پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز برائے خواتین بنیادی سہولتوں سے محروم
نئے کیمپس میں پینے کا پانی، گیس دستیاب نہیں، زیرزمین پانی کھارا ہے، طالبات
نواب شاہ میں پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز برائے خواتین (PUMHSW) کا نیا تعمیر شدہ کیمپس تقریباً 7سال سے بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کے آبائی حلقے ضلع شہید بینظیر آباد کے مرکز میں واقع یونیورسٹی آج تک پینے کے پانی ، حفظان صحت ، سوئی گیس ، مناسب تدریسی عملے ، ٹرانسپورٹ ، بنیادی ڈھانچے اور دیگر بنیادی سہولیات تک رسائی سے محروم ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فیکلٹی کے ایک ممبر نے بتایا کہ پچھلے دو سال سے جامعہ کے انتظامی امور کی دیکھ بھال کے لیے کوئی مستقل وائس چانسلر مقرر نہیں کیا گیا ،سرجری کے ایک رٹائرڈ پروفیسر کو اپریل 2019 سے مطلوبہ عہدے کا چارج دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر انتظامی عہدوں پر بااثر سیاسی شخصیات کا قبضہ ہے ۔
فیکلٹی ممبر نے کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ PUMHSW دراصل بجٹ کے لحاظ سے سب سے زیادہ فنڈ لینے والی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ جامعہ خواتین کے لیے واحد میڈیکل یونیورسٹی ہے جسے پیپلز میڈیکل کالج (PMC) سے اپ گریڈ کیا گیا ہے۔
میڈیکل یونیورسٹی کا نیا کیمپس 200 ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا ہے۔ شہید بینظیر آباد شہر سے تقریبا پانچ کلومیٹر دور جہاں فارمیسی ، فزیو تھراپی ، پبلک ہیلتھ ، کمیونٹی میڈیسن ، اور نرسنگ کے محکمے ہیں، پانچوں شعبہ جات میں مجموعی طور پر 2ہزار طالبات ہیں جن میں 100 سے زائد فیکلٹی ممبران اور 150 عملہ ہے ، ان سب کو کیمپس میں پینے کے پانی تک دستیاب نہیں۔ فزیو تھراپی کے دوسرے سال کی طالبہ رخسانہ سلیم نے بتایا کہ یر زمین پانی نمکین ہے جو انسانی استعمال کے لیے موزوں نہیں ہے۔ واٹر سپلائی اسکیم جزوی طور پر کام کرتی ہے کیونکہ اسے چلانے والے لوگ زیادہ تر ڈیوٹی سے غیر حاضر رہتے ہیں۔
بہت سے طلبا خشکی ، بالوں کے جھڑنے ، جلد اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ تقریبا تمام طلبہ پینے کے لیے بوتل کا پانی خریدتے ہیں اور کچن ، کپڑے دھونے اور نہانے وغیرہ کے لیے زیر زمین نمکین پانی استعمال کرتے ہیں۔ ایک طالبہ بینش احمد نے بتایا کہ کیمپس ویران علاقے میں واقع ہے جو جھاڑیوں اور آوارہ کتوں سے گھرا ہوا ہے ،ہم یونیورسٹی کے احاطے کے اندر پیراسیٹامول کی گولیاں یا ماچس بھی نہیں لے سکتے ،ہوسٹل میں رہنے والی لڑکیوں کے لیے یہ واقعی خوفناک صورتحال ہے ، کیونکہ نقل و حمل کے لیے مناسب ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں ہے۔
ایک افسر نے الزام لگایا کہ وی سی پروفیسر ڈاکٹر گلشن میمن کا زیادہ تر وقت کراچی اور دیگر مقامات پر کرپشن کے مقدمات میں پیش ہونے میں صرف ہوتا ہے ، اس لیے وہ مشکل سے جامعہ کے معاملات میں حصہ لیتے ہیں ۔ انھیں حکومت میں طاقتور لابیوں کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ کئی کوششوں کے باوجود قائم مقام وائس چانسلر سے رابطہ نہ ہو سکا تاہم یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر صالح نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ یہ ایک نیا کیمپس ہے۔
لہٰذا وقت گزرنے کے ساتھ مسائل حل ہو جائیں گے۔ انھوں نے کہا ہمارے پاس کیمپس کے اندر ٹرانسپورٹ کی سہولت موجود ہے۔ دو گاڑیاں ہمیشہ اسٹینڈ بائی رہتی ہیں تاکہ طلبا جب چاہیں شہر جاسکیں۔انھوں نے کہا کہ طلبا کو بنیادی ادویات اور ابتدائی طبی امداد فراہم کی جاتی ہے۔
