ماہ ستمبر کچھ فنکاروں کے لیے ستمگر ثابت

نوجوان نسل کی معلومات کے لیے اور وہ قارئین فلم جو اپنی زندگی کی 50 بہاریں دیکھ چکے۔

meemsheenkhay@gmail.com

پاکستان فلم انڈسٹری کا اگر ماضی کے حوالے سے جائزہ لیں تو ماہ ستمبر نے ستم گرکا کام کر دکھایا، نوجوان نسل کی معلومات کے لیے اور وہ قارئین فلم جو اپنی زندگی کی 50 بہاریں دیکھ چکے وہ ان کے ناموں سے اور کام سے آشنا ہوں گے جو شوبزنس شخصیات ماہ ستمبر میں پیدا ہوئیں ان میں رقاصہ عالیہ، اداکارہ صاعقہ، صابرہ سلطانہ مرحومہ سندھی فلموں کے سپرہٹ ہیرو مشتاق چنگیزی اور جو فنکار ستمبر میں شدید بیمار ہوئے اور پھر اس کے بعد چلے گئے ان میں وحید مراد، درپن، یوسف خان، ننھا، اداکارہ شمیم آرا، نورجہاں، گلوکارہ مہ ناز شامل ہیں۔

ماضی کی سپر اسٹار ہیروئن روزینہ قابل ذکر ہیں جب کہ ستمبر میں جدا ہونے والے فنکاروں میں گلوکارہ نسیم بیگم، ہدایت کار خلیل قیصر، کمال ایرانی ، لہری، گلوکار حبیب ولی محمد، اداکار صادق اور صحافی اسد جعفری قابل ذکر ہیں۔ پاکستان کی پہلی فلم '' تیری یاد '' کی ہیروئن آشا پوسلے حیات تھیں اور زندگی کی 85 بہاریں دیکھ چکی تھیں ان سے راقم کی ایک ملاقات گجرات کے شہر محلہ پانی والی مسجد کی آبادی میں ہوئی جہاں وہ رہائش پذیر تھیں اور اپنے کسی عزیز سے ملنے آئی تھیں مگر وہ مستقل طور پر لاہور کے علاقے کوپر روڈ میں رہتی تھیں۔

راقم ایک ٹی وی چینل میں سینئر نیوز ایڈیٹر تھا اور کسی دستاویزی فلم کی ریکارڈنگ کے حوالے سے گجرات میں تھا۔ آشا پوسلے مرحومہ نے بتایا کہ فلم ''تیری یاد'' کی افتتاحی تقریب 12 ستمبر 1948 کو ہوئی، صبح کو میں نے میلاد کی تقریب کا اہتمام کیا (آشا پوشلے) مسلمان تھیں جب کہ شام کو ہندو کمیٹی کو کھانے پر مدعو کیا گیا۔

اپنی عمر کے آخری ایام میں وہ صحافیوں سے ناراض تھیں، گلوکارہ نسیم بیگم امرتسر میں اس وقت معروف گلوکارہ بدھاں کے ہاں پیدا ہوئیں، مختار بیگم اپنے دور کی بہت بڑی گلوکارہ تھیں، اداکارہ رانی مرحومہ اور نسیم بیگم ان کی لے پالک بیٹیاں تھیں، گلوکارہ نسیم بیگم نے موسیقار میاں شہریار کی دھن میں جب یہ گیت گایا جس کے بول تھے:

اے راہِ حق کے شہیدوں وفا کی تصویرو

تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

اس گیت کو عوامی سطح پر بہت پذیرائی ملی، سابق صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان مرحوم نے اس گیت کو سننے کے بعد انھیں ایوان صدر آنے کی دعوت دی تو ایوب خان نے باہر آکر ان کا استقبال کیا اور کہا کہ بہن آپ کے گیت نے میرے افسروں اور جوانوں کے حوصلے 1965 کی جنگ میں بلند کردیے اور صدر ایوب نسیم بیگم کو کار تک چھوڑنے آئے۔

