عمر شریف اپنے ہر فقرے سے طنز کے نشتر چبھونے والا فن کار رخصت ہوا
ہنسی مذاق کی باتیں یہیں پہ ختم ہوئیں....اب اس کے بعد کہانی رُلانے والی ہے۔
WASHINGTON:
سرمایہ دارانہ دنیا کے ناقدین سارے کھیل تماشوں اور سیروتفریح کی تمام سرگرمیوں کو فقط 'مزید سرمایہ' کمانے کے لیے دی جانے والے اس 'مفید وقفے' سے تعبیر کرتے ہیں، جس کا مقصد دوبارہ سرمایہ داری کا پرزہ بننے کے لیے تازہ دم ہونا ہے۔۔۔
اس بات کے صحیح یا غلط ہونے سے قطع نظر ہم اِس بات سے تو بالکل انکار نہیں کر سکتے کہ ہنسنا اور مسکرانا ہماری زندگی کے لیے کس قدر ضروری ہے۔۔۔ انسان کی باہمی گفتگو سے جہاں مسائل پر دل جوئی اندر کا بوجھ کم کر دیتی ہے، وہیں معمول کی کسی بات پر بے ساختہ ہنس دینا، گویا زندگی کی تلخیوں کو ختم نہ سہی، لیکن کافی کم ضرور کر دیتا ہے اور ہم جیسے بیسیوں صدی کے 'بچوں' کو جہاں بہت سی انفرادیتیں حاصل ہوئیں، وہیں ہمیں بہ یک وقت ایک ہی مَنچ پر معین اختر کے ساتھ جس شخص کو کاٹ دار مزاح کے نشتروں سے سماج اور اہل حَکم کو جھنجھوڑتے ہوئے دیکھا وہ عمر شریف تھا۔۔۔ اس ایک لفظ 'تھا' میں ہی یہ افسوس موجود ہے کہ وہ کل داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔۔۔!
برجستہ اور 'فَٹ دینے' سے اِبلاغ کر دینے والے تیز عوامی فقروں کے ساتھ ایک عمر شریف کا دور ایک ایسے وقت میں شروع ہوا، جب مزاحیہ کلا کاری میں معین اختر کا طوطی بولتا تھا، لیکن عمر شریف نے اپنے میدان کے ایک بہت بڑے نام کی موجودگی کے باوجود بہت کام یابی سے اپنی ایک الگ دنیا بنانا شروع کی۔۔۔ شائقین صرف دونوں کا موازنہ ہی نہیں کرتے، بلکہ اکثر ایک ہی سانس میں دونوں کے نام لیا کرتے تھے۔۔۔ جو بلاشبہ عمرشریف کی بڑی فتح تھی۔
1990ء کی دہائی میں جب کراچی کے نصیب میں بہت دنوں کے لیے سلگا جانا لکھ دیا گیا تھا، تب جیسے کراچی کی سڑک پر جلتے ہوئے ٹائروں کو پیچھے ہٹاتا، کرفیو کے وقفوں اور محاصرہ کی گئی گلیوں سے بچتا بچاتا عمر شریف باہر آتا ہے اور گویا ایک ''احتجاج'' شروع کر دیتا ہے۔۔۔ جس شہر میں گلی گلی نوجوانوں کے اِغوا اور لاشیں گرنے کے مناظر عام تھے، جہاں گلیوں میں مختلف طرح کے خوف مسلط کر دیے گئے تھے، وہاں لوگ اُسے سننے جوق در جوق چلے آتے۔۔۔ اور پھر وہ اِس شہر کا گریہ شروع کرتا۔۔۔ 'قہقہوں کا گریہ۔۔۔!'
کبھی ایسا لگتا کہ شاید وہ اتنی کڑوی اور سچی باتیں پہنچانے کے لیے ہی یہ طرح طرح کے روپ بہروپ دھارتا پھرتا ہے۔۔۔ اور اپنے دل سے کہے گئے فقروں سے کراچی کے 'لالو کھیت' کے رنگوں کو دنیا کے کونے کونے تک روشناس کرا دیتا ہے۔۔۔ کبھی وہ گا رہا ہے، کبھی لچک رہا ہے، تو کبھی خود بھی دبی دبی سی مسکراہٹ کے ساتھ طاقت کے ایوانوں پر ایک زور دار چپت رسید کر دیتا ہے۔۔۔ اور پھر جیسے لوگوں کی دُکھتی رگ پر ہاتھ پڑا ہوا اور لوگ تالیاں نہیں شاید اپنا کلیجہ پیٹتے ہوں۔۔۔!
