مادرِ ملت حصہ اول

فاطمہ جناح بحیثیت ایک قابل اعتماد رفیق قائداعظمؒ کی حوصلہ افزائی بھی کرتیں اور مفید مشورے بھی دیتیں۔

محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی محمد علی جناح کی دیکھ بھال ماں بن کر ، خدمت بیٹی بن کر اور قومی جدوجہد میں ان کی اہم ترین رفیق بن کر کی۔

کاٹھیا وار کی ریاست گونڈل کے ایک گاؤں پانیلی میں پونجا نامی صاحب رہتے تھے جو پیشے سے تجارت کرتے ان کا شمار پانیلی کے کھاتے پیتے گھرانوں میں ہوتا ان کے تین بیٹے والجی ، نتھو ، جناح بھائی اور ایک بیٹی مان بی تھی۔1874ء میں جناح بھائی اور مٹھی بائی کی شادی ہوئی۔ جناح بھائی نے گونڈل سے بمبئی اور پھرکراچی جیسے بڑے شہروں میں اپنا کاروبار منتقل کیا اور کراچی میں کھارا در میں آکر آباد ہوگئے۔

مٹھی بائی کے یہاں پہلا بیٹا محمد علی پھر بیٹی رحمت اور پھر دو سال بعد مریم بیٹی چار سال بعد احمد علی اور شیریں پیدا ہوئے اور31 جولائی1893ء کو ایک اور بیٹی کی ولادت ہوئی جس کا نام ''فاطمہ'' رکھا گیا۔ اس وقت محمد علی جناح انگلستان میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے مقیم تھے۔ فاطمہ کے بعد جب بندے علی پیدا ہوئے تو مٹھی بائی انتقال کرگئیں۔ اس وقت فاطمہ کی عمر دو برس تھی بڑی بہن مریم نے فاطمہ کو مادرانہ شفقت دینے کی کوشش کی۔

1900ء کا زمانہ تھا فاطمہ کی عمر آٹھ برس ہو چلی تھی ، والد نے ان کے لیے گھر میں تعلیم دلوانے کا معقول انتظام کر رکھا تھا۔ فاطمہ کو دوسری لڑکیوں کی طرح گڑیوں کا شوق نہ تھا۔ فاطمہ ، احمد اور شیریں ساتھ کھیلا کرتے مگر فاطمہ ، بھائی قائداعظمؒ کی طرح مطالعے کو ہر شے پر فوقیت دیتیں۔ وہ کم خوراک بلا کی ضدی ہونے کے باوجود ضد نہیں کرتیں ان کو چاکلیٹ کھانا ، سائیکل کی سواری کرنا اور موتی جڑے زیورات پہننا بہت پسند تھا۔

فاطمہ جب آٹھ برس کی تھیں ، تو ان کے والد وفات پاگئے اب ان کی تعلیم اور تربیت کا ذمے محمد علی جناح نے اپنے ذمے لے لیا۔ جناح صاحب نے آپ کو 1902ء میں باندرہ کے کانونٹ اسکول میں داخل کروا دیا اسی اسکول کے بورڈنگ میں فاطمہ کی رہائش کا انتظام بھی کروا دیا ،آپ بہت ذہین اور محنتی طالبہ تھیں۔1906ء میں سینٹ پیٹرک اسکول کھنڈالا میں آپ کا داخلہ ہوا جہاں سے 1910ء میں آپ نے میٹرک کیا۔

فاطمہ نے 1913ء میں بحیثیت پرائیویٹ طالبہ سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کرلیا۔ محمد علی جناح نے آپ کو1919ء میں امراضِ دندان کے ڈاکٹر احمد ڈینٹل کالج کلکتہ میں داخلہ کروایا آپ کی رہائش وہاں کے ہاسٹل میں تھی۔

1922ء میں ڈینٹسٹری کی سند حاصل کرکے آپ واپس بمبئی آگئیں۔ 1923ء سے آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغازکیاجب محمد علی جناحؒ نے عبدالرحمن اسٹریٹ بمبئی میں ایک ڈینٹل کلینک کھلوا کر آپ کو دیا۔ چھ سات سال آپ انتہائی دلچسپی کے ساتھ اس خدمت کو سر انجام دیتیں رہیں۔

اس عرصے کے دوران آپ روزانہ میونسپل کلینک میں بھی جاتیں اور بلا معاوضہ غریبوں کا علاج کرتیں۔1929ء میں قائداعظم ؒکی اہلیہ رتی جناح کے انتقال کے بعد بہن فاطمہ نے بھائی کے اکیلے پن کو محسوس کرتے ہوئے فورا کلینک بند کرکے بھائی کے پاس آگئیں اور اس طرح انھوں نے بھائی کو گھریلو مصروفیات سے بالکل بے نیاز کر دیا وہ ایک شفیق بہن کی طرح ان کی دیکھ بھال کرتیں غرض یہ کہ قائد کی زندگی کے تمام معمولات آپ ترتیب دیتیں ، جن کی پابندی کا آپ پورا پورا خیال رکھتیں۔


جس سے آپ کا مقصد بھائی کی صحت اور ان کے مشن کی کامیابی تھا ، اپنی نگرانی میں خانساموں سے بھائی کی پسند ناپسند کا صاف ستھرا کھانا تیار کرواتیں۔ ملک کے بڑے بڑے سیاسی رہنماؤں ، انگریزوں اور ہندوؤں کے تمام لیڈروں سے جناح صاحب کی ملاقاتیں ہوتیں تو فاطمہ بھی ان کے ہمراہ ہوتیں ،جس سے دوران گفتگو آپ کوبہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا اور جن اجلاسوں میں آپ نہ ہوتیں تو ان کی روئیداد محمد علی جناحؒ آپ کو سناتے وہ انھیں ہندوستانی سیاست سے آگاہ رکھتے۔

