دلشاد پری

چترال میں تعینات ہونے والی پہلی خاتون ایس ایچ او

فوٹو : فائل

یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ ہماری خواتین تعلیمی میدان میں اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑنے کے بعد سرکاری وغیر سرکاری اداروں میں شان دار خدمات سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ دلشاد پری بھی انھی باہمت خواتین میں سے ایک ہیں جنھیں اپنی تعلیمی قابلیت، اپنی صلاحیتوں کے باعث چترال کے تھانہ شغور میں پہلی خاتون 'ایس ایچ او' تعینات ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔

دلشاد پری 1989ء میں چترال کے علاقے 'بنی' میں پولیس حوال دار سید عزیز ولی شاہ کے گھر پیدا ہوئیں، بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پیدا ہونے والی دلشاد پری کو بچپن سے ہی پولیس میں جانے یا وکیل بننے کا شوق تھا، وہ کہتی ہیں ''میں اپنے والد سے متاثر ہوں، وہ جب وردی پہن کر ڈیوٹی پر جاتے تو مجھے نہ صرف اچھا لگتا، بلکہ پڑھ لکھ کر پولیس آفیسر بننے کے شوق کو مزید جلا ملتی۔۔۔''

بتاتی ہیں کہ 'خواہش بھی تھی کہ ایسے عہدے پر کام کروں، جس سے خواتین کو حقوق دلوا سکوں اور انھیں تحفظ دوں۔ 'ایل ایل بی' بھی اسی خواہش کے تناظر میں کیا اور خواتین کے مسائل اور حقوق کے لیے جنگ لڑی۔۔۔''

دلشاد پری نے 'بنی' کے نمایاں اسکول خان سکول سے ابتدا تعلیم حاصل کی، پامیر کالج بنی سے 'ایف ایس سی' کرنے کے بعد سید شریف کالج سوات سے 'بی ایس سی' کی۔ جہانزیب کالج سوات سے 'ایم ایس اسی' آرگینگ کیمسٹ کی ڈگری حاصل کی۔ پرل ڈگری کالج سے بی ایڈ، مسلم لا کالج سے ایل ایل بی ،سلیب سکول ترک ہاؤس سے ڈپلومہ فزیکل ایجوکیشن، کامرس کالج سے ڈی آئی ٹی کرنے کے بعد علامہ اقبال یونیورسٹی سے صحافت کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

ان کے والد بطور حوال دار ریٹائر ہوئے ہیں، ایک بہن محکمۂ تعلیم اور دوسری بہن محکمۂ صحت میں ملازمت کرتی ہیں۔ دلشاد پری کاکہنا ہے کہ انھیں تعلیم کا بچپن سے شوق تھا، گھر میں تعلیم اور مطالعے کا ماحول موجود تھا۔

2010ء میں محکمۂ پولیس میں بطور کانسٹیبل شمولیت اختیار کی۔۔۔ 2017ء میں کمیشن پاس کیا۔ نوکری آغاز بطور کانسٹیبل سپیشل برانچ فارنر ڈیسک سے کیا، بطور محرر کام کیا۔ مالاکنڈ ڈویڑن میں پہلی حوال دار ہونے، پہلی پی ایس آئی خاتون ہونے کا اعزاز بھی انھیں حاصل ہے۔

دلشاد پری کہتی ہیں کہ ''شروع شروع میں سید خاندان ہونے کہ وجہ سے پولیس کی ملازمت پر خاندان کے لوگ خوش نہیں تھے لیکن جب پولیس ٹریننگ سنٹر میں تین بار ٹاپ کیا، ٹرپل کیڈٹ کا اعزاز حاصل ہوا۔ کمیشن پاس کرنے کے باعث جب پی ایس آئی بھرتی ہوئیں تو کچھ حالات نارمل ہوگئے ۔۔۔ وہ بتاتی ہیں جب خواتین کے حقوق کی جنگ لڑی، اہل خانہ نے ان کو حقوق دلواتے ہوئے دیکھا تو پھر سب خوش ہوگئے، خصوصاً اماں اب ان کے کام سے بہت خوش ہیں۔


