اعتماد کی طاقت
پاکستان کے عوام آج جو کمزور، لاغر، منقسم، خوفزدہ، ڈرے ہوئے نظر آتے ہیں۔۔۔
لارڈ بولنگ بروک کا یہ مقولہ کتنا سچا ہے کہ دوسروں کے متعلق بدظن رہنا گندی طبیعت اور پراگندہ روح کی کھلی پہچان ہے۔ اعتماد سے ایک دو آدمی نہیں بلکہ قوموں کی قومیں سدھر گئیں ہیں۔ پچھلی صدی کے آخر تک برطانیہ میں دستور تھا کہ سرکاری عمارتوں مثلاً عجائب خانوں میں عوام کو بلاروک ٹوک آزادانہ پھر نے کی اجازت نہ تھی۔ تمام تاریخی عمارتیں بند پڑی رہتی تھیں، صرف وہ آدمی جو افسران بالا سے خصوصی اجازت نامے حاصل کرلیتے یا فیس کی رقم ادا کرسکتے وہاں سیر کرنے کے لیے داخل ہوسکتے تھے۔ برٹش میوزیم، نیشنل گیلری، کلیسائے سینٹ پال، قلعہ ونڈسر، ویسٹ منسٹر، ایوان پارلیمنٹ، قومی مرقع خانے، غرض ہر قابل دید عمارت کے دروازے عوام پر بند تھے۔
ارباب حکومت کا خیال تھا کہ اگر عام آدمی ان میں آزادانہ داخل ہونے لگیں گے تو لکڑیوں اور پتھروں پر لکھ کر، دیواریں کھرچ کر اور فرش کو گندا کرکے ان قابل احترام عمارتوں کا حلیہ بگاڑ ڈالیں گے۔ اس کے خلاف سب سے پہلے جوزف ہیوم نے آواز اٹھائی۔ پارلیمنٹ میں اس تحریک کے متعلق بڑی لے دے ہوئی۔ اکثر ارکان کا خیال تھا کہ اگر تاریخی عمارتوں کے دروازے عوام کے لیے کھول دیے جائیں تو اس سے انھیں ناقابل تلافی نقصان پہنچ جائے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں رکھی ہوئی بیش قیمت چیزیں چوری ہوجائیں گی۔ بہرحال بڑی بحث کے بعد جوزف ہیوم کی تحریک کامیاب ہوگئی، سب سے پہلے بطور تجربہ برٹش میوزیم میں عام داخلے کا اعلان ہوا، پھر بھی اتنی احتیاط ملحوظ رکھی گئی کہ ایک وقت میں پانچ چھ آدمیوں کو داخلے کی اجازت دی جاتی تھی، جن کے ساتھ نگہبانی کے لیے ایک سپاہی تعینات رہتا تھا تاکہ اگر کوئی آدمی تاریخی یادگاروں کو نقصان پہنچانا چاہے تو وہ اسے گرفتار کرلے۔
رفتہ رفتہ برٹش میوزیم میں داخل ہونے والوں سے ہر قسم کی پابندی یا نگرانی ہٹادی گئی، اس کے بعد ہر طبقے، ہر پیشے کے آدمیوں کو اجازت دے دی گئی کہ وہ وقت معینہ کے اندر جب ان کا جی چاہے آزادانہ آئیں اور اپنی قومی دولت کو دیکھیں۔ جس دن یہ اعلان ہوا اس روز اکتیس ہزار پانچ سو آدمی برٹش میوزیم کی سیر کرنے کے لیے آئے۔ لارڈ اسٹینلے اس آزادی کے سب سے بڑے مخالف تھے لیکن جب انھوں نے میوزیم کا اس روز کے اختتام پر معائنہ کیا تو دیکھا کہ کسی چیز کو ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ اگلے دن انھوں نے پارلیمنٹ میں بڑے مستقل لہجے میں یہ بیان کیا کہ اس سے پہلے میں ڈرتا تھا کہ کھلی اجازت بہت نقصان دہ ثابت ہوگی لیکن اب یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کل ساڑھے اکتیس ہزار آدمی برٹش میوزیم میں داخل ہوئے اور کسی چیز کا رتی برابر نقصان نہیں ہوا۔