فاطمہ جناح بحیثیت ایک قابل اعتماد رفیق قائداعظمؒ کی حوصلہ افزائی بھی کرتیں اور مفید مشورے بھی دیتیں۔1930ء کے اس کٹھن اور تاریک دور میں محترمہ فاطمہ قائداعظمؒ کے لیے امید کی کرن تھیں جس کا ذکر خود قائداعظمؒ نے ان الفاظ میں کیا کہ ''جب میں گھر آتا تو میری بہن میرے لیے امید کی کرن اور مستقبل کی روشنی بن جاتی میں پریشانیوں میں گھیرا رہتا اور میری صحت خراب ہو جاتی لیکن فاطمہ کے حسن تدبر اور توجہ سے میری تمام پریشانیاں دور ہو جاتیں تھیں۔'' آپ اپنے بھائی کی دلجوئی کرتیں، فاطمہ بھائی کی دست راست تھیں۔

آپ ان کی لکھی ہوئی تحریروں کا مطالعہ اور ان کی حفاظت بھی کرتیں۔1930ء کی گول میزکانفرنس میں آپ بھائی کے ہمراہ تھیں۔ انگلستان میں قیام کے دوران فاطمہ کو یہاں کے سیاسی ، سماجی اور تعلیمی مسائل سمجھنے کا بھرپور موقع ملا۔ قائداعظمؒ کی تحریک آزادی کی جدوجہد میں بہن فاطمہ شانہ بشانہ شامل رہیں۔ بقول محترمہ فاطمہ ملکی سیاست سے مجھے ویسے بھی بڑی دلچسپی تھی کیونکہ قائداعظم ؒ کے ساتھ رہ کر سیاست سے دور رہنا میرے لیے ممکن نہ تھا۔

چنانچہ میں قائداعظمؒ کے دوش بدوش پورے انہماک کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھی اور اس طرح بھائی کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے فاطمہ مسلم خواتین کو بیدار کرنے اور میدان عمل میں لانے کی ذمے داری لے لی ، کیونکہ قائداعظم کا خیال تھا کہ عورتوں کے تعاون کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی اگر مسلم خواتین اپنے مردوں کو اس طرح تقویت پہنچائیں ، جس طرح انھوں نے عہد رسالت میں تقویت پہنچائی تو ہم بہت جلد اپنی منزل مقصود کو پالیں گے۔

قائد اعظمؒ کے پیغام کو خواتین تک پہنچانے کے لیے فاطمہ نے جناح کے ساتھ ملک میں تحریک نسواں کو تیز اور منظم کیا وہ دشوار گزار اور تنگ و تاریک گلیوں میں پیدل چل کر وہ خواتین کے جلسوں اور جلوسوں کی صدارت فرماتیں اور خطاب کرتیں تاکہ مسلم لیگ مضبوط ہو۔

ان اجتماعات میں جہاں فاطمہ جناح قائداعظمؒ اور مسلم لیگ کے لائحہ عمل سے آگاہی دیتیں وہاں انھیں نصیحت بھی فرماتیں کہ وہ مردوں کے دوش بدوش مسلم ہندوستان کے روشن مستقبل کے لیے اپنا کامل حق ادا کریں۔ مسلم بہنوں کی حوصلہ افزائی کرتیں اور ان کی بہترین کارکردگی پر انھیں خراج تحسین پیش کرتیں۔

ان اکابرین کی سوچ میں یہ بات تھی کہ یہ خواتین ہی ہوتی ہیں جو عمدگی کے ساتھ قومی ترقی کے ان شعبوں کو مستحکم کرسکتی ہیں جن کا تعلق عوام کی اقتصادی ، سماجی اور تعلیمی سرگرمیوں سے ہو اور اس طرح مادر ملت نے مسلم خواتین کے سیاسی شعور کو بیدار کیا۔ مسلمان طالبات کو بھی براہ راست قومی سیاست سے آگاہ رکھا ، کیونکہ آپ یہ خیال کرتیں کہ طالبات ہی معاشرے میں تعلیمی اور سماجی اصلاح کی داعی ہوسکتی ہیں۔

آپ مسلم وومن اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت کرکے مسلم طالبات کی حوصلہ افزائی اور مستقبل کے لیے رہنمائی کرتیں۔ اپریل 1943ء میںدہلی وویمن اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ''اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ جو آپ کا پہلا فریضہ ہے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ ہر طرح سے باخبر رہیں اور روزمرہ کے واقعات،سیاسی مسائل اور ان دیگر امور میں جو ہماری قومی زندگی اور ہمارے ملک پر اثر انداز ہوتے ہیںگہری دلچسپی لیں۔''

آپ کی کوششوں سے تعلیم نسواں اور تعلیم بالغاںکے مراکز قائم ہوئے اور آپ خواتین کی اس قدر مقبول لیڈر تھیں کہ جب خواتین محترمہ کے متعلق سنتیں کہ وہ فلاں جلسے سے خطاب کررہی ہیں تو وہ فورا اپنے تمام کام چھوڑ کر جوق در جوق جلسہ گاہ کی طرف چل پڑتیں۔ (جاری ہے)
Load Next Story