23 نمبر کی ملکہ
آر ٹ کی دنیا بھی اپنے طرز کا ایک حیرت نگر ہے۔ اس میں رنگ، نسل، وقت، مذہب اور عقیدہ کی کوئی قید نہیں ہے
انتہائی ذہین لوگ جنھیں ہم جینئیس(Genius) بھی کہہ سکتے ہیں ،کسی بھی زندہ معاشرہ کے سر کا تاج ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت ذہنی طور پر اپنے معاشرہ سے سیکڑوں برس آگے ہوتے ہیں۔ میں ایک سرکاری ملازم ہوں۔ سرکار کی نوکری میں چیف سیکریٹری یا وزیر اعظم کا سیکریٹری بہت کلیدی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔ آپ کسی بھی صاحب مطالعہ شخص سے پوچھیں کہ آج سے دس برس پہلے ان اہم عہدوں پر کون فائز تھا۔ تو اس کا جواب نفی میں ہو گا۔ وہ دس سال پہلے کے ان افسروں کے نام نہیں بتا سکے گا۔ مگر آپ اس سے کسی حقیقتاً بڑے شخص کے متعلق پوچھیں۔ وہ آپ کو فرفر ان کی ہر تفصیل بتائے گا۔ وہ آپ کو صادقین کے بارے میں بتائے گا۔ وہ آپ کو منیرؔ نیازی کا لفظی خاکہ بنا دے گا۔ وہ عبدالستار ایدھی کا نام ادب سے لے گا۔ وہ سنتوش کمار اور رانی کے متعلق بھی بات کرے گا۔ سیدّ مودودی اور غامدی کے متعلق بھی اس کا ایک نقطہ نظر ہو گا۔ میں نے جو چند نام لیے ہیں یہ لوگ درحقیقت خود زمانہ ہیں۔ جینئیس کا لفظ مکمل طور پر ان لوگوں کا معنی بیان نہیں کر پاتا۔ مگر سازش سے حادثاتی طور پر بلند عہدے پر پہنچنے والے ہمیشہ جھوٹ کے غلاف میں لپٹی ہوئی بات دہراتے رہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ان عہدوں پر فائز رہیں گے۔ اور ہمیشہ شرفاء کی پگڑیاں اچھالتے رہیں گے۔ مگر وقت کی تلوار کی دھار بہت تیز ہے۔ اس طرح کے بونوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں۔ لیکن ہم پیہم سبق نہیں سیکھتے۔
آر ٹ کی دنیا بھی اپنے طرز کا ایک حیرت نگر ہے۔ اس میں رنگ، نسل، وقت، مذہب اور عقیدہ کی کوئی قید نہیں ہے۔ مصور اپنے کام میں زندہ رہتے ہیں۔ ان لوگوں میں کچھ اپنی زندگی کے ابتدائی حصے میں مشہور ہو جاتے ہیں اور کچھ وقت کی گرد کو اپنے پیروں سے عمر کے پختہ حصے میں روند دیتے ہیں۔ آفاقی شہرت اور عزت ان کی پہچان ہوتی ہے۔ ان کے فن کا اثر کئی صدیوں تک لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔
پکاسو (Picasso) صرف 26 سال کی عمر میں وہ تصویر بنا چکا تھا جو آرٹ کی نوے فیصد کتابوں کی زینت ہے۔ سی ظین(Cezzane) اپنے کام میں عمر کے ساتھ ساتھ جلوہ گر ہوا۔ عبدالرحمن چغتائی، زین العابدین، صادقین، اسماعیل گل جی، ظہور اخلاق، رشید رانا، شازیہ سکندر اور ہمزہ عباس جوانی میں اپنے آپ کو ثابت کر چکے تھے۔ جب کہ شاکر علی، زبیدہ آغا، احمد پرویز، انور جلال شمزہ، بشیر مرزا، جمیل نقاش اور کولن ڈیوڈ نے اپنے آپ کو وقت کے ساتھ ساتھ آشکارہ کیا۔
