ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی دنیا خالی کرگئے

اردو طنزو مزاح کے ’عہدِ یوسفی‘ کے بعد ’عہدِ قریشی‘ بھی تمام ہوا۔

اردو طنزو مزاح کے ’عہدِ یوسفی‘ کے بعد ’عہدِ قریشی‘ بھی تمام ہوا۔ فوٹو: فائل

MINNEAPOLIS:
ہمارا یہ تعلق شروع ہوتا ہے 2007ء سے، جب ہمارے ایک باذوق قریبی بزرگ جناب اقبال راجا کی سالانہ 'دعوت آم' ہوئی۔۔۔

چنیدہ اہل علم وفن سے سجی ہوئی ان کے دولت کدے کی اس چھوٹی سی ادبی بیٹھک میں ہم شاید نوعمر ترین مہمان تھے۔۔۔ جب کہ بریگیڈیر (ر) عبدالرحمٰن صدیقی (سابق ڈائریکٹر 'آئی ایس پی آر')، پروفیسر عنایت علی خان، پروفیسر یٰسین معصوم، اجمل سراج، ایوب خاور وغیرہ سے سجی ہوئی اس محفل میں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی بھی جلوہ افروز تھے۔۔۔ اور ہم ایک کونے میں دبک کر ان قدآور شخصیات کی علمی وادبی گفتگو سنا کیے۔۔۔

چشم تصور سے آج بھی دیکھ سکتے ہیں کہ اُس وقت بریگیڈیر (ر) عبدالرحمٰن صدیقی، جنرل پرویز مشرف سے اپنی ملاقات کا احوال بتا رہے ہیں۔۔۔ پھر اجمل سراج اور ایوب خاور کے کلام پر دادو تحسین دی جا رہی ہے اور پھر جب شمع محفل نورانی سراپے کے حامل بزرگ پروفیسر عنایت علی خان ٹونکی کے سامنے آئی، تو بس پھر کیا ہی کہنے، ایک تو ان کی شگفتہ شاعری میں چھپے ہوئے طنز کے گہرے نشتر، اور اس 'گھاؤ' پر مستزاد ان کی ادائے دل بَری۔۔۔

اس پر بھی بس نہیں، جب وہ یہ فرماتے کہ 'اپنی یہ نظم تو میں ترنم سے سناؤں گا' تو پھر آپ صرف تصور ہی کر سکتے ہیں کہ انھوں نے جب لہک لہک کر اپنی معروف نظم 'جمہوریت' سنائی ہوگی، تو محفل کا کیا رنگ رہا ہوگا۔۔۔ جب وہ اپنے ملفوف سیاسی خیالات کو شعری عروض کی کمان میں باندھ کر مصرع چھوڑتے، تو بس، پھر تو کچھ پوچھیے ہی نہ۔۔۔! اور زعفران زار بنی ہوئی شعروسخن کی اس محفل میں گاہے گاہے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی اُنھی کے کسی مصرع کو اُچک کر ایسا پلٹاتے کہ مزاح اور شگفتگی دوآتشہ ہوئی جاتی تھی۔۔۔

شاید یہ ہماری زندگی کی پہلی کوئی ایسی باقاعدہ نشست تھی، جس میں ہم دوزانو ہو کر ادبی لوازمات سے مستفید ہو رہے تھے اور ان تمام شخصیات کو پہلی بار دیکھ اور سن رہے تھے۔۔۔ جب یہ یادگار محفل برخاست ہوئی، تو باہر نکلتے ہوئے ہمیں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی سے باقاعدہ تعارف کا موقع مل گیا۔۔۔ ہم نے 'ایکسپریس' میں اِن کے کالم کی غیر حاضری کا پوچھا تو انھیں حیرانی ہوئی کہ ہمیں کیسے پتا کہ 'ابن منشا' کے قلمی نام سے ہر اتوار کو کالم لکھنے والے دراصل وہ ہیں، تو ہم نے انھیں بتایا کہ ان کے بھتیجے نے ہم پر یہ راز آشکار کیا۔۔۔ اُن کے کالم نہ لکھنے کی وجہ سے ہمیں پہلی بار صحافتی دنیا کی اٹھان اور طور طریقوں کی بھی خوب خبر ہوئی تھی کہ اچھا ایسا بھی ہوتا ہے!