وہ چترال میں خواتین کے مسائل کے حوالے سے بتاتی ہیں ''یہاں خواتین کو گھریلو تشدد اور سائبر کرائم کا زیادہ سامنا ہے۔ ازداوجی مسائل ان مسائل میں دوسرے نمبر پر ہیں۔''



وہ بتاتی ہیں ''جب انھیں ویمن رپورٹنگ ڈیسک کا انچارج بنایا گیا تو ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج اس علاقے میں خواتین میں خودکشیوں کا بڑھتا ہوا رجحان تھا، گھریلو تشدد کے باعث خاندانوں کے خاندان ٹوٹ رہے تھے۔ جس پر خصوصی کام کرتے ہوئے انھوں نے خواتین اور مردوں کی کونسلنگ پر زور دیا۔۔۔ خودکُشی اور طلاق کے اسباب پر قابو پایا ان کا سد باب کیا۔

خواتین جو ان کے پاس آتی تھیں، وہ خاتون انچارج ہونے کے باعث مسائل کھل کر بتاتی تھیں اور مجھ پر اعتماد کرتی تھیں، اسی اعتماد کے باعث میں ان کی کونسلنگ کر کے صلح کرواتی تھی، اسی وجہ سے میں نے ایک سال میں 600 سے زائد کیس حل کیے اور ٹوٹتے ہوئے گھروں میں صلح کرائی اور ان گھروں کو جوڑا۔۔۔ ان دنوں رانگ کال اور ہراساں کیے جانے کے کیس سامنے آ رہے ہیںم جن پر قابو پانے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔

دلشاد پری میں زمانہ طالب علمی سے ہی مطالعے کا شوق شروع تھا۔۔۔ رضیہ بٹ کے ناول، قومی ڈائجسٹ، اردو ڈائجسٹ اور متعدد اخبارات روزانہ ان کے مطالعے میں رہتے ہیں۔ انھوں نے بطور وکیل بھی پریکٹس کی۔ مقامی اخبار 'چترال ٹائمز' میں ان کے کالم بھی شائع ہوتے رہے ہیں ان دنوں وہ اپنی سوانح حیات اپنی جدو جہد کو ایک ناول کی شکل دینے میں مصروف ہیں۔

ان کا کہنا ہے ان کی قابلیت کے باعث انھیں بطور 'ایس ایچ او' ذمہ داری دی گئی ہے اور وہ کوشش کر رہی ہیں کہ اپنی ٹیم کے ذریعے ایسے اقدامات کر جائیں کہ لوگ پولیس کو حقیقی معنوں میں اپنا خادم سمجھیں ان کا عزم ہے کہ نوجوان نسل جو کمیشن پاس کر کے آئے ہیں، وہ روایتی پولیس کے نظام کو ضرور تبدیل کریں گے۔ تاکہ لوگ بلا جھجھک پولیس کو اپنا دوست سمجھیں، کرپشن پر مبنی 'تھانہ کلچر' ختم ہو سکے۔

دلشاد پری پاکستانی ثقافت، خصوصاً چترال کی رسم وروایات وغیرہ پر فخر محسوس کرتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہاں اب لوگ بچیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں، جو اس خطے میں بہت بڑی تبدیلی ہے۔

انھیں ادب سے خاصا لگاؤ ہے، وہ علامہ اقبال اور پروین شاکر کو بہت زیادہ پسند کرتی ہیں۔ میر تقی میر اور وصی شاہ بھی ان کے پسندیدہ شعرا میں شامل ہیں۔ ان کی منگنی ان کے کزن سے ہو چکی ہے، جو لیکچرر ہیں۔ دلشاد بتاتی ہیں، انھوں نے کبھی میرے کام میں مداخلت نہیں کی۔ کھانے میں بریانی پسند ہے۔ کوکنگ کا شوق ہے۔ تعلیم کے سلسلے کو مزید بڑھاتے ہوئیوہ 'پی ایچ ڈی' کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ والد اور والدہ کو اپنا آئیڈیل سمجھتی ہیں۔
Load Next Story