کیا امریکا اپنے جدید ’’بی 21‘‘ طیارے سے چین پر ایٹم بم برسائے گا
اسے ریڈار پر نہیں دیکھا جاسکے گا جبکہ یہ جدید ترین آلات کے علاوہ ایٹم بموں سے بھی لیس ہوگا۔
بائیڈن انتظامیہ میں امریکی فضائیہ کے سیکریٹری، فرینک کینڈل نے تصدیق کی ہے کہ جدید ترین اسٹیلتھ امریکی بمبار طیاروں ''بی 21'' کے پانچ پروٹوٹائپس اپنے اختتامی مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔
یہ طیارے ''نارتھروپ گرومین'' کے تحت پام ڈیل، کیلیفورنیا میں امریکی فضائیہ کے پلانٹ نمبر 42 میں تیار کیے جارہے ہیں۔
واضح رہے کہ اس منصوبے کا آغاز 2013 میں ہوا تھا جس کے بارے میں اوباما اور ٹرمپ انتظامیہ نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ البتہ اس کے حوالے سے مختلف افواہیں اور خبریں ضرور گردش کررہی تھیں۔
بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے بھی اس منصوبے کی تصدیق ضرور کی گئی ہے لیکن زیادہ تفصیلات اب بھی منظرِ عام پر نہیں آئی ہیں۔
تاہم اب تک نارتھروپ گرومین اور دوسرے معتبر ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات سے پتا چلتا ہے کہ ''بی 21'' امریکا کا جدید ترین بمبار طیارہ ہوگا جو ''بہت لمبے فاصلوں'' تک پرواز کرسکے گا۔
اسے ریڈار پر نہیں دیکھا جاسکے گا، یعنی کہ یہ اسٹیلتھ ہوگا؛ جبکہ یہ جدید ترین آلات کے علاوہ ایٹم بموں سے بھی لیس ہوگا۔
ظاہری طور پر یہ سرد جنگ کے دوران بنائے گئے ''بی ٹی'' (B-2) بمبار سے مشابہت رکھتا ہے جسے ممکنہ جنگ میں سابق سوویت یونین پر ایٹم بم گرانے کےلیے بطورِ خاص ڈیزائن کیا گیا تھا۔
البتہ بی 21 بمبار کی جسامت اس سے کچھ کم ہے جس کے پروں کا پھیلاؤ 150 فٹ سے کچھ کم بتایا جاتا ہے۔ اس میں دو پائلٹ سوار ہوں گے۔
بی 21 میں 30,000 پونڈ تک پے لوڈ لے جانے کی گنجائش ہے جو جدید ترین ایٹم بموں پر مشتمل ہوگا۔
ریڈار سے بچنے کےلیے اس کی ساخت کسی بڑی مثلث جیسی رکھی گئی ہے۔ اس کے پیشرو ''بی 2'' کی ساخت بھی ایسی ہی تھی۔
یہ آواز سے کچھ کم رفتار پر، انتہائی بلندی پر رہتے ہوئے پرواز کرسکے گا اور ایک بار ایندھن بھرنے کے بعد ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرسکے گا۔
ریڈار کی نظروں سے بچنے کےلیے اس کی سطح پر ایسا روغن کیا جائے گا جو ریڈار کی لہریں جذب کرسکتا ہے۔ یہ اسٹیلتھ صلاحیت مزید بہتر بنانے کےلیے اس میں اضافی آلات بھی نصب کیے جائیں گے۔
مزید یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ 2022 سے بی 21 کی آزمائشی پروازیں شروع کردی جائیں گی جبکہ اس کی محدود پیداوار کا آغاز 2026 سے کیا جائے گا۔
2030 تک اس بمبار طیارے کی بڑے پیمانے پر پیداوار شروع کردی جائے گی جبکہ 2027 تک اس کی پہلی کھیپ امریکی فضائیہ کے سپرد کرنے کا منصوبہ ہے۔
اندازہ ہے کہ امریکی فضائیہ نے 80 سے 100 عدد بی 21 طیاروں کا آرڈر دیا ہوا ہے، جن میں سے ہر طیارے کی ممکنہ قیمت 30 کروڑ ڈالر سے 55 کروڑ ڈالر تک ہوسکتی ہے۔
عالمی دفاعی حلقوں کا کہنا ہے کہ بی 21 طیارے سے متعلق امریکی قیادت کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا اور چین کے درمیان ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔
اس سے قطع نظر کہ بی 21 بمبار کا منصوبہ درحقیقت کونسے مرحلے پر ہے، اس اعلان کے ذریعے امریکا نے چین کو دھمکی دی ہے کہ وقت آنے پر وہ چین کے خلاف ایٹم بموں کا استعمال بھی کرسکتا ہے۔
یہ طیارے ''نارتھروپ گرومین'' کے تحت پام ڈیل، کیلیفورنیا میں امریکی فضائیہ کے پلانٹ نمبر 42 میں تیار کیے جارہے ہیں۔
واضح رہے کہ اس منصوبے کا آغاز 2013 میں ہوا تھا جس کے بارے میں اوباما اور ٹرمپ انتظامیہ نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ البتہ اس کے حوالے سے مختلف افواہیں اور خبریں ضرور گردش کررہی تھیں۔
بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے بھی اس منصوبے کی تصدیق ضرور کی گئی ہے لیکن زیادہ تفصیلات اب بھی منظرِ عام پر نہیں آئی ہیں۔
تاہم اب تک نارتھروپ گرومین اور دوسرے معتبر ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات سے پتا چلتا ہے کہ ''بی 21'' امریکا کا جدید ترین بمبار طیارہ ہوگا جو ''بہت لمبے فاصلوں'' تک پرواز کرسکے گا۔
اسے ریڈار پر نہیں دیکھا جاسکے گا، یعنی کہ یہ اسٹیلتھ ہوگا؛ جبکہ یہ جدید ترین آلات کے علاوہ ایٹم بموں سے بھی لیس ہوگا۔
ظاہری طور پر یہ سرد جنگ کے دوران بنائے گئے ''بی ٹی'' (B-2) بمبار سے مشابہت رکھتا ہے جسے ممکنہ جنگ میں سابق سوویت یونین پر ایٹم بم گرانے کےلیے بطورِ خاص ڈیزائن کیا گیا تھا۔
البتہ بی 21 بمبار کی جسامت اس سے کچھ کم ہے جس کے پروں کا پھیلاؤ 150 فٹ سے کچھ کم بتایا جاتا ہے۔ اس میں دو پائلٹ سوار ہوں گے۔
بی 21 میں 30,000 پونڈ تک پے لوڈ لے جانے کی گنجائش ہے جو جدید ترین ایٹم بموں پر مشتمل ہوگا۔
ریڈار سے بچنے کےلیے اس کی ساخت کسی بڑی مثلث جیسی رکھی گئی ہے۔ اس کے پیشرو ''بی 2'' کی ساخت بھی ایسی ہی تھی۔
یہ آواز سے کچھ کم رفتار پر، انتہائی بلندی پر رہتے ہوئے پرواز کرسکے گا اور ایک بار ایندھن بھرنے کے بعد ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرسکے گا۔
ریڈار کی نظروں سے بچنے کےلیے اس کی سطح پر ایسا روغن کیا جائے گا جو ریڈار کی لہریں جذب کرسکتا ہے۔ یہ اسٹیلتھ صلاحیت مزید بہتر بنانے کےلیے اس میں اضافی آلات بھی نصب کیے جائیں گے۔
مزید یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ 2022 سے بی 21 کی آزمائشی پروازیں شروع کردی جائیں گی جبکہ اس کی محدود پیداوار کا آغاز 2026 سے کیا جائے گا۔
2030 تک اس بمبار طیارے کی بڑے پیمانے پر پیداوار شروع کردی جائے گی جبکہ 2027 تک اس کی پہلی کھیپ امریکی فضائیہ کے سپرد کرنے کا منصوبہ ہے۔
اندازہ ہے کہ امریکی فضائیہ نے 80 سے 100 عدد بی 21 طیاروں کا آرڈر دیا ہوا ہے، جن میں سے ہر طیارے کی ممکنہ قیمت 30 کروڑ ڈالر سے 55 کروڑ ڈالر تک ہوسکتی ہے۔
عالمی دفاعی حلقوں کا کہنا ہے کہ بی 21 طیارے سے متعلق امریکی قیادت کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا اور چین کے درمیان ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔
اس سے قطع نظر کہ بی 21 بمبار کا منصوبہ درحقیقت کونسے مرحلے پر ہے، اس اعلان کے ذریعے امریکا نے چین کو دھمکی دی ہے کہ وقت آنے پر وہ چین کے خلاف ایٹم بموں کا استعمال بھی کرسکتا ہے۔