ہمی سو گئے داستاں کہتے کہتے
لوگ کیسا کیسا ظالم فقرہ کہتے تھے اور سننے والے لطف اٹھاتے تھے
یہ ناگہانیوں کا موسم ہے، ابھی پیارے کو مٹی دی تو دوسرا تیار، وہی شاعر والی بات کہ
لوگ جوق در جوق چلے جاتے ہیں
نہیں معلوم تہہِ خاک تماشا کیا ہے
ابھی کراچی سے خبر ملی تھی کہ ممتاز صحافی نذیر خان صاحب اٹھ گئے، ان کے جاتے جاتے اسلام آباد سے بھائی سی آر شمسی کی جدائی کا سندیسہ آیا ہی تھا کہ سرگودھاسے سابق رکن قومی اسمبلی جاوید اقبال چیمہ کے سفر کی سناؤنی آگئی۔ان پیاروں اور محبت کرنے والوں سے پہلے کراچی سے ایک اور نا گہانی سنائی دی تو ایک شعر کی شدت سے یاد آئی تھی :
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمی سو گئے داستاں کہتے کہتے
جانے ثاقب لکھنوی کون تھے اور جانے انھوں نے یہ شعر کس کیفیت میں کہا ہوگا، کبھی ایسا سوچنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ یہ واقعہ نہیں تھا کہ شعر نے کبھی کیفیت پیدا نہیں کی بلکہ یہ تھا جب بھی سنا، بہ یک وقت سرشاری اور حزن کی کیفیت پیدا ہو گئی۔
سرشاری ایسی جو عزیز جہاں بن جانے کے احساس سے پیدا ہو اور حزن وہ جس کے خیال سے ہی انسان مٹی کی چادر اوڑھ کر ہمیشہ کے لیے سو جانے کی کیفیت میں مبتلا ہو جائے۔ کسی شاعر کی فکر کی گہرائی سے اٹھنے والا احساس، سلیقہ اور الفاظ کا در و بست شعر میں عظمت پیدا کر دیتا ہے لیکن شاید یہ واحد شعر ہو گا جس کی عظمت ادائیگی کی اس کیفیت میں محسوس ہوئی جس کا گداز اور گونج اس لہر سے برآمد ہوتی جو ریڈیو کی جھریوں سے نکل کر یہاں وہاں پھیل جاتی اور سننے والوں کو سرشار کر دیتی۔یہی آواز تھی جو کبھی کسی الہڑ دوشیزہ کو کھلکھلا کر ہنسنے پر مجبور کرتی یا پھر مسٹر جیدی میٹرک پاس سیکنڈ ڈویژن فرام دی سرگودھا ڈویژن کو اکساتی کہ وہ اپنی بھولی بھالی آواز میں احمقانہ باتیں کرتے کرتے پتے کی کوئی ایسی بات کہہ جائیں جس کی کسک سننے والے کو تادیر محسوس ہوتی رہے۔ یہی آواز تھی جس کی گمبھیرتا کبھی گرفت میں نہ آ سکی لیکن آکر کب تک ، داستاں کہتے کہتے واقعی ایک روزسو گئی۔
شوبز کیا ہے اور اس کا جادو کیا کمال دکھاتا ہے، آج کی دنیا اپنے حسن و ہنر پر خواہ کتنا ہی اٹھلا لے، یہ عظیم سرور کے ریڈیو کے ان کمرشل پروگراموں پر بازی نہیں لے جا سکتی جو ہٹ پریڈ وغیرہ جیسے ناموں سے کئی دہائیوں تک ہمارے کانوں میں رس گھولتے رہے، ایسے ہی پروگرام ہوتے تھے جن کے اختتام پر عظیم سرور ثاقب لکھنوی کا شعر پڑھتے تو لگتا کہ زمانہ تو واقعی کان لگائے بیٹھا ہے لیکن صاحب ارشاد نے جو کہنا سننا تھا، کہہ کہلا کر آنکھیں موند چکا، یہ عظیم سرور کی آواز کا جادو تھا کہ جب وہ کہتے کہ ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے تو دفعتاً سناٹے کا سا احساس طاری ہو جاتا۔ وہ آواز جو ریڈیو پر سنی تھی، اس کے سحر نے گرفت میں لیا تو حقیقت داستاں بن گئی، یہاں تک کہ بیچ میں اکرام غازی آگئے۔ اکرام غازی ذاتی حیثیت میں میرے محسن تو تھے ہی لیکن تاریخ کی ایک ایسی کڑی بھی تھے جس کا ایک سرا موہن داس کرم چند گاندھی سے شروع ہو کرعظیم سرور تک پہنچتا ہے۔