بات بہت سخت ہوتی اور بہت خوب صورتی سے ہنسی ہنسی میں آئی گئی ہو جاتی۔۔۔ وہ کھیل ہی کھیل میں کراچی کے محاصروں کا رونا بھی رو دیتا ہے، وہ 'گھٹن' اور 'حبس' میں شہر والوں کی صدا کو آنکھ کا ایک کونا دبا کر بہت آسانی سے مجمع کی جانب اچھالے دیتا ہے۔۔۔ عید کا چاند ہونے نہ ہونے اور عید اور بقرعید کے 'مسئلوں' پر بھی وہ خوب تاک کر نشانے باندھتا ہے۔۔۔ بہت سی جگہوں پر 'عوامی پن' حد کو چھونے لگتا ہے، تو اگلے ہی لمحے وہ تیزی سے ساری بات سنبھال لیتا ہے، کچھ نہ کہہ کر بھی سبھی کچھ کہہ جاتا ہے۔۔۔ جیسے یہ بول ''ارے لڑکے تو مظلوم ہیں، انھیں روکنے کے لیے علاقوں میں کرفیو لگائے جاتے ہیں!''
غالباً اپنے 'مشیر ثقافت' ہونے کے زمانے میں جب 'حکومت سندھ' جعلی پیروں کے خلاف کارروائی کر رہی تھی، تو عمر شریف نے لوگوں میں آگاہی دینے کے لیے باقاعدہ اس پر پورا اسٹیج شو بنایا۔۔۔ کبھی 11 ستمبر 2001ء کے واقعات کے بعد وطن لوٹنے والے ہم وطنوں کی حالت زار کو حقیقی رنگ دینے کی بھرپور کوشش کی، تو کہیں 'ہائی سوسائٹی' کی انتہا کو پار کرتے ہوئے چال چلن پر جی کھول کر تَبرّا بھیجا۔۔۔ ایک جگہ فرنیچر کی دکان کا نقشہ کھینچا تو چھوٹی چھوٹی پُرلطف باتوں کے دوران بیٹی کے اس مجبور باپ کا گریہ بھی کر ڈالا، جسے لڑکے والوں کی طرف سے سامان کی ایک طویل فہرست تھما دی گئی ہوتی ہے۔۔۔! یہ وہی پروگرام تھا، جس میں ایک کرسی ایسی ہوتی ہے، کہ جس پر بیٹھ کر ہر شخص اپنے اندر کا سچ اگل دیتا ہے۔۔۔
2005ء کا زلزلہ آیا تو عمر شریف چُپ نہ بیٹھ سکا۔۔۔ اور ''سلام کراچی'' کے عنوان سے شہر قائد کے سماجی کردار کو کھل کر خراج تحسین پیش کیا کہ کس طرح کراچی کے لوگوں نے آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا کے متاثرین کے لیے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔۔۔ الغرض کے مختلف مشہور شخصیات کی نقالی کرنا اور اپنے منفرد بدن بولی اور انداز بیان سے حالاتِ حاضرہ کی طنز آمیز چٹکیاں لینا، وہ بے ساختہ اور حقیقت سے بھرپور انداز تھا، جو واقعی رجحان ساز کہا جا سکتا ہے، کہ ان کے فقرے ضرب المثل کی طرح سامعین اور ناظرین کی زبانوں پر روا ہوا کرتے۔۔۔
رہا اس میں پنہاں نصیحت اور کوئی اچھا پیغام، وہ تو ان سے شاید ہی کبھی چُوکا ہو، اکثر ایسا ہوتا تھا کہ ہنستے ہنستے لوگوں کی پلکیں ڈبڈبانے لگتی تھیں۔۔۔ جب وہ جی کھول کر پکارتا تھا کہ ''ارے بم بنانے والو! کوئی ایسا بم بھی بناؤ ناں، کہ جس کے چلنے سے ساری نفرتیں، تعصب، غربت اور پریشانیاں دور ہو جائیں!''