لارڈ اسٹینلے کی حیرانی بے جا تھی، عوام کے اس بااحتیاط اور شریفانہ رویے کا راز صرف اس بات میں پوشیدہ تھا کہ حکومت نے ان پر اعتماد کیا تھا، لہٰذا خودبخود ان کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اپنے تئیں اعتماد کا اہل ثابت کرکے دکھا دیں۔ ہیوم نے اپنی کوششیں جاری رکھیں، نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے لیے تمام تاریخی اور قابل دید عمارتوں کے دروازے یکے بعد دیگرے کھلتے چلے گئے۔ یہ تحریک لندن کے بعد دیگر شہروں میں بھی پھیل گئی۔ 1851 کی عظیم الشان نمائش میں بھی عوام نے اسی بلند کرداری کا ثبوت دیا۔ پارلیمنٹ میں یہ سوال اٹھا تھا کہ اس موقع پر قصر بلوریں کے اردگرد فو ج کا پہرہ لگا دیا جائے یا نہیں؟ تھوڑی سی بحث کے بعد یہ طے ہوا کہ اس احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نمائش کے دوران لاکھوں آدمی اندر داخل ہوئے لیکن نہ کوئی چیز چوری ہوئی، نہ کسی شے کا رتی بھر نقصان ہوا۔ پست اخلاقی کو شکست دینے کے لیے اعتماد بہترین حربہ ہے۔ قانون پسندی و نصیحت، وعظ و تلقین سب اپنی جگہ لیکن کسی شخص میں بلند کرداری اور ذمے داری پیدا کرنے کی عمدہ ترین ترکیب یہ ہے کہ اس پر اعتماد کیا جائے اور اسے یہ سمجھنے کا موقع دیا جائے کہ ہم اس پر اعتبار کرتے ہیں، یعنی دوسرے لفظو ں میں اس کی عزت نفس کو تسلیم کرتے ہیں۔ انسان کے خوابیدہ، زنگ آلود ضمیر کو جگانے کی یہ ہی ایک صورت ہے کہ اسے اختیارات و حقوق دے کر اس کے دل میں عزت نفس کا شعور پیدا کردیا جائے۔
انسان پر اعتماد کرو، یہ وہ مقولہ ہے جس کی سچائی ہمیشہ ہی سے تسلیم کی گئی ہے۔ انسان اعتماد کے سہارے چلتے ہیں، بینائی کے سہارے نہیں۔ میدان جنگ میں مورچے پر ڈٹے ایک بہادر سپاہی کا یہ قول زندگی کی جنگ میں مصروف پاکستانیوں کے لیے بہت اہم ہے کہ جنگ میں بندوق نہیں لڑتی اسے تھامنے والے فوجی کا دل لڑتا ہے اور دل بھی نہیں اس دل میں موجود اس کا اعتماد لڑتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ کس بات نے نپولین کو اپنے دور کا سب سے عظیم فاتح بنایا؟ پہلی بات تو یہ کہ اسے اپنے آپ پر مکمل اعتماد تھا، اسے اپنی قسمت پر مکمل یقین تھا، اسے اس بات کا مکمل بھروسہ تھا کہ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوسکتی یا کوئی ایسی صورت حال نہیں ہے جس کا حل اس کے پاس مو جود نہیں ہے لیکن جیسے ہی اس نے اپنا اعتماد کھویا، جب وہ کئی ہفتوں تک اس کشمکش میں مبتلا رہا کہ آیا آگے بڑھنا چاہیے یا پیچھے مڑجانا چاہیے، کیونکہ وہ سردیوں میں ماسکو میں پھنس گیا تھا، حالانکہ قدرت نے پہلے پہل اسے بھر پور موقع دیا تھا، اس مرتبہ برف باری پورے ایک مہینے دیر سے شروع ہوئی لیکن چونکہ نپولین ہچکچا رہا تھا، اس لیے وہ جنگ ہار گیا۔ ایسا نہیں کہ اسے برف باری کی وجہ سے شکست ہوئی اور نہ ہی وہ روسیوں کی وجہ سے ہارا بلکہ اس کو اس کے خوف نے ہرایا۔ امریکا، یورپ اور دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کی ترقی، خوشحالی، استحکام، امن کے پیچھے صرف ایک ہی راز پوشیدہ ہے اور وہ ہے کہ انھوں نے صرف اپنے عوام پر اعتماد کیا اور انھیں اعتماد دیا۔ جب کہ پاکستان سمیت دنیا کے وہ ممالک جو بدحالی، غربت، افلاس، عدم برداشت، دہشت گردی، بدامنی میں اپنی مثال آپ ہیں، وہاں کے کرتا دھرتاؤں نے کبھی بھی اپنے عوام پر نہ تو اعتماد کیا اور نہ ہی انھیں اعتماد دیا۔ ان کی اپنے عوام کے بارے میں وہی سوچ رہی ہے جو پچھلی صدی کے آخر تک برطانیہ کے حکمرانوں کی اپنے عوام کے بارے میں تھی۔
پاکستان کے عوام آج جو کمزور، لاغر، منقسم، خوفزدہ، ڈرے ہوئے نظر آتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہی ہے کہ انھیں ہمیشہ غیر ذمے دار، غیر تہذیب یافتہ سمجھ کر، اعتبار نہ کرکے دھتکارا جاتا رہا، انھیں نہ کبھی اقتدار دیا گیا اور نہ ہی اختیار۔ ان کے نام پر صرف اور صرف سیاست کی جاتی رہی اور انھیں صرف اقتدار تک پہنچنے کی سیڑھی سمجھا جاتا رہا، جس کی وجہ سے لوگ ناکارہ ردی انسانوں میں تبدیل ہوکر رہ گئے ہیں، گل اور سڑ گئے ہیں۔ بے بسی کی زنجیروں نے انھیں ایسا جکڑا کہ سارا جسم لہولہان ہوگیا، انھیں ہمیشہ ملکی معاملات سے بے خبر اور لاعلم رکھا گیا، یہ ہی رویہ آج تک جاری ہے۔ یہ عالمگیر سچائی ہے کہ جب عوام بااختیار اور بااعتماد ہوتے ہیں تو ملک مضبوط، خوشحال اورمستحکم ہوتاہے اور جب عوام بے اختیار ہوتے ہیں تو ملک دہشت زدہ اور دیمک زدہ ہوجاتا ہے۔ خدارا، ملک اور عوام پر رحم کرو، اپنے اقتدار، طاقت اور عیش و عشرت کی خاطر ملک کو دوزخ میں تبدیل مت کرو۔
ارباب حکومت کا خیال تھا کہ اگر عام آدمی ان میں آزادانہ داخل ہونے لگیں گے تو لکڑیوں اور پتھروں پر لکھ کر، دیواریں کھرچ کر اور فرش کو گندا کرکے ان قابل احترام عمارتوں کا حلیہ بگاڑ ڈالیں گے۔ اس کے خلاف سب سے پہلے جوزف ہیوم نے آواز اٹھائی۔ پارلیمنٹ میں اس تحریک کے متعلق بڑی لے دے ہوئی۔ اکثر ارکان کا خیال تھا کہ اگر تاریخی عمارتوں کے دروازے عوام کے لیے کھول دیے جائیں تو اس سے انھیں ناقابل تلافی نقصان پہنچ جائے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں رکھی ہوئی بیش قیمت چیزیں چوری ہوجائیں گی۔ بہرحال بڑی بحث کے بعد جوزف ہیوم کی تحریک کامیاب ہوگئی، سب سے پہلے بطور تجربہ برٹش میوزیم میں عام داخلے کا اعلان ہوا، پھر بھی اتنی احتیاط ملحوظ رکھی گئی کہ ایک وقت میں پانچ چھ آدمیوں کو داخلے کی اجازت دی جاتی تھی، جن کے ساتھ نگہبانی کے لیے ایک سپاہی تعینات رہتا تھا تاکہ اگر کوئی آدمی تاریخی یادگاروں کو نقصان پہنچانا چاہے تو وہ اسے گرفتار کرلے۔