غازی صاحب ایک عظیم شاعر اور صحافی مولانا نصراللہ خان عزیز کے فرزند تھے، برعظیم پاک و ہند کی تاریخ نے جن کی آنکھوں کے سامنے کروٹیں لیں۔ اکرام غازی ان کروٹوں کے عینی شاہد تو نہیں تھے لیکن ان کے بیان کا سلیقہ رکھتے تھے نیز مختلف الخیال لوگوں کو باہم مربوط کرنے کا ہنر جانتے تھے، یوں بھابھی صاحبہ کے سلیقے کی برکت سے ان کا دسترخوان وسیع تھا اور مجھے یاد پڑتاہے کہ عظیم سرور صاحب سے ملاقات بھی ان ہی کے ہاں کھانے کی کسی نشست میں ہوئی ہوگی۔
پائے ہوں یا نہاری، بھابھی صاحبہ اس سلیقے سے بناتیں کہ کھانے والے انگلیاں چاٹتے رہ جاتے، وہ بھی پائے نہاری کی نشست تھی، اہل محفل سیر ہو چکے اور برتن سمٹ چکے تو اللہ بخشے صفدر چوہدری نے ہنکارا بھرا اور کہا کہ عظیم بھائی، وہ کیا کہانی ہے، اندرا گاندھی والی؟ سامعین ہمہ تن گوش ہو گئے، اندرا کے قتل کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا، اس لیے ان کے قتل اور اس کے بعد سکھوں پر مظالم کی داستانیں اکثر سامنے آتی رہتی تھیں،''ممکن ہے کہ کوئی نیا واقعہ ان کے علم میں ہو''۔میں نے سوچا اور ہمہ تن گوش ہو گیا۔ ''عظیم بھائی''پچھلی صف میں دیوار کے قریب تقریبا اکڑوں بیٹھے تھے، انھوں نے پہلو بدلا اور کہا،''وہ ایسے ہے''۔
یہ تین الفاظ میرے کان میں بجلی کے کوندے کی طرح پڑے۔ میرے ذہن میں لڑکپن کے وہ سارے ریڈیو پروگرام جاگ اٹھے جو کڑکتی دوپہروں میں اور سرد راتوں میں بستر میں کان سے ریڈیو لگا کر میں نے سن رکھے تھے۔ میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا اور سوچا کہ یہ میرا وہم ہو گا، کہاں یہ محفل اور کہاں عظیم سرور؟ لیکن اگلے جملے نے پھر تڑپا دیا:''اکرام سمجھتا ہے کہ لذت پائے نہاری پر ختم ہے، ورنہ کھیر اب تک آچکی ہوتی''۔''یار، یہ تو ہو بہ ہووہی عظیم سرور ہیں''۔میں نے سوچا۔ اس روز میری سمجھ میں آیا کہ وہ کیسا مزاح ہوتا ہے جو کسی کوشش کے بغیر محض جولانیِ طبع سے وجود میں آتا ہے۔
یہ واقعہ میں نے اپنے استاد ڈاکٹر محمود غزنوی کے گوش گزار کیا تو کھل کر ہنسے اور کہا کہ لو سنو!کراچی میں ایک اچھی روایت یہ تھی کہ جامعہ کراچی یا جامعہ ملیہ کے کسی طالب علم کو شعر و ادب کی لپک ہوتی اور بات کہنے کا سلیقہ بھی تو ریڈیو پاکستان کے دروازے اس پر کھل جاتے۔
یہ موقع محمود غزنوی صاحب کو بھی ملا۔ ریڈیو میں اس زمانے میں جو اسکرپٹ لکھا جاتا، کاربن پیپر کی مدد سے اس کی کئی نقلیں تیار کی جاتیں۔ اس روز اتفاق کیا ہوا کہ کاربن پیپر ختم ہو گیا، غزنوی صاحب عظیم سرور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ عظیم بھائی کاربن پیپر نہیں ہے، اسکرپٹ کی نقلیں کیسے بناؤں؟ عظیم بھائی نے یہ سنا اور نوجوان اسکرپٹ رائٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:''بیٹا، ایک سفید کاغذ لو''۔ ''جی، لے لیا عظیم بھائی''۔''یہ تم نے اچھا کیا''۔عظیم بھائی نے کھلے دل سے انھیں داد دی پھر کہا کہ ایسا کرو، اسے منہ پر پھیر لو''۔یہ کہہ کر وہ لحظہ رکے اور مخاطب کے ردعمل کا جائزہ لینے کے لیے اس کی طرف دیکھا پھر کہا کہ اس سے بھی بات نہ بنے تو وہی کاغذ مجھے دینا، میں بھی منہ پر پھیر لوں گا پھر بھی ضرورت پوری نہ ہو تو کہنا۔ان کا اشارہ محمود غزنوی کی اور اپنی گہری سانولی رنگت کی طرف تھا۔ باڈی شیمنگ اور ریس ازم جیسے جدید سماجی تصورات نے لوگوں کی برداشت اور ذوق سماعت کو تباہ کر دیا ہے جس سے شگفتگی، طنز لطیف اور برجستہ جملے سے لطف اندوز ہونے کی روایت دم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔
ورنہ لوگ کیسا کیسا ظالم فقرہ کہتے تھے اور سننے والے لطف اٹھاتے تھے۔ہماری ادبی روایت کی طرح ریڈیو پاکستان بھی کسی زمانے میں تہذیب و ثقافت کی آماج گاہ تھا جس میں ہر شعبہ زندگی کے لوگ آتے اور اپنے فن کا جادو جگاتے۔ ایک بار کوئی بزرگ یا عامل کسی پروگرام میں مہمان ہوئے اور انھوں نے سامعین کو مشورہ دیا کہ اللہ سے بات منوانے کے لیے ضروری ہے کہ منت مانگی جائے اور بہترین منت ہے نوافل کی ادائیگی اور وہ بھی سیکڑوں کی تعداد میں۔ سیکڑوں نوافل کا سن کر کسی نے سوال کیا کہ حضرت اتنے نوافل کی ادائیگی آسان نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے کہ وہ بزرگ کچھ کہتے، عظیم سرور بول پڑے، کہا کہ پریشان کیوں ہوتے ہو یار، فوٹو اسٹیٹ کرا لینا۔
سقوط ڈھاکا اور اس عہد میں ہمارے طاقت ور طبقات کی کج ادائیوں کی وجہ سے قوم کے دل دکھے ہوئے تھے، عظیم سرور کے دکھ نے ان کی توجہ اندرا گاندھی کی طرف مبذول کرادی۔ وہ ان کی روز مرہ کی مصروفیات، فیشن اور تنک مزاجی پر نظر رکھتے اور اپنی عادت کے مطابق کوئی لطیفہ گھڑ لیتے جس میں طنز کے ساتھ ساتھ نہایت لطیف انداز میں تضحیک کا پہلو بھی ہوتا۔ ہوتے ہوتے لطیفوں کا ڈھیر لگ گیا۔ لطیفوں کی تعداد بڑھی تو ان کے اندر کا براڈ کاسٹ جاگا اور انھوں نے ان لطیفوں پر مشتمل ایک آڈیو کیسٹ تیار کردی۔
یہ کیسٹ ہاتھوں ہاتھ ایسے نکلی کہ مقبولیت کے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ پاکستان میں تو اس کی مقبولیت فطری تھی لیکن ستم یہ ہوا کہ بھارت میں بھی مقبول ہوگئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عظیم سرور کی کیسٹ کا معاملہ ایک روز بھارتی لوک سبھا کا گرما گرم موضوع بن گیا۔ بھارتی حکومت کا مؤقف تھا کہ اس سرگرمی کے پیچھے پاکستانی حکومت کا ہاتھ ہے کیوں کہ عظیم سرور ریڈیو پاکستان کے ایک افسر اعلیٰ ہیں حالاں کہ عظیم سرور ایسی شرارتیں ذاتی حیثیت میں کیا کرتے تھے۔ان کی ایسی ہی شرارتیں، بے ساختہ جملے اور خوش مزاجی تھی جس نے اول ریڈیو پاکستان پر دھوم مچائی، ریٹائرمنٹ کے بعد دوستوں کی محفلوں کی رونق بنے، انھوں نے جو بات کہی اور جس بھی ڈھنگ سے کہی، زمانے نے اسے شوق سے سنا لیکن آخر کب تک، ان کی داستاں سرائی ختم ہوئی اور وہ بزرگوں کی طرح ایک دن یہ کہہ کر کہ اب ہم جاتے ہیں، منہ لپیٹ کر سوگئے۔