صادقین خطاطی کے فن کا شہنشاہ تھا۔ اس نے خطاطی کو ایک جدید رنگ دیا۔ وہ صرف 31 سا ل کا تھا کہ پیرس میں ا سکو ایک عظیم سند سے نوازا گیا۔ وہ بہت کم عرصے میں پوری دنیا میں مشہور ہو چکا تھا۔ اُس کا آرٹ امیر اور غریب دونوں کے لیے یکساں طور پر مقبول تھا۔ اُس نے دنیا کو ایک نئے طرز کا آرٹ دیا جسے آپ اُس کا اپنا نام بھی دے سکتے ہیں یہ شائد خطاطی اور کیوب ازم (Cubisum) کا ملاپ تھا۔ اس کے فن پارے دنیا کے ہر حصے میں موجود ہیں۔ آپ اس کی بنائی ہوئی تصاویر کے ذریعے مستقبل کو دیکھ سکتے ہیں۔ آپ شازیہ سکندر کو لے لیجیے۔36 برس کی عمر میں میکارتھر فاؤنڈیشن نے اسے فیلو شپ دی جسکی بدولت وہ پانچ لاکھ امریکی ڈالر کی حقدار ٹھہری۔ اس کو آپ جینئیس ایوارڈ بھی کہہ سکتے ہیں۔
اُس خاتون نے (Miniature) پینٹنگ میں انقلاب برپا کر دیا۔ اُس نے اس کی قدامت پسندی کو ختم کر دیا۔ اُس نے پاکستان، انڈیا اور پرشیا کی چھوٹی تصاویر کے فن کو ایک اچھوتا رنگ دیا۔ گل جی امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں انجینئرنگ پڑھ رہے تھے۔ ان کا پینٹنگ سے دور دور کا تعلق نہیں تھا۔ انھوں نے تصویریں بنانا کسی سے بھی نہیں سیکھا تھا۔ اس شخص نے کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا۔ شروع میں اُس نے مشہور لوگوں کے پورٹ ریٹ بنائے جن میں افغانستان کا بادشاہ ظاہر شاہ، ایران کی ملکہ فرح دیبا اور چو این لائی شامل تھے۔ اُس نے آرٹ میں خوبصورت پتھر، چھوٹے چھوٹے شیشے، چاندی اور سونے کے ورق، رنگ برنگے دانے یعنی کہ ہر نئی چیز استعمال کی۔ اُس نے خطاطی کو ایک نیا عہد دیا اور یہ رنگ اور عہد صرف اُس کا نصیب تھا۔ لیکن میں آج ان تمام عہد ساز لوگوں سے بہت مختلف، ایک خاتون کے متعلق لکھنا چاہتا ہوں جو شائد اپنے دور سے سیکڑوں برس آگے کی دنیا میں رہ رہی تھی۔
امریتا 1913ء میں ہنگری میں پیدا ہوئی۔ اس کے والد کا نام امراؤ سنگھ شیر گِل تھا۔ امریتا کا بچپن بوڈاپسٹ (Budapest) میں گزرا۔ اس کو قریبی عزیزہ ارون باکتے نے آرٹ کی دنیا سے روشناس کروایا۔ بچپن میں امریتا نے اپنے ملازموں کی تصویریں بنانا شروع کر دیں۔ بنیادی طور پر کچھ عرصے بعد یہی فعل اس کے عظیم کام کی بنیاد بن گیا۔ اس نے صرف پانچ سال کی عمر میں تصویریں بنانی شروع کر دی تھیں۔ باقاعدہ مصوری کی تعلیم اس نے آٹھ سال کی عمر میں شروع کی۔1921ء میں وہ شملہ آ گئی۔ وہاں اس نے وائلن اور پیانو بجانا سیکھنا شروع کر دیا۔ یہ بچی دس برس کی عمر میں اپنی والدہ کے ہمراہ اٹلی چلی گئی۔ وہاں اس کو فلورنس کے ایک اچھے اسکول میں داخلہ مل گیا مگر وہ وہاں زیادہ دیر نہ رہ سکی اور صرف ایک سال بعد انڈیا واپس آ گئی۔ سولہ سال کی عمر میں وہ پیرس چلی گئی۔ وہ پیرس کے مستند ترین آرٹ اسکولوں میں چار سال تک بڑی ریاضت سے فنِ مصوری سیکھتی رہی۔
ابتداء میں کسی نے بھی امرتیا کے کام کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ تصویریں بناتی رہی مگر اس میں کوئی بھی اتنی قابل ذکر نہ تھی کہ لوگوں نے اس کو کوئی اہمیت دی ہو۔1932ء میں یعنی تقریباً 18-19 برس کی عمر میں اس نے ایک تصویر بنائی جسکا عنوان"نوجوان لڑکیاں" تھا۔ یہ تصویر اس کی کامیابی کی پہلی سیڑھی تھی۔ پیرس کے آرٹ حلقوں نے اس تصویر کو بہت سراہا۔ امرتیا کو پیرس کے گرینڈ سیلون کے اسوسی ایٹ کا درجہ دے دیا گیا۔ یہ اعزاز دو وجوہات کی بناء پر بہت اہم تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ آرٹ کی دنیا میں وہ سب سب سے کم عمر مصورہ تھی جو اس کی حقدار ٹھہری اور دوسری بات یہ کہ وہ پہلی انڈین نہیں بلکہ براعظم ایشیاء سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون تھی جو اس اعزاز کی اہل قرار پائی گئی۔ مگر امریتا کا مقدر کسی اور دنیا کے لیے متعین تھا۔ قدرت نے اس کے فن کو ایک ایسے رخ پر ڈالنا تھا جسکا ادارک بھی شائد وہ نوجوان لڑکی نہیں کر سکتی تھی۔ 1934ء میں امریتا پر ایک عجیب کیفیت طاری ہونے لگی۔ اسے ایسا محسوس ہونے لگا کہ اسے انڈیا جانا چاہیے۔ یہ بے قراری، بے چینی اور رت جگے کا ایک ملاپ تھا۔ امریتا نے خود اپنے اندر کی آواز سنی اور انڈیا کو اپنی مقدر بنا لیا۔ اُس کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ انگریز ہونے کے باوجود یورپ کا حصہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک دوسری دنیا کی روح ہے اور اسے وہاں ہر قیمت پر پہنچنا چاہیے۔ یہ دوسری دنیا دراصل ایک عظیم شہر تھا۔ جس کا نام لاہور ہے۔
1934ء میں وہ انڈیا واپس آ گئی مگر لاہور ابھی اس کی زندگی سے چند سال دور تھا۔ انڈیا پہنچ کر امریتا نے ہندوستانی آرٹ کی بنیاد اور اس کی روایات کو سمجھنے اور محسوس کرنے کی ریاضت شروع کر دی۔ اسے مغل اور پہاڑی طرز مصوری سے عشق ہو چکا تھا۔ اُس نے پورے یورپ میں کسی بھی جگہ اتنی کمال اور بھر پور مصوری نہ دیکھی تھی۔ اس کی یہ جستجو مرتے دم تک قائم رہی۔ وہ اپنی شناخت کے سفر سے گزر رہی تھی۔ امریتا ہندوستانی خواتین کے رہن سہن، ان کی طرز زندگی، ان کی عمومی عادات، ان کی محرومیوں، ان کی تکالیف اور ان کی خوشیوں سے سحر زدہ ہو چکی تھی۔ اس کی تصاویر میں اب یہ رنگ ابھرنے لگا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ رخ اس کی زندگی اور روح کا وہ سفر بن گیا جس سے وہ لازوال مصورہ بن گئی۔
اس نے شمالی ہندوستان میں سفر کرنا شروع کیا۔ اس علاقہ کی غربت اور مایوسی نے اس کے ذہن پر زخم لگانے شروع کر دیے۔ اب اس کو اس کے فن کا مقدر مل چکا تھا اور وہ تھا "ہندوستان کے عام انسان"۔ امرتیا نے ایک خط میں تحریر کیا کہ "یورپ پیکاسو کا ہے جب کہ یہ خطہ یعنی انڈیا صرف میرا ہے۔ اس نے دیہی انڈیا پر بے مثال تصاویر بنائیں۔ رنگوں اور جذبات کا یہ امتزاج آج تک لازوال ہے۔ امریتا کی زندگی میں اُس کی بنائی ہوئی تصویریں بہت کم لوگ خریدتے تھے۔ حیدر آباد کے نواب سالار جنگ نے اس کی تصویریں لینے سے انکار کر دیا۔ میسور کے راجا نے اس کی تصویروں کی بہت توہین کی اور اس کی تصویروں کو رد کر کے کسی اور مصور کی تصویریں خرید لیں۔ مگر امریتا کا کام تو لازوال تھا۔2006ء میں اس کی ایک تصویر "گاؤں" آج کے چودہ کروڑ روپے میں فروخت ہوئی۔
