کراچی سرکل ریلوے کی کل لاگت 250 ارب روپے ہے جو 3 مراحل میں مکمل ہوگا
سرکلر ریلوے شروع ہونے پر ساڑھے پانچ لاکھ افراد سرکلر ریلوے سے سفر کرسکیں گے
و زیر اعظم عمران خان آج کراچی میں ریکارڈ مالیت کے منصوبے کراچی سرکلر ریلوے کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔
کے سی آر بحالی منصوبہ کی کل لاگت 250ارب روپے ہے جو تین مراحل میں مکمل ہوگا، پہلا مرحلہ انفرااسٹرکچر کی تعمیر ہے جس پر 27ارب روپے کی لاگت آئے گی جس کے تحت 44کلو میٹر ٹریک پر 22اسٹیشنز تعمیر کیے جائیں گے، ایکنک نے جمعہ کو 22.7ارب روپے کے فنڈز کی منظوری دی تھی 6ارب روپے سندھ حکومت فراہم کرے گی۔
وزیر اعظم عمران خان آج پہلے مرحلے کا سنگ بنیاد رکھیں گے، انفرااسٹرکچر کی تعمیر کا مرحلہ 18سے 24ماہ میں مکمل ہوگا، سندھ حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں کراچی سرکلر ریلوے کے لیے 6ارب روپے کی رقم مختص کی ہے، ٹریک کی بحالی کا کام بھی مراحل میں ہوگا۔
سٹی اسٹیشن سے اورنگی اسٹیشن تک 14کلو میٹر کا ٹریک تیار ہوچکا ہے، اورنگی اسٹیشن سے گیلانی اسٹیشن اور پھر گیلانی اسٹیشن سے ڈرگ روڈ تک کا ٹریک بحال کیا جائے گا۔
کے سی آر کے روٹ پر ہر 6 منٹ کے وقفے سے ٹرین چلائی جائے گی جس کے لیے روٹ پر موجود 22پھاٹک ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جن کی جگہ 19انڈرس پاسز اور 3اوور ہیڈ پل تعمیر کیے جائیں گے۔
دوسرے مرحلے میں ٹرینوں کی تعداد اور گنجائش میں اضاف کیا جائے گا جب کہ تیسرے مرحلے میں اسے جدید ماس ٹرانزٹ سسٹم کی شکل دی جائے گی جس میں پبلک پرائیورٹ پارٹنر شپ سے بجلی سے چلنے والے انجن خریدے جائیں گے جبکہ ٹریک کے سنگل سسٹم کو بھی جدید بنایا جائے گا، کمیونی کیشن نظام کے ساتھ آٹو میٹک ٹرین کنٹرول سسٹم سے لیس کیا جائے گا۔
سرکلر ریلوے شروع ہونے کے پہلے سال یومیہ ساڑھے پانچ لاکھ اور 2030تک یومیہ ساڑھے ساتھ لاکھ افراد سرکلر ریلوے سے سفر کرسکیں گے، کے سی آر سی پیک منصوبوں میں شمولیت کی مظوری کے سی آر سی پیک کے تحت سندھ کے تین بڑے منصوبوں میں سے ایک ہے۔
کے سی آر کی سہولت کا آغاز 1964میں ہوا اور یہ روٹ لاکھوں شہریوں کو 1999تک آمدورفت میں آسانی فراہم کرتا رہا تاہم مالی خسارے کے باعث یہ سروس بند کردی گئی، کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی بڑھتی ہوئی قلت کے پیش نظرہ سرکلر ریلوے منصوبہ کی بحالی پر 2005سے غور شروع کیا گیا تاہم سرمائے کی دستیابی اور سیاسی مصلحتیں آڑے آتی رہیں اور آخر کار سپریم کورٹ کی پاکستان ریلوے کو ہدایت کے بعد منصوبے پر تیزی سے پیش رفت ہوئی اور رکاوٹیں ختم کرنے کے بعد وفاق اور سندھ نے اتفاق رائے سے اس منصوبے کو بحال کرنے کے لیے عملی کوششوں کا آغاز کیا۔
کراچی سرکلر ریلوے شہریوں کا ایک دیرینہ خواب ہے جس کی تعبیر تاخیر کا شکار رہی ٹریک کی حالت اس وقت بھی انتہائی دگرگوں ہے پٹریاں منوں مٹی اور کچرے کے ڈھیر تلے دبی ہوئی ہیں جبکہ اسٹیشنز بھی خستہ حالی کا شکار ہیں۔
