں کہیں گزرنے کا مفہوم ہوگا وہاں کسی کسی شکل میں یہ لفظ تیر(ٹی ای آر) ہوگا،انگریزی میںیہ ''ٹر''کی شکل میں موٹر، ٹریکٹر، جنریٹر،کنڈیکٹر،بلکہ ٹریک ،ٹرین اورٹرم ٹرام میں بھی ہے، فارسی میں ہے،تر،ترین ہے اردومیں تیرنا،تیراک یعنی پانی میں گزرنا جب کہ عربی میں طیر، طائر، طیور، طریق،طارق ہوجاتاہے،یوں یخ اورتیرکامطلب ہوا ''یخ تیر''(سرمایابرف کاگزرنا) انگریزی میں ہی ایسٹرہو جاتاہے۔
یوں یخ تیرسے اختراورایسٹرہے ،اسٹار بن جاتاہے جوببلونیا میں عشتاربن گیا،مطلب بہار کا ستارہ یا پرانے عقائد میں سرسبزی کی دیوی جس کی واپسی کا دن وسط ایشیاء، افغانستان اور ایران میں آج کل ''نوروز'' کے نام سے منایاجاتا ہے جو شمسی کلینڈرکے مطابق سال اورحمل مہینے کا پہلادن اور مارچ کی اکیسویں تاریخ ہوتی ہے۔
ہاروت ماروت نام کے دواچھے لوگ اس کم بخت ''زہرہ''کی قربت کی سزا پا چکے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ خلائی جہازبھی زہرہ کا شکار ہوکر کسی بلیک ہول میں الٹے لٹک نہ جائیں۔ اس زہرہ ستارے کے بڑے دلچسپ چرچے ہوتے رہے ہیں جو آج کل بھی سنائے جاتے ہیں۔
اس '' زہرہ'' کوبابل وعراق میں عشتار ، یونان میں ایفروڈائٹ، روم میں وینس،شام ولبنان میں آستر،مصر میں است، فارس یا پارس میں اناہیتا(ناہید)اورعرب میں ''زہرہ'' کہاگیاہے اوربہت سارے رومانی قصے اس سے وابستہ کیے گئے ہیں حالانکہ زہرہ محض ایک ستارہ ہے جو بقول علامہ اقبال خودہی افلاک کی گردش میں خواروزبوں پھر رہا ہے۔ زہرہ سیارے کے بارے بہت سی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔
خیرتو بات زہرہ ستارے کی ہورہی ہے ،اصل میں یہ ایک ستارہ ہے جو سبزرنگ کاہے اورجس خطے میں یہ دیوی کے طورپر تخلیق ہوا ہے یعنی ہندوکش کے برفستانوں میں، وہاں یہ بہارکی ابتدا میں نمودارہوتاہے، اس لیے اسے بہارکی دیوی کہاجاتاہے لیکن چوں کہ تہذیب وتمدن، لکھت پڑھت کاآغازبیبلونیا میں ہوا ہے، اس لیے یہاں اسے عشتار کے نام سے باقاعدہ لکھا گیا اور اس سے ایک کہانی بھی وابستہ کی گئی جو محض موسم کی تبدیلی کااساطیری استعارہ ہے۔
اس کہانی کے مطابق عشتار سرسبزی ،بہار ، ہریالی اوربارآوری کی دیوی ہے، اس کامحبوب ''تموز''سخت بیمارہوجاتاہے جوسورج کااستعارہ ہے اورکہانی میں ایک گڈریا سے تشبیہ دی گئی ہے، اس تہذیب میں سورج کو بھی آسمان کا گڈریا کہا جاتا تھا۔اپنے محبوب کے علاج کے لیے عشتار پاتال میں چلی جاتی ہے اوراس کی چارمہینے کی اس غیرموجودگی میں ساراسبزہ جل جاتا ہے۔
یہ سردی اوربرف باری کے چارمہینے کااستعارہ ہے۔ چار مہینے دیوی کے پاتال میں چلے جانے کی وجہ سے زمین پرروئیدگی اورہریالی کانام ونشان نہیں رہتا اورجب وہ چار مہینے بعد لوٹ آتی ہے تو پھر سبزہ اگ آتاہے ،پھول کھل جاتے ہیں اور ہر طرف بہارہی بہار ہوجاتی ہے ،اس کامحبوب بھی صحت یاب ہوجاتا ہے ،سورج کی واپسی کااستعارہ یہی ہے،یہ ایک سیدھی سادی موسمی تبدیلی ہے ،کوئی ماورائیت یادیوی دیوتاکااس میں عمل دخل نہیں ہے ،موسمی تبدیلیاں اور ارضی وسماوی عوامل رب جلیل کے بنائے ہوئے غیرمبدل قانون''سنت الٰہی''کے مطابق چلتے ہیں لیکن انسان کہانی اور قصہ پسند ہے، اس لیے ارضی وسماوی آفات عوامل اورتبدیلیوں کو دیوی دیوتا بنا کر کہانیاں بناتا رہتا ہے ۔
آگے بڑھنے سے پہلے لفظ ''عشتار''کاتجزیہ کرتے ہیں۔ عشتار، عشتر،آستر، عشر سب کامادہ اختیر اورآستیر ہے۔ فارسی میں ''یخ'' سردی اوربرف کو کہتے ہیں، پشتو میں بھی یہی الفاظ شامل ہوئے ہیں، جب کہ تیر کا مطلب ہے گزرنا ،اکثرزبانوں جہاں کہیں گزرنے کا مفہوم ہوگا وہاں کسی کسی شکل میں یہ لفظ تیر(ٹی ای آر) ہوگا،انگریزی میںیہ ''ٹر''کی شکل میں موٹر، ٹریکٹر، جنریٹر،کنڈیکٹر،بلکہ ٹریک ،ٹرین اورٹرم ٹرام میں بھی ہے، فارسی میں ہے،تر،ترین ہے اردومیں تیرنا،تیراک یعنی پانی میں گزرنا جب کہ عربی میں طیر، طائر، طیور، طریق،طارق ہوجاتاہے،یوں یخ اورتیرکامطلب ہوا ''یخ تیر''(سرمایابرف کاگزرنا) انگریزی میں ہی ایسٹرہو جاتاہے۔
یوں یخ تیرسے اختراورایسٹرہے ،اسٹار بن جاتاہے جوببلونیا میں عشتاربن گیا،مطلب بہار کا ستارہ یا پرانے عقائد میں سرسبزی کی دیوی جس کی واپسی کا دن وسط ایشیاء، افغانستان اور ایران میں آج کل ''نوروز'' کے نام سے منایاجاتا ہے جو شمسی کلینڈرکے مطابق سال اورحمل مہینے کا پہلادن اور مارچ کی اکیسویں تاریخ ہوتی ہے۔