ایک خطرناک شوشہ
زمین پر موجود اثاثوں کی طرح زمین بھی فروخت ہونے لگے تو پھر گویا ہم نے وطن عزیز پر برائے فروخت کا بورڈ لٹکا دیا ہے
لاہور:
غیر سرکاری اور غیر رسمی طور پر پاکستان کو یہ پیش کش کی گئی ہے کہ وہ سعودی عرب کو 99 سال کی لیز پر ایک لاکھ ایکڑ زمین دے دے اور اس کے عوض روزانہ یعنی ہر روز اسے ڈھائی لاکھ بیرل پٹرول دیا جائے گا۔ یہ حیران کن پیش کش اگرچہ کسی پرائیویٹ کنٹریکٹر نے کی ہے لیکن سعودی عرب کی ضرورت اور دولت کو دیکھیں اور ہماری حکومت کی قومی اثاثوں کو فروخت کرنے کی پر جوش پالیسیوں کو دیکھیں تو ایک پاکستانی گھبرا جاتا ہے۔ اگر زمین پر موجود اثاثوں کی طرح زمین بھی فروخت یعنی 99 سالہ لیز پر دی جانے لگے تو پھر گویا ہم نے وطن عزیز پر برائے فروخت کا بورڈ لٹکا دیا ہے۔
سعودی عرب کے ساتھ جذباتی رشتے اپنی جگہ لیکن کیا وہ کسی پاکستانی کو صرف شہریت دینے کے لیے بھی تیار ہے ہرگز نہیں۔ ایک زمانے میں جب سوویت یونین نے بخارا جیسے اسلامی شہر پر قبضہ کر لیا تھا تو وہاں کے باشندے پناہ کی خاطر سعودی عرب پہنچے۔ ان کو قیام کی اجازت تو دے دی گئی لیکن سعودی عرب کی شہریت نہیں دی گئی البتہ بخارا کے ایک خاندان کو مسجد نبوی میں اذان کی مستقل اجازت دی گئی اور یہ بخاری شیخ آج تک مسجد نبوی کے موذن کے اعزاز کے مالک ہیں۔ مدینہ منورہ میں ان کا ایک محلہ بھی غالباً بخاری محلہ کے نام سے آباد ہے لیکن یہاں کے مقیم بخاری مہاجر سعودی شہری نہیں ہیں۔ پاکستانی بھی اپنے جگر کے کتنے ہی ٹکڑے کیوں نہ کاٹ کر سعودیوں کو دے دیں وہ صرف پاکستانی ہی رہیں گے۔ ہمارے ایک بھائی فضل حسین اعوان نے اس شوشے کی بر وقت نشاندہی کر دی ہے۔ اس سے پہلے خبر کی صورت میں بھی یہ پیش کش اخبارات میں چھپ چکی ہے لیکن یہ اتنی معمولی گالی نہیں کہ اسے چپکے سے برداشت کر لیا جائے خواہ یہ ایک افواہ کی صورت میں بھی کیوں نہ ہو۔ ایسے تو لطیفے بھی قابل برداشت نہیں ہوتے کجا کہ پاکستانی اخباروں میں نمایاں کر کے اس پیش کش کو چھاپا جائے۔
اس خبر پر کالم اس خوف اور اندیشے کی وجہ سے لکھے جا رہے ہیں کہ نہ صرف اس متوقع سانحہ کا امکان ختم کیا جائے بلکہ حکومت کی اس طرف توجہ بھی دلائی جائے کہ جب قومی اثاثے بیچنے کے منصوبے اور پروگرام جیسے بار بار اعلانات کیے جائیں تو ان کے نتیجے میں کیسے کیسے سانحے سامنے آتے ہیں۔ خدا کرے میرے ہاتھ ٹوٹ جائیں جن سے میں یہ سب لکھ رہا ہوں لیکن اس کے پس منظر میں سوائے بے انتہاء پاکستانیت کے اور کچھ نہیں۔ خدا وہ وقت نہ لائے کہ ہم اللہ اور رسولؐ کے نام پر بنائے گئے اس ملک کو ٹکڑوں میں فروخت کرنا شروع کر دیں۔ شاید مشرقی پاکستان کے جانے پر صبر کر لینے کا یہ نتیجہ اور شاخسانہ ہو۔ پاکستان کی شکست و ریخت کو عالم اسلام کے لیے قابل قبول بنانے کی غرض سے ایک اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور میں منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس کے دوران جمعہ کا ایک دن بھی آیا۔ جمعہ کی نماز بادشاہی مسجد میں ادا کی گئی۔ میں کوشش کر کے شاہ فیصل شہید کے قریب کھڑا ہو گیا کہ نماز میں محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میں نے دعا کے وقت اس عرب حکمران کی آنکھوں سے آنسو گرتے دیکھے۔ اس حکمران کے احترام کا یہ عالم تھا کہ یہ جب کانفرنس کے کسی اجلاس میں شرکت کے لیے اسمبلی ہال میں داخل ہوتا تو دوسرے مسلمان حکمران احتراماً راستے سے ہٹ کر کھڑے ہو جاتے۔ اس حکمران کے لیے پاکستان کا ٹوٹنا ایک دلخراش سانحہ تھا اور شاید اس کی وجہ سے وہ بچے کھچے پاکستان کی سر زمین پر سجدہ ریز ہوتے ہوئے رو رہا تھا۔
ہم پاکستانی اس سر زمین کے لیے زندگیاں قربان کرنے پر تیار ہیں۔ ہماری فوج کیوں ہے اس لیے کہ وہ اس ملک کے چپے چپے کی حفاظت میں جانیں تک قربان کر دے اور ہمارا ایٹم بم کس لیے ہے اسی ملک کی حفاظت کے لیے۔ اس سر زمین کی حفاظت کے لیے جیسے اس کا کوئی والی وارث نہ ہو اور جس کی جیب میں سکے ہوں وہ اس کے کسی حصے کو ضرورت کے مطابق خرید لے۔ آپ سوچئے کہ یہ 99 سال کے لیے لیز کیا ہوتی ہے۔ حکومتیں اپنے لوگوں کو بعض حالات میں اتنے عرصے کی لیز پر کوئی جائیداد دے دیتی ہیں لیکن اس میں بھی ایک شق ہوتی ہے کہ حکومت کسی بھی وقت قومی ضرورت کے لیے اس لیز کو ختم کر سکتی ہے۔ مجھے یقین نہیں اور نہ ہی اس وقت معلومات ہیں کہ برطانوی حکومت نے مقامی لوگوں کو یہ جاگیریں اور مربعے سب اس طویل المیعاد کی لیز پر دیے ہیں۔ مغلوں کے دور میں تمام زمین حکومت کی ملکیت تھی اور بادشاہ اس کا مالک تھا۔ یہی ملکیت برطانوی حکومت کو منتقل ہوئی جو لیز تھی بہر حال لیز سو سال کی ہو یا ایک دن کی' اپنے وطن عزیز کا ناخن برابر ٹکڑا بھی کون دے سکتا ہے۔
مجھے یقین ہونا چاہیے کہ ہماری حکومت کے بڑے اپنے ملک کی جان سے زیادہ حفاظت کرتے ہیں اور وہ ایسی نادانی کسی غلط فہمی میں بھی نہیں کر سکتے کہ اپنی زمین کا اتنا بڑا ٹکڑا گویا عمر بھر کے لیے لیز پر دے دیں۔ ہمارے ملک میں ایسے کتنے غیر آباد ٹکڑے پڑے ہیں جنھیں ہم آباد نہیں کر سکے اور اب تو بھارت نے ہمارا پانی بھی بند کرنا شروع کر دیا ہے جس سے آبادی کے امکانات بہت کم ہو گئے ہیں۔ کہیں کوئی ایسا ہی چکر تو نہیں کہ کسی ہوشیار اور بااثر کاروباری ادارے کو یہ سوجھی ہو اور سعودی عرب کی آنے والی مجبوری کی وجہ سے اس نے یہ چکر چلایا ہو۔ سعودی عرب کے پاس پٹرول تو بہت ہے مگر کھانے کے لیے اناج نہیں ہے اور اس کی متوقع قلت ہی اسے زمین تلاش کرنے کی تحریک دے رہی ہے۔ بہرحال ابھی تو اس خبر کو محض ایک شوشہ ہی سمجھیں لیکن آج کے کاروباری دور میں کچھ بھی ہو سکتا ہے چوکنا رہنا ضروری ہے۔ تاجر اور بیوپاری کچھ بھی کر سکتے ہیں اور عوام کے لیے دام ہمرنگ زمین بچھا کر انھیں کوئی خوبصورت فریب دے سکتے ہیں۔ ایسی تو کوئی افواہ بھی نہیں سننی چاہیے۔ رپورٹنگ کے زمانے میں مجھے ایڈیٹر نے ایک بار کہا کہ ہر افواہ خواہ وہ غلط بھی دکھائی دیتی ہو اس کے پیچھے کہیں تھوڑی بہت سچائی ضرور ہوتی ہے اسے تلاش کرو جو اصل خبر ہو گی تو جناب میں اب تو ذرا ذرا سی بات سے ڈر جاتا ہوں خدا خیر کرے۔