رفتہ رفتہ برٹش میوزیم میں داخل ہونے والوں سے ہر قسم کی پابندی یا نگرانی ہٹادی گئی، اس کے بعد ہر طبقے، ہر پیشے کے آدمیوں کو اجازت دے دی گئی کہ وہ وقت معینہ کے اندر جب ان کا جی چاہے آزادانہ آئیں اور اپنی قومی دولت کو دیکھیں۔ جس دن یہ اعلان ہوا اس روز اکتیس ہزار پانچ سو آدمی برٹش میوزیم کی سیر کرنے کے لیے آئے۔ لارڈ اسٹینلے اس آزادی کے سب سے بڑے مخالف تھے لیکن جب انھوں نے میوزیم کا اس روز کے اختتام پر معائنہ کیا تو دیکھا کہ کسی چیز کو ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ اگلے دن انھوں نے پارلیمنٹ میں بڑے مستقل لہجے میں یہ بیان کیا کہ اس سے پہلے میں ڈرتا تھا کہ کھلی اجازت بہت نقصان دہ ثابت ہوگی لیکن اب یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کل ساڑھے اکتیس ہزار آدمی برٹش میوزیم میں داخل ہوئے اور کسی چیز کا رتی برابر نقصان نہیں ہوا۔
لارڈ اسٹینلے کی حیرانی بے جا تھی، عوام کے اس بااحتیاط اور شریفانہ رویے کا راز صرف اس بات میں پوشیدہ تھا کہ حکومت نے ان پر اعتماد کیا تھا، لہٰذا خودبخود ان کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اپنے تئیں اعتماد کا اہل ثابت کرکے دکھا دیں۔ ہیوم نے اپنی کوششیں جاری رکھیں، نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے لیے تمام تاریخی اور قابل دید عمارتوں کے دروازے یکے بعد دیگرے کھلتے چلے گئے۔ یہ تحریک لندن کے بعد دیگر شہروں میں بھی پھیل گئی۔ 1851 کی عظیم الشان نمائش میں بھی عوام نے اسی بلند کرداری کا ثبوت دیا۔ پارلیمنٹ میں یہ سوال اٹھا تھا کہ اس موقع پر قصر بلوریں کے اردگرد فو ج کا پہرہ لگا دیا جائے یا نہیں؟ تھوڑی سی بحث کے بعد یہ طے ہوا کہ اس احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نمائش کے دوران لاکھوں آدمی اندر داخل ہوئے لیکن نہ کوئی چیز چوری ہوئی، نہ کسی شے کا رتی بھر نقصان ہوا۔ پست اخلاقی کو شکست دینے کے لیے اعتماد بہترین حربہ ہے۔ قانون پسندی و نصیحت، وعظ و تلقین سب اپنی جگہ لیکن کسی شخص میں بلند کرداری اور ذمے داری پیدا کرنے کی عمدہ ترین ترکیب یہ ہے کہ اس پر اعتماد کیا جائے اور اسے یہ سمجھنے کا موقع دیا جائے کہ ہم اس پر اعتبار کرتے ہیں، یعنی دوسرے لفظو ں میں اس کی عزت نفس کو تسلیم کرتے ہیں۔ انسان کے خوابیدہ، زنگ آلود ضمیر کو جگانے کی یہ ہی ایک صورت ہے کہ اسے اختیارات و حقوق دے کر اس کے دل میں عزت نفس کا شعور پیدا کردیا جائے۔
