پاکستان میں سیاحت کا فروغ
پاکستان سیاحت کے لیے انتہائی پر کشش ملک ہے۔
ہر سال 27ستمبر کو سیاحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔پاکستان میں بھی یہ دن ٹی وی اور ریڈیو پر ایک دو پروگراموں میں سیاحت کا تذکرہ کر کے منایا گیا۔ پاکستان سیاحت کے لیے انتہائی پر کشش ملک ہے۔
فلک بوس پہاڑوں،برف سے ڈھکی چوٹیوں، نخلستانوں، میدانی علاقوں،سطح مرتفع، آبشاروں، جھیلوں، لق و دق صحراؤں اور ایک لمبی خوبصورت سمندری ساحلی پٹی غرض کہ وہ کون سی نعمت ہے جو اس ملک میں نہیں پائی جاتی۔یہی چیزیں تو کسی بھی ملک میںسیاحوں کی دلچسپی کا سامان ہوتی ہیں۔اوپر سے ہم پاکستا نی ہر آنے والے کو کھلے دل سے خوش آمدید کہنے والے اور بہت مہمان نواز ہیں۔
پاکستان میں سیاحوں کی دلچسپی کے لیے ایسی جگہیں ہیں جہاں وہ ہشاش بشاش ہو سکیں۔ ہمارا پاکستان ایسے مقامات سے بھرا پڑا ہے۔آپ بلوچستان میں ایران کے ساتھ ملنے والی ساحلی پٹی سے شروع ہو جائیں اور کشمیر و شمالی علاقہ جات تک آئیں،ایک سے ایک خوبصورت اور ورطہء حیرت میں ڈالنے والی جگہ دیکھنے کو ملے گی۔
گوادر سے کوئی 20کلومیٹر مغرب کی جانب ساحلِ سمندراتناخوبصورت ہے کہ آپ کا دل وہاں سے ہٹنے کو نہیں چاہتا، زیارت کی وادی میںصدیوں پرانے صنوبر کے درختوں اور سردیوں میں ان پر پڑنے والی برف کے گولوں سے ڈھکی ٹہنیوں سے نظر نہ ہٹا سکیں گے۔افسوس ہماری کوتاہی،لاپرواہی اور موسمیاتی تبدیلی نے کوئٹہ کے قریب خوبصورت ہنا جھیل خشک اور تباہ کر دی ہے۔
اُڑک میں باغات اور بہتے جھرنے موسمیاتی تبدیلیوں کی نذر ہوتے جا رہے ہیں۔ سندھ میں تو کئی قلعے خاص کر ڈجی کوٹ،کھجوروں کے باغات،ہاکس بے،سیڈز پٹ،کلفٹن سے شروع ہو کر لمبی ساحلی پٹی اور چھوٹے چھوٹے سمندری جزیرے اپنے اندر سیاحوں کی دلچسپی کے بے شمار آئیٹمز رکھتے ہیں۔سکھر بیراج، سکھر بیلا اور دریائے سندھ پر شاندار پُل سیاحوں کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ خیبر پختون خواہ تو سیاحوں کی جنت ہے۔
سوات کا علاقہ دنیا کے کسی بھی خوبصورت ترین سیاحت کے مقام کو شرما دیتا ہے۔ ایبٹ آباد، نتھیاگلی، مانسہرہ، شنکیاری کے علاوہ دریائے کنر کا سارا پاٹ بہت خوبصورت ہے،کاغان،ناران اور چترال کے علاقے خاص کر کیلاش وادی تو افسانوی خوبصورتی کے حامل ہیں۔جھیل سیف الملوک تو دیکھنے کے لائق ہے۔
آزاد کشمیر میں بھی خوبصورت نظارے سیاحوں کو اپنی طرف لبھاتے ہیں۔راولاکوٹ کے ساتھ ہی پنجوسہ جھیل کی دلکشی اپنی مثال آپ ہے۔آپ ہجیرہ اور عباس پورسے سے اوپر چڑھتے ہوئے علی آباد جائیں تو علاقے کا حسن آپ کے پاؤں روک لے گا۔درہ حاجی پیر کے علاقے میں تو سخت گرمیوں میں بھی کپکپی طاری ہو سکتی ہے۔مظفرآباد سے دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ سفر کریں تو ہر اس مقام پر جہاں دریا ذرا سا ٹھہر کر جھیل بنا لیتاہے ایسی ساری جگہیں آپ کو رکنے پر مجبور کرتی ہیں۔