کل جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے، تو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں بھی ان کے چاہنے والوں نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور انھیں ایشیا کا پہلا 'اسٹینڈ اپ' مزاح کار قرار دیا، جو بلاشبہ بہت بڑی بات ہے۔
عمر شریف صوبائی مشیر ثقافت بھی رہے
محمد عمر، عرف 'عمر شریف' 19 اپریل 1955ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، مشکل زندگی اور مختلف نشیب وفراز دیکھنے والے عمر شریف نے 1970ء کی دہائی میں اپنے فن کے جوہر دکھانا شروع کیے، اسٹیج کے بعد انھوں نے فلمی دنیا میں بھی طبع آزمائی کی، لیکن ان کی وجہ شہرت اسٹیج ہی رہا، جس کے ذریعے انھوں نے برصغیر پاک وہند سے لے کر دنیا بھر میں جہاں جہاں اردو سمجھنے والے موجود ہیں، ان کے دل میں گھر کر لیا۔
اس کے بعد وہ 2004ء کے زمانے میں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے صوبائی مشیر ثقافت بنائے گئے، ان کے علاوہ فاطمہ ثریا بجیا بھی 'متحدہ' کی طرف سے ان دنوں وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم کی مشیر بنائی گئی تھیں۔ اس کے بعد بھی عمر شریف اپنی فن کارانہ زندگی کا سفر جاری رکھا، پھر سماجی خدمت کے لیے 'عمر شریف ویلفئیر ٹرسٹ' قائم کی اور اورنگی ٹاؤن میں 'ماں' اسپتال کی داغ بیل ڈالی۔۔۔ کچھ برس پہلے عمر شریف کی صحت کو شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور ان کا کام یاب 'بائی پاس' آپریشن کیا گیا۔
عمر شریف نے گذشتہ کچھ برسوں میں ایک سے زائد بار 'کراچی آرٹس کونسل' کے انتخاب میں بھی قسمت آزمائی، لیکن ان کا پینل سرخرو نہ ہو سکا۔۔۔ 2009ء میں وہ 'اسٹیج' کے ساتھ ایک نجی چینل سے ایک پروگرام 'دی شریف شو' کرنے لگے، جو کافی عرصے جاری رہا، پھر وہ ایک آن لائن چینل کے لیے پروگرام کرنے لگے۔۔۔ اس دوران تقریباً ڈیڑھ دو سال پہلے ان کی صحت کے مسائل دوبارہ سر اٹھانے لگے اور وہ منظر سے کچھ پَرے ہو گئے۔ انھیں 34 سالہ بیٹی حرا عمر کی موت کا صدمہ بھی جھیلنا پڑا، جو گردے کی پیوند کاری کے ایک آپریشن کے بعد 18 فروری 2020ء کو لاہور میں انتقال کر گئی تھیں۔
میرے مُحسن!