امریتا ستمبر 1941ء میں لاہور منتقل ہو گئی۔ لاہور آرٹ اور کلچر کا گڑھ تھا۔ اس نے اپنے گھر کی چھت پر اپنا اسٹوڈیو قائم کیا اور دن رات تصویریں بنانی شروع کر دیں۔ دسمبر1941ء میں اس کی پہلی مکمل نمائش طے پا گئی۔ اپنی پہلی نمائش سے چند دن پہلے امریتا شدید بیمار ہو گئی۔28 سال کی عمر میں وہ اس جہاں زیست سے چلی گئی۔ اس کا گھر 23 گنگا رام مینشن لاہور تھا۔ یہ عمارت شائد آج بھی قائم ہو۔ پوری دنیا میں امریتا کے بیش قیمت فن پارے موجود ہیں۔ دوسرے ممالک میں اس کے نام کے ڈاک کے ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں۔ اس کے نام سے سڑکوں اور اہم چوکوں کے نام منسوب ہیں۔ مگر اس کے خوابوں کے شہر لاہور میں اُس کا کوئی نشان نہیں! کوئی نام نہیں! شاید مال روڈ کی بھیڑ میں امریتا ہمیشہ کے لیے گم ہو چکی ہے۔ کوئی بھی اس کے عدم وجود کو محسوس نہیں کرتا؟ پر میری نظر میں تو وہ مصوری کی ملکہ ہے۔ آپ اسے مصوری کی ملکہ نہ مانیں، پر خدارا اسے 23 نمبر فلیٹ کی ملکہ تو تسلیم کر لیں؟ اِس بڑے نام سے کوئی چھوٹی سی جگہ ہی منسوب کر دیں؟
آر ٹ کی دنیا بھی اپنے طرز کا ایک حیرت نگر ہے۔ اس میں رنگ، نسل، وقت، مذہب اور عقیدہ کی کوئی قید نہیں ہے۔ مصور اپنے کام میں زندہ رہتے ہیں۔ ان لوگوں میں کچھ اپنی زندگی کے ابتدائی حصے میں مشہور ہو جاتے ہیں اور کچھ وقت کی گرد کو اپنے پیروں سے عمر کے پختہ حصے میں روند دیتے ہیں۔ آفاقی شہرت اور عزت ان کی پہچان ہوتی ہے۔ ان کے فن کا اثر کئی صدیوں تک لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔
پکاسو (Picasso) صرف 26 سال کی عمر میں وہ تصویر بنا چکا تھا جو آرٹ کی نوے فیصد کتابوں کی زینت ہے۔ سی ظین(Cezzane) اپنے کام میں عمر کے ساتھ ساتھ جلوہ گر ہوا۔ عبدالرحمن چغتائی، زین العابدین، صادقین، اسماعیل گل جی، ظہور اخلاق، رشید رانا، شازیہ سکندر اور ہمزہ عباس جوانی میں اپنے آپ کو ثابت کر چکے تھے۔ جب کہ شاکر علی، زبیدہ آغا، احمد پرویز، انور جلال شمزہ، بشیر مرزا، جمیل نقاش اور کولن ڈیوڈ نے اپنے آپ کو وقت کے ساتھ ساتھ آشکارہ کیا۔
صادقین خطاطی کے فن کا شہنشاہ تھا۔ اس نے خطاطی کو ایک جدید رنگ دیا۔ وہ صرف 31 سا ل کا تھا کہ پیرس میں ا سکو ایک عظیم سند سے نوازا گیا۔ وہ بہت کم عرصے میں پوری دنیا میں مشہور ہو چکا تھا۔ اُس کا آرٹ امیر اور غریب دونوں کے لیے یکساں طور پر مقبول تھا۔ اُس نے دنیا کو ایک نئے طرز کا آرٹ دیا جسے آپ اُس کا اپنا نام بھی دے سکتے ہیں یہ شائد خطاطی اور کیوب ازم (Cubisum) کا ملاپ تھا۔ اس کے فن پارے دنیا کے ہر حصے میں موجود ہیں۔ آپ اس کی بنائی ہوئی تصاویر کے ذریعے مستقبل کو دیکھ سکتے ہیں۔ آپ شازیہ سکندر کو لے لیجیے۔36 برس کی عمر میں میکارتھر فاؤنڈیشن نے اسے فیلو شپ دی جسکی بدولت وہ پانچ لاکھ امریکی ڈالر کی حقدار ٹھہری۔ اس کو آپ جینئیس ایوارڈ بھی کہہ سکتے ہیں۔