لیپا وادی کا حسن دیکھنے کی چیز ہے۔یہاں کے شفاف بہتے جھرنے اور درختوں سے گزرتی ہوا کی سرسراہٹ سرگوشیاں کرتی ہے اور دریائے نیلم کے ساتھ سفر کرتے ہوئے آٹھ مقام سے آگے سارا علاقہ بے حد خوبصورت ہے۔شاردہ کے مقام پر دریائے نیلم ایک خوبصورت جھیل بنا لیتا ہے۔یہاں کی سنہری صبح اور سُرمئی شام دونوں ہی دیکھنے والی ہیں۔شاردہ سے کچھ آگے کیل کا علاقہ بھی حسین ہے۔یہاں کی چوٹیوں سے بھارتی مقبوضہ کشمیر کا نظارہ ہو سکتا ہے۔یہاں سے ایک ٹریک ڈوسائی کو نکل جاتا ہے۔ہمارے شمالی علاقہ جات اپنی فلک بوس برف سے ڈھکی چوٹیوں کے لیے دنیا بھر میں مشہورہیں۔
ادھر کے سفر میں آپ سب سے پہلے نانگا پربت کو دیکھتے ہیں اور دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی مہ جبیں محوِ خواب ہے۔گلگت شہر سے صاف موسم میں راکا پوشی کا نظارہ ہوتا ہے جس کی آسمان کو چھوتی چوٹی پر ہر وقت بادل منڈلاتے رہتے ہیں۔
گلگت سے ہنزہ کی طرف سفر کریں تو جا بجا خوبصورت نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ہنزہ میں آثارِ قدیمہ کی بھی فراوانی ہے۔یہ سڑک چونکہ چین اور پاکستان کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے اس لیے بہت ہی اہم ہے۔سکردو کے پاس شنگریلہ اور ست پارہ کی جھیلیں اپنی طرف توجہ مبذول کراتی ہیں۔ سکردو کے پاس دریائے سندھ کا چوڑا پاٹ اور درمیان میں پہاڑی پر کھڑپچو قلعہ دیدنی ہیں۔
سکردو سے ایک ٹریک آپ کو ترکٹی لے جاتا ہے۔یہاں کا سیب اتنا اعلیٰ ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں دی جا سکتی۔سکردو سے آگے سیاہ چین کی طرف بڑھیں تو دنیا کی چند بلند ترین چوٹیاں اور سب سے بڑے گلیشیئر یہاں پائے جاتے ہیں۔
گلگت سے استور کی طرف بڑھیں تو آپ ڈوسائی سطح مرتفع جا نکلتے ہیں۔اس علاقے میں وہ پھول اپنی بہار دکھاتے ہیں جو دنیا میں اور کہیں نہیں ہوتے۔ پنجاب کے لہلہاتے کھیت اور میلوں تک پھیلے سبزے کی چادر خوشحالی کی نوید لیے ہوتی ہے۔ چولستان کی خوبصورت ریت پر گزاری ایک رات زندگی بھر کے لیے سنہری یادیں ثبت کر جاتی ہے۔
پاکستان جیسے خوبصورت مقامات اور بدلتے موسموں والے ملک کا تمام سیاحتی نقشہ کھینچنا ایک ضخیم کتاب کا متقاضی ہے اور پھر بھی شاید یہ ادھورا ہی رہے۔ ہمارے ملک میں مذہب سے وابستہ سیاحت کے بڑے مواقع ہیں۔ہمارے ملک میں دو بڑے مذاہب کے اہم ترین مقامات پائے جاتے ہیں۔بدھ مت کی قدیم ترین درسگاہ ٹیکسلا میں ہے۔
سوات کی وادی میں جابجا بدھ مت کی عبادت گاہیں اور درس گاہیں ہیں۔مہاتما بدھ کا ایک روپ جسے Fasting Buddhaکہا جاتا ہے وہ تو ملا ہی ٹیکسلا سے ہے۔ہندوؤں کے کئی انتہائی قدیم اور اہم مقامات و مندر پنجاب،سندھ و بلوچستان میں پائے جاتے ہیں۔کٹاس راج کامندر تو بہت ہی اہم ہے۔سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک جی کی تو پیدائش اور وفات دونوں ہی پنجاب میں ہیں۔حسن ابدال کے انتہائی خوبصورت قصبے میں پنجہ صاحب واقع ہے۔یہ سارے مقامات دنیا بھر سے سکھوں کو اپنی طرف کھنچتے ہیں۔ سیاحت کا ذکر آتے ہی ہمارے ذہن میں غیر ملکی سیاح آ جاتے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ ان کے آنے سے قیمتی غیر ملکی زرِ مبادلہ بآسانی ملتا ہے،معیشت کو بڑھاوا ملتا ہے اور ہمارے پیارے پاکستان کا تعارف بھی ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے اپنے پاکستانی بھائیوں نے مذہب کی اپنی مرضی کی متشدد تشریح کرکے اور اپنی مرضی کا اسلام لاگو کرنے کے لیے خودکش حملوں سے پاکستان کو غیر محفوظ ملک مشہور کردیا۔