اے شخص! تم، جس سے میں کبھی نہ ملا، تم جو مجھے جانتے تک نہیں۔۔۔۔میرے محسن ہو۔ تمھیں خبر ہی نہ ہوئی کہ کتنی مدت سے ایک اجنبی پر احسان کیے جا رہے ہو۔
کبھی تمھاری صرف آواز میرا سہارا بنی۔۔۔جب میں ٹائفائیڈ میں جکڑا گھبراہٹ اور بے زاری جھیل رہا تھا، تب پاس رکھے ٹیپ ریکارڈر سے پھوٹتے تمھارے شرارتی فقرے میرے ارد گرد یوں چہک اٹھتے کہ طبیعت بحال ہو جاتی۔
''اے بُلبُلو! شور نہ کرو میرا رحیم سو ریا ہے''
دیکھو مجھے آج بھی برسوں پہلے سنے وہ مکالمے یاد ہیں۔ کیسے بھول سکتا ہوں، سرہانے دھرے کیسٹ روز سُنتا تھا، دس دس پندرہ پندرہ مرتبہ۔ پھر بھی طبیعت نہ اکتاتی۔
تم سے طبیعت کیسے اکتاتی، میں تو جب بھی اکتاہٹ کا شکار ہوا تمھارے پاس جاپہنچا، جانتا تھا کہ ایسی حالت میں بس ایک ہی ''دوست''، میرا ''اجنبی دوست'' میرے اکتائے ہوئے لمحوں کو لطف کے رنگوں سے سجا سکتا ہے۔ اور تم نے کبھی مایوس نہیں کیا۔ ایسے میں جب تمھیں بلاتا تم میرے وی سی آر کے دریچے میں آتے اور اپنے بے ساختہ جملوں اور اوٹ پٹانگ حرکتوں سے میرے اندر بہت دور تک رونق میلہ لگا دیتے تھے۔
میں جب جب یاسیت کی دلدل میں دھنسا تم نے ہاتھ بڑھا کر مجھے نکال لیا۔
میں جب بھی اکیلے پن کے صحرا میں بھٹکا، تم کہیں سے شور مچاتے آگئے، میری بانہہ تھامی، پھر میں نے دیکھا لمحوں میں ویران صحرا کے بجائے، بیچ آبادی میں کھڑا قہقہے لگا رہا ہوں۔
لوگوں کے دیے کچوکے، دھوکے، تکلیف، اذیت، دُکھ مجھے درد کی اندھیری گلیوں میں دھکیلتے رہے، اور تم مجھے اِن آگے جا کر بند ہوتی گلیوں سے نکال کر زندگی کی روشن شاہ راہ پر لاتے رہے۔
حالات کے گھاؤ مجھے گھائل کرتے رہے، اور تمھارے لفظ اور انداز مرہم بن کر ان زخموں کا علاج کرتے رہے۔ تم نے انھیں ناسور نہ بننے دیا۔
بہت سُنا تھا، ہنسی علاجِ غم ہے، تمھاری مسیحائی نے بتایا کہ یہ حقیقت ہے۔
تم نے اپنی لالوکھیت کی بولی ٹھولی، لانڈھی کورنگی کے تھڑوں کی فقرے بازی، ملیر کے چوراہوں کی ''کرخنداری'' اور نئی کراچی کے گلی محلوں کی پھبتیوں کو اپنے مکالموں میں یوں بسایا کہ کراچی کی یہ عوامی بولی دور دور تک متعارف ہوگئی۔ ظالم! تم نے مجھ پر تو ایسا رنگ جمایا کہ تمھارا رنگ میری تحریروں میں بھی کہیں کہیں جھلکنے لگتا ہے۔
تمھاری نٹ کھٹ نوٹنکی، اچھل کود، لبوں سے یوں تیزی کے ساتھ پھوٹتے چٹکلے جیسے تم آدمی نہیں جُگتوں کی مشین ہو اور آندھی طوفان کی رفتار سے بدلتے تیور۔۔۔یہ سب تمھاری پہچان بن گئے تھے۔ ہم سائے دیس کا کوئی بڑا اداکار جب تمھارا روپ چُراتا تو تمھاری ہر ادا کے آشنا جھٹ بھانپ لیتے کہ یہ ہمارے سارے کے سارے عمرشریف کو دھارے بہروپ نبھا رہا ہے۔ وہ جب اسے دیکھ کر ہنستے تو اسے نہیں تمھیں سوچ کر ہنستے۔
آج خبر سُنی تم چلے گئے، ماٹی میں جا سوئے۔ تم کیا سمجھتے ہو، تم بچھڑ کر مجھے اُداس کر جاؤ گے، تنہا کرجاؤ گے، رلاؤ گے، ارے جاؤ! میں نہیں اداس ہونے والا، میری آنکھوں سے کوئی جھڑی وڑی نہیں لگنے کی۔
