منی لانڈرنگ کیس شہباز شریف اور حمزہ کو تفتیشی ٹیموں سے مکمل تعاون کا حکم
شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی ضمانت میں 9 اکتوبر تک توسیع
بنکنگ عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف اور حمزہ کو تفتیشی ٹیموں سے مکمل تعاون کا حکم دیتے ہوئے دونوں کی ضمانت میں 9 اکتوبر تک توسیع کردی۔
ایف آئی اے بنکنگ عدالت میں منی لانڈرنگ کیس کی سماعت ہوئی تو شہباز شریف اور حمزہ شہباز عدالت میں پیش ہوگئے۔ ایف آئی اے نے شواہد سے بھرے چار باکس عدالت کے روبرو پیش کردیے۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے ڈاکٹر رضوان نے عدالت کو بتایا کہ 2020 میں شوگر انکوائری کمشن بنا، جس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ شوگر ملز بڑے پیمانے پر مالیاتی فراڈ میں ملوث ہیں، اس پر ایف آئی اے کو انکوائری کرنے کا کہا گیا، انکوائری میں انکشاف ہوا کہ 20 غریب ملازمین کے نام پر 57 اکاؤنٹس سامنے آئے، یہ اکاؤنٹ 2008 میں کھلے اور 2018 میں بند ہوئے، ان میں ہزاروں ٹرانزیکشن کی گئیں، جن میں سے 15 ہزار 8 سو ڈپازٹ ہوئی ہیں، کراچی میں ایک اکاؤنٹ میں 13 فرضی ناموں سے 27 ارب کی ٹرانزیکشن سامنے آئیں، ملزمان نے قبل از گرفتاری درخواست ضمانت لے رکھی ہے اور دوران تفتیش تعاون نہیں کر رہے۔
شہباز شریف نے عدالت کو بیان میں بتایا کہ آفیسر نے عدالت کو جو باتیں بتائیں یہ غلط بیانی ہے، میں اس شوگر مل سے کوئی تنخواہ نہیں لیتا، میں اس شوگر مل میں نہ شیئر ہولڈر ہوں، نہ ڈائریکٹر ہوں، نہ عہدیدار ہوں، یہ اثاثہ میرے والد نے بنایا جسے میں نے اپنے بچوں کو منتقل کردیا، میں نے تو اپنے خاندان کو شوگر کی مد میں اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔
ڈاکٹر رضوان نے بتایا کہ غریب اور مجبور ملازمین کے اکاؤنٹس کو کم از کم 25 ارب روپے کی کرپشن چھپانے کے لئے استعمال کیا گیا، رمضان شوگر مل اور اس کے ساتھ منسلک کاروبار بطور منی لانڈرنگ استعمال ہوتے رہے، اس کو کیس اسٹڈی کے طور پر بزنس اکاؤنٹنگ اور قانون کے اسکولوں میں پڑھایا جائے تا کہ آنے والی نسلوں کو منی لانڈرنگ کی لعنت سے چھٹکارا حاصل ہو۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ میگا منی لانڈرنگ کا یہ کیس اومنی گروپ کراچی کے جعلی اکاؤنٹس (27 ارب) کیس سے مماثلت رکھتا ہے، دونوں کیسوں میں مرکزی ملزمان کا طریقہ واردات ایک ہی ہے، منی لانڈرنگ کی لعنت سے چھٹکارے کے لئے تمام بنکوں کو خلوص نیت سے معاونت کرنے کا حکم جاری کیا جائے، شریف فیملی کے بیرون ملک خفیہ اکاؤنٹس اور اثاثوں کی معلومات حاصل کی جارہی ہیں ، انٹر پول کے ذریعہ دو طرفہ معلومات کے تبادلے کے بعد مزید انکشافات کی توقع ہے، اتنے بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ وزیر اعلی اور اعلی سرکار ی عہدوں کی مدد کے بغیر ناممکن تھی۔ ملزمان تفتیش میں بالکل تعاون نہیں کر رہے۔ سابقہ سی ایم پنجاب کو یہ تک یاد نہیں کہ ان کے خاندانی کاروبار حمزہ شہباز یا سلمان شہباز چلاتے تھے۔ حمزہ شہباز کو یہ تک یاد نہیں کہ ان کے بھی اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے کا کیش کون جمع کرواتا رہا۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے نے عدالت میں ملزمان کی قبل از ضمانت گرفتاری کی مخالفت کی۔
