گرین لائن ٹریک کی خستہ حالی نے منصوبے کے آغاز کو خطرے سے دوچار کردیا
ٹریک پر 70 کے لگ بھگ برقی زینوں میں سے 25 زینے مرمت کے قابل ہیں جب کہ باقی زینوں کے پرزے چوری ہوچکے ہیں
شہریوں کے لیے وفاقی حکومت کا اربوں روپے کا گرین لائن منصوبہ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے خستہ حالی کا شکار ہوگیا ہے۔ لاکھوں روپے ماہانہ وصول کرنے والی نجی سیکیورٹی ایجنسی ٹریک کی حفاظت میں ناکام، برقی زینوں کے اہم پرزے چوری ہوگئے، اسٹیشنز اور ٹریک کی تعمیر5 سال کی تاخیر کے باوجود مکمل نہ ہوسکی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وفاق کا کراچی کے لیے 27 ارب روپے کی لاگت سے تعمیر کردہ گرین لائن ٹریک اور متعلقہ سہولیات مناسب دیکھ بھال اور حفاظت نہ ہونے کی وجہ سے خستہ حالی کا شکار ہے، ٹریک تک جانے والے برقی زینے غفلت اور لاپرواہی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
سوئچ رومز اور لفٹ کے کیبنز میں گندگی کے ڈھیر لگے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق لاکھوں روپے ماہانہ وصول کرنے والی نجی سیکیورٹی ایجنسی ٹریک کی حفاظت میں ناکام ہوچکی ہے اور گرین لائن کے اسٹیشنز نشے کے عادی افراد، بھکاریوں اور کچرا چننے والوں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔
کے ڈی اے کے قریب اسٹیشن کے ساتھ کچرا کنڈی بنا کرکچرے سے بھرے تھیلوں کے ساتھ گدھے بھی باندھ دیے گئےہیں، جب کہ مختلف مقامات پر ٹریک کی مرمت اور نکاسی آب سمیت الیکٹرک وائرنگ کے بنیادی کام اب بھی مکمل نہیں۔
اس حوالے سے شہریوں کا کہنا ہے کہ اللّہ اللّہ کرکے کراچی کو کوئی پراجیکٹ ملا لیکن اس اہم منصوبے کو کئی سال تک بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔شہریوں کا کہنا ہے کہ ابھی ٹریک استعمال بھی نہیں ہوا اور اس کی یہ حالت ہوگئی تو گرین لائن بس سروس شروع ہونے کے بعد اس کا کیا حال ہوگا؟ اس غفلت کا ذمے دار کون ہے؟
یہ بھی پڑھیے : گرین لائن منصوبے کے لیے بسیں کراچی پہنچ گئیں
گرین لائن کے 22 کلو میٹر طویل ٹریک کی حفاظت کے لیے 24 گھنٹے 84 گارڈز تعینات ہیں، ٹریک اور اس سے متعلقہ انفرااسٹرکچر کی حفاظت پر یومیہ 3 لاکھ روپے کی خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ سیکیوریٹی گارڈز کی موجودگی کے باوجود چور لٹیرے برقی زینوں کے اہم پرزے اور پلیٹں چوری کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
وفاقی وزیر اسد عمر کی جانب سے آئندہ 2 ماہ میں گرین لائن ٹریک پر سروس کے آغاز کے اعلان کے بعد چند برقی زینوں کو چلنے کے قابل بنایا جارہا ہے جن میں ناگن چورنگی سے بورڈ آفس کے درمیان لگائے گئے زینے شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے : کراچی گرین لائن بسیں لاہور، راولپنڈی اور پشاور کی بسوں سے زیادہ جدید
زینوں کی مرمت کرنے و الے کاریگروں کا کہنا ہے کہ ٹریک پر 70 کے لگ بھگ برقی زینوں میں سے 25 زینے مرمت کے قابل ہیں اورباقی زینوں کے پرزے غائب ہیں۔ ٹھیکے دار نے ان میں سے 6 سات اسٹاپس پر برقی زینے دو ہفتوں میں چلنے کے قابل بنانے کا ٹاسک دیا ہے۔
بورڈ آفس سے حیدری کے درمیان ٹریک پر بجلی اور انٹرنیٹ کی کیبلز بچھائی جارہی ہیں جس کے لیے تیار ٹریک کی کھدائی کرکے تاریں بچھانے کا کام کیا جارہا ہے۔ تیار بس اسٹیشنز کا ڈھانچہ زنگ آلود ہوچکا ہے جسے از سر نو رنگ و روغن کی ضرورت ہے، جب کہ گرین لائن کے ٹریک پر تعمیراتی ملبہ اور کاٹھ کباڑ کا ڈھیر لگا ہے جسے صاف کرنے میں ہفتوں لگیں گے۔
شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گرین لائن کے آغاز سے قبل انفرااسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے تاکہ اربوں روپے کی لاگت اور پانچ سال کے انتظار کے بعد شروع ہونے والے اس منصوبے کو شہریوں کے لیے زحمت بننے سے بچایا جاسکے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وفاق کا کراچی کے لیے 27 ارب روپے کی لاگت سے تعمیر کردہ گرین لائن ٹریک اور متعلقہ سہولیات مناسب دیکھ بھال اور حفاظت نہ ہونے کی وجہ سے خستہ حالی کا شکار ہے، ٹریک تک جانے والے برقی زینے غفلت اور لاپرواہی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
سوئچ رومز اور لفٹ کے کیبنز میں گندگی کے ڈھیر لگے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق لاکھوں روپے ماہانہ وصول کرنے والی نجی سیکیورٹی ایجنسی ٹریک کی حفاظت میں ناکام ہوچکی ہے اور گرین لائن کے اسٹیشنز نشے کے عادی افراد، بھکاریوں اور کچرا چننے والوں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔
کے ڈی اے کے قریب اسٹیشن کے ساتھ کچرا کنڈی بنا کرکچرے سے بھرے تھیلوں کے ساتھ گدھے بھی باندھ دیے گئےہیں، جب کہ مختلف مقامات پر ٹریک کی مرمت اور نکاسی آب سمیت الیکٹرک وائرنگ کے بنیادی کام اب بھی مکمل نہیں۔
اس حوالے سے شہریوں کا کہنا ہے کہ اللّہ اللّہ کرکے کراچی کو کوئی پراجیکٹ ملا لیکن اس اہم منصوبے کو کئی سال تک بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔شہریوں کا کہنا ہے کہ ابھی ٹریک استعمال بھی نہیں ہوا اور اس کی یہ حالت ہوگئی تو گرین لائن بس سروس شروع ہونے کے بعد اس کا کیا حال ہوگا؟ اس غفلت کا ذمے دار کون ہے؟
یہ بھی پڑھیے : گرین لائن منصوبے کے لیے بسیں کراچی پہنچ گئیں
گرین لائن کے 22 کلو میٹر طویل ٹریک کی حفاظت کے لیے 24 گھنٹے 84 گارڈز تعینات ہیں، ٹریک اور اس سے متعلقہ انفرااسٹرکچر کی حفاظت پر یومیہ 3 لاکھ روپے کی خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ سیکیوریٹی گارڈز کی موجودگی کے باوجود چور لٹیرے برقی زینوں کے اہم پرزے اور پلیٹں چوری کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
وفاقی وزیر اسد عمر کی جانب سے آئندہ 2 ماہ میں گرین لائن ٹریک پر سروس کے آغاز کے اعلان کے بعد چند برقی زینوں کو چلنے کے قابل بنایا جارہا ہے جن میں ناگن چورنگی سے بورڈ آفس کے درمیان لگائے گئے زینے شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے : کراچی گرین لائن بسیں لاہور، راولپنڈی اور پشاور کی بسوں سے زیادہ جدید
زینوں کی مرمت کرنے و الے کاریگروں کا کہنا ہے کہ ٹریک پر 70 کے لگ بھگ برقی زینوں میں سے 25 زینے مرمت کے قابل ہیں اورباقی زینوں کے پرزے غائب ہیں۔ ٹھیکے دار نے ان میں سے 6 سات اسٹاپس پر برقی زینے دو ہفتوں میں چلنے کے قابل بنانے کا ٹاسک دیا ہے۔
بورڈ آفس سے حیدری کے درمیان ٹریک پر بجلی اور انٹرنیٹ کی کیبلز بچھائی جارہی ہیں جس کے لیے تیار ٹریک کی کھدائی کرکے تاریں بچھانے کا کام کیا جارہا ہے۔ تیار بس اسٹیشنز کا ڈھانچہ زنگ آلود ہوچکا ہے جسے از سر نو رنگ و روغن کی ضرورت ہے، جب کہ گرین لائن کے ٹریک پر تعمیراتی ملبہ اور کاٹھ کباڑ کا ڈھیر لگا ہے جسے صاف کرنے میں ہفتوں لگیں گے۔
شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گرین لائن کے آغاز سے قبل انفرااسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے تاکہ اربوں روپے کی لاگت اور پانچ سال کے انتظار کے بعد شروع ہونے والے اس منصوبے کو شہریوں کے لیے زحمت بننے سے بچایا جاسکے۔