لو میں یہ گیا یوٹیوب پر اور تمھارا ڈراما لگا لیا، اب دیکھتے ہیں کہ ایک آنسو بھی آنکھ میں کیسے آتا ہے۔
یہ دیکھو! میں کیسے ہنس رہا ہوں۔
بڑے آئے جانے والے، رلانے والے۔۔۔۔ہنہہ۔ (محمد عثمان جامعی)
سرمایہ دارانہ دنیا کے ناقدین سارے کھیل تماشوں اور سیروتفریح کی تمام سرگرمیوں کو فقط 'مزید سرمایہ' کمانے کے لیے دی جانے والے اس 'مفید وقفے' سے تعبیر کرتے ہیں، جس کا مقصد دوبارہ سرمایہ داری کا پرزہ بننے کے لیے تازہ دم ہونا ہے۔۔۔
اس بات کے صحیح یا غلط ہونے سے قطع نظر ہم اِس بات سے تو بالکل انکار نہیں کر سکتے کہ ہنسنا اور مسکرانا ہماری زندگی کے لیے کس قدر ضروری ہے۔۔۔ انسان کی باہمی گفتگو سے جہاں مسائل پر دل جوئی اندر کا بوجھ کم کر دیتی ہے، وہیں معمول کی کسی بات پر بے ساختہ ہنس دینا، گویا زندگی کی تلخیوں کو ختم نہ سہی، لیکن کافی کم ضرور کر دیتا ہے اور ہم جیسے بیسیوں صدی کے 'بچوں' کو جہاں بہت سی انفرادیتیں حاصل ہوئیں، وہیں ہمیں بہ یک وقت ایک ہی مَنچ پر معین اختر کے ساتھ جس شخص کو کاٹ دار مزاح کے نشتروں سے سماج اور اہل حَکم کو جھنجھوڑتے ہوئے دیکھا وہ عمر شریف تھا۔۔۔ اس ایک لفظ 'تھا' میں ہی یہ افسوس موجود ہے کہ وہ کل داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔۔۔!
برجستہ اور 'فَٹ دینے' سے اِبلاغ کر دینے والے تیز عوامی فقروں کے ساتھ ایک عمر شریف کا دور ایک ایسے وقت میں شروع ہوا، جب مزاحیہ کلا کاری میں معین اختر کا طوطی بولتا تھا، لیکن عمر شریف نے اپنے میدان کے ایک بہت بڑے نام کی موجودگی کے باوجود بہت کام یابی سے اپنی ایک الگ دنیا بنانا شروع کی۔۔۔ شائقین صرف دونوں کا موازنہ ہی نہیں کرتے، بلکہ اکثر ایک ہی سانس میں دونوں کے نام لیا کرتے تھے۔۔۔ جو بلاشبہ عمرشریف کی بڑی فتح تھی۔
1990ء کی دہائی میں جب کراچی کے نصیب میں بہت دنوں کے لیے سلگا جانا لکھ دیا گیا تھا، تب جیسے کراچی کی سڑک پر جلتے ہوئے ٹائروں کو پیچھے ہٹاتا، کرفیو کے وقفوں اور محاصرہ کی گئی گلیوں سے بچتا بچاتا عمر شریف باہر آتا ہے اور گویا ایک ''احتجاج'' شروع کر دیتا ہے۔۔۔ جس شہر میں گلی گلی نوجوانوں کے اِغوا اور لاشیں گرنے کے مناظر عام تھے، جہاں گلیوں میں مختلف طرح کے خوف مسلط کر دیے گئے تھے، وہاں لوگ اُسے سننے جوق در جوق چلے آتے۔۔۔ اور پھر وہ اِس شہر کا گریہ شروع کرتا۔۔۔ 'قہقہوں کا گریہ۔۔۔!'
کبھی ایسا لگتا کہ شاید وہ اتنی کڑوی اور سچی باتیں پہنچانے کے لیے ہی یہ طرح طرح کے روپ بہروپ دھارتا پھرتا ہے۔۔۔ اور اپنے دل سے کہے گئے فقروں سے کراچی کے 'لالو کھیت' کے رنگوں کو دنیا کے کونے کونے تک روشناس کرا دیتا ہے۔۔۔ کبھی وہ گا رہا ہے، کبھی لچک رہا ہے، تو کبھی خود بھی دبی دبی سی مسکراہٹ کے ساتھ طاقت کے ایوانوں پر ایک زور دار چپت رسید کر دیتا ہے۔۔۔ اور پھر جیسے لوگوں کی دُکھتی رگ پر ہاتھ پڑا ہوا اور لوگ تالیاں نہیں شاید اپنا کلیجہ پیٹتے ہوں۔۔۔!