خیر، پھر یوں ہوا کہ اگلے برس ایک ادبی تقریب میں ہم نے انھیں اردو کے بگاڑ اور عدم نفاذ کے حوالے سے ایک خط پیش کیا، جو ہم نے اس برس الگ الگ 70، 80 شخصیات کو لکھا تھا، وہ ان چند مشاہیر میں شامل تھے کہ جنھوں نے باقاعدہ مفصل جواب عنایت کر کے ہماری حوصلہ افزائی فرمائی تھی۔۔۔ ان کا ہمارے لیے یہ لکھنا کہ ''میری خوش قسمتی ہے کہ آپ جیسے پرعزم، محب وطن اور مثبت سوچ کے حامل نوجوان میرے قاری ہیں۔'' ساری زندگی ہمارا حوصلہ بڑھاتا رہے گا۔

طنزو مزاح، سفرنامے، زبان وبیان، اشتہاریات اور سماجی بہبود وغیرہ جیسے متنوع موضوعات پر 27 کتابوں کے مصنف ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی قدرومنزلت اپنی جگہ پر مسلّمہ ہے۔۔۔ لیکن ہم اسے خوش قسمتی کہیں گے کہ ہمارا اور ان کا گھر ایک سیدھی گلی سے گزرتے ہوئے کوئی 200 فٹ کی دوری پر تھا۔۔۔ ہر چند کہ وہ ہمارے بچپن ہی میں وہاں سے منتقل ہوگئے تھے، لیکن ان کے بڑے صاحب زادے شمیم قریشی ہمارے پرانے ہم سائے رہے۔۔۔

جوں جوں عقل وشعور کی منازل طے ہوئیں، توں توں ہم پر معین قریشی صاحب کا بلند مرتبہ آشکار ہوتا چلا گیا۔۔۔ اور ہمیں دلی مسرت ہوتی کہ ہم انھی کے دولت کدے کے قریب اپنا غریب خانہ رکھتے تھے، وہ اور ممتاز نقاد ڈاکٹر یونس حسنی، 'بی بی سی' کے شفیع نقی جامعی، نام وَر ماہر امراض خون ڈاکٹر طاہر شمسی اور معروف شاعر ومصور عرفان مرتضیٰ وغیرہ دہلی کالونی کے وہ مشاہیر ہیں، جن پر بلاشبہ وہاں کا ہر مکین فخر کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے ہماری کالونی پر بھی ایک سیر حاصل مضمون لکھا، جو ان کی کتاب 'بالقرضِ محال' میں بھی شامل ہے، اس میں انھوں نے محلے کے نام وَر بزرگوں میں ہمارے دادا کا تذکرہ بھی کیا، جنھیں دہلی کالونی کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ یہی نہیں انھوں نے نہایت باریک بینی سے اردو کے عام زبان وبیان اور دہلوی تہذیب میں 'پنجابی سوداگرانِ دہلی' برادری کی انفرادیت کا بھی خوب جائزہ لیا۔۔۔

یہ اُن کی اپنے پرانے محلے داروں سے وابستگی ہی تھی کہ وہ اپنی وفات کے وقت بھی وہاں کی 'منتظمہ کمیٹی' کے اعزازی صدر تھے۔ اپنی علالت سے کچھ دن پہلے سرِ راہ ہمیں دکھائی بھی دیے، تو ہم نے دوڑ کر دست شفقت وصول کیا، انھیں منتظمہ کے اجلاس میں پہنچنا تھا، لیکن جلدی جلدی لاٹھی ٹیکتے ہوئے بھی انھیں اس روز شایع ہونے والے ہمارے کتابوں کے تبصروں کی تعریف کرنا نہیں بھولی تھی۔۔۔

اکتوبر 2014ء میں جب انھوں نے اپنی دستخط شدہ کتاب 'بالقرض محال' پر ہم سے تبصرہ لکھنے کی خواہش ظاہر کی، تب تک ہم شاید ایک آدھ ہی کسی کتاب پر اظہار خیال کیا تھا، لیکن احفاظ الرحمٰن صاحب کے کڑے معیار کے سامنے ہم جیسے ناتجربے کار کو کتابوں پر تبصرہ لکھنے کی ہمت اور اعتماد انھوں نے دلایا۔۔۔ پھر یوں ہوا کہ وہ 'ایکسپریس' میں شایع ہونے والے ہمارے اکثر مضامین، صد لفظی کتھا، انٹرویو، فیچر اور تبصروں وغیرہ پر اپنی قیمتی رائے دیتے رہتے۔۔۔