لوگ جوق در جوق چلے جاتے ہیں
نہیں معلوم تہہِ خاک تماشا کیا ہے
ابھی کراچی سے خبر ملی تھی کہ ممتاز صحافی نذیر خان صاحب اٹھ گئے، ان کے جاتے جاتے اسلام آباد سے بھائی سی آر شمسی کی جدائی کا سندیسہ آیا ہی تھا کہ سرگودھاسے سابق رکن قومی اسمبلی جاوید اقبال چیمہ کے سفر کی سناؤنی آگئی۔ان پیاروں اور محبت کرنے والوں سے پہلے کراچی سے ایک اور نا گہانی سنائی دی تو ایک شعر کی شدت سے یاد آئی تھی :
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمی سو گئے داستاں کہتے کہتے
جانے ثاقب لکھنوی کون تھے اور جانے انھوں نے یہ شعر کس کیفیت میں کہا ہوگا، کبھی ایسا سوچنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ یہ واقعہ نہیں تھا کہ شعر نے کبھی کیفیت پیدا نہیں کی بلکہ یہ تھا جب بھی سنا، بہ یک وقت سرشاری اور حزن کی کیفیت پیدا ہو گئی۔
سرشاری ایسی جو عزیز جہاں بن جانے کے احساس سے پیدا ہو اور حزن وہ جس کے خیال سے ہی انسان مٹی کی چادر اوڑھ کر ہمیشہ کے لیے سو جانے کی کیفیت میں مبتلا ہو جائے۔ کسی شاعر کی فکر کی گہرائی سے اٹھنے والا احساس، سلیقہ اور الفاظ کا در و بست شعر میں عظمت پیدا کر دیتا ہے لیکن شاید یہ واحد شعر ہو گا جس کی عظمت ادائیگی کی اس کیفیت میں محسوس ہوئی جس کا گداز اور گونج اس لہر سے برآمد ہوتی جو ریڈیو کی جھریوں سے نکل کر یہاں وہاں پھیل جاتی اور سننے والوں کو سرشار کر دیتی۔یہی آواز تھی جو کبھی کسی الہڑ دوشیزہ کو کھلکھلا کر ہنسنے پر مجبور کرتی یا پھر مسٹر جیدی میٹرک پاس سیکنڈ ڈویژن فرام دی سرگودھا ڈویژن کو اکساتی کہ وہ اپنی بھولی بھالی آواز میں احمقانہ باتیں کرتے کرتے پتے کی کوئی ایسی بات کہہ جائیں جس کی کسک سننے والے کو تادیر محسوس ہوتی رہے۔ یہی آواز تھی جس کی گمبھیرتا کبھی گرفت میں نہ آ سکی لیکن آکر کب تک ، داستاں کہتے کہتے واقعی ایک روزسو گئی۔
شوبز کیا ہے اور اس کا جادو کیا کمال دکھاتا ہے، آج کی دنیا اپنے حسن و ہنر پر خواہ کتنا ہی اٹھلا لے، یہ عظیم سرور کے ریڈیو کے ان کمرشل پروگراموں پر بازی نہیں لے جا سکتی جو ہٹ پریڈ وغیرہ جیسے ناموں سے کئی دہائیوں تک ہمارے کانوں میں رس گھولتے رہے، ایسے ہی پروگرام ہوتے تھے جن کے اختتام پر عظیم سرور ثاقب لکھنوی کا شعر پڑھتے تو لگتا کہ زمانہ تو واقعی کان لگائے بیٹھا ہے لیکن صاحب ارشاد نے جو کہنا سننا تھا، کہہ کہلا کر آنکھیں موند چکا، یہ عظیم سرور کی آواز کا جادو تھا کہ جب وہ کہتے کہ ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے تو دفعتاً سناٹے کا سا احساس طاری ہو جاتا۔ وہ آواز جو ریڈیو پر سنی تھی، اس کے سحر نے گرفت میں لیا تو حقیقت داستاں بن گئی، یہاں تک کہ بیچ میں اکرام غازی آگئے۔ اکرام غازی ذاتی حیثیت میں میرے محسن تو تھے ہی لیکن تاریخ کی ایک ایسی کڑی بھی تھے جس کا ایک سرا موہن داس کرم چند گاندھی سے شروع ہو کرعظیم سرور تک پہنچتا ہے۔