اُس خاتون نے (Miniature) پینٹنگ میں انقلاب برپا کر دیا۔ اُس نے اس کی قدامت پسندی کو ختم کر دیا۔ اُس نے پاکستان، انڈیا اور پرشیا کی چھوٹی تصاویر کے فن کو ایک اچھوتا رنگ دیا۔ گل جی امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں انجینئرنگ پڑھ رہے تھے۔ ان کا پینٹنگ سے دور دور کا تعلق نہیں تھا۔ انھوں نے تصویریں بنانا کسی سے بھی نہیں سیکھا تھا۔ اس شخص نے کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا۔ شروع میں اُس نے مشہور لوگوں کے پورٹ ریٹ بنائے جن میں افغانستان کا بادشاہ ظاہر شاہ، ایران کی ملکہ فرح دیبا اور چو این لائی شامل تھے۔ اُس نے آرٹ میں خوبصورت پتھر، چھوٹے چھوٹے شیشے، چاندی اور سونے کے ورق، رنگ برنگے دانے یعنی کہ ہر نئی چیز استعمال کی۔ اُس نے خطاطی کو ایک نیا عہد دیا اور یہ رنگ اور عہد صرف اُس کا نصیب تھا۔ لیکن میں آج ان تمام عہد ساز لوگوں سے بہت مختلف، ایک خاتون کے متعلق لکھنا چاہتا ہوں جو شائد اپنے دور سے سیکڑوں برس آگے کی دنیا میں رہ رہی تھی۔
امریتا 1913ء میں ہنگری میں پیدا ہوئی۔ اس کے والد کا نام امراؤ سنگھ شیر گِل تھا۔ امریتا کا بچپن بوڈاپسٹ (Budapest) میں گزرا۔ اس کو قریبی عزیزہ ارون باکتے نے آرٹ کی دنیا سے روشناس کروایا۔ بچپن میں امریتا نے اپنے ملازموں کی تصویریں بنانا شروع کر دیں۔ بنیادی طور پر کچھ عرصے بعد یہی فعل اس کے عظیم کام کی بنیاد بن گیا۔ اس نے صرف پانچ سال کی عمر میں تصویریں بنانی شروع کر دی تھیں۔ باقاعدہ مصوری کی تعلیم اس نے آٹھ سال کی عمر میں شروع کی۔1921ء میں وہ شملہ آ گئی۔ وہاں اس نے وائلن اور پیانو بجانا سیکھنا شروع کر دیا۔ یہ بچی دس برس کی عمر میں اپنی والدہ کے ہمراہ اٹلی چلی گئی۔ وہاں اس کو فلورنس کے ایک اچھے اسکول میں داخلہ مل گیا مگر وہ وہاں زیادہ دیر نہ رہ سکی اور صرف ایک سال بعد انڈیا واپس آ گئی۔ سولہ سال کی عمر میں وہ پیرس چلی گئی۔ وہ پیرس کے مستند ترین آرٹ اسکولوں میں چار سال تک بڑی ریاضت سے فنِ مصوری سیکھتی رہی۔
ابتداء میں کسی نے بھی امرتیا کے کام کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ تصویریں بناتی رہی مگر اس میں کوئی بھی اتنی قابل ذکر نہ تھی کہ لوگوں نے اس کو کوئی اہمیت دی ہو۔1932ء میں یعنی تقریباً 18-19 برس کی عمر میں اس نے ایک تصویر بنائی جسکا عنوان"نوجوان لڑکیاں" تھا۔ یہ تصویر اس کی کامیابی کی پہلی سیڑھی تھی۔ پیرس کے آرٹ حلقوں نے اس تصویر کو بہت سراہا۔ امرتیا کو پیرس کے گرینڈ سیلون کے اسوسی ایٹ کا درجہ دے دیا گیا۔ یہ اعزاز دو وجوہات کی بناء پر بہت اہم تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ آرٹ کی دنیا میں وہ سب سب سے کم عمر مصورہ تھی جو اس کی حقدار ٹھہری اور دوسری بات یہ کہ وہ پہلی انڈین نہیں بلکہ براعظم ایشیاء سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون تھی جو اس اعزاز کی اہل قرار پائی گئی۔ مگر امریتا کا مقدر کسی اور دنیا کے لیے متعین تھا۔ قدرت نے اس کے فن کو ایک ایسے رخ پر ڈالنا تھا جسکا ادارک بھی شائد وہ نوجوان لڑکی نہیں کر سکتی تھی۔ 1934ء میں امریتا پر ایک عجیب کیفیت طاری ہونے لگی۔ اسے ایسا محسوس ہونے لگا کہ اسے انڈیا جانا چاہیے۔ یہ بے قراری، بے چینی اور رت جگے کا ایک ملاپ تھا۔ امریتا نے خود اپنے اندر کی آواز سنی اور انڈیا کو اپنی مقدر بنا لیا۔ اُس کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ انگریز ہونے کے باوجود یورپ کا حصہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک دوسری دنیا کی روح ہے اور اسے وہاں ہر قیمت پر پہنچنا چاہیے۔ یہ دوسری دنیا دراصل ایک عظیم شہر تھا۔ جس کا نام لاہور ہے۔