کبھی بہ ذریعہ 'ایس ایم ایس' یا پھر کال پر دل کھول کر حوصلہ بڑھاتے، کبھی ایسی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی اتنی خوب صورتی سے اصلاح فرماتے کہ بے اختیار ان کی قابلیت اور علمیت پہ واری جانے کو جی چاہتا کہ زبان وبیان کی کتنی باریک اور اہم بات ہے اور دیکھیے، ہم زبان کے اس طور اور ڈھب سے بالکل ہی ناواقف تھے۔۔۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ہماری کوئی تحریر پڑھ کر انھیں کوئی واقعہ یا تجربہ یاد آجاتا، تو وہ فرماتے کہ 'میاں اب یہ واقعہ سنیے، ہم نے ایسا سنا اور ہمارے بڑے بھائی نے ہمیں فلاں بارے میں یہ بتایا' وغیرہ وغیرہ۔

اس گفتگو میں کبھی ایسے موضوعات بھی نکل آتے کہ جن کا ذکر وہ اپنی تحریروں میں بھی نہیں کرتے تھے۔ ہم ایسا کوئی واقعہ دل چسپ جان کر پوچھتے کہ یہ آپ نے کہیں لکھا ہے یا ہم آپ کے حوالے سے لکھ سکتے ہیں، تو وہ کہتے ارے میاں، یہ تو میں آپ کی معلومات کے لیے بتا رہا ہوں، یہ لکھنے والی باتیں تھوڑی ہی ہیں۔ جیسے ایک معروف علمی خانوادے کی 'بانیٔ پاکستان' سے متعلق ریڈیو پاکستان پر یہ گفتگو نشر ہو جانا جس میں ایک نامناسب فقرہ تھا، جس کے بعد نہایت نازک اور حساس صورت حال پیدا ہوگئی۔

ظاہر ہے سرکاری ریڈیو سے بابائے قوم کے لیے ایسے کلمات نشر ہونا کسی بھونچال سے تو کم نہ تھا، بہرحال پھر متعلقہ صاحب نے بڑی ہوشیاری سے ریکارڈ میں تبدیلی کر کے اپنی نوکری بچائی تھی۔۔۔ یہی نہیں بہت سی بڑی شخصیات کے ساتھ ان کے معاملات اور کچھ تلخ سیاسی حقائق بھی ایسے تھے، جو وہ دکھ کے ساتھ ہمارے ساتھ بانٹ لیا کرتے، لیکن بوجوہ انھوں نے کبھی انھیں اپنی تحریروں کا موضوع نہیں بنایا۔

ڈاکٹر شیخ محمد معین قریشی نے 1942ء میں دریا گنج (دلی) میں آنکھ کھولی، تعلیم کا آغاز بھی وہیں ہوا، پھر قیام پاکستان کے بعد اہل خانہ کے ہم راہ لاہور پہنچے اور پھر کراچی منتقل ہوگئے، 1957ء میں آتش زدگی میں ان کا گھر ہی خاکستر نہیں ہوا، بلکہ ان کے والد بھی جاں بحق ہوگئے۔ انھوں نے ایک کٹھن زمانہ دیکھا، ٹیوشن پڑھا کر اپنے اخراجات پورے کیے۔۔۔ 1953ء میں بچوں کے لیے پہلی تحریر روزنامہ 'انجام' کی زینت بنی، 1962ء میں مجید لاہوری کے پرچے 'نمک دان' سے باقاعدہ مزاح نگاری شروع ہوئی۔۔۔ پھر کام یابی کے بے شمار مراحل طے کرتے چلے گئے، 1983ء میں پہلی کتاب شایع ہوئی اور وفات سے کچھ وقت پہلے تک ان کی معیاری کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری تھا۔۔۔


