مالامال مملکت کی خالی جیب کا قصہ
وسائل پر زیادہ سے زیادہ تصرف اکیسویں صدی میں جاری رہنے والی سرد جنگ کا نمایاں و اہم باب ہے۔
افغانستان کے تناظر میں اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جب پلے کوڑی نہیں تو ملک کیسے چلے گا؟ قومی خزانے میں جمع دس ارب ڈالر کی رقم کا سوچ سوچ کر خوش تو ہوا جا سکتا ہے مگر اسے ہاتھ نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ یہ رقم امریکی لاکرز میں ''برائے افغانستان'' کی چٹ لگا کے منجمد کر دی گئی ہے۔
جب سے دوسری بار طالبان نے کابل سنبھالا ہے۔ ہر دوسرے تیسرے روز سننے کو ملتا ہے کہ افغانستان ایک ٹریلین ڈالر مالیت کے معدنی خزانے پر بیٹھا ہے۔ وہ ذخائر کے اعتبار سے لیتھیم جیسی قیمتی دھات کا سعودی عرب ہے وغیرہ وغیرہ۔ظاہر ہے کہ اس بارے میں سوچ سوچ کر دل ہی دل میں فی الحال بس خوش ہی ہوا جا سکتاہے۔ سرکردہ امریکی ماہرِارضیات اسکاٹ مونٹگمری کے بقول اگر آج اس ارضی ذخیرے کو نکالنے کا کام شروع ہو تو اس سے افغان خزانے میں پہلا ڈالر داخل ہوتے ہوتے کم ازکم سات سے دس برس لگیں گے۔
جن ممالک کی جن معدنی کمپنیوں کے پاس اس خزانے کو قابلِ استعمال بنانے کے تکنیکی وسائل اور سرمایہ ہے وہ کوڑیوں کے مول سودا کر کے اربوں ڈالر بنانے کی شہرت رکھتی ہیں۔مگر ان کی مدد کے بغیر کچھ ہو بھی نہیں سکتا۔گھوم پھر کے وہی چینی ، روسی ، بھارتی ، یورپی اور امریکی کمپنیاں ہیں جو فی الحال خود بھی سرمایہ کاری کی بابت بے یقینی کا شکار ہیں اور نئی حکومت کو بھی نہیں معلوم کہ اسے بالاخر کس ملک کی کس کمپنی کو کس معدن کا ٹھیکہ دینا ہے۔یوں سمجھ لیجیے کہ خربوزہ چھری پر گرے یا چھری خربوزے پر۔کٹنا خربوزے کو ہی ہے۔( ہمارے ہاں اس سلسلے میں ریکوڈیک تانبہ ذخیرے کی مثال دی جاتی ہے)۔
مشرقی شاعری میں لبِ محبوب کے لیے لعلِ بدخشاں کا استعارہ تو کئی بار استعمال ہوا ہے۔مگر کتنے جانتے ہیں کہ معیار کے اعتبار سے وسطی امریکا کے زمرد کے بعد دوسرا نمبر وادیِ پنج شیر کے زمرد کا ہے۔یہاں سے زمرد پہلی عیسوی صدی سے نکالا جا رہا ہے۔اس کے علاوہ افغان یاقوت، ترمولین، لیپز لزوری کے معیار کی شہرت بھی قدیم دور سے ہے۔ان قیمتی پتھروں کی باقاعدہ و بے قاعدہ کانکنی کی تاریخ بھی مسلسل ہے۔
البتہ زیرِ زمین اصل خزانہ خام لوہے ، تانبے ، لیتھیم، کوبالٹ ، باکسائیٹ ، یورینیم اور کروم پر مشتمل ہے۔ان سب دھاتوں کا سرسری تخمینہ توموجود ہے البتہ حتمی اندازہ تب ہی ممکن ہے جب کانکنی کا باقاعدہ جدید ڈھانچہ استوار ہو۔لگ بھگ سو سوا سو برس پہلے جرمنوں اور پھر انگریزوں نے افغان معدنی ذخائر کا ابتدائی سروے کیا۔ اس سلسلے میں سب سے سنجیدہ کوشش انیس سو ساٹھ اور ستر کے عشرے میں سوویت ماہرینِ ارضیات نے کی۔
اسی چھان پھٹک کی بنیاد پر دو ہزار چار تا دو ہزار گیارہ امریکن جیالوجیکل سروے کے ماہرین نے چوبیس مختلف مقامات سے قابلِ عمل تفصیلی مواد جمع کرنے کا کام اور آگے بڑھایا۔افغان حکومت نے اس عرصے میں چند بھارتی و چینی کمپنیوں کو معدنی تلاش کے حقوق بھی تفویض کیے لیکن ملک کی عمومی بے یقین فضا ، کرپشن اور ٹھیکوں سے متعلق کچھ سمجھوتہ جاتی شقوں اور منافع کی تقسیم کے فارمولے پر اتفاق نہ ہونے کے سبب کانکنی ابتدائی مرحلے سے آگے نہ بڑھ پائی۔