ایف آئی اے بینکنگ عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی ضمانت میں 9 اکتوبر تک توسیع کر دی اور دونوں کو تفتیشی ٹیموں سے مکمل تعاون کرنے کی ہدایت کردی۔
ایف آئی اے بنکنگ عدالت میں منی لانڈرنگ کیس کی سماعت ہوئی تو شہباز شریف اور حمزہ شہباز عدالت میں پیش ہوگئے۔ ایف آئی اے نے شواہد سے بھرے چار باکس عدالت کے روبرو پیش کردیے۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے ڈاکٹر رضوان نے عدالت کو بتایا کہ 2020 میں شوگر انکوائری کمشن بنا، جس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ شوگر ملز بڑے پیمانے پر مالیاتی فراڈ میں ملوث ہیں، اس پر ایف آئی اے کو انکوائری کرنے کا کہا گیا، انکوائری میں انکشاف ہوا کہ 20 غریب ملازمین کے نام پر 57 اکاؤنٹس سامنے آئے، یہ اکاؤنٹ 2008 میں کھلے اور 2018 میں بند ہوئے، ان میں ہزاروں ٹرانزیکشن کی گئیں، جن میں سے 15 ہزار 8 سو ڈپازٹ ہوئی ہیں، کراچی میں ایک اکاؤنٹ میں 13 فرضی ناموں سے 27 ارب کی ٹرانزیکشن سامنے آئیں، ملزمان نے قبل از گرفتاری درخواست ضمانت لے رکھی ہے اور دوران تفتیش تعاون نہیں کر رہے۔
شہباز شریف نے عدالت کو بیان میں بتایا کہ آفیسر نے عدالت کو جو باتیں بتائیں یہ غلط بیانی ہے، میں اس شوگر مل سے کوئی تنخواہ نہیں لیتا، میں اس شوگر مل میں نہ شیئر ہولڈر ہوں، نہ ڈائریکٹر ہوں، نہ عہدیدار ہوں، یہ اثاثہ میرے والد نے بنایا جسے میں نے اپنے بچوں کو منتقل کردیا، میں نے تو اپنے خاندان کو شوگر کی مد میں اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔
ڈاکٹر رضوان نے بتایا کہ غریب اور مجبور ملازمین کے اکاؤنٹس کو کم از کم 25 ارب روپے کی کرپشن چھپانے کے لئے استعمال کیا گیا، رمضان شوگر مل اور اس کے ساتھ منسلک کاروبار بطور منی لانڈرنگ استعمال ہوتے رہے، اس کو کیس اسٹڈی کے طور پر بزنس اکاؤنٹنگ اور قانون کے اسکولوں میں پڑھایا جائے تا کہ آنے والی نسلوں کو منی لانڈرنگ کی لعنت سے چھٹکارا حاصل ہو۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ میگا منی لانڈرنگ کا یہ کیس اومنی گروپ کراچی کے جعلی اکاؤنٹس (27 ارب) کیس سے مماثلت رکھتا ہے، دونوں کیسوں میں مرکزی ملزمان کا طریقہ واردات ایک ہی ہے، منی لانڈرنگ کی لعنت سے چھٹکارے کے لئے تمام بنکوں کو خلوص نیت سے معاونت کرنے کا حکم جاری کیا جائے، شریف فیملی کے بیرون ملک خفیہ اکاؤنٹس اور اثاثوں کی معلومات حاصل کی جارہی ہیں ، انٹر پول کے ذریعہ دو طرفہ معلومات کے تبادلے کے بعد مزید انکشافات کی توقع ہے، اتنے بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ وزیر اعلی اور اعلی سرکار ی عہدوں کی مدد کے بغیر ناممکن تھی۔ ملزمان تفتیش میں بالکل تعاون نہیں کر رہے۔ سابقہ سی ایم پنجاب کو یہ تک یاد نہیں کہ ان کے خاندانی کاروبار حمزہ شہباز یا سلمان شہباز چلاتے تھے۔ حمزہ شہباز کو یہ تک یاد نہیں کہ ان کے بھی اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے کا کیش کون جمع کرواتا رہا۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے نے عدالت میں ملزمان کی قبل از ضمانت گرفتاری کی مخالفت کی۔
ایف آئی اے بینکنگ عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی ضمانت میں 9 اکتوبر تک توسیع کر دی اور دونوں کو تفتیشی ٹیموں سے مکمل تعاون کرنے کی ہدایت کردی۔