حکومتی غفلت سے عدالتی نظام اور عوام میں مایوسی پھیل گئی چیف جسٹس

سہولیات نہ ملنے سے ماتحت عدلیہ میں90فیصد مقدمات زیرالتواہیں، زیادہ تعداد پنجاب کی ہے،عشائیے سے خطاب

ہمیں بار کا تعاون چاہئے، ہڑتال کلچر کا خاتمہ ہونا چاہئے اور دور دراز کے علاقوں کے عوام کو بھی انصاف ملنا چاہئے،چیف جسٹس۔ فوٹو: فائل

چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی نے کہا ہے کہ ہم ایک نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ حکومتی غفلت کی وجہ سے عدالتی نظام اور عوام میں مایوسی ہے۔

لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے سالانہ عشائیے سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ جج اور وکلاء عدالتی نظام کے ٹرسٹی ہیں جس میں بار اور بینچ کو انصاف کی فراہمی کا مشترکہ ٹاسک حاصل کرنا ہے ۔حکومتی غفلت کے باعث عدالتی نظام کو مناسب سہولیات نہیں ملی اور اسی وجہ سے ماتحت عدلیہ میں 90 فیصد مقدمات زیر التوا ہیں اور ان میں سب سے زیادہ تعداد پنجاب کی ہے ۔ جمہوریت میں عام آدمی کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے لیکن کئی مرتبہ ایسے حالات آتے ہیں کہ ان اقدار اور حقوق کو پامال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے انصاف کی فراہمی کے مقاصد حاصل نہیں ہو پاتے۔ عوام اور وکلا کو ملک کا مستقبل بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم بار کو اپنا حصہ تصور کرتے ہیں۔ قانون ، آئین اور ضمیر کے تحت ہمارا مقصد عام آدمی کو انصاف فراہم کرنا ہے جس کیلئے تما م اداروں کو فعال بنانا ہو گا۔




ہمیں بار کا تعاون چاہئے، ہڑتال کلچر کا خاتمہ ہونا چاہئے اور دور دراز کے علاقوں کے عوام کو بھی انصاف ملنا چاہئے، ججوں کی تقرری کا طریقہ کار شفاف ہے، بار اپنی سفارشات ضرور دے لیکن امیدواروں کو پرکھنے کا اختیار عدلیہ کے پاس ہی رہنے دیں۔ ججوں کی تقرری کے پیمانے سخت ہیں اور اگر جسٹس جیلانی جیسے جج مل جائیں تو خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ چند سالوں کے دوران عدالتوں میں 34افراد قتل ہوئے جوناقابل برداشت ہے تاہم اداروں کو فعال بنانے سے سیکورٹی کے معاملات بہتر ہوئے اور جولائی کے بعد ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ لاہورہائیکورٹ کے صدرعابد ساقی نے کہا کہ آزادعدلیہ کی موجودگی میں کسی آمر یا جمہوری حکمران کو عوام کے حقوق پر شب خون مارنے کی جرات نہیں ہو سکتی۔آپ ہمارے حقوق کے محافظ ہیں۔ بعض متنازعہ فیصلوں پر نظرثانی کیلئے ایک آئینی بنچ تشکیل دیا جانا چاہیے۔ عدلیہ کے پاس سوموٹو ایکشن ہونا چاہیے لیکن آئین میں ترمیم کرتے ہوئے ان کیسوں میں اپیل کا حق بھی ملنا چاہیے ورنہ معاملات خرابی کی طرف جائیں گے۔
Load Next Story