غیر سرکاری اور غیر رسمی طور پر پاکستان کو یہ پیش کش کی گئی ہے کہ وہ سعودی عرب کو 99 سال کی لیز پر ایک لاکھ ایکڑ زمین دے دے اور اس کے عوض روزانہ یعنی ہر روز اسے ڈھائی لاکھ بیرل پٹرول دیا جائے گا۔ یہ حیران کن پیش کش اگرچہ کسی پرائیویٹ کنٹریکٹر نے کی ہے لیکن سعودی عرب کی ضرورت اور دولت کو دیکھیں اور ہماری حکومت کی قومی اثاثوں کو فروخت کرنے کی پر جوش پالیسیوں کو دیکھیں تو ایک پاکستانی گھبرا جاتا ہے۔ اگر زمین پر موجود اثاثوں کی طرح زمین بھی فروخت یعنی 99 سالہ لیز پر دی جانے لگے تو پھر گویا ہم نے وطن عزیز پر برائے فروخت کا بورڈ لٹکا دیا ہے۔
سعودی عرب کے ساتھ جذباتی رشتے اپنی جگہ لیکن کیا وہ کسی پاکستانی کو صرف شہریت دینے کے لیے بھی تیار ہے ہرگز نہیں۔ ایک زمانے میں جب سوویت یونین نے بخارا جیسے اسلامی شہر پر قبضہ کر لیا تھا تو وہاں کے باشندے پناہ کی خاطر سعودی عرب پہنچے۔ ان کو قیام کی اجازت تو دے دی گئی لیکن سعودی عرب کی شہریت نہیں دی گئی البتہ بخارا کے ایک خاندان کو مسجد نبوی میں اذان کی مستقل اجازت دی گئی اور یہ بخاری شیخ آج تک مسجد نبوی کے موذن کے اعزاز کے مالک ہیں۔ مدینہ منورہ میں ان کا ایک محلہ بھی غالباً بخاری محلہ کے نام سے آباد ہے لیکن یہاں کے مقیم بخاری مہاجر سعودی شہری نہیں ہیں۔ پاکستانی بھی اپنے جگر کے کتنے ہی ٹکڑے کیوں نہ کاٹ کر سعودیوں کو دے دیں وہ صرف پاکستانی ہی رہیں گے۔ ہمارے ایک بھائی فضل حسین اعوان نے اس شوشے کی بر وقت نشاندہی کر دی ہے۔ اس سے پہلے خبر کی صورت میں بھی یہ پیش کش اخبارات میں چھپ چکی ہے لیکن یہ اتنی معمولی گالی نہیں کہ اسے چپکے سے برداشت کر لیا جائے خواہ یہ ایک افواہ کی صورت میں بھی کیوں نہ ہو۔ ایسے تو لطیفے بھی قابل برداشت نہیں ہوتے کجا کہ پاکستانی اخباروں میں نمایاں کر کے اس پیش کش کو چھاپا جائے۔
اس خبر پر کالم اس خوف اور اندیشے کی وجہ سے لکھے جا رہے ہیں کہ نہ صرف اس متوقع سانحہ کا امکان ختم کیا جائے بلکہ حکومت کی اس طرف توجہ بھی دلائی جائے کہ جب قومی اثاثے بیچنے کے منصوبے اور پروگرام جیسے بار بار اعلانات کیے جائیں تو ان کے نتیجے میں کیسے کیسے سانحے سامنے آتے ہیں۔ خدا کرے میرے ہاتھ ٹوٹ جائیں جن سے میں یہ سب لکھ رہا ہوں لیکن اس کے پس منظر میں سوائے بے انتہاء پاکستانیت کے اور کچھ نہیں۔ خدا وہ وقت نہ لائے کہ ہم اللہ اور رسولؐ کے نام پر بنائے گئے اس ملک کو ٹکڑوں میں فروخت کرنا شروع کر دیں۔ شاید مشرقی پاکستان کے جانے پر صبر کر لینے کا یہ نتیجہ اور شاخسانہ ہو۔ پاکستان کی شکست و ریخت کو عالم اسلام کے لیے قابل قبول بنانے کی غرض سے ایک اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور میں منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس کے دوران جمعہ کا ایک دن بھی آیا۔ جمعہ کی نماز بادشاہی مسجد میں ادا کی گئی۔ میں کوشش کر کے شاہ فیصل شہید کے قریب کھڑا ہو گیا کہ نماز میں محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میں نے دعا کے وقت اس عرب حکمران کی آنکھوں سے آنسو گرتے دیکھے۔ اس حکمران کے احترام کا یہ عالم تھا کہ یہ جب کانفرنس کے کسی اجلاس میں شرکت کے لیے اسمبلی ہال میں داخل ہوتا تو دوسرے مسلمان حکمران احتراماً راستے سے ہٹ کر کھڑے ہو جاتے۔ اس حکمران کے لیے پاکستان کا ٹوٹنا ایک دلخراش سانحہ تھا اور شاید اس کی وجہ سے وہ بچے کھچے پاکستان کی سر زمین پر سجدہ ریز ہوتے ہوئے رو رہا تھا۔
ہم پاکستانی اس سر زمین کے لیے زندگیاں قربان کرنے پر تیار ہیں۔ ہماری فوج کیوں ہے اس لیے کہ وہ اس ملک کے چپے چپے کی حفاظت میں جانیں تک قربان کر دے اور ہمارا ایٹم بم کس لیے ہے اسی ملک کی حفاظت کے لیے۔ اس سر زمین کی حفاظت کے لیے جیسے اس کا کوئی والی وارث نہ ہو اور جس کی جیب میں سکے ہوں وہ اس کے کسی حصے کو ضرورت کے مطابق خرید لے۔ آپ سوچئے کہ یہ 99 سال کے لیے لیز کیا ہوتی ہے۔ حکومتیں اپنے لوگوں کو بعض حالات میں اتنے عرصے کی لیز پر کوئی جائیداد دے دیتی ہیں لیکن اس میں بھی ایک شق ہوتی ہے کہ حکومت کسی بھی وقت قومی ضرورت کے لیے اس لیز کو ختم کر سکتی ہے۔ مجھے یقین نہیں اور نہ ہی اس وقت معلومات ہیں کہ برطانوی حکومت نے مقامی لوگوں کو یہ جاگیریں اور مربعے سب اس طویل المیعاد کی لیز پر دیے ہیں۔ مغلوں کے دور میں تمام زمین حکومت کی ملکیت تھی اور بادشاہ اس کا مالک تھا۔ یہی ملکیت برطانوی حکومت کو منتقل ہوئی جو لیز تھی بہر حال لیز سو سال کی ہو یا ایک دن کی' اپنے وطن عزیز کا ناخن برابر ٹکڑا بھی کون دے سکتا ہے۔
مجھے یقین ہونا چاہیے کہ ہماری حکومت کے بڑے اپنے ملک کی جان سے زیادہ حفاظت کرتے ہیں اور وہ ایسی نادانی کسی غلط فہمی میں بھی نہیں کر سکتے کہ اپنی زمین کا اتنا بڑا ٹکڑا گویا عمر بھر کے لیے لیز پر دے دیں۔ ہمارے ملک میں ایسے کتنے غیر آباد ٹکڑے پڑے ہیں جنھیں ہم آباد نہیں کر سکے اور اب تو بھارت نے ہمارا پانی بھی بند کرنا شروع کر دیا ہے جس سے آبادی کے امکانات بہت کم ہو گئے ہیں۔ کہیں کوئی ایسا ہی چکر تو نہیں کہ کسی ہوشیار اور بااثر کاروباری ادارے کو یہ سوجھی ہو اور سعودی عرب کی آنے والی مجبوری کی وجہ سے اس نے یہ چکر چلایا ہو۔ سعودی عرب کے پاس پٹرول تو بہت ہے مگر کھانے کے لیے اناج نہیں ہے اور اس کی متوقع قلت ہی اسے زمین تلاش کرنے کی تحریک دے رہی ہے۔ بہرحال ابھی تو اس خبر کو محض ایک شوشہ ہی سمجھیں لیکن آج کے کاروباری دور میں کچھ بھی ہو سکتا ہے چوکنا رہنا ضروری ہے۔ تاجر اور بیوپاری کچھ بھی کر سکتے ہیں اور عوام کے لیے دام ہمرنگ زمین بچھا کر انھیں کوئی خوبصورت فریب دے سکتے ہیں۔ ایسی تو کوئی افواہ بھی نہیں سننی چاہیے۔ رپورٹنگ کے زمانے میں مجھے ایڈیٹر نے ایک بار کہا کہ ہر افواہ خواہ وہ غلط بھی دکھائی دیتی ہو اس کے پیچھے کہیں تھوڑی بہت سچائی ضرور ہوتی ہے اسے تلاش کرو جو اصل خبر ہو گی تو جناب میں اب تو ذرا ذرا سی بات سے ڈر جاتا ہوں خدا خیر کرے۔