سندھ دوسرے صوبوں سے پیچھے

حکومت سندھ کی ترجیحات میں تعلیم ہے ہی نہیں، سندھ کے بگڑتے ہوئے تعلیمی حالات ان کے لیے تشویش کا باعث ہیں

tauceeph@gmail.com

سندھ تعلیم کے شعبے میں باقی صوبوں سے پیچھے رہ گیا۔ ایک بین الاقوامی تنظیم کی زیر نگرانی ہونے والے سروے کے نتائج ظاہر کر رہے ہیں کہ سندھ میں اسکول جانے والے بچوں کی شرح باقی صوبوں سے کم ہے۔ سندھ میں اسکولوں کے طلبا کا معیار انتہائی پست اور اسکولوں میں فراہم کی جانے والی سہولتیں ناکافی ہیں۔ تعلیمی معیار اور تعلیمی اداروں میں سہولتوں کے بارے میں متحرک تنظیم ادارہ تعلیم و آگہی کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں طلبا کی پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیتیں بین الاقوامی معیار سے کم ہیں۔ یہ سروے سب سے پہلے 2005ء میں بھارت میں کیا گیا تھا، پھر دنیا کے8 ممالک میں اس سروے کے ذریعے اسکولوں کے معیار کی جانچ پڑتال کی گئی۔ گزشتہ سال ملک کے دیہی علاقوں کے 138 اضلاع اور شہری علاقوں کے 16 اضلاع میں 249,832 طلبا سے رابطہ کیا گیا، جن میں 41 فیصد طالبات تھیں اور ان سے اردو، سندھی، پشتو، انگریزی اور ریاضی سے متعلق سوالات کے جواب معلوم کیے گئے۔ اس سروے کے دوران سندھ میں پانچویں کلاس کے 75 فیصد طلبا کلاس دوئم کی انگریزی کے جملوں کو درست نہیں کر سکے اور نہ ہی دو ہندسوں پر مشتمل ریاضی کے سوالات کے درست جواب دیے۔ 58 فیصد طلبا اردو یا سندھی یا پشتو کی کہانی کے پیراگراف کو نہیں پڑھ پائے۔

اس سروے میں سندھ کے طلبا کا وفاق کے زیر اہتمام علاقے (فاٹا) سے موازنہ کیا گیا تو یہ حیرت انگیز نتیجہ سامنے آیا کہ فاٹا کے 27.9 فیصد طلبا انگریزی کے جملے پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور 37.4 فیصد بچے دو ہندسوں پر مشتمل ریاضی کے سوالات کے جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ سندھ میں 6 سے 16 سال کے 29 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے، اس طرح اسکول چھوڑنے والے طلبا کی شرح 6.6 فیصد ہے۔ سروے میں گزشتہ سال کے اعداد و شمار کا موازنہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ گزشتہ سال 32 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے تھے، سندھ میں اسکول نہ جانے والے طلبا کی تعداد کم ہوئی ہے۔ سندھ کی طرح بلوچستان میں اسکول نہ جانے والے طلبا کی تعداد خاصی ہے، جب کہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں یہ شرح کم ہو کر 14 فیصد رہ گئی ہے۔

اس سروے میں سندھ میں اسکولوں میں فراہم کی جانے والی سہولتوں کا موازنہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ سندھ 15 فیصد سرکاری اور 37 فیصد غیر سرکاری اسکولوں کی آٹھویں کلاس کے طلبا دوسری کلاسوں کے طلبا کے ساتھ مل کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ پنجاب کے 86.4 فیصد، کے پی کے میں 56.7 فیصد اسکولوں میں بیت الخلا کی سہولتیں موجود نہیں ہیں۔ اس طرح سندھ اور بلوچستان کے پرائمری اسکولوں میں سے صرف 11.9 فیصد اور 2.4 فیصد اسکولوں میں لائبریریاں موجود ہیں۔ اگرچہ 18 ویں ترمیم کے بعد سندھ میں تعلیم کا بجٹ بڑھ گیا ہے۔ سندھ میں اس وقت تعلیم کی مد میں 111.96 بلین روپے مختص کیے گئے ہیں، جن میں 12.39 بلین روپے ترقیاتی اسکیموں کے لیے ہیں۔ یہ ایک معقول رقم ہے، مگر ایک غیر سرکاری ادارے کی اس سالانہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ اچھی طرز حکومت سے محروم ہے۔