1934ء میں وہ انڈیا واپس آ گئی مگر لاہور ابھی اس کی زندگی سے چند سال دور تھا۔ انڈیا پہنچ کر امریتا نے ہندوستانی آرٹ کی بنیاد اور اس کی روایات کو سمجھنے اور محسوس کرنے کی ریاضت شروع کر دی۔ اسے مغل اور پہاڑی طرز مصوری سے عشق ہو چکا تھا۔ اُس نے پورے یورپ میں کسی بھی جگہ اتنی کمال اور بھر پور مصوری نہ دیکھی تھی۔ اس کی یہ جستجو مرتے دم تک قائم رہی۔ وہ اپنی شناخت کے سفر سے گزر رہی تھی۔ امریتا ہندوستانی خواتین کے رہن سہن، ان کی طرز زندگی، ان کی عمومی عادات، ان کی محرومیوں، ان کی تکالیف اور ان کی خوشیوں سے سحر زدہ ہو چکی تھی۔ اس کی تصاویر میں اب یہ رنگ ابھرنے لگا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ رخ اس کی زندگی اور روح کا وہ سفر بن گیا جس سے وہ لازوال مصورہ بن گئی۔
اس نے شمالی ہندوستان میں سفر کرنا شروع کیا۔ اس علاقہ کی غربت اور مایوسی نے اس کے ذہن پر زخم لگانے شروع کر دیے۔ اب اس کو اس کے فن کا مقدر مل چکا تھا اور وہ تھا "ہندوستان کے عام انسان"۔ امرتیا نے ایک خط میں تحریر کیا کہ "یورپ پیکاسو کا ہے جب کہ یہ خطہ یعنی انڈیا صرف میرا ہے۔ اس نے دیہی انڈیا پر بے مثال تصاویر بنائیں۔ رنگوں اور جذبات کا یہ امتزاج آج تک لازوال ہے۔ امریتا کی زندگی میں اُس کی بنائی ہوئی تصویریں بہت کم لوگ خریدتے تھے۔ حیدر آباد کے نواب سالار جنگ نے اس کی تصویریں لینے سے انکار کر دیا۔ میسور کے راجا نے اس کی تصویروں کی بہت توہین کی اور اس کی تصویروں کو رد کر کے کسی اور مصور کی تصویریں خرید لیں۔ مگر امریتا کا کام تو لازوال تھا۔2006ء میں اس کی ایک تصویر "گاؤں" آج کے چودہ کروڑ روپے میں فروخت ہوئی۔
امریتا ستمبر 1941ء میں لاہور منتقل ہو گئی۔ لاہور آرٹ اور کلچر کا گڑھ تھا۔ اس نے اپنے گھر کی چھت پر اپنا اسٹوڈیو قائم کیا اور دن رات تصویریں بنانی شروع کر دیں۔ دسمبر1941ء میں اس کی پہلی مکمل نمائش طے پا گئی۔ اپنی پہلی نمائش سے چند دن پہلے امریتا شدید بیمار ہو گئی۔28 سال کی عمر میں وہ اس جہاں زیست سے چلی گئی۔ اس کا گھر 23 گنگا رام مینشن لاہور تھا۔ یہ عمارت شائد آج بھی قائم ہو۔ پوری دنیا میں امریتا کے بیش قیمت فن پارے موجود ہیں۔ دوسرے ممالک میں اس کے نام کے ڈاک کے ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں۔ اس کے نام سے سڑکوں اور اہم چوکوں کے نام منسوب ہیں۔ مگر اس کے خوابوں کے شہر لاہور میں اُس کا کوئی نشان نہیں! کوئی نام نہیں! شاید مال روڈ کی بھیڑ میں امریتا ہمیشہ کے لیے گم ہو چکی ہے۔ کوئی بھی اس کے عدم وجود کو محسوس نہیں کرتا؟ پر میری نظر میں تو وہ مصوری کی ملکہ ہے۔ آپ اسے مصوری کی ملکہ نہ مانیں، پر خدارا اسے 23 نمبر فلیٹ کی ملکہ تو تسلیم کر لیں؟ اِس بڑے نام سے کوئی چھوٹی سی جگہ ہی منسوب کر دیں؟