دوسری طرف سیاسیات اور صحافت میں ایم اے، پھر ایل ایل بی اور لندن سے ڈاکٹریٹ کرنا یقیناً ان کی ذہانت کا اظہار تھا، پیشہ وارانہ زندگی پانچ گریڈ سے شروع کی اور 2002ء میں 20 گریڈ میں 'سندھ سوشل سیکیورٹی' کے ڈائریکٹر کے طور پر سبک دوش ہوئے۔ اردو کالم نگاری میں وہ طنزومزاح کی روایت کے امین آخری چند لوگوں میں تھے، 1996ء میں انھیں 'اے پی این ایس' کی جانب سے بہترین کالم نگار کا اعزاز بھی دیا گیا۔ انھوں نے 'ڈان' میں مذہبی کالم بھی لکھے اور ایک اور انگریزی معاصر میں پرفکر مزاح نگاری کے جوہر بھی دکھائے، وہ ایسے مزاح کے قائل تھے کہ جو قاری کو سوچنے پر مجبور کردے۔

ان کے دولت کدے پر لگ بھگ 1982-83 ء سال سے جاری سالانہ 'دعوتِ پائے' محض شعروسخن کی آب یاری ہی نہیں، بلکہ بہ یک وقت دسیوں مشاہیر سے ملاقات کا ذریعہ بن جاتی تھی۔۔۔ محدود نشستوں کی اس بیٹھک میں وہ ہر برس نئے مہمانوں کو شریک کرتے۔۔۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی ایک انجمن کی طرف سے کسی ادبی شخصیت کی پذیرائی کی جاتی اور پھر پرتکلف فرشی دسترخوان پر تمام مہمانوں کے لیے کھانا چُنا جاتا، جس میں ان کا بھرا پُرا گھرانا اس بھرپور طریقے سے مہمان داری کرتا کہ جیسے بالکل گھر ہی کی کوئی تقریب ہو۔ 2017ء میں ہم بھی اس سجی اور سنوری ہوئی محفل کا حصہ بنے۔۔۔

آج کے سماج میں ڈاکٹر معین جیسی وضع داری اور عاجزی خال خال بھی دکھائی نہیں دیتی کہ آپ علم وادب کے اتنے بلند مرتبے پر فائز ہوں، لیکن کسی ثمردار پیڑ کی مانند جھکے ہوئے ہوں، وہ کبھی اپنے پرانے واقف کاروں سے فاصلہ نہیں کرتے تھے، بلکہ فخر سے بتاتے کہ یہ میرا پرانا محلہ ہے اور یہاں ہمارے پرانے گھر میں بجلی بھی نہیں ہوا کرتی تھی، تب میں اسٹریٹ لائٹ میں بیٹھ کر پڑھتا تھا۔ ہر وقت دست یاب، ہر ایک کو میسر۔۔۔ بس ایک کال کیجیے 'ڈاکٹر صاحب!' اور لیجیے ڈاکٹر صاحب نے اپنا دل نکال کر پیش کر دیا۔۔۔ اب بھلا ایسا بھی کوئی قدآور ہو سکتا ہے کہ جس کے اندر اپنے مرتبے اور علمیت کا ذرا سی بھی فخر و غرور نہ ہو۔۔۔

بھئی، ڈاکٹر صاحب، فلاں دن ہماری تقریب ہے، آپ کو اظہار خیال کرنا ہے، ہماری نئی کتاب آئی ہے، اس کے لیے کچھ سطریں عنایت کر دیجیے، ہمارا تحقیقی مقالہ ہے، اس پر لکھنا ہے۔ الغرض ہر ایک ہی کو وہ اتنی آسانی سے مل جاتے تھے کہ شاید پھر لوگ بھی کچھ یہ بھول سے گئے کہ وہ اس زمانے کی کتنی بڑی شخصیت تھے۔ تبھی تو یہ ہوا کہ ہمارے علم ودانش سے وابستہ حلقوں نے انھیں کندھا دینا بھی ضروری نہ سمجھا۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ تین عشروں تک وہ جس اخبار میں 'برجانِ درویش' کے عنوان سے کالم لکھتے رہے، وہاں ان کی رحلت کی اطلاع کے چند لفظ بھی جگہ نہ پا سکے۔۔۔!