بھارت نے بھی اس سے بہت ناجائز فائدہ اٹھایا۔پاکستان کے دشمن ابھی بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ اگست میں ایسے دھماکوں سے 52افراد جان سے گئے۔ ان حالات میں غیر ملکی سیاحوں کا پاکستان اُمڈ آنا بہت دور کی بات ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم بائیس کروڑ کی آبادی والے ملک کے باسی دبئی،یورپ،امریکا اور مشرقِ بعید کی سیر کے ساتھ اپنے ملک کی سیر کو نکلیں اور سیاحتی مقامات کو آباد کریں۔اگر ہماری قلیل تعداد بھی ایسا کرے تو ایسی معاشی سرگرمی پیدا ہو جس کے پاکستان کی اکانومی پر اچھے اثرات ہوں۔ سیاحتی مقامات تک رسائی ا ور بہترین سہولیات کی فراہمی کے علاوہ اچھی اور محفوظ سڑکیں سیاحت کے فروغ کے لیے اہم ہیں۔ہمارا تو ابھی تک یہ حال ہے کہ پشاور اور راولپنڈی سے کوئٹہ ،کراچی و گوادر پہنچنا جان جوکھوں کا کام ہے۔
سڑکیں غیر محفوظ ہیں۔فیملی کے ساتھ سفر انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔ ہمارے سیاحتی مقامات اور پاکستان کی دھرتی کے حسن کو ہم وطن نہیں دیکھ پاتے تو غیر ملکی کیونکر آئیں گے اور دیکھیں گے۔ہمیں سڑکیں بہتر اور محفوظ بنانی ہوں گی۔سیاحتی مقامات پر سستی سہولتیں مہیا کرنی ہوں گی۔غیر ذمے دار عناصر کو لگام دینی ہو گی۔ پاکستان کے اندر اور باہر ایک اچھی میڈیا مہم چلانی پڑے گی۔اگر ہم چھوٹے چھوٹے اقدامات اٹھا کر کام شروع کر دیں تو وہ دن دور نہیں ہوگا جب پاکستان کا شمار بہترین سیاحتی ممالک میں ہو گا۔ان شاء اﷲ۔
فلک بوس پہاڑوں،برف سے ڈھکی چوٹیوں، نخلستانوں، میدانی علاقوں،سطح مرتفع، آبشاروں، جھیلوں، لق و دق صحراؤں اور ایک لمبی خوبصورت سمندری ساحلی پٹی غرض کہ وہ کون سی نعمت ہے جو اس ملک میں نہیں پائی جاتی۔یہی چیزیں تو کسی بھی ملک میںسیاحوں کی دلچسپی کا سامان ہوتی ہیں۔اوپر سے ہم پاکستا نی ہر آنے والے کو کھلے دل سے خوش آمدید کہنے والے اور بہت مہمان نواز ہیں۔
پاکستان میں سیاحوں کی دلچسپی کے لیے ایسی جگہیں ہیں جہاں وہ ہشاش بشاش ہو سکیں۔ ہمارا پاکستان ایسے مقامات سے بھرا پڑا ہے۔آپ بلوچستان میں ایران کے ساتھ ملنے والی ساحلی پٹی سے شروع ہو جائیں اور کشمیر و شمالی علاقہ جات تک آئیں،ایک سے ایک خوبصورت اور ورطہء حیرت میں ڈالنے والی جگہ دیکھنے کو ملے گی۔
گوادر سے کوئی 20کلومیٹر مغرب کی جانب ساحلِ سمندراتناخوبصورت ہے کہ آپ کا دل وہاں سے ہٹنے کو نہیں چاہتا، زیارت کی وادی میںصدیوں پرانے صنوبر کے درختوں اور سردیوں میں ان پر پڑنے والی برف کے گولوں سے ڈھکی ٹہنیوں سے نظر نہ ہٹا سکیں گے۔افسوس ہماری کوتاہی،لاپرواہی اور موسمیاتی تبدیلی نے کوئٹہ کے قریب خوبصورت ہنا جھیل خشک اور تباہ کر دی ہے۔