ماہرین کہتے ہیں کہ اگرچہ گزشتہ 6 سال سے سندھ کے عوام کے حقیقی نمایندے یعنی پیپلز پارٹی سندھ کا نظام حکومت چلا رہے ہیں مگر حکومت سندھ کی ترجیحات میں تعلیم ہے ہی نہیں، سندھ کے بگڑتے ہوئے تعلیمی حالات ان کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے گزشتہ 5 سال کے دوران میرٹ کو نظرانداز کیا گیا، صوبے کی اعلیٰ قیادت سے نچلی سطح تک کرپشن کو اولیت دی گئی۔ سابق وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کے دور میں ایک چپڑاسی کی آسامی سے لے کر ڈائریکٹر تک کی آسامیوں کو پیسوں کے عوض فروخت کر دیا گیا اور اعلیٰ لوگوں کی سفارش پر تقرریاں کی گئی، بھاری رقم دے کر اساتذہ، چپڑاسی، کلرک اور دوسرے افسروں کا تقرر کیا گیا تو ان لوگوں نے اپنے فرائض منصبی ادارے کرنے کے بجائے ملازمتوں اور پوسٹنگ کے لیے دیے گئے پیسوں کو وصول کرنے پر اپنی ساری توانائیاں لگا دی ہیں۔ اسکولوں کی عمارتوں کی تعمیر، فرنیچر، آلات کی فراہمی وغیرہ کو جاری کمیشن سے منسلک کر دیا گیا، یوں جو اساتذہ پہلے سے تعلیمی اداروں میں فرائض انجام دے رہے تھے وہ شدید مایوسی کا شکار ہوئے۔ صرف خیرپور ضلع میں 350 اساتذہ بھرتی کیے گئے ہیں، انھیں 14 مہینے سے تنخواہیں نہیں ملیں۔ بھرتی کیے گئے 270 اساتذہ کی اسناد جعلی نکلیں۔

جو اساتذہ پیسے دے کر بھرتی ہوئے وہ پڑھانے کی صلاحیتوں سے عاری ہیں، اس طرح ناخواندہ اساتذہ کی ایک پوری نسل کو بھرتی کر لیا گیا۔ معاملہ صرف بھرتیوں اور تقرریوں تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ رشوت اور دباؤ کی بنیاد پر نقل کے کاروبار کو عروج حاصل ہوا، پورے صوبے میں اسکولوں، کالجوں کے امتحانی مراکز فروخت کر دیے گئے۔ انتظامیہ نے تعلیمی بورڈ کے ایماندار افسروں اور اساتذہ کو امتحانات میں سیکیورٹی کی فراہمی کے معاملے کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ اس طرح امتحانات کے دوران جب الیکٹرونک چینلز نے سندھ کے مختلف شہروں میں امتحانی مراکز میں کھلے عام نقل کے بار ے میں فوٹیج چلانا شروع کیے تو وزیر تعلیم اور وزیر اعلیٰ اس معاملے پر ایسے خاموش ہوئے کہ جیسے یہ کوئی معاملہ ہی نہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے شہری اور دیہی علاقوں کے لیے امتیازی پالیسی اختیار کی۔ سندھ میں یونیورسٹیوں کا جال بچھایا گیا مگر حیدرآباد شہر میں یونیورسٹی قائم نہ ہو سکی۔ اس پالیسی کی بناء پر ہر شہری علاقوں کے اسکولوں کی قیمتی زمینوں کو سرکاری تنظیموں کو دیا گیا۔ کراچی کے کئی قدیم اسکول ختم ہو گئے، غیر سرکاری تنظیموں نے اسکولوں کی جگہ عمارتیں تعمیر کر لیں اور عام آدمی تعلیم کے حق سے محروم ہوا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں یونیورسٹیاں ان کی دسترس سے دور تھیں مگر یونیورسٹیوں میں مداخلت کی پالیسی اختیار کی گئی۔ پرویز مشرف حکومت نے وائس چانسلر کے تقرر کے لیے ماہرین تعلیم پر مشتمل سرچ کمیٹی قائم کی تھی جس کی بناء پر گورنر وائس چانسلر کا تقرر کرنے کے پابند ہوتے تھے۔

