طالبان اقتدارخطے پر اثرات
طالبان حکومت اقتدار سنبھال کر کام میں مصروف ہو چکی ہے۔ اب ایک نیا کھیل شروع ہو گیا ہے۔
افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے۔وہاں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس سے ہم متاثر ہوتے ہیں۔ افغانستان میں خاک و خون،تباہی و بربادی کا ایک لمبا دور بظاہر ختم ہو گیا ہے۔
25دسمبر 1979 کو روسی افواج افغانستان پر قابض ہوئیں اور کوئی دس سال کے بعد واپس لوٹ گئیں۔ اس کے بعد خانہ جنگی کا ایک دور آیا اور پھر نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکا افغانستان پر چڑھ دوڑا حالانکہ نائن الیون کے واقعات میں کوئی افغانی ملوث نہیں تھا۔بیس سالہ امریکی قبضے کے دوران آگ اور خون کے دریا بہا دیے گئے۔بہرحال یہ دور بھی ختم ہو گیا ہے۔
طالبان حکومت اقتدار سنبھال کر کام میں مصروف ہو چکی ہے۔ اب ایک نیا کھیل شروع ہو گیا ہے۔ امریکا،اس کے اتحادی اور بھارت جو کچھ افغان جنگ میں ہار گئے ہیں وہ اس کو پانے کے لیے مختلف حیلے بہانوں سے دباؤ ڈال رہے ہیں۔پچھلے ہفتے امریکی سی آئی اے ،برطانوی ایم آئی6 اور روسی انٹیلی جنس کے سربراہان علیحدہ علیحدہ دہلی میں مذاکرات کر چکے ہیں۔ سی آئی اے سربراہ تین ہفتوں میں ایک بار غیر اعلانیہ اور ایک بار اعلانیہ پاکستان آ چکے ہیں۔
درجنوں ملکوں کے وزرائے خارجہ یا تو پاکستان آ چکے ہیں یا پھر ٹیلیفون پر ہمارے وزیرِ خارجہ سے بات کر چکے ہیں۔ابھی چند دن پہلے روس،چین ایران اور ساری وسط ایشیائی ریاستوں کے انٹیلی جنس سربراہان اسلا م آباد میں جنرل فیض حمید سے بات چیت اور مشورہ کے لیے اکٹھے ہو چکے ہیں۔
امریکا ، بھارت، روس اور چین وغیرہ سب افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت چاہتے ہیں لیکن ان کی مرضی کی حکومت بن نہیں رہی۔طالبان تو دباؤ میں آنے والے نہیں اس لیے اب پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ پاکستان اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے طالبان کو ان کی بات ماننے پر قائل کرے،منگل کو امریکی وزیرِ خارجہ نے پاکستان اور طالبان دونوں کے لیے انتہائی سخت لہجہ استعمال کیا۔البتہ طالبان کامیاب ہو چکے ہیں۔انھوں نے ایسی جنگی کامیابی حاصل کی ہے کہ اب مستقبلِ قریب میں ہر قوت ان سے ٹکر لینے سے خوف زدہ رہے گی اور کوئی ان سے چھیڑ خانی کی جرات نہیں کرے گا۔
طالبان کے اقتدار نے خطے کی صورتحال کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔پہلا سوال تو کسی قدر اوپر زیرِبحث آ چکا ہے کہ آیا بین الاقوامی دباؤ پر طالبان اپنی کابینہ اورپالیسیاں تبدیل کریں گے۔ حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ طالبان کسی دباؤ میں آنے والے نہیں۔ اگلاسوال بھارت،افغانستان کے آیندہ تعلقات سے متعلق ہے۔
اس بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ عرصے بعد دونوں ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات قائم ہو جائیں گے۔بھارت کی شدید ضرورت ہے کہ اس کے طالبان کے ساتھ اچھے مراسم ہوں۔افغانستان سارک تنظیم کا بھی رکن ملک ہے۔بھارت کو اس حوالے سے بھی افغانستان کی ضرورت ہے۔طالبان کو ایک ایسا ملک ملا ہے جہاں بے پناہ غربت ہے۔سارا ملک پچھلی چند دہائیوں سے بیرونی امداد کے سہارے چل رہا تھا۔