اُڑک میں باغات اور بہتے جھرنے موسمیاتی تبدیلیوں کی نذر ہوتے جا رہے ہیں۔ سندھ میں تو کئی قلعے خاص کر ڈجی کوٹ،کھجوروں کے باغات،ہاکس بے،سیڈز پٹ،کلفٹن سے شروع ہو کر لمبی ساحلی پٹی اور چھوٹے چھوٹے سمندری جزیرے اپنے اندر سیاحوں کی دلچسپی کے بے شمار آئیٹمز رکھتے ہیں۔سکھر بیراج، سکھر بیلا اور دریائے سندھ پر شاندار پُل سیاحوں کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ خیبر پختون خواہ تو سیاحوں کی جنت ہے۔
سوات کا علاقہ دنیا کے کسی بھی خوبصورت ترین سیاحت کے مقام کو شرما دیتا ہے۔ ایبٹ آباد، نتھیاگلی، مانسہرہ، شنکیاری کے علاوہ دریائے کنر کا سارا پاٹ بہت خوبصورت ہے،کاغان،ناران اور چترال کے علاقے خاص کر کیلاش وادی تو افسانوی خوبصورتی کے حامل ہیں۔جھیل سیف الملوک تو دیکھنے کے لائق ہے۔
آزاد کشمیر میں بھی خوبصورت نظارے سیاحوں کو اپنی طرف لبھاتے ہیں۔راولاکوٹ کے ساتھ ہی پنجوسہ جھیل کی دلکشی اپنی مثال آپ ہے۔آپ ہجیرہ اور عباس پورسے سے اوپر چڑھتے ہوئے علی آباد جائیں تو علاقے کا حسن آپ کے پاؤں روک لے گا۔درہ حاجی پیر کے علاقے میں تو سخت گرمیوں میں بھی کپکپی طاری ہو سکتی ہے۔مظفرآباد سے دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ سفر کریں تو ہر اس مقام پر جہاں دریا ذرا سا ٹھہر کر جھیل بنا لیتاہے ایسی ساری جگہیں آپ کو رکنے پر مجبور کرتی ہیں۔
لیپا وادی کا حسن دیکھنے کی چیز ہے۔یہاں کے شفاف بہتے جھرنے اور درختوں سے گزرتی ہوا کی سرسراہٹ سرگوشیاں کرتی ہے اور دریائے نیلم کے ساتھ سفر کرتے ہوئے آٹھ مقام سے آگے سارا علاقہ بے حد خوبصورت ہے۔شاردہ کے مقام پر دریائے نیلم ایک خوبصورت جھیل بنا لیتا ہے۔یہاں کی سنہری صبح اور سُرمئی شام دونوں ہی دیکھنے والی ہیں۔شاردہ سے کچھ آگے کیل کا علاقہ بھی حسین ہے۔یہاں کی چوٹیوں سے بھارتی مقبوضہ کشمیر کا نظارہ ہو سکتا ہے۔یہاں سے ایک ٹریک ڈوسائی کو نکل جاتا ہے۔ہمارے شمالی علاقہ جات اپنی فلک بوس برف سے ڈھکی چوٹیوں کے لیے دنیا بھر میں مشہورہیں۔
ادھر کے سفر میں آپ سب سے پہلے نانگا پربت کو دیکھتے ہیں اور دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی مہ جبیں محوِ خواب ہے۔گلگت شہر سے صاف موسم میں راکا پوشی کا نظارہ ہوتا ہے جس کی آسمان کو چھوتی چوٹی پر ہر وقت بادل منڈلاتے رہتے ہیں۔
گلگت سے ہنزہ کی طرف سفر کریں تو جا بجا خوبصورت نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ہنزہ میں آثارِ قدیمہ کی بھی فراوانی ہے۔یہ سڑک چونکہ چین اور پاکستان کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے اس لیے بہت ہی اہم ہے۔سکردو کے پاس شنگریلہ اور ست پارہ کی جھیلیں اپنی طرف توجہ مبذول کراتی ہیں۔ سکردو کے پاس دریائے سندھ کا چوڑا پاٹ اور درمیان میں پہاڑی پر کھڑپچو قلعہ دیدنی ہیں۔
سکردو سے ایک ٹریک آپ کو ترکٹی لے جاتا ہے۔یہاں کا سیب اتنا اعلیٰ ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں دی جا سکتی۔سکردو سے آگے سیاہ چین کی طرف بڑھیں تو دنیا کی چند بلند ترین چوٹیاں اور سب سے بڑے گلیشیئر یہاں پائے جاتے ہیں۔
گلگت سے استور کی طرف بڑھیں تو آپ ڈوسائی سطح مرتفع جا نکلتے ہیں۔اس علاقے میں وہ پھول اپنی بہار دکھاتے ہیں جو دنیا میں اور کہیں نہیں ہوتے۔ پنجاب کے لہلہاتے کھیت اور میلوں تک پھیلے سبزے کی چادر خوشحالی کی نوید لیے ہوتی ہے۔ چولستان کی خوبصورت ریت پر گزاری ایک رات زندگی بھر کے لیے سنہری یادیں ثبت کر جاتی ہے۔