وفاقی وزیر ریلوے کی حیثیت سے شیخ رشید احمد نے 18نومبر 2020کو سٹی اسٹیشن تا پپری (دھابیجی) تک سرکلر ریلوے کا افتتاح کیا تھا جس کا ٹکٹ 30روپے مقرر کیا گیا تاہم یہ ٹرین بھی مسافروں کی کمی اور خسارے کی وجہ سے بند کردی گئی۔
کے سی آر بحالی منصوبہ کی کل لاگت 250ارب روپے ہے جو تین مراحل میں مکمل ہوگا، پہلا مرحلہ انفرااسٹرکچر کی تعمیر ہے جس پر 27ارب روپے کی لاگت آئے گی جس کے تحت 44کلو میٹر ٹریک پر 22اسٹیشنز تعمیر کیے جائیں گے، ایکنک نے جمعہ کو 22.7ارب روپے کے فنڈز کی منظوری دی تھی 6ارب روپے سندھ حکومت فراہم کرے گی۔
وزیر اعظم عمران خان آج پہلے مرحلے کا سنگ بنیاد رکھیں گے، انفرااسٹرکچر کی تعمیر کا مرحلہ 18سے 24ماہ میں مکمل ہوگا، سندھ حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں کراچی سرکلر ریلوے کے لیے 6ارب روپے کی رقم مختص کی ہے، ٹریک کی بحالی کا کام بھی مراحل میں ہوگا۔
سٹی اسٹیشن سے اورنگی اسٹیشن تک 14کلو میٹر کا ٹریک تیار ہوچکا ہے، اورنگی اسٹیشن سے گیلانی اسٹیشن اور پھر گیلانی اسٹیشن سے ڈرگ روڈ تک کا ٹریک بحال کیا جائے گا۔
کے سی آر کے روٹ پر ہر 6 منٹ کے وقفے سے ٹرین چلائی جائے گی جس کے لیے روٹ پر موجود 22پھاٹک ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جن کی جگہ 19انڈرس پاسز اور 3اوور ہیڈ پل تعمیر کیے جائیں گے۔
دوسرے مرحلے میں ٹرینوں کی تعداد اور گنجائش میں اضاف کیا جائے گا جب کہ تیسرے مرحلے میں اسے جدید ماس ٹرانزٹ سسٹم کی شکل دی جائے گی جس میں پبلک پرائیورٹ پارٹنر شپ سے بجلی سے چلنے والے انجن خریدے جائیں گے جبکہ ٹریک کے سنگل سسٹم کو بھی جدید بنایا جائے گا، کمیونی کیشن نظام کے ساتھ آٹو میٹک ٹرین کنٹرول سسٹم سے لیس کیا جائے گا۔
سرکلر ریلوے شروع ہونے کے پہلے سال یومیہ ساڑھے پانچ لاکھ اور 2030تک یومیہ ساڑھے ساتھ لاکھ افراد سرکلر ریلوے سے سفر کرسکیں گے، کے سی آر سی پیک منصوبوں میں شمولیت کی مظوری کے سی آر سی پیک کے تحت سندھ کے تین بڑے منصوبوں میں سے ایک ہے۔
کے سی آر کی سہولت کا آغاز 1964میں ہوا اور یہ روٹ لاکھوں شہریوں کو 1999تک آمدورفت میں آسانی فراہم کرتا رہا تاہم مالی خسارے کے باعث یہ سروس بند کردی گئی، کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی بڑھتی ہوئی قلت کے پیش نظرہ سرکلر ریلوے منصوبہ کی بحالی پر 2005سے غور شروع کیا گیا تاہم سرمائے کی دستیابی اور سیاسی مصلحتیں آڑے آتی رہیں اور آخر کار سپریم کورٹ کی پاکستان ریلوے کو ہدایت کے بعد منصوبے پر تیزی سے پیش رفت ہوئی اور رکاوٹیں ختم کرنے کے بعد وفاق اور سندھ نے اتفاق رائے سے اس منصوبے کو بحال کرنے کے لیے عملی کوششوں کا آغاز کیا۔
کراچی سرکلر ریلوے شہریوں کا ایک دیرینہ خواب ہے جس کی تعبیر تاخیر کا شکار رہی ٹریک کی حالت اس وقت بھی انتہائی دگرگوں ہے پٹریاں منوں مٹی اور کچرے کے ڈھیر تلے دبی ہوئی ہیں جبکہ اسٹیشنز بھی خستہ حالی کا شکار ہیں۔
وفاقی وزیر ریلوے کی حیثیت سے شیخ رشید احمد نے 18نومبر 2020کو سٹی اسٹیشن تا پپری (دھابیجی) تک سرکلر ریلوے کا افتتاح کیا تھا جس کا ٹکٹ 30روپے مقرر کیا گیا تاہم یہ ٹرین بھی مسافروں کی کمی اور خسارے کی وجہ سے بند کردی گئی۔