انھوں نے پینے کے پانی کی قلت کے دعوؤں کی بھی تردید کی اور کہا ہمارے پاس واٹر سپلائی اسکیم کے ذریعے کافی پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ سوئی گیس کی فراہمی پر تبصرہ کرتے ہوئے پرو وائس چانسلر نے اس عمل میں ایس ایس جی سی کو ذمے دار ٹھہرایا۔ جب مستقل وائس چانسلر کی تقرری کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ یہ عمل جاری ہے۔ انھوں نے بتایا ایک مستقل وی سی کی خدمات حاصل کرنے کے لیے دو یا تین کوششیں کی گئیں لیکن کچھ لوگ عدالت میں گئے لہذا اس عمل میں تھوڑی تاخیر ہوئی۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کے آبائی حلقے ضلع شہید بینظیر آباد کے مرکز میں واقع یونیورسٹی آج تک پینے کے پانی ، حفظان صحت ، سوئی گیس ، مناسب تدریسی عملے ، ٹرانسپورٹ ، بنیادی ڈھانچے اور دیگر بنیادی سہولیات تک رسائی سے محروم ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فیکلٹی کے ایک ممبر نے بتایا کہ پچھلے دو سال سے جامعہ کے انتظامی امور کی دیکھ بھال کے لیے کوئی مستقل وائس چانسلر مقرر نہیں کیا گیا ،سرجری کے ایک رٹائرڈ پروفیسر کو اپریل 2019 سے مطلوبہ عہدے کا چارج دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر انتظامی عہدوں پر بااثر سیاسی شخصیات کا قبضہ ہے ۔
فیکلٹی ممبر نے کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ PUMHSW دراصل بجٹ کے لحاظ سے سب سے زیادہ فنڈ لینے والی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ جامعہ خواتین کے لیے واحد میڈیکل یونیورسٹی ہے جسے پیپلز میڈیکل کالج (PMC) سے اپ گریڈ کیا گیا ہے۔
میڈیکل یونیورسٹی کا نیا کیمپس 200 ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا ہے۔ شہید بینظیر آباد شہر سے تقریبا پانچ کلومیٹر دور جہاں فارمیسی ، فزیو تھراپی ، پبلک ہیلتھ ، کمیونٹی میڈیسن ، اور نرسنگ کے محکمے ہیں، پانچوں شعبہ جات میں مجموعی طور پر 2ہزار طالبات ہیں جن میں 100 سے زائد فیکلٹی ممبران اور 150 عملہ ہے ، ان سب کو کیمپس میں پینے کے پانی تک دستیاب نہیں۔ فزیو تھراپی کے دوسرے سال کی طالبہ رخسانہ سلیم نے بتایا کہ یر زمین پانی نمکین ہے جو انسانی استعمال کے لیے موزوں نہیں ہے۔ واٹر سپلائی اسکیم جزوی طور پر کام کرتی ہے کیونکہ اسے چلانے والے لوگ زیادہ تر ڈیوٹی سے غیر حاضر رہتے ہیں۔
بہت سے طلبا خشکی ، بالوں کے جھڑنے ، جلد اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ تقریبا تمام طلبہ پینے کے لیے بوتل کا پانی خریدتے ہیں اور کچن ، کپڑے دھونے اور نہانے وغیرہ کے لیے زیر زمین نمکین پانی استعمال کرتے ہیں۔ ایک طالبہ بینش احمد نے بتایا کہ کیمپس ویران علاقے میں واقع ہے جو جھاڑیوں اور آوارہ کتوں سے گھرا ہوا ہے ،ہم یونیورسٹی کے احاطے کے اندر پیراسیٹامول کی گولیاں یا ماچس بھی نہیں لے سکتے ،ہوسٹل میں رہنے والی لڑکیوں کے لیے یہ واقعی خوفناک صورتحال ہے ، کیونکہ نقل و حمل کے لیے مناسب ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں ہے۔
ایک افسر نے الزام لگایا کہ وی سی پروفیسر ڈاکٹر گلشن میمن کا زیادہ تر وقت کراچی اور دیگر مقامات پر کرپشن کے مقدمات میں پیش ہونے میں صرف ہوتا ہے ، اس لیے وہ مشکل سے جامعہ کے معاملات میں حصہ لیتے ہیں ۔ انھیں حکومت میں طاقتور لابیوں کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ کئی کوششوں کے باوجود قائم مقام وائس چانسلر سے رابطہ نہ ہو سکا تاہم یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر صالح نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ یہ ایک نیا کیمپس ہے۔
لہٰذا وقت گزرنے کے ساتھ مسائل حل ہو جائیں گے۔ انھوں نے کہا ہمارے پاس کیمپس کے اندر ٹرانسپورٹ کی سہولت موجود ہے۔ دو گاڑیاں ہمیشہ اسٹینڈ بائی رہتی ہیں تاکہ طلبا جب چاہیں شہر جاسکیں۔انھوں نے کہا کہ طلبا کو بنیادی ادویات اور ابتدائی طبی امداد فراہم کی جاتی ہے۔
انھوں نے پینے کے پانی کی قلت کے دعوؤں کی بھی تردید کی اور کہا ہمارے پاس واٹر سپلائی اسکیم کے ذریعے کافی پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ سوئی گیس کی فراہمی پر تبصرہ کرتے ہوئے پرو وائس چانسلر نے اس عمل میں ایس ایس جی سی کو ذمے دار ٹھہرایا۔ جب مستقل وائس چانسلر کی تقرری کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ یہ عمل جاری ہے۔ انھوں نے بتایا ایک مستقل وی سی کی خدمات حاصل کرنے کے لیے دو یا تین کوششیں کی گئیں لیکن کچھ لوگ عدالت میں گئے لہذا اس عمل میں تھوڑی تاخیر ہوئی۔