دستیاب معلومات کے مطابق افغانستان میں تانبے کے اٹھاون ملین ٹن ذخائر موجود ہیں۔ان کی موجودہ مالیت پانچ سو بیس ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔اس ذخیرے کی بنیاد پر افغانستان کا شمار تانبے کی فہرست میں پانچ چوٹی کے ممالک میں ہوتا ہے۔
تانبے کا سب سے بڑا ذخیرہ ( ساڑھے گیارہ ملین ٹن ) کابل کے جنوب مشرق میں عینک کے مقام پر پایا جاتا ہے۔ان ذخائر میں کوبالٹ کی بھی اچھی خاصی مقدار ہے۔سوویت یونین نے افغانستان پر دس سالہ قبضے کے دوران اس علاقے میں کھدائی کی کوشش بھی کی مگر سوویت انخلا کے نتیجے میں کام بھی معطل ہو گیا۔
کئی برس بعد دو ہزار سات میں کرزئی حکومت نے دو چینی کمپنیوں کو عینک میں تانبے کے ذخیرے کے ایک حصے کی کانکنی اور اسے قابلِ استعمال بنانے کے ضمن میں تیس برس کے لیے تین ارب ڈالر کا ٹھیکہ دے دیا۔اس معاہدے کے تحت نہ صرف کانکنی والی جگہ پر چار سو میگاواٹ کا کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ تعمیر کیا جانا تھا۔بلکہ یہاں سے پاکستانی سرحد تک ریلوے لائن بھی بچھانا تھا۔معاہدے کی ایک شق یہ تھی کہ مزدور سے جنرل منیجر تک اسی فیصد آسامیوں پر منصوبے کے آٹھ برس مکمل ہونے کے بعد افغان شہری مقرر کیے جائیں گے۔ کچھ ہی عرصے بعد یہ شرائط چینی کمپنیوں کو کھلنے لگیں۔یوں کام شروع ہوتے ہی ٹھپ ہو گیا۔
خام لوہے کے دو اعشاریہ دو بلین ٹن ذخائر کے اعتبار سے افغانستان چوٹی کے دس ممالک میں شامل ہے۔صوبہ بامیان میں حاجی گک کے مقام پر اعلیٰ معیار کا سترہ سو ملین میٹرک ٹن خام لوہا دبا پڑا ہے۔ موجودہ مارکیٹ ویلیو کے حساب سے ان آہنی ذخائر کی مالیت تقریباً تین سو چالیس ارب ڈالر ہے۔لوہے کے بعد سب سے زیادہ کھپت ایلومینیم کی ہے اور صوبہ نورستان اور قندھار میں ایک سو تراسی ملین ٹن ایلومینیم باہر آنے کا منتظر ہے۔
سنگِ مرمر کے ذخائر ایک اعشاریہ تین بلین ٹن ہیں۔پاکستانی سرحد سے متصل صوبہ ننگرہار کا گلابی مرمر دنیا میں مشہور ہے۔ بدخشاں، ہرات اور بغلان میں پانچ سو ملین ٹن چونے کا پتھر موجود ہے جو تعمیرات میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔
لیتھیم کے ذخائر نورستان میں پائے جاتے ہیں۔یہ ذخائر قابلِ استعمال ہیں مگر حجم اتنا زیادہ نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے۔
صوبہ ہلمند میں قیمتی صنعتی معدنیات (سیریم، لیتھینم، پریسوڈئیم اور نیوڈیمیم وغیرہ ) پائے جاتے ہیں ان کی مقدار ڈیڑھ ملین ٹن بتائی جاتی ہے۔ پریسوڈئیم اور نیوڈیمیم ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیوں کی موٹروں میں استعمال ہوتا ہے۔مانگ زیادہ ہونے کے سبب دونوں دھاتوں کی قیمت آج کے حساب سے پینتالیس ہزار ڈالر فی میٹرک ٹن ہے۔ آنے والے برسوں میں مانگ اور نرخ مسلسل بڑھیں گے۔
دو ہزار انیس کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کی برآمدات کا سالانہ حجم سوا دو ارب ڈالر کے لگ بھگ تھا۔اس میں سے پینتالیس فیصد برآمدات قیمتی پتھروں پر مشتمل تھیں۔اکیانوے فیصد برآمدات صرف تین ممالک کو کی گئیں۔متحدہ عرب امارات (پینتالیس فیصد)، پاکستان ( چوبیس فیصد )، بھارت ( بائیس فیصد )۔
لیکن جس طرح مغربی ممالک طالبانی افغانستان سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔قوی امکان ہے کہ معدنی ذخائر کی ترقی کے اعتبار سے چین اور روس کی کمپنیاں بہت تیزی سے خلا پر کرنے کی کوشش کریں گی۔ وسائل پر زیادہ سے زیادہ تصرف اکیسویں صدی میں جاری رہنے والی سرد جنگ کا نمایاں و اہم باب ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
جب سے دوسری بار طالبان نے کابل سنبھالا ہے۔ ہر دوسرے تیسرے روز سننے کو ملتا ہے کہ افغانستان ایک ٹریلین ڈالر مالیت کے معدنی خزانے پر بیٹھا ہے۔ وہ ذخائر کے اعتبار سے لیتھیم جیسی قیمتی دھات کا سعودی عرب ہے وغیرہ وغیرہ۔ظاہر ہے کہ اس بارے میں سوچ سوچ کر دل ہی دل میں فی الحال بس خوش ہی ہوا جا سکتاہے۔ سرکردہ امریکی ماہرِارضیات اسکاٹ مونٹگمری کے بقول اگر آج اس ارضی ذخیرے کو نکالنے کا کام شروع ہو تو اس سے افغان خزانے میں پہلا ڈالر داخل ہوتے ہوتے کم ازکم سات سے دس برس لگیں گے۔
جن ممالک کی جن معدنی کمپنیوں کے پاس اس خزانے کو قابلِ استعمال بنانے کے تکنیکی وسائل اور سرمایہ ہے وہ کوڑیوں کے مول سودا کر کے اربوں ڈالر بنانے کی شہرت رکھتی ہیں۔مگر ان کی مدد کے بغیر کچھ ہو بھی نہیں سکتا۔گھوم پھر کے وہی چینی ، روسی ، بھارتی ، یورپی اور امریکی کمپنیاں ہیں جو فی الحال خود بھی سرمایہ کاری کی بابت بے یقینی کا شکار ہیں اور نئی حکومت کو بھی نہیں معلوم کہ اسے بالاخر کس ملک کی کس کمپنی کو کس معدن کا ٹھیکہ دینا ہے۔یوں سمجھ لیجیے کہ خربوزہ چھری پر گرے یا چھری خربوزے پر۔کٹنا خربوزے کو ہی ہے۔( ہمارے ہاں اس سلسلے میں ریکوڈیک تانبہ ذخیرے کی مثال دی جاتی ہے)۔
مشرقی شاعری میں لبِ محبوب کے لیے لعلِ بدخشاں کا استعارہ تو کئی بار استعمال ہوا ہے۔مگر کتنے جانتے ہیں کہ معیار کے اعتبار سے وسطی امریکا کے زمرد کے بعد دوسرا نمبر وادیِ پنج شیر کے زمرد کا ہے۔یہاں سے زمرد پہلی عیسوی صدی سے نکالا جا رہا ہے۔اس کے علاوہ افغان یاقوت، ترمولین، لیپز لزوری کے معیار کی شہرت بھی قدیم دور سے ہے۔ان قیمتی پتھروں کی باقاعدہ و بے قاعدہ کانکنی کی تاریخ بھی مسلسل ہے۔
البتہ زیرِ زمین اصل خزانہ خام لوہے ، تانبے ، لیتھیم، کوبالٹ ، باکسائیٹ ، یورینیم اور کروم پر مشتمل ہے۔ان سب دھاتوں کا سرسری تخمینہ توموجود ہے البتہ حتمی اندازہ تب ہی ممکن ہے جب کانکنی کا باقاعدہ جدید ڈھانچہ استوار ہو۔لگ بھگ سو سوا سو برس پہلے جرمنوں اور پھر انگریزوں نے افغان معدنی ذخائر کا ابتدائی سروے کیا۔ اس سلسلے میں سب سے سنجیدہ کوشش انیس سو ساٹھ اور ستر کے عشرے میں سوویت ماہرینِ ارضیات نے کی۔
اسی چھان پھٹک کی بنیاد پر دو ہزار چار تا دو ہزار گیارہ امریکن جیالوجیکل سروے کے ماہرین نے چوبیس مختلف مقامات سے قابلِ عمل تفصیلی مواد جمع کرنے کا کام اور آگے بڑھایا۔افغان حکومت نے اس عرصے میں چند بھارتی و چینی کمپنیوں کو معدنی تلاش کے حقوق بھی تفویض کیے لیکن ملک کی عمومی بے یقین فضا ، کرپشن اور ٹھیکوں سے متعلق کچھ سمجھوتہ جاتی شقوں اور منافع کی تقسیم کے فارمولے پر اتفاق نہ ہونے کے سبب کانکنی ابتدائی مرحلے سے آگے نہ بڑھ پائی۔
دستیاب معلومات کے مطابق افغانستان میں تانبے کے اٹھاون ملین ٹن ذخائر موجود ہیں۔ان کی موجودہ مالیت پانچ سو بیس ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔اس ذخیرے کی بنیاد پر افغانستان کا شمار تانبے کی فہرست میں پانچ چوٹی کے ممالک میں ہوتا ہے۔
تانبے کا سب سے بڑا ذخیرہ ( ساڑھے گیارہ ملین ٹن ) کابل کے جنوب مشرق میں عینک کے مقام پر پایا جاتا ہے۔ان ذخائر میں کوبالٹ کی بھی اچھی خاصی مقدار ہے۔سوویت یونین نے افغانستان پر دس سالہ قبضے کے دوران اس علاقے میں کھدائی کی کوشش بھی کی مگر سوویت انخلا کے نتیجے میں کام بھی معطل ہو گیا۔
کئی برس بعد دو ہزار سات میں کرزئی حکومت نے دو چینی کمپنیوں کو عینک میں تانبے کے ذخیرے کے ایک حصے کی کانکنی اور اسے قابلِ استعمال بنانے کے ضمن میں تیس برس کے لیے تین ارب ڈالر کا ٹھیکہ دے دیا۔اس معاہدے کے تحت نہ صرف کانکنی والی جگہ پر چار سو میگاواٹ کا کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ تعمیر کیا جانا تھا۔بلکہ یہاں سے پاکستانی سرحد تک ریلوے لائن بھی بچھانا تھا۔معاہدے کی ایک شق یہ تھی کہ مزدور سے جنرل منیجر تک اسی فیصد آسامیوں پر منصوبے کے آٹھ برس مکمل ہونے کے بعد افغان شہری مقرر کیے جائیں گے۔ کچھ ہی عرصے بعد یہ شرائط چینی کمپنیوں کو کھلنے لگیں۔یوں کام شروع ہوتے ہی ٹھپ ہو گیا۔
خام لوہے کے دو اعشاریہ دو بلین ٹن ذخائر کے اعتبار سے افغانستان چوٹی کے دس ممالک میں شامل ہے۔صوبہ بامیان میں حاجی گک کے مقام پر اعلیٰ معیار کا سترہ سو ملین میٹرک ٹن خام لوہا دبا پڑا ہے۔ موجودہ مارکیٹ ویلیو کے حساب سے ان آہنی ذخائر کی مالیت تقریباً تین سو چالیس ارب ڈالر ہے۔لوہے کے بعد سب سے زیادہ کھپت ایلومینیم کی ہے اور صوبہ نورستان اور قندھار میں ایک سو تراسی ملین ٹن ایلومینیم باہر آنے کا منتظر ہے۔
سنگِ مرمر کے ذخائر ایک اعشاریہ تین بلین ٹن ہیں۔پاکستانی سرحد سے متصل صوبہ ننگرہار کا گلابی مرمر دنیا میں مشہور ہے۔ بدخشاں، ہرات اور بغلان میں پانچ سو ملین ٹن چونے کا پتھر موجود ہے جو تعمیرات میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔
لیتھیم کے ذخائر نورستان میں پائے جاتے ہیں۔یہ ذخائر قابلِ استعمال ہیں مگر حجم اتنا زیادہ نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے۔
صوبہ ہلمند میں قیمتی صنعتی معدنیات (سیریم، لیتھینم، پریسوڈئیم اور نیوڈیمیم وغیرہ ) پائے جاتے ہیں ان کی مقدار ڈیڑھ ملین ٹن بتائی جاتی ہے۔ پریسوڈئیم اور نیوڈیمیم ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیوں کی موٹروں میں استعمال ہوتا ہے۔مانگ زیادہ ہونے کے سبب دونوں دھاتوں کی قیمت آج کے حساب سے پینتالیس ہزار ڈالر فی میٹرک ٹن ہے۔ آنے والے برسوں میں مانگ اور نرخ مسلسل بڑھیں گے۔
دو ہزار انیس کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کی برآمدات کا سالانہ حجم سوا دو ارب ڈالر کے لگ بھگ تھا۔اس میں سے پینتالیس فیصد برآمدات قیمتی پتھروں پر مشتمل تھیں۔اکیانوے فیصد برآمدات صرف تین ممالک کو کی گئیں۔متحدہ عرب امارات (پینتالیس فیصد)، پاکستان ( چوبیس فیصد )، بھارت ( بائیس فیصد )۔
لیکن جس طرح مغربی ممالک طالبانی افغانستان سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔قوی امکان ہے کہ معدنی ذخائر کی ترقی کے اعتبار سے چین اور روس کی کمپنیاں بہت تیزی سے خلا پر کرنے کی کوشش کریں گی۔ وسائل پر زیادہ سے زیادہ تصرف اکیسویں صدی میں جاری رہنے والی سرد جنگ کا نمایاں و اہم باب ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)