بات بہت سخت ہوتی اور بہت خوب صورتی سے ہنسی ہنسی میں آئی گئی ہو جاتی۔۔۔ وہ کھیل ہی کھیل میں کراچی کے محاصروں کا رونا بھی رو دیتا ہے، وہ 'گھٹن' اور 'حبس' میں شہر والوں کی صدا کو آنکھ کا ایک کونا دبا کر بہت آسانی سے مجمع کی جانب اچھالے دیتا ہے۔۔۔ عید کا چاند ہونے نہ ہونے اور عید اور بقرعید کے 'مسئلوں' پر بھی وہ خوب تاک کر نشانے باندھتا ہے۔۔۔ بہت سی جگہوں پر 'عوامی پن' حد کو چھونے لگتا ہے، تو اگلے ہی لمحے وہ تیزی سے ساری بات سنبھال لیتا ہے، کچھ نہ کہہ کر بھی سبھی کچھ کہہ جاتا ہے۔۔۔ جیسے یہ بول ''ارے لڑکے تو مظلوم ہیں، انھیں روکنے کے لیے علاقوں میں کرفیو لگائے جاتے ہیں!''
غالباً اپنے 'مشیر ثقافت' ہونے کے زمانے میں جب 'حکومت سندھ' جعلی پیروں کے خلاف کارروائی کر رہی تھی، تو عمر شریف نے لوگوں میں آگاہی دینے کے لیے باقاعدہ اس پر پورا اسٹیج شو بنایا۔۔۔ کبھی 11 ستمبر 2001ء کے واقعات کے بعد وطن لوٹنے والے ہم وطنوں کی حالت زار کو حقیقی رنگ دینے کی بھرپور کوشش کی، تو کہیں 'ہائی سوسائٹی' کی انتہا کو پار کرتے ہوئے چال چلن پر جی کھول کر تَبرّا بھیجا۔۔۔ ایک جگہ فرنیچر کی دکان کا نقشہ کھینچا تو چھوٹی چھوٹی پُرلطف باتوں کے دوران بیٹی کے اس مجبور باپ کا گریہ بھی کر ڈالا، جسے لڑکے والوں کی طرف سے سامان کی ایک طویل فہرست تھما دی گئی ہوتی ہے۔۔۔! یہ وہی پروگرام تھا، جس میں ایک کرسی ایسی ہوتی ہے، کہ جس پر بیٹھ کر ہر شخص اپنے اندر کا سچ اگل دیتا ہے۔۔۔
2005ء کا زلزلہ آیا تو عمر شریف چُپ نہ بیٹھ سکا۔۔۔ اور ''سلام کراچی'' کے عنوان سے شہر قائد کے سماجی کردار کو کھل کر خراج تحسین پیش کیا کہ کس طرح کراچی کے لوگوں نے آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا کے متاثرین کے لیے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔۔۔ الغرض کے مختلف مشہور شخصیات کی نقالی کرنا اور اپنے منفرد بدن بولی اور انداز بیان سے حالاتِ حاضرہ کی طنز آمیز چٹکیاں لینا، وہ بے ساختہ اور حقیقت سے بھرپور انداز تھا، جو واقعی رجحان ساز کہا جا سکتا ہے، کہ ان کے فقرے ضرب المثل کی طرح سامعین اور ناظرین کی زبانوں پر روا ہوا کرتے۔۔۔
رہا اس میں پنہاں نصیحت اور کوئی اچھا پیغام، وہ تو ان سے شاید ہی کبھی چُوکا ہو، اکثر ایسا ہوتا تھا کہ ہنستے ہنستے لوگوں کی پلکیں ڈبڈبانے لگتی تھیں۔۔۔ جب وہ جی کھول کر پکارتا تھا کہ ''ارے بم بنانے والو! کوئی ایسا بم بھی بناؤ ناں، کہ جس کے چلنے سے ساری نفرتیں، تعصب، غربت اور پریشانیاں دور ہو جائیں!''