سابقہ دور میں سندھ یونیورسٹی اور بے نظیر بھٹو یونیورسٹی نواب شاہ کے وائس چانسلر کا تقرر سرچ کمیٹی کو نظر انداز کر کے کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تعلیمی لیاقت محض ایم اے سیکنڈ ڈویژن تھی پھر گزشتہ سال یونیورسٹیوں کی علمی آزادی کو غصب کرنے کے لیے ایک قانون نافذ کیا گیا، اس قانون کے تحت یونیورسٹیوں کے بنیادی اداروں سنڈیکٹ، اکیڈمک کونسل اور سینیٹ کے اختیارات ختم کر دیے گئے، یہ اختیارات اب محکمہ تعلیم کو منتقل ہو گئے، یوں اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں فرق مٹ گیا۔ سندھ میں وائس چانسلروں کے تقرر کے لیے جیسے ہی سرچ کمیٹی قائم ہوئی، اس میں سابق صدر آصف زرداری کی ہمشیرہ اور ان کے دوست ڈاکٹر عاصم کو شامل کر کے سرچ کمیٹی کو سیاسی بنا دیا گیا۔ اب سندھ کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اپنے اداروں کو بچانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ سندھ کے تعلیم کے محکمے میں اختیارات کی کشمکش مسلسل جاری ہے۔ چند سال قبل وزیر اعلیٰ کی صاحبزادی ناہید شاہ نے بہتر اقدامات کیے تو وزیر تعلیم پیر مظہر الحق نے ان کا تبادلہ کروا دیا۔ اب صدر زرداری کے بہنوئی سیکریٹری تعلیم ڈاکٹر فضل پیچو اور وزیر تعلیم میں اختیارات کی جنگ ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں اہم معاملات ابتری کا شکار ہیں۔

حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ سندھ میں طلبا کی صلاحیتیں خاصی کم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کے طلبا اعلیٰ ملازمتوں کے امتحانات (CSS) میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور غیر ملکی اسکالر شپ کے امتحانات میں عمومی طور پر ناکام رہتے ہیں۔ اس طرح سندھ کے لیے مختص نشستیں خالی رہتی ہیں۔ اس بین الاقوامی سروے کے نتائج سندھ کے طلبا کی ناکامی کی وجوہات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ سندھ کے وزیر تعلیم نثار کھوڑو کا کہنا ہے کہ حکومت نقل کی روک تھام کے لیے رینجرز کی خدمات حاصل کرے گی۔ معاملہ صرف رینجرز سے حل نہیں ہو گا بلکہ اسکولوں کی سطح پر معیار گرنے کی وجوہات کو تلاش کرنا ہو گا۔ سندھ سے محبت کرنے والے بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر بلاول بھٹو زرداری کو واقعی سندھ سے دلچسپی ہے تو انھیں اپنی ساری توانائی سندھ کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے پر صرف کرنی چاہیے۔ انھیں نے اپنی حکومت کے گزشتہ دور میں محکمہ تعلیم میں بدعنوانی کے معاملات میں تحقیقات کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن قائم کرنا چاہیے۔ کمیشن کسی اہم فرد کو کرپشن کا ذمے دار قرار دے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تا کہ میرٹ مستحکم ہو اور سندھ میں تعلیم کا معیار دوسرے صوبوں کے برابر ہو سکے۔
Load Next Story