مجددی، ربانی اور طالبان کی پہلی حکومت کے ایام میں افغانستان بیرونی امداد خاص کر پاکستانی امداد پر چل رہا تھا۔اگر آپ پاکستان کی معاشی بدحالی کا کھوج لگائیں تو آپ کو جان کر حیرت ہو گی کہ پاکستان نے افغانستان کی مدد کرتے کرتے خود کو معاشی بدحالی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ افغانوں کو البتہ ہمیشہ پاکستان سے گلہ رہا ہے۔پاکستانی اکانومی اس وقت دگر گوں ہے۔
افغانستان کو جتنی فوری مدد اس وقت درکار ہے وہ بظاہر پاکستان نہیں دے سکتا۔قطر کچھ ضرور کر سکتا ہے۔سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک امریکا کی طرف دیکھیں گے۔بھارتی معیشت میں اتنی جان بھی ہے اور وہ افغانستان کی مدد کرنے کا آزادانہ فیصلہ بھی کر سکتا ہے۔ پچھلے چالیس سالوں میں بھارت کا کردار مجاہدینِ آزادی،طالبان اور افغان عوام کے خلاف رہا ہے لیکن سرمائے میں بہت قوت ہوتی ہے۔ ہاں یہ طے ہے کہ بھارت کو 15اگست سے پہلے والی حیثیت دوبارہ نہیں ملنے والی۔
تحریکِ طالبان پاکستان کو افغان طالبان حکومت کی مدد اور تحفظ تو نہیں ملے گی لیکن افغان طالبان ہمارے لیے ٹی ٹی پی کے خلاف بھی کوئی قدم نہیں اُٹھائیں گے۔نئی صورتحال میں پاکستان کے لیے یہ مناسب ہو گا کہ ایک بار پھر ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کو انگیج Engageکرے۔اُن کی اس وقت پیٹھ ننگی ہے۔ پاکستان کے لیے موجودہ حالات میں دو بڑی کامیابیاںہیں۔ایک تو بھارت،افغان سرزمین کو پہلے والی آزادی کے ساتھ پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کر سکے گا اور دوسرا ٹی ٹی پی کو طالبان حکومت کی وجہ سے پہلے والی سپورٹ نہیں ملے گی۔
افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادیوں کے انخلا سے امریکی ساکھ کو شدید دھچکا لگا ہے۔اگر دیکھا جائے تو لبنان سے لے کر افغانستان تک پورے علاقے سے مغربی استعمار کو نکلنا پڑ رہا ہے یا شدید مشکلات درپیش ہیں، اب مغربی استعمار کا سارا تکیہ عرب ممالک پر ہو گا۔یہ اسرائیل کے لیے بھی اچھا نہیں۔اسرائیل ایران کے بہت خلاف ہے۔امریکی انخلا سے ایران کے گرد امریکی اور اسرائیلی حصار ٹوٹ چکا ہے۔
جب تک افغانستان میں مغربی افواج تھیں، ایران پر براہِ راست ہوائی اور زمینی حملہ ہو سکتا تھا۔ اب ایران سکھ کا سانس لے سکتا ہے لیکن ایران طالبان اقتدار سے بھی خوش نظر نہیں آتا۔ایران افغان کابینہ میں فارسی بولنے والے افراد کی قلیل تعداد اور پنجشیر پر طالبان قبضے سے خوش نہیں ہے۔ ہاں اپنی پوری مشرقی سرحد محفوظ ہو جانے سے مطمئن بھی ہے۔ افغانستان کی بدلتی صورتحال میں چین بہت فائدے میں دکھائی دیتا ہے۔افغانستان کی چھوٹی سی سرحد چین سے ملتی ہے جہاں سے امریکا دراندازی کر سکتا تھا۔یہ خدشہ ختم ہو گیا ہے۔
سی پیک بھی کسی حد تک محفوظ بن گیا ہے۔ افغانستان کے اندر نایاب دھاتوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے اور روزافزوں ترقی کرتے چین کو ان دھاتوں کی شدید ضرورت ہے۔ امریکا، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان QUAD نے چین کو ان دھاتوں کی سپلائی میں رکاوٹ ڈالی ہے۔افغانستان اس کمی کو پورا کر سکتا ہے۔چین کو پورے علاقے میں معاشی ایڈوانٹیج حاصل ہے۔ چین بہت پھونک پھونک کر افغانستان میں قدم بڑھائے گا۔دنیا میں روس سے زیادہ کوئی افغانستان کو نہیں جانتا۔ابھی روس بھی آہستہ آہستہ قدم اٹھائے گا۔روس کی کوشش ہوگی کہ فی الحال چین کو گائیڈ کرے۔