غازی صاحب ایک عظیم شاعر اور صحافی مولانا نصراللہ خان عزیز کے فرزند تھے، برعظیم پاک و ہند کی تاریخ نے جن کی آنکھوں کے سامنے کروٹیں لیں۔ اکرام غازی ان کروٹوں کے عینی شاہد تو نہیں تھے لیکن ان کے بیان کا سلیقہ رکھتے تھے نیز مختلف الخیال لوگوں کو باہم مربوط کرنے کا ہنر جانتے تھے، یوں بھابھی صاحبہ کے سلیقے کی برکت سے ان کا دسترخوان وسیع تھا اور مجھے یاد پڑتاہے کہ عظیم سرور صاحب سے ملاقات بھی ان ہی کے ہاں کھانے کی کسی نشست میں ہوئی ہوگی۔
پائے ہوں یا نہاری، بھابھی صاحبہ اس سلیقے سے بناتیں کہ کھانے والے انگلیاں چاٹتے رہ جاتے، وہ بھی پائے نہاری کی نشست تھی، اہل محفل سیر ہو چکے اور برتن سمٹ چکے تو اللہ بخشے صفدر چوہدری نے ہنکارا بھرا اور کہا کہ عظیم بھائی، وہ کیا کہانی ہے، اندرا گاندھی والی؟ سامعین ہمہ تن گوش ہو گئے، اندرا کے قتل کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا، اس لیے ان کے قتل اور اس کے بعد سکھوں پر مظالم کی داستانیں اکثر سامنے آتی رہتی تھیں،''ممکن ہے کہ کوئی نیا واقعہ ان کے علم میں ہو''۔میں نے سوچا اور ہمہ تن گوش ہو گیا۔ ''عظیم بھائی''پچھلی صف میں دیوار کے قریب تقریبا اکڑوں بیٹھے تھے، انھوں نے پہلو بدلا اور کہا،''وہ ایسے ہے''۔
یہ تین الفاظ میرے کان میں بجلی کے کوندے کی طرح پڑے۔ میرے ذہن میں لڑکپن کے وہ سارے ریڈیو پروگرام جاگ اٹھے جو کڑکتی دوپہروں میں اور سرد راتوں میں بستر میں کان سے ریڈیو لگا کر میں نے سن رکھے تھے۔ میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا اور سوچا کہ یہ میرا وہم ہو گا، کہاں یہ محفل اور کہاں عظیم سرور؟ لیکن اگلے جملے نے پھر تڑپا دیا:''اکرام سمجھتا ہے کہ لذت پائے نہاری پر ختم ہے، ورنہ کھیر اب تک آچکی ہوتی''۔''یار، یہ تو ہو بہ ہووہی عظیم سرور ہیں''۔میں نے سوچا۔ اس روز میری سمجھ میں آیا کہ وہ کیسا مزاح ہوتا ہے جو کسی کوشش کے بغیر محض جولانیِ طبع سے وجود میں آتا ہے۔
یہ واقعہ میں نے اپنے استاد ڈاکٹر محمود غزنوی کے گوش گزار کیا تو کھل کر ہنسے اور کہا کہ لو سنو!کراچی میں ایک اچھی روایت یہ تھی کہ جامعہ کراچی یا جامعہ ملیہ کے کسی طالب علم کو شعر و ادب کی لپک ہوتی اور بات کہنے کا سلیقہ بھی تو ریڈیو پاکستان کے دروازے اس پر کھل جاتے۔
یہ موقع محمود غزنوی صاحب کو بھی ملا۔ ریڈیو میں اس زمانے میں جو اسکرپٹ لکھا جاتا، کاربن پیپر کی مدد سے اس کی کئی نقلیں تیار کی جاتیں۔ اس روز اتفاق کیا ہوا کہ کاربن پیپر ختم ہو گیا، غزنوی صاحب عظیم سرور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ عظیم بھائی کاربن پیپر نہیں ہے، اسکرپٹ کی نقلیں کیسے بناؤں؟ عظیم بھائی نے یہ سنا اور نوجوان اسکرپٹ رائٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:''بیٹا، ایک سفید کاغذ لو''۔ ''جی، لے لیا عظیم بھائی''۔''یہ تم نے اچھا کیا''۔