اس موقع پر نسیم بیگم نے انڈین فلموں پر پابندی کا مشورہ صدر ایوب کو دیا۔ 1965 میں ستمبر میں تمام انڈین فلموں کے سنسر سرٹیفکیٹ منسوخ کر دیے گئے اور انڈین فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کردی گئی، نیر سلطانہ مرحومہ نے ہمیں بتایا تھا کہ میری فلم ''سہیلی'' کا یہ گیت''مکھڑے پہ سہرا ڈالے آ جا او آنے والے'' آج بھی شادی بیاہ کی تقریبات میں زندہ جاوید ہے ''فلم کرتار سنگھ'' کا یہ گیت''دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا... امڑی دے دل دا سہارا... ویر میرا گھوڑی چڑھیا'' اور آج بھی پنجاب میں اس گیت کے بغیر شادی مکمل نہیں ہوتی، گلوکارہ نسیم بیگم کا انتقال زچگی کا کیس بگڑنے کی وجہ سے ہوا، چھٹے بچے کو جنم دینے کے بعد 29 ستمبر 1971 کو دماغ کی شریان پھٹنے کے باعث اپنے پرستاروں کو چھوڑ گئیں۔


اداکار لہری کا اصل نام سفیر اللہ صدیقی تھا ، ان سے ہماری بہت یاد اللہ تھی۔ گفتگو میں ان سے تکبرکا تذکرہ ہوا ایک واقعہ سناتے ہوئے وہ زار و قطار رو دیے کہ 1985 میں فلم '' تانیہ'' کی شوٹنگ کے حوالے سے بنکاک جانا ہوا، تمام آرٹسٹ ایک عام سے ہوٹل میں ٹھہرے مگر میں اس وقت ہارٹ کیک اداکار تھا۔

میں نے پروڈیوسر سے کہا کہ میں اس ہوٹل میں نہیں رہنا چاہتا، آپ میرے لیے فائیو اسٹار ہوٹل کا انتظام کریں، اور پھر مجھے فائیو اسٹار ہوٹل دیا گیا، اسی رات مجھ پر فالج ہو گیا اور آج میں بستر پر پڑا ہوں۔ 1992 کی بات ہے اسی تکبر کے تلے کچلا گیا اب لہری سے کوئی ملنے نہیں آتا، تم آئے ہو تو مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ مشتاق چنگیزی 15 سال بحیثیت ہیرو سندھی فلموں کے سپرہٹ ہیرو رہے جب وہ فلم سائن کرتے تھے تو فلم پروڈیوسر حضرات فوری خرید لیا کرتے تھے، وہ صف اول کے ہیرو تھے، بھارت کے شہر آگرہ میں پیدا ہوئے انھیں سندھی فلموں کا دلیپ کمار کہا جاتا تھا وہ ماہ ستمبر میں پیدا ہوئے۔

زندگی کے آخری لمحات میں بیمار تھے مگر اس وقت کی حکومت نے ان کی مدد نہیں کی، اس وقت غالباً نگران حکومت تھی جب کہ بھٹو صاحب انھیں پیار سے سندھی فلموں کا آگرہ والا ہیرو کہا کرتے تھے مگر بہت ہی خود دار انسان تھے اتنے اچھے تعلقات ہونے کے باوجود بھٹو صاحب سے کبھی کوئی مراعات نہیں لیں۔اداکار کمال ایرانی کراچی کے علاقے لانڈھی میں 6 ستمبر 1932 میں پیدا ہوئے، سندھ مدرسہ کراچی سے تعلیم حاصل کی اس کے بعد جب کراچی میں ٹرامیں چلنا شروع ہوئیں تو وہاں بحیثیت ایڈمن آفیسر کے جاب کرلی۔

جاب چھوڑ کر فلموں کا رخ کیا اور کئی سپرہٹ فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے، عمر کے آخری ایام میں ایک پرائیویٹ فارم میں بحیثیت جنرل منیجر کے نوکری کرلی اس وقت انھوں نے ایک ملاقات میں بتایا کہ افسوس ہمارے ہاں فنکاروں کی قدر نہیں کی جاتی اور دل برداشتہ ہوکر اداکاری چھوڑ کر نوکری کرلی۔ 21 ستمبر 1966 میں پاکستان کے نامور اور سپرہٹ ہدایت کار خلیل قیصر کو گھر میں گھس کر قتل کردیا گیا۔اداکار شان کے والد نے فلم ''شہید'' لکھی اور خوب لکھی، یہ اپنے وقت کی سپرہٹ فلم تھی، ہدایت کار خلیل قیصر شہید علی گڑھ یونیورسٹی کے ڈگری ہولڈر تھے، قتل سے چند دن قبل اپنی نئی فلم ''پورٹ سعید'' کی تیاریوں میں مصروف تھے۔

آئیے ! اب ایک ایسے فنکار کے بارے میں آپ کو بتاتا ہوں جس نے 10 سال انڈین فلم انڈسٹری میں راجہ کی حیثیت سے دن گزارے، بقول ان کے کہ مجھے تکبر اور غرور نے اس حال پر پہنچایا اب اکیلے میں کبھی کبھی دھاڑیں مار مار کر روتا ہوں، یہ اداکار صادق تھے جو ستمبر میں پیدا ہوئے، ان کی فلم ''پکار'' نے انڈین انڈسٹری کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ فلم ''پکار'' ریلیز کرنے والے چھوٹے چھوٹے پروڈیوسر اس فلم سے اتنے مال دار ہوئے کہ خود فلمیں بنانے لگے، اداکار صادق کے عروج کا یہ عالم تھا کہ ''رول رائز'' گاڑی میں اسٹوڈیو آتے تو باقاعدہ پروڈیوسر گاڑی کا دروازہ کھولا کرتے، اداکار ہیرو اور معروف جرنلسٹ اسد جعفری مرحوم راقم کے استادوں میں سے تھے، ان کا انتقال بھی ستمبر میں ہوا، بہت تعلیم یافتہ اور خود دار انسان تھے اور پاک آرمی کے آفیسر بھی رہ چکے تھے۔

انھوں نے ہمیں بتایا کہ تم جا کر ''پکار'' کے ہیرو صادق سے ملو اور ان کا انٹرویو کرو، اب انٹرویو کہاں لیا، قارئین آپ کو بتاتے ہیں کراچی صدر بوہری بازار کی ایک گلی میں کیپٹل سینما ہوا کرتا تھا، اس کی گلی میں مرحوم بھیک مانگا کرتے تھے، پھٹے ہوئے کپڑے اور ٹوٹی ہوئی رنگ برنگی چپل پیروں میں تھی، قارئین گرامی! آپ یقین کریں انھیں اس حال میں دیکھ کر راقم کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ رب بنا کر نہ بگاڑے، پھر انھوں نے بتایا کہ بیٹے ایک کچی آبادی PIDC کے قریب سلطانہ آباد میں رہتا ہوں۔

بارش ہوتی ہے تو کسی دھڑے یا کسی دکان کے نیچے رات جاگ کر گزارتا ہوں ، میں پاکستان آگیا ، اس کی کیا وجوہات ہیں، قبلہ میں نے سوال کرتے ہوئے کہا ، انھوں نے بتایا کہ جب کوئی مسلمان سلام کا جواب دینا چھوڑ دے تو پھر وہ ''پکار'' کے ہیرو صادق کی زندگی گزارتا ہے۔ السلام علیکم کا مطلب ہے کہ تم پر رب کی سلامتی ہو،جواب نہ دینے کا مقصد ہے کہ سامنے والا کہتا ہے (نعوذ بااللہ) مجھے سلامتی کی ضرورت نہیں، اس تکبر نے میری زندگی جانور سے بدترکردی ہے اور پھر وہ رونے لگے۔ واقعی تکبر انسان کو لے ڈوبتا ہے۔ ستمبرکا مہینہ تو ستم گر ثابت ہوا ہمارے کچھ فنکاروں کے لیے کیا خوب استاد قمر جلالوی نے کہا۔

مقدر میں جو سختی تھی وہ مرکر بھی نہیں نکلی

لحد کھودی گئی میری تو پتھریلی زمیں نکلی
Load Next Story