سچ اور سیاسی اخلاقیات کی تباہی
سیاسی اخلاقیات کا تو ملک میں پہلے ہی فقدان تھا مگر تین سالوں میں موجودہ حکومت نے سیاسی اخلاقیات تباہ کرا دی ہے
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ میاں شہباز شریف نے اپنی طویل پریس کانفرنس میں سوا گھنٹے تک مسلسل جھوٹ بولا ، وہ مشتبہ ٹی ٹیز کا جواب دیں۔ میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ حکومت کے ذمے داران مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں، ہمیں برطانوی عدالت نے کلین چٹ دی ہے جو ہماری عدالتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے کہا کہ برطانوی عدالت نے شہباز شریف کو انٹرنیشنل صادق و امین قرار دے دیا ہے اورہم چاہتے ہیں کہ جس طرح ہمیں برطانیہ میں انصاف ملا پاکستان میں بھی ایسے فیصلے ہوں۔ برطانوی عدالت کے فیصلے کے بعد مسلم لیگی رہنما جس طرح خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اس کے جواب میں حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ خوش نہ ہوں بلکہ ملکی عدالتوں کے آنے والے فیصلوں کا انتظارکریں جس کے بعد شہباز شریف جیل میں ہوں گے۔
اپوزیشن کی تمام جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ حکومت تین سالوں سے اپنے سیاسی مخالفین پر نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے سیاسی انتقام لے رہی ہے، کسی ایک اپوزیشن رہنما پر کرپشن ثابت نہیں ہوئی اور برسوں سے انھیں جھوٹے مقدمات میں ملوث کرکے ان کی کردار کشی اور میڈیا ٹرائل کرکے بدنام کیا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ماضی میں بنائی جانے والی مہنگی سڑکوں کی تعمیری کرپشن کی ایف آئی اے تحقیقات کرے گی ، ماضی کی حکومتوں نے جو کرپشن کی ہے اس کے لیے ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس واضح کرچکی ہیں کہ نیب کرپشن کے ثبوت نہیں دے رہا اور چاہتا ہے کہ ثبوت کے بغیر پکڑے گئے ملزموں کو عدالتیں سزا دے دیں ،ایسا نہیں ہو سکتا ، بغیر ثبوت کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی۔وزیر اعظم کے حالیہ بیان سے لگتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ عدالتیں ماضی کی حکومتوں کے مبینہ کرپشن میں ملوث ذمے داروں کو ثبوت کے بغیر سزا دیں، ثبوت کی ضرورت نہیں۔
برطانوی عدالت نے 2019 کے بعد کرپشن و منی لانڈرنگ کے ثبوت نہ ملنے پر شہباز شریف اور ان کے بیٹے کو کلین چٹ دے دی ہے جس پر ن لیگ سیاست میں دوبارہ فعال ہوگئی ہے،جب کہ حکومت اس معاملے میں دفاعی پوزیشن پر رہے کہ ا پوزیشن پر الزامات عائد کررہی ہے۔اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مقابلہ چل رہا ہے اور دونوں ایک دوسرے پر جھوٹ بولنے اور سچ چھپانے کے سنگین الزامات لگا رہے ہیں جس سے پریشان اور کنفیوژ عوام ہیں اور دونوں کے حامی انھیں سچا سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے سچائی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
سیاسی اخلاقیات کا تو ملک میں پہلے ہی فقدان تھا مگر تین سالوں میں موجودہ حکومت نے سیاسی اخلاقیات تباہ کرا دی ہے اور اب سیاست میں خود ساختہ وڈیوز نے تو اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ بداخلاقی کی مبینہ وڈیوز جو بھی سیاست میں لایا ہے اس نے سیاست کو مزید گندا کرنا شروع کردیا ہے۔
سیاست توپہلے ہی بدنام تھی۔ پہلے سیاسی مخالفین کی قابل اعتراض تصاویر جاری ہوتی تھیں، چہرہ کسی کا اور جسم کسی اور کا ہوتا تھا مگر اب تو کمپیوٹرز کے ذریعے سے اور جدید خفیہ کیمروں کے ذریعے بنائی جانے والی سیاسی رہنماؤں کی مبینہ وڈیوز منظر عام پر لائی جا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ایسا کرنے والوں کے وڈیو ماہرین اپنوں کی خوشنودی کے لیے بداخلاقی کی تمام حدیں پھلانگ گئے ہیں جس سے جھوٹ اور سچ کا پتا چلنا مشکل ہو گیا ہے اور ایسی حرکتوں کے مخالف شرمندگی کا اظہار ہی کرسکتے ہیں۔ سیاسی اخلاق باختگی حد سے بڑھ چکی مگر روکنے والا کوئی نہیں اور سیاست مزید بدنام ہو رہی ہے جو ملک کے لیے نیک شگون ہرگز نہیں بلکہ انتہائی بدنامی اور شرمندگی کا باعث بن گئی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے کہا کہ برطانوی عدالت نے شہباز شریف کو انٹرنیشنل صادق و امین قرار دے دیا ہے اورہم چاہتے ہیں کہ جس طرح ہمیں برطانیہ میں انصاف ملا پاکستان میں بھی ایسے فیصلے ہوں۔ برطانوی عدالت کے فیصلے کے بعد مسلم لیگی رہنما جس طرح خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اس کے جواب میں حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ خوش نہ ہوں بلکہ ملکی عدالتوں کے آنے والے فیصلوں کا انتظارکریں جس کے بعد شہباز شریف جیل میں ہوں گے۔
اپوزیشن کی تمام جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ حکومت تین سالوں سے اپنے سیاسی مخالفین پر نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے سیاسی انتقام لے رہی ہے، کسی ایک اپوزیشن رہنما پر کرپشن ثابت نہیں ہوئی اور برسوں سے انھیں جھوٹے مقدمات میں ملوث کرکے ان کی کردار کشی اور میڈیا ٹرائل کرکے بدنام کیا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ماضی میں بنائی جانے والی مہنگی سڑکوں کی تعمیری کرپشن کی ایف آئی اے تحقیقات کرے گی ، ماضی کی حکومتوں نے جو کرپشن کی ہے اس کے لیے ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس واضح کرچکی ہیں کہ نیب کرپشن کے ثبوت نہیں دے رہا اور چاہتا ہے کہ ثبوت کے بغیر پکڑے گئے ملزموں کو عدالتیں سزا دے دیں ،ایسا نہیں ہو سکتا ، بغیر ثبوت کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی۔وزیر اعظم کے حالیہ بیان سے لگتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ عدالتیں ماضی کی حکومتوں کے مبینہ کرپشن میں ملوث ذمے داروں کو ثبوت کے بغیر سزا دیں، ثبوت کی ضرورت نہیں۔
برطانوی عدالت نے 2019 کے بعد کرپشن و منی لانڈرنگ کے ثبوت نہ ملنے پر شہباز شریف اور ان کے بیٹے کو کلین چٹ دے دی ہے جس پر ن لیگ سیاست میں دوبارہ فعال ہوگئی ہے،جب کہ حکومت اس معاملے میں دفاعی پوزیشن پر رہے کہ ا پوزیشن پر الزامات عائد کررہی ہے۔اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مقابلہ چل رہا ہے اور دونوں ایک دوسرے پر جھوٹ بولنے اور سچ چھپانے کے سنگین الزامات لگا رہے ہیں جس سے پریشان اور کنفیوژ عوام ہیں اور دونوں کے حامی انھیں سچا سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے سچائی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
سیاسی اخلاقیات کا تو ملک میں پہلے ہی فقدان تھا مگر تین سالوں میں موجودہ حکومت نے سیاسی اخلاقیات تباہ کرا دی ہے اور اب سیاست میں خود ساختہ وڈیوز نے تو اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ بداخلاقی کی مبینہ وڈیوز جو بھی سیاست میں لایا ہے اس نے سیاست کو مزید گندا کرنا شروع کردیا ہے۔
سیاست توپہلے ہی بدنام تھی۔ پہلے سیاسی مخالفین کی قابل اعتراض تصاویر جاری ہوتی تھیں، چہرہ کسی کا اور جسم کسی اور کا ہوتا تھا مگر اب تو کمپیوٹرز کے ذریعے سے اور جدید خفیہ کیمروں کے ذریعے بنائی جانے والی سیاسی رہنماؤں کی مبینہ وڈیوز منظر عام پر لائی جا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ایسا کرنے والوں کے وڈیو ماہرین اپنوں کی خوشنودی کے لیے بداخلاقی کی تمام حدیں پھلانگ گئے ہیں جس سے جھوٹ اور سچ کا پتا چلنا مشکل ہو گیا ہے اور ایسی حرکتوں کے مخالف شرمندگی کا اظہار ہی کرسکتے ہیں۔ سیاسی اخلاق باختگی حد سے بڑھ چکی مگر روکنے والا کوئی نہیں اور سیاست مزید بدنام ہو رہی ہے جو ملک کے لیے نیک شگون ہرگز نہیں بلکہ انتہائی بدنامی اور شرمندگی کا باعث بن گئی ہے۔