کل جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے، تو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں بھی ان کے چاہنے والوں نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور انھیں ایشیا کا پہلا 'اسٹینڈ اپ' مزاح کار قرار دیا، جو بلاشبہ بہت بڑی بات ہے۔
عمر شریف صوبائی مشیر ثقافت بھی رہے
محمد عمر، عرف 'عمر شریف' 19 اپریل 1955ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، مشکل زندگی اور مختلف نشیب وفراز دیکھنے والے عمر شریف نے 1970ء کی دہائی میں اپنے فن کے جوہر دکھانا شروع کیے، اسٹیج کے بعد انھوں نے فلمی دنیا میں بھی طبع آزمائی کی، لیکن ان کی وجہ شہرت اسٹیج ہی رہا، جس کے ذریعے انھوں نے برصغیر پاک وہند سے لے کر دنیا بھر میں جہاں جہاں اردو سمجھنے والے موجود ہیں، ان کے دل میں گھر کر لیا۔
اس کے بعد وہ 2004ء کے زمانے میں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے صوبائی مشیر ثقافت بنائے گئے، ان کے علاوہ فاطمہ ثریا بجیا بھی 'متحدہ' کی طرف سے ان دنوں وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم کی مشیر بنائی گئی تھیں۔ اس کے بعد بھی عمر شریف اپنی فن کارانہ زندگی کا سفر جاری رکھا، پھر سماجی خدمت کے لیے 'عمر شریف ویلفئیر ٹرسٹ' قائم کی اور اورنگی ٹاؤن میں 'ماں' اسپتال کی داغ بیل ڈالی۔۔۔ کچھ برس پہلے عمر شریف کی صحت کو شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور ان کا کام یاب 'بائی پاس' آپریشن کیا گیا۔
عمر شریف نے گذشتہ کچھ برسوں میں ایک سے زائد بار 'کراچی آرٹس کونسل' کے انتخاب میں بھی قسمت آزمائی، لیکن ان کا پینل سرخرو نہ ہو سکا۔۔۔ 2009ء میں وہ 'اسٹیج' کے ساتھ ایک نجی چینل سے ایک پروگرام 'دی شریف شو' کرنے لگے، جو کافی عرصے جاری رہا، پھر وہ ایک آن لائن چینل کے لیے پروگرام کرنے لگے۔۔۔ اس دوران تقریباً ڈیڑھ دو سال پہلے ان کی صحت کے مسائل دوبارہ سر اٹھانے لگے اور وہ منظر سے کچھ پَرے ہو گئے۔ انھیں 34 سالہ بیٹی حرا عمر کی موت کا صدمہ بھی جھیلنا پڑا، جو گردے کی پیوند کاری کے ایک آپریشن کے بعد 18 فروری 2020ء کو لاہور میں انتقال کر گئی تھیں۔
میرے مُحسن!
اے شخص! تم، جس سے میں کبھی نہ ملا، تم جو مجھے جانتے تک نہیں۔۔۔۔میرے محسن ہو۔ تمھیں خبر ہی نہ ہوئی کہ کتنی مدت سے ایک اجنبی پر احسان کیے جا رہے ہو۔
کبھی تمھاری صرف آواز میرا سہارا بنی۔۔۔جب میں ٹائفائیڈ میں جکڑا گھبراہٹ اور بے زاری جھیل رہا تھا، تب پاس رکھے ٹیپ ریکارڈر سے پھوٹتے تمھارے شرارتی فقرے میرے ارد گرد یوں چہک اٹھتے کہ طبیعت بحال ہو جاتی۔
''اے بُلبُلو! شور نہ کرو میرا رحیم سو ریا ہے''
دیکھو مجھے آج بھی برسوں پہلے سنے وہ مکالمے یاد ہیں۔ کیسے بھول سکتا ہوں، سرہانے دھرے کیسٹ روز سُنتا تھا، دس دس پندرہ پندرہ مرتبہ۔ پھر بھی طبیعت نہ اکتاتی۔
تم سے طبیعت کیسے اکتاتی، میں تو جب بھی اکتاہٹ کا شکار ہوا تمھارے پاس جاپہنچا، جانتا تھا کہ ایسی حالت میں بس ایک ہی ''دوست''، میرا ''اجنبی دوست'' میرے اکتائے ہوئے لمحوں کو لطف کے رنگوں سے سجا سکتا ہے۔ اور تم نے کبھی مایوس نہیں کیا۔ ایسے میں جب تمھیں بلاتا تم میرے وی سی آر کے دریچے میں آتے اور اپنے بے ساختہ جملوں اور اوٹ پٹانگ حرکتوں سے میرے اندر بہت دور تک رونق میلہ لگا دیتے تھے۔
میں جب جب یاسیت کی دلدل میں دھنسا تم نے ہاتھ بڑھا کر مجھے نکال لیا۔
میں جب بھی اکیلے پن کے صحرا میں بھٹکا، تم کہیں سے شور مچاتے آگئے، میری بانہہ تھامی، پھر میں نے دیکھا لمحوں میں ویران صحرا کے بجائے، بیچ آبادی میں کھڑا قہقہے لگا رہا ہوں۔
لوگوں کے دیے کچوکے، دھوکے، تکلیف، اذیت، دُکھ مجھے درد کی اندھیری گلیوں میں دھکیلتے رہے، اور تم مجھے اِن آگے جا کر بند ہوتی گلیوں سے نکال کر زندگی کی روشن شاہ راہ پر لاتے رہے۔
حالات کے گھاؤ مجھے گھائل کرتے رہے، اور تمھارے لفظ اور انداز مرہم بن کر ان زخموں کا علاج کرتے رہے۔ تم نے انھیں ناسور نہ بننے دیا۔
بہت سُنا تھا، ہنسی علاجِ غم ہے، تمھاری مسیحائی نے بتایا کہ یہ حقیقت ہے۔
تم نے اپنی لالوکھیت کی بولی ٹھولی، لانڈھی کورنگی کے تھڑوں کی فقرے بازی، ملیر کے چوراہوں کی ''کرخنداری'' اور نئی کراچی کے گلی محلوں کی پھبتیوں کو اپنے مکالموں میں یوں بسایا کہ کراچی کی یہ عوامی بولی دور دور تک متعارف ہوگئی۔ ظالم! تم نے مجھ پر تو ایسا رنگ جمایا کہ تمھارا رنگ میری تحریروں میں بھی کہیں کہیں جھلکنے لگتا ہے۔
تمھاری نٹ کھٹ نوٹنکی، اچھل کود، لبوں سے یوں تیزی کے ساتھ پھوٹتے چٹکلے جیسے تم آدمی نہیں جُگتوں کی مشین ہو اور آندھی طوفان کی رفتار سے بدلتے تیور۔۔۔یہ سب تمھاری پہچان بن گئے تھے۔ ہم سائے دیس کا کوئی بڑا اداکار جب تمھارا روپ چُراتا تو تمھاری ہر ادا کے آشنا جھٹ بھانپ لیتے کہ یہ ہمارے سارے کے سارے عمرشریف کو دھارے بہروپ نبھا رہا ہے۔ وہ جب اسے دیکھ کر ہنستے تو اسے نہیں تمھیں سوچ کر ہنستے۔
آج خبر سُنی تم چلے گئے، ماٹی میں جا سوئے۔ تم کیا سمجھتے ہو، تم بچھڑ کر مجھے اُداس کر جاؤ گے، تنہا کرجاؤ گے، رلاؤ گے، ارے جاؤ! میں نہیں اداس ہونے والا، میری آنکھوں سے کوئی جھڑی وڑی نہیں لگنے کی۔
لو میں یہ گیا یوٹیوب پر اور تمھارا ڈراما لگا لیا، اب دیکھتے ہیں کہ ایک آنسو بھی آنکھ میں کیسے آتا ہے۔
یہ دیکھو! میں کیسے ہنس رہا ہوں۔
بڑے آئے جانے والے، رلانے والے۔۔۔۔ہنہہ۔ (محمد عثمان جامعی)