ہمیں کہہ لینے دیجیے کہ اس تاریک ہوتے ہوئے سماج کو شاید یہ احساس ہی نہ تھا کہ اردو زبان وادب کی ایک کتنی بڑی مشعل بجھ گئی ہے۔۔۔ اب شاید ہم جیسی 'ردی'، بلکہ خس وخاشاک باقی رہ گئی۔۔۔ سلام ہے ڈاکٹر یونس حسنی کو، جنھوں نے پیرانہ سالی میں طویل سفر طے کر کے ان کے نماز جنازہ میں شرکت کی، اس کے علاوہ شاعر سلیم فوز، رضوان صدیقی، مزاح نگار محمد اسلام، ادیب م ص ایمن، قادر بخش سومرو (اکادمی ادبیات سندھ)، اختر سعیدی، طارق جمیل (بزم شعر وسخن) اویس ادیب انصاری (محبان بھوپال فورم) بھی نمازِ جنازہ میں موجود تھے۔

ڈاکٹر فاطمہ حسن گھر پر تشریف لائیں، ڈاکٹر داؤد عثمانی قبرستان تک گئے۔ اس کے علاوہ علم وادب کے کسی بھی نمایاں نام نے اس عظیم شخصیت کے نماز جنازہ میں شرکت کی زحمت گوارا نہیں کی۔۔۔! کہتے ہیں کہ 'کسی بڑے نقصان ہونے سے زیادہ اس نقصان سے آگاہ نہ ہونا خطرناک ہوتا ہے!' اور یہ اسی خوف ناک امر کا اظہار ہے۔ باقی اکثر لوگ ان کے عقیدت مند، پرانے ہم سائے اور محلے دار تھے یا پھر ان کے رشتے دار اور بچوں کے کاروباری احباب۔ 27 کتابیں لکھنے والے کے جنازے پر شاید 27 'صاحبِ کتاب' بھی جمع نہ ہو سکے! یعنی اب ہمارا سماج 'اعزاز سے دفنانے' سے بھی گیا۔۔۔ ورنہ پہلے یہ 'اطمینان' تو تھا کہ؎

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن

یہ الگ بات ہے کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے پُرتبسم آخری دیدار کو دیکھ کر دفعتاً گمان ہوا کہ شاید 'ملک الموت' نے جب انھیں کام یابی کی نوید سنائی ہوگی، تو انھوں نے بے ساختہ اس سے بھی کوئی شگفتہ بیانی کی ہوگی، تبھی تو چہرے پر ایک مطمئن مُسکان ٹھیر کر رہ گئی۔۔۔ وہ 20 ستمبر 2021ء کو علم وادب کی اس دنیا کو 'خالی' کر گئے۔۔۔ اردو طنز ومزاح میں مشتاق احمد یوسفی کے 'عہدِ یوسفی' کے بعد 'عہدِ قریشی' بھی ختم ہوگیا۔۔۔!

اب کون ہم جیسے نوآموز لکھنے والے کو ''عزیزم'' اور ''ذہین، باصلاحیت، بااخلاق اور پُرعزم صحافی'' کہہ کر دعائیں اور نیک خواہشات عطا کرے گا۔۔۔ کون ہے اب، جو ایک تلفظ اور زیر اور زبر کے فرق کو سمجھائے، کون جی کھول کر ہمارے کسی چھوٹے سے جملے یا فقرے پر داد دیا کرے گا، اب کون کسی 'دفاعی تحریر' پر یہ کہے گا کہ ''بہت شکریہ، آپ نے فرض کفایہ ادا کیا۔'' اب کون بتائے کہ 'سہولیات' کے بہ جائے 'سہولت' کہنا درست ہوگا۔۔۔ اور 'بندہ' تو اللہ کا ہوتا ہے، فرد لکھیے یا آدمی کہیے۔۔۔

کون اصلاح کرے گا کہ میاں، یہ 'بولنا' کیا ہوتا ہے، بولتے حیوان ہیں، انسان تو کہتا ہے۔۔۔! اب کوئی بھی گرفت نہیں کرے گا، کہ دراصل 'ترازو' مونث ہے، اسے فلم ''انصاف کا ترازو'' نے مذکر فروغ دیا۔۔۔ اب کسی صبح ہمارے جاگنے سے پہلے کسی 'ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی' کی 'مس کال' ہمارے پورے دن کو شادمان نہیں کرے گی۔۔۔ کوئی 'برقی پیغام' کھل کر ہم جیسے کم مایہ لکھاری کو یہ سندِ اعتبار نہیں دے گا کہ ''آج کا انٹرویو زبردست ہے، مزہ آگیا!''؎

راستو، کیا ہوئے وہ لوگ کہ آتے جاتے

میرے 'آداب' پہ کہتے تھے کہ 'جیتے رہیے'

(اظہر عنایتی)

rizwan.tahir@express.com.pk
Load Next Story