عظیم بھائی نے کھلے دل سے انھیں داد دی پھر کہا کہ ایسا کرو، اسے منہ پر پھیر لو''۔یہ کہہ کر وہ لحظہ رکے اور مخاطب کے ردعمل کا جائزہ لینے کے لیے اس کی طرف دیکھا پھر کہا کہ اس سے بھی بات نہ بنے تو وہی کاغذ مجھے دینا، میں بھی منہ پر پھیر لوں گا پھر بھی ضرورت پوری نہ ہو تو کہنا۔ان کا اشارہ محمود غزنوی کی اور اپنی گہری سانولی رنگت کی طرف تھا۔ باڈی شیمنگ اور ریس ازم جیسے جدید سماجی تصورات نے لوگوں کی برداشت اور ذوق سماعت کو تباہ کر دیا ہے جس سے شگفتگی، طنز لطیف اور برجستہ جملے سے لطف اندوز ہونے کی روایت دم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔
ورنہ لوگ کیسا کیسا ظالم فقرہ کہتے تھے اور سننے والے لطف اٹھاتے تھے۔ہماری ادبی روایت کی طرح ریڈیو پاکستان بھی کسی زمانے میں تہذیب و ثقافت کی آماج گاہ تھا جس میں ہر شعبہ زندگی کے لوگ آتے اور اپنے فن کا جادو جگاتے۔ ایک بار کوئی بزرگ یا عامل کسی پروگرام میں مہمان ہوئے اور انھوں نے سامعین کو مشورہ دیا کہ اللہ سے بات منوانے کے لیے ضروری ہے کہ منت مانگی جائے اور بہترین منت ہے نوافل کی ادائیگی اور وہ بھی سیکڑوں کی تعداد میں۔ سیکڑوں نوافل کا سن کر کسی نے سوال کیا کہ حضرت اتنے نوافل کی ادائیگی آسان نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے کہ وہ بزرگ کچھ کہتے، عظیم سرور بول پڑے، کہا کہ پریشان کیوں ہوتے ہو یار، فوٹو اسٹیٹ کرا لینا۔
سقوط ڈھاکا اور اس عہد میں ہمارے طاقت ور طبقات کی کج ادائیوں کی وجہ سے قوم کے دل دکھے ہوئے تھے، عظیم سرور کے دکھ نے ان کی توجہ اندرا گاندھی کی طرف مبذول کرادی۔ وہ ان کی روز مرہ کی مصروفیات، فیشن اور تنک مزاجی پر نظر رکھتے اور اپنی عادت کے مطابق کوئی لطیفہ گھڑ لیتے جس میں طنز کے ساتھ ساتھ نہایت لطیف انداز میں تضحیک کا پہلو بھی ہوتا۔ ہوتے ہوتے لطیفوں کا ڈھیر لگ گیا۔ لطیفوں کی تعداد بڑھی تو ان کے اندر کا براڈ کاسٹ جاگا اور انھوں نے ان لطیفوں پر مشتمل ایک آڈیو کیسٹ تیار کردی۔
یہ کیسٹ ہاتھوں ہاتھ ایسے نکلی کہ مقبولیت کے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ پاکستان میں تو اس کی مقبولیت فطری تھی لیکن ستم یہ ہوا کہ بھارت میں بھی مقبول ہوگئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عظیم سرور کی کیسٹ کا معاملہ ایک روز بھارتی لوک سبھا کا گرما گرم موضوع بن گیا۔ بھارتی حکومت کا مؤقف تھا کہ اس سرگرمی کے پیچھے پاکستانی حکومت کا ہاتھ ہے کیوں کہ عظیم سرور ریڈیو پاکستان کے ایک افسر اعلیٰ ہیں حالاں کہ عظیم سرور ایسی شرارتیں ذاتی حیثیت میں کیا کرتے تھے۔ان کی ایسی ہی شرارتیں، بے ساختہ جملے اور خوش مزاجی تھی جس نے اول ریڈیو پاکستان پر دھوم مچائی، ریٹائرمنٹ کے بعد دوستوں کی محفلوں کی رونق بنے، انھوں نے جو بات کہی اور جس بھی ڈھنگ سے کہی، زمانے نے اسے شوق سے سنا لیکن آخر کب تک، ان کی داستاں سرائی ختم ہوئی اور وہ بزرگوں کی طرح ایک دن یہ کہہ کر کہ اب ہم جاتے ہیں، منہ لپیٹ کر سوگئے۔