چین اور روس کو البتہ اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ امریکا افغانستان سے فارغ ہونے کے بعد اپنی بے پناہ دولت کو اپنے ملک امریکا کے اندر لگا کر امریکی معیشت کو نئی بلندیوں پر لے جا سکتا ہے۔چینی معیشت اس وقت تیزی سے ترقی کرتی شاید دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن چکی ہے لیکن اگر امریکا اپنے بے پناہ ریسورسز ملک کے اندر لگائے تو چین کو بہت زیادہ مسابقت کا سامنا کرنا ہو گا۔
امریکی افواج بھی یہاں سے فارغ ہو کر ساؤتھ چائنا سمندر میں مزید جارحانہ قدم اُٹھا کر چین کے لیے مشکلات میں اضافہ کر سکتی ہیں۔اسی طرح امریکا،بھارت کی پہلے سے زیادہ مدد کر کے اروناچل پردیش اور لداخ کے بارڈر پر چین کے لیے اور کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
امریکا کے کئی اعلیٰ فوجی اور سی آئی اے افسران نے ایک سے زیادہ بار کہا ہے کہ افغانستان تو ایک بہانہ ہے اصل نشانہ پاکستان اور پاکستانی نیوکلیئر اثاثے ہیں۔ پوری پاکستانی قوم کو اﷲ کے حضور سجدہء شکر ادا کرنا چاہیے کہ یہ خواہش اور کوشش رائیگاں گئی۔امریکی انخلا کے ساتھ ہی امریکا کا واحد سپر پاور ہونے کا زعم بھی جاتا رہا۔
پاکستان کو موجودہ حالات میں اپنے کارڈز بہت احتیاط اور ہوشیاری سے کھیلنے ہوں گے۔مغرب بہت شاطر ہے۔ مغربی نمایندے پاکستان آتے ہیں تو مدد بھی مانگتے ہیں اور ساتھ ہی دھمکی بھی دیتے ہیں۔ اس وقت ان کی دھمکیاں عروج پر ہیں۔ہمیں چوکنا اور ٹھنڈا رہ کر اپنے مقاصد حاصل کرنا ہوں گے۔ان شاء اﷲ پاکستان کا مستقبل تابناک ہے۔
قارئینِ کرام مشرقِ وسطیٰ میں بہت ہی اہم ڈویلپمنٹ ہوئی ہے۔اسرائیلی میڈیا نے شواہد کے ساتھ اطلاع دی ہے کہ امریکا نے یمن کی سرحد کے ساتھ سعودی علاقے سے تمام ایڈوانس میزائل بشمول پیٹریاٹ میزائل ہٹا لیے ہیں۔علاقے کے دفاع کے حوالے سے یہ دور رس نتائج لائے گا۔
25دسمبر 1979 کو روسی افواج افغانستان پر قابض ہوئیں اور کوئی دس سال کے بعد واپس لوٹ گئیں۔ اس کے بعد خانہ جنگی کا ایک دور آیا اور پھر نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکا افغانستان پر چڑھ دوڑا حالانکہ نائن الیون کے واقعات میں کوئی افغانی ملوث نہیں تھا۔بیس سالہ امریکی قبضے کے دوران آگ اور خون کے دریا بہا دیے گئے۔بہرحال یہ دور بھی ختم ہو گیا ہے۔
طالبان حکومت اقتدار سنبھال کر کام میں مصروف ہو چکی ہے۔ اب ایک نیا کھیل شروع ہو گیا ہے۔ امریکا،اس کے اتحادی اور بھارت جو کچھ افغان جنگ میں ہار گئے ہیں وہ اس کو پانے کے لیے مختلف حیلے بہانوں سے دباؤ ڈال رہے ہیں۔پچھلے ہفتے امریکی سی آئی اے ،برطانوی ایم آئی6 اور روسی انٹیلی جنس کے سربراہان علیحدہ علیحدہ دہلی میں مذاکرات کر چکے ہیں۔ سی آئی اے سربراہ تین ہفتوں میں ایک بار غیر اعلانیہ اور ایک بار اعلانیہ پاکستان آ چکے ہیں۔
درجنوں ملکوں کے وزرائے خارجہ یا تو پاکستان آ چکے ہیں یا پھر ٹیلیفون پر ہمارے وزیرِ خارجہ سے بات کر چکے ہیں۔ابھی چند دن پہلے روس،چین ایران اور ساری وسط ایشیائی ریاستوں کے انٹیلی جنس سربراہان اسلا م آباد میں جنرل فیض حمید سے بات چیت اور مشورہ کے لیے اکٹھے ہو چکے ہیں۔