پاکستان جیسے خوبصورت مقامات اور بدلتے موسموں والے ملک کا تمام سیاحتی نقشہ کھینچنا ایک ضخیم کتاب کا متقاضی ہے اور پھر بھی شاید یہ ادھورا ہی رہے۔ ہمارے ملک میں مذہب سے وابستہ سیاحت کے بڑے مواقع ہیں۔ہمارے ملک میں دو بڑے مذاہب کے اہم ترین مقامات پائے جاتے ہیں۔بدھ مت کی قدیم ترین درسگاہ ٹیکسلا میں ہے۔
سوات کی وادی میں جابجا بدھ مت کی عبادت گاہیں اور درس گاہیں ہیں۔مہاتما بدھ کا ایک روپ جسے Fasting Buddhaکہا جاتا ہے وہ تو ملا ہی ٹیکسلا سے ہے۔ہندوؤں کے کئی انتہائی قدیم اور اہم مقامات و مندر پنجاب،سندھ و بلوچستان میں پائے جاتے ہیں۔کٹاس راج کامندر تو بہت ہی اہم ہے۔سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک جی کی تو پیدائش اور وفات دونوں ہی پنجاب میں ہیں۔حسن ابدال کے انتہائی خوبصورت قصبے میں پنجہ صاحب واقع ہے۔یہ سارے مقامات دنیا بھر سے سکھوں کو اپنی طرف کھنچتے ہیں۔ سیاحت کا ذکر آتے ہی ہمارے ذہن میں غیر ملکی سیاح آ جاتے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ ان کے آنے سے قیمتی غیر ملکی زرِ مبادلہ بآسانی ملتا ہے،معیشت کو بڑھاوا ملتا ہے اور ہمارے پیارے پاکستان کا تعارف بھی ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے اپنے پاکستانی بھائیوں نے مذہب کی اپنی مرضی کی متشدد تشریح کرکے اور اپنی مرضی کا اسلام لاگو کرنے کے لیے خودکش حملوں سے پاکستان کو غیر محفوظ ملک مشہور کردیا۔بھارت نے بھی اس سے بہت ناجائز فائدہ اٹھایا۔پاکستان کے دشمن ابھی بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ اگست میں ایسے دھماکوں سے 52افراد جان سے گئے۔ ان حالات میں غیر ملکی سیاحوں کا پاکستان اُمڈ آنا بہت دور کی بات ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم بائیس کروڑ کی آبادی والے ملک کے باسی دبئی،یورپ،امریکا اور مشرقِ بعید کی سیر کے ساتھ اپنے ملک کی سیر کو نکلیں اور سیاحتی مقامات کو آباد کریں۔اگر ہماری قلیل تعداد بھی ایسا کرے تو ایسی معاشی سرگرمی پیدا ہو جس کے پاکستان کی اکانومی پر اچھے اثرات ہوں۔ سیاحتی مقامات تک رسائی ا ور بہترین سہولیات کی فراہمی کے علاوہ اچھی اور محفوظ سڑکیں سیاحت کے فروغ کے لیے اہم ہیں۔ہمارا تو ابھی تک یہ حال ہے کہ پشاور اور راولپنڈی سے کوئٹہ ،کراچی و گوادر پہنچنا جان جوکھوں کا کام ہے۔
سڑکیں غیر محفوظ ہیں۔فیملی کے ساتھ سفر انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔ ہمارے سیاحتی مقامات اور پاکستان کی دھرتی کے حسن کو ہم وطن نہیں دیکھ پاتے تو غیر ملکی کیونکر آئیں گے اور دیکھیں گے۔ہمیں سڑکیں بہتر اور محفوظ بنانی ہوں گی۔سیاحتی مقامات پر سستی سہولتیں مہیا کرنی ہوں گی۔غیر ذمے دار عناصر کو لگام دینی ہو گی۔ پاکستان کے اندر اور باہر ایک اچھی میڈیا مہم چلانی پڑے گی۔اگر ہم چھوٹے چھوٹے اقدامات اٹھا کر کام شروع کر دیں تو وہ دن دور نہیں ہوگا جب پاکستان کا شمار بہترین سیاحتی ممالک میں ہو گا۔ان شاء اﷲ۔