انسان پر اعتماد کرو، یہ وہ مقولہ ہے جس کی سچائی ہمیشہ ہی سے تسلیم کی گئی ہے۔ انسان اعتماد کے سہارے چلتے ہیں، بینائی کے سہارے نہیں۔ میدان جنگ میں مورچے پر ڈٹے ایک بہادر سپاہی کا یہ قول زندگی کی جنگ میں مصروف پاکستانیوں کے لیے بہت اہم ہے کہ جنگ میں بندوق نہیں لڑتی اسے تھامنے والے فوجی کا دل لڑتا ہے اور دل بھی نہیں اس دل میں موجود اس کا اعتماد لڑتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ کس بات نے نپولین کو اپنے دور کا سب سے عظیم فاتح بنایا؟ پہلی بات تو یہ کہ اسے اپنے آپ پر مکمل اعتماد تھا، اسے اپنی قسمت پر مکمل یقین تھا، اسے اس بات کا مکمل بھروسہ تھا کہ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوسکتی یا کوئی ایسی صورت حال نہیں ہے جس کا حل اس کے پاس مو جود نہیں ہے لیکن جیسے ہی اس نے اپنا اعتماد کھویا، جب وہ کئی ہفتوں تک اس کشمکش میں مبتلا رہا کہ آیا آگے بڑھنا چاہیے یا پیچھے مڑجانا چاہیے، کیونکہ وہ سردیوں میں ماسکو میں پھنس گیا تھا، حالانکہ قدرت نے پہلے پہل اسے بھر پور موقع دیا تھا، اس مرتبہ برف باری پورے ایک مہینے دیر سے شروع ہوئی لیکن چونکہ نپولین ہچکچا رہا تھا، اس لیے وہ جنگ ہار گیا۔ ایسا نہیں کہ اسے برف باری کی وجہ سے شکست ہوئی اور نہ ہی وہ روسیوں کی وجہ سے ہارا بلکہ اس کو اس کے خوف نے ہرایا۔ امریکا، یورپ اور دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کی ترقی، خوشحالی، استحکام، امن کے پیچھے صرف ایک ہی راز پوشیدہ ہے اور وہ ہے کہ انھوں نے صرف اپنے عوام پر اعتماد کیا اور انھیں اعتماد دیا۔ جب کہ پاکستان سمیت دنیا کے وہ ممالک جو بدحالی، غربت، افلاس، عدم برداشت، دہشت گردی، بدامنی میں اپنی مثال آپ ہیں، وہاں کے کرتا دھرتاؤں نے کبھی بھی اپنے عوام پر نہ تو اعتماد کیا اور نہ ہی انھیں اعتماد دیا۔ ان کی اپنے عوام کے بارے میں وہی سوچ رہی ہے جو پچھلی صدی کے آخر تک برطانیہ کے حکمرانوں کی اپنے عوام کے بارے میں تھی۔
پاکستان کے عوام آج جو کمزور، لاغر، منقسم، خوفزدہ، ڈرے ہوئے نظر آتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہی ہے کہ انھیں ہمیشہ غیر ذمے دار، غیر تہذیب یافتہ سمجھ کر، اعتبار نہ کرکے دھتکارا جاتا رہا، انھیں نہ کبھی اقتدار دیا گیا اور نہ ہی اختیار۔ ان کے نام پر صرف اور صرف سیاست کی جاتی رہی اور انھیں صرف اقتدار تک پہنچنے کی سیڑھی سمجھا جاتا رہا، جس کی وجہ سے لوگ ناکارہ ردی انسانوں میں تبدیل ہوکر رہ گئے ہیں، گل اور سڑ گئے ہیں۔ بے بسی کی زنجیروں نے انھیں ایسا جکڑا کہ سارا جسم لہولہان ہوگیا، انھیں ہمیشہ ملکی معاملات سے بے خبر اور لاعلم رکھا گیا، یہ ہی رویہ آج تک جاری ہے۔ یہ عالمگیر سچائی ہے کہ جب عوام بااختیار اور بااعتماد ہوتے ہیں تو ملک مضبوط، خوشحال اورمستحکم ہوتاہے اور جب عوام بے اختیار ہوتے ہیں تو ملک دہشت زدہ اور دیمک زدہ ہوجاتا ہے۔ خدارا، ملک اور عوام پر رحم کرو، اپنے اقتدار، طاقت اور عیش و عشرت کی خاطر ملک کو دوزخ میں تبدیل مت کرو۔