کہاں سے کہاں تک۔۔۔

عالم دین بننا ہرگز آسان نہیں اس کے لیے اتنا کچھ پڑھنا ہوتا ہے کہ جس کا عام لوگ تصور نہیں کرسکتے۔۔۔

shehla_ajaz@yahoo.com

شہر قائد میں ڈبل سواری پر پابندی عاید کی گئی تو شہریوں نے غم وغصے کا اظہار کیا کیونکہ مہنگائی کے اس دور میں جب ٹرانسپورٹ کے کرائے دوسری اشیا کی طرح آسمان سے باتیں کر رہے ہیں ڈبل سواری ایک نعمت ہی ہے لیکن یہ نعمت ان سے ان کی حفاظت کے اقدام کے تحت چھین لی گئی۔ خیال یہ ہی تھاکہ اس پابندی کے بعد دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوا اور دہشت گردی کرنے والے اپنی مرضی کے مطابق عمل کرتے رہے۔ پولیس والے بھی اب دہشت گردی کی وارداتوں سے محفوظ نہیں ہیں بلکہ کچھ عرصے سے پولیس والے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ حفاظت کرنے والے اداروں کی ہمت کو پسپا کیا جاسکے ظاہر ہے جب بچانے والے ادارے نشانہ بننے لگیں تو عام عوام کا کیا کہنا۔۔۔۔یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عمل کیا جارہا ہے۔

بات ہو رہی تھی ڈبل سواری کی جس کے فائدