بھارت الزام تراشی سے گریز کرے
بدلتی دنیا کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں دشمنی اور عناد کا راستہ ترک کرنا ہو گا
ایک جانب تو اس خطے میں رہنے والے دو پڑوسی ممالک کے درمیان امن کی آس لگائے بیٹھے ہیں تو دوسری جانب ایک بار پھر پاکستان پر الزام تراشی کی روش کو اپناتے ہوئے بھارتی خارجہ سیکریٹری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کے مراکز موجود ہیں، دہشتگردی کے سائے تلے مذاکرات شروع نہیں ہو سکتے، بھارت ممبئی حملوں کو بھول کر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ نئی دہلی میں پاکستانی صحافیوں سے گفتگو کے دوران بھارتی خارجہ سیکریٹری سجاتا سنگھ کے خیالات کی روداد پڑھ کر امن کے خواہش مند لوگوں کو صدمہ ہوا ہے کہ آخر کار کب تک دشمنی کی ناپائیدار روش کو اپناتے ہوئے یہ سلسلہ چلے گا، بھارت اور پاکستان تین بار نبردآزما ہو چکے ، سوائے بربادی کے کیا ہاتھ لگا ۔ ماضی کی سیاسی قیادت میں فہم و فراست ہوتی یا بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کا پاس ہوتا تو مسئلہ کشمیر کب کا حل ہو چکا ہوتا۔
بھارت کا یہ اعتراف کہ مسئلہ کشمیر کا حل اس کے مفاد میں ہے خود اس کی دہری پالیسیوں کا مظہر ہے۔بھارت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مذاکرات کی میز پر بیٹھے بغیر مسائل کا پائیدار اور دیرپا حل نہیں نکل سکتا۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے انتہائی خلوص نیت سے بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے، اس کو جھٹکنے کی بجائے ہاتھ سے ہاتھ گرمجوشی سے ملایا جانا چاہیے، دہشتگردی دونوں ممالک کا مسئلہ ہے، اس عفریت کا سر کچلنے کے لیے دونوں ممالک کو مشترکہ میکنزم تشکیل دینا ہو گا، غیر ریاستی عناصر دونوں ممالک کی قومی سلامتی کو نقصان پہنچا رہے ہیں لیکن اپنی ناکامی کو چھپانے کی خاطر الزام تراشی کی علت امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جائے گی۔
اگر بھارت میں علیحدگی پسند تحریکیں متعدد صوبوں میں چل رہی ہیں تو کیا ان میں پاکستان ملوث ہے، ہرگز نہیں۔ بمبئی حملوں کو نہ بھولنے کا دعویٰ کرنیوالی بھارتی سیکریٹری خارجہ کس منہ سے بلوچستان میں اپنی مداخلت کو جھٹلا رہی ہیں۔ کنٹرول لائن پر پری پلان کشیدگی میں اضافہ کس کی سازش اور شرارت تھی، جس کا مقصد دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی ملاقات کو ملتوی کرانا تھا، بھارت پاکستان سے کئی گنا بڑا ملک ہے، پاکستان جیسے چھوٹے ملک سے اسے بھلا کیا خطرہ ہو سکتا ہے، اسلحے کی دوڑ اور انبار لگانے کی خواہش نے بھارت اور پاکستان میں غربت، بیروزگاری اور دیگر انسانی المیوں کو جنم دیا ہے، اگر دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو یقیناً بے پناہ فوجی اخراجات میں کمی ہو گی جس کے باعث ڈیڑھ ارب سے زائد انسانوں کی فلاح، صحت و صفائی اور غذا کی ضروریات کو پوری کرنے میں بھرپور مدد ملے گی۔
بدلتی دنیا کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں دشمنی اور عناد کا راستہ ترک کرنا ہو گا اور باورد کی بو کی بجائے دوستی کے پھول کھلانے ہونگے تا کہ خطے میں امن قائم ہو سکے، بھائی چارہ ہو تو باہمی تجارت کو بھی فروغ حاصل ہو گا، جب گلے ملیں گے تو گلے شکوے جاتے رہیں گے ایک دوسرے کے لیے محبت اور احترام کے جذبات پیدا ہونگے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کا چلن عام ہو گا اور دونوں ملکوں کی سلامتی کو دوام ملے گا۔
بھارت کا یہ اعتراف کہ مسئلہ کشمیر کا حل اس کے مفاد میں ہے خود اس کی دہری پالیسیوں کا مظہر ہے۔بھارت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مذاکرات کی میز پر بیٹھے بغیر مسائل کا پائیدار اور دیرپا حل نہیں نکل سکتا۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے انتہائی خلوص نیت سے بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے، اس کو جھٹکنے کی بجائے ہاتھ سے ہاتھ گرمجوشی سے ملایا جانا چاہیے، دہشتگردی دونوں ممالک کا مسئلہ ہے، اس عفریت کا سر کچلنے کے لیے دونوں ممالک کو مشترکہ میکنزم تشکیل دینا ہو گا، غیر ریاستی عناصر دونوں ممالک کی قومی سلامتی کو نقصان پہنچا رہے ہیں لیکن اپنی ناکامی کو چھپانے کی خاطر الزام تراشی کی علت امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جائے گی۔
اگر بھارت میں علیحدگی پسند تحریکیں متعدد صوبوں میں چل رہی ہیں تو کیا ان میں پاکستان ملوث ہے، ہرگز نہیں۔ بمبئی حملوں کو نہ بھولنے کا دعویٰ کرنیوالی بھارتی سیکریٹری خارجہ کس منہ سے بلوچستان میں اپنی مداخلت کو جھٹلا رہی ہیں۔ کنٹرول لائن پر پری پلان کشیدگی میں اضافہ کس کی سازش اور شرارت تھی، جس کا مقصد دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی ملاقات کو ملتوی کرانا تھا، بھارت پاکستان سے کئی گنا بڑا ملک ہے، پاکستان جیسے چھوٹے ملک سے اسے بھلا کیا خطرہ ہو سکتا ہے، اسلحے کی دوڑ اور انبار لگانے کی خواہش نے بھارت اور پاکستان میں غربت، بیروزگاری اور دیگر انسانی المیوں کو جنم دیا ہے، اگر دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو یقیناً بے پناہ فوجی اخراجات میں کمی ہو گی جس کے باعث ڈیڑھ ارب سے زائد انسانوں کی فلاح، صحت و صفائی اور غذا کی ضروریات کو پوری کرنے میں بھرپور مدد ملے گی۔
بدلتی دنیا کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں دشمنی اور عناد کا راستہ ترک کرنا ہو گا اور باورد کی بو کی بجائے دوستی کے پھول کھلانے ہونگے تا کہ خطے میں امن قائم ہو سکے، بھائی چارہ ہو تو باہمی تجارت کو بھی فروغ حاصل ہو گا، جب گلے ملیں گے تو گلے شکوے جاتے رہیں گے ایک دوسرے کے لیے محبت اور احترام کے جذبات پیدا ہونگے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کا چلن عام ہو گا اور دونوں ملکوں کی سلامتی کو دوام ملے گا۔