امریکا ، بھارت، روس اور چین وغیرہ سب افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت چاہتے ہیں لیکن ان کی مرضی کی حکومت بن نہیں رہی۔طالبان تو دباؤ میں آنے والے نہیں اس لیے اب پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ پاکستان اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے طالبان کو ان کی بات ماننے پر قائل کرے،منگل کو امریکی وزیرِ خارجہ نے پاکستان اور طالبان دونوں کے لیے انتہائی سخت لہجہ استعمال کیا۔البتہ طالبان کامیاب ہو چکے ہیں۔انھوں نے ایسی جنگی کامیابی حاصل کی ہے کہ اب مستقبلِ قریب میں ہر قوت ان سے ٹکر لینے سے خوف زدہ رہے گی اور کوئی ان سے چھیڑ خانی کی جرات نہیں کرے گا۔
طالبان کے اقتدار نے خطے کی صورتحال کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔پہلا سوال تو کسی قدر اوپر زیرِبحث آ چکا ہے کہ آیا بین الاقوامی دباؤ پر طالبان اپنی کابینہ اورپالیسیاں تبدیل کریں گے۔ حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ طالبان کسی دباؤ میں آنے والے نہیں۔ اگلاسوال بھارت،افغانستان کے آیندہ تعلقات سے متعلق ہے۔
اس بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ عرصے بعد دونوں ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات قائم ہو جائیں گے۔بھارت کی شدید ضرورت ہے کہ اس کے طالبان کے ساتھ اچھے مراسم ہوں۔افغانستان سارک تنظیم کا بھی رکن ملک ہے۔بھارت کو اس حوالے سے بھی افغانستان کی ضرورت ہے۔طالبان کو ایک ایسا ملک ملا ہے جہاں بے پناہ غربت ہے۔سارا ملک پچھلی چند دہائیوں سے بیرونی امداد کے سہارے چل رہا تھا۔
مجددی، ربانی اور طالبان کی پہلی حکومت کے ایام میں افغانستان بیرونی امداد خاص کر پاکستانی امداد پر چل رہا تھا۔اگر آپ پاکستان کی معاشی بدحالی کا کھوج لگائیں تو آپ کو جان کر حیرت ہو گی کہ پاکستان نے افغانستان کی مدد کرتے کرتے خود کو معاشی بدحالی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ افغانوں کو البتہ ہمیشہ پاکستان سے گلہ رہا ہے۔پاکستانی اکانومی اس وقت دگر گوں ہے۔
افغانستان کو جتنی فوری مدد اس وقت درکار ہے وہ بظاہر پاکستان نہیں دے سکتا۔قطر کچھ ضرور کر سکتا ہے۔سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک امریکا کی طرف دیکھیں گے۔بھارتی معیشت میں اتنی جان بھی ہے اور وہ افغانستان کی مدد کرنے کا آزادانہ فیصلہ بھی کر سکتا ہے۔ پچھلے چالیس سالوں میں بھارت کا کردار مجاہدینِ آزادی،طالبان اور افغان عوام کے خلاف رہا ہے لیکن سرمائے میں بہت قوت ہوتی ہے۔ ہاں یہ طے ہے کہ بھارت کو 15اگست سے پہلے والی حیثیت دوبارہ نہیں ملنے والی۔
تحریکِ طالبان پاکستان کو افغان طالبان حکومت کی مدد اور تحفظ تو نہیں ملے گی لیکن افغان طالبان ہمارے لیے ٹی ٹی پی کے خلاف بھی کوئی قدم نہیں اُٹھائیں گے۔نئی صورتحال میں پاکستان کے لیے یہ مناسب ہو گا کہ ایک بار پھر ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کو انگیج Engageکرے۔اُن کی اس وقت پیٹھ ننگی ہے۔ پاکستان کے لیے موجودہ حالات میں دو بڑی کامیابیاںہیں۔ایک تو بھارت،افغان سرزمین کو پہلے والی آزادی کے ساتھ پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کر سکے گا اور دوسرا ٹی ٹی پی کو طالبان حکومت کی وجہ سے پہلے والی سپورٹ نہیں ملے گی۔
افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادیوں کے انخلا سے امریکی ساکھ کو شدید دھچکا لگا ہے۔اگر دیکھا جائے تو لبنان سے لے کر افغانستان تک پورے علاقے سے مغربی استعمار کو نکلنا پڑ رہا ہے یا شدید مشکلات درپیش ہیں، اب مغربی استعمار کا سارا تکیہ عرب ممالک پر ہو گا۔یہ اسرائیل کے لیے بھی اچھا نہیں۔اسرائیل ایران کے بہت خلاف ہے۔امریکی انخلا سے ایران کے گرد امریکی اور اسرائیلی حصار ٹوٹ چکا ہے۔
جب تک افغانستان میں مغربی افواج تھیں، ایران پر براہِ راست ہوائی اور زمینی حملہ ہو سکتا تھا۔ اب ایران سکھ کا سانس لے سکتا ہے لیکن ایران طالبان اقتدار سے بھی خوش نظر نہیں آتا۔ایران افغان کابینہ میں فارسی بولنے والے افراد کی قلیل تعداد اور پنجشیر پر طالبان قبضے سے خوش نہیں ہے۔ ہاں اپنی پوری مشرقی سرحد محفوظ ہو جانے سے مطمئن بھی ہے۔ افغانستان کی بدلتی صورتحال میں چین بہت فائدے میں دکھائی دیتا ہے۔افغانستان کی چھوٹی سی سرحد چین سے ملتی ہے جہاں سے امریکا دراندازی کر سکتا تھا۔یہ خدشہ ختم ہو گیا ہے۔
سی پیک بھی کسی حد تک محفوظ بن گیا ہے۔ افغانستان کے اندر نایاب دھاتوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے اور روزافزوں ترقی کرتے چین کو ان دھاتوں کی شدید ضرورت ہے۔ امریکا، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان QUAD نے چین کو ان دھاتوں کی سپلائی میں رکاوٹ ڈالی ہے۔افغانستان اس کمی کو پورا کر سکتا ہے۔چین کو پورے علاقے میں معاشی ایڈوانٹیج حاصل ہے۔ چین بہت پھونک پھونک کر افغانستان میں قدم بڑھائے گا۔دنیا میں روس سے زیادہ کوئی افغانستان کو نہیں جانتا۔ابھی روس بھی آہستہ آہستہ قدم اٹھائے گا۔روس کی کوشش ہوگی کہ فی الحال چین کو گائیڈ کرے۔
چین اور روس کو البتہ اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ امریکا افغانستان سے فارغ ہونے کے بعد اپنی بے پناہ دولت کو اپنے ملک امریکا کے اندر لگا کر امریکی معیشت کو نئی بلندیوں پر لے جا سکتا ہے۔چینی معیشت اس وقت تیزی سے ترقی کرتی شاید دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن چکی ہے لیکن اگر امریکا اپنے بے پناہ ریسورسز ملک کے اندر لگائے تو چین کو بہت زیادہ مسابقت کا سامنا کرنا ہو گا۔
امریکی افواج بھی یہاں سے فارغ ہو کر ساؤتھ چائنا سمندر میں مزید جارحانہ قدم اُٹھا کر چین کے لیے مشکلات میں اضافہ کر سکتی ہیں۔اسی طرح امریکا،بھارت کی پہلے سے زیادہ مدد کر کے اروناچل پردیش اور لداخ کے بارڈر پر چین کے لیے اور کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
امریکا کے کئی اعلیٰ فوجی اور سی آئی اے افسران نے ایک سے زیادہ بار کہا ہے کہ افغانستان تو ایک بہانہ ہے اصل نشانہ پاکستان اور پاکستانی نیوکلیئر اثاثے ہیں۔ پوری پاکستانی قوم کو اﷲ کے حضور سجدہء شکر ادا کرنا چاہیے کہ یہ خواہش اور کوشش رائیگاں گئی۔امریکی انخلا کے ساتھ ہی امریکا کا واحد سپر پاور ہونے کا زعم بھی جاتا رہا۔
پاکستان کو موجودہ حالات میں اپنے کارڈز بہت احتیاط اور ہوشیاری سے کھیلنے ہوں گے۔مغرب بہت شاطر ہے۔ مغربی نمایندے پاکستان آتے ہیں تو مدد بھی مانگتے ہیں اور ساتھ ہی دھمکی بھی دیتے ہیں۔ اس وقت ان کی دھمکیاں عروج پر ہیں۔ہمیں چوکنا اور ٹھنڈا رہ کر اپنے مقاصد حاصل کرنا ہوں گے۔ان شاء اﷲ پاکستان کا مستقبل تابناک ہے۔
قارئینِ کرام مشرقِ وسطیٰ میں بہت ہی اہم ڈویلپمنٹ ہوئی ہے۔اسرائیلی میڈیا نے شواہد کے ساتھ اطلاع دی ہے کہ امریکا نے یمن کی سرحد کے ساتھ سعودی علاقے سے تمام ایڈوانس میزائل بشمول پیٹریاٹ میزائل ہٹا لیے ہیں۔علاقے کے دفاع کے حوالے سے یہ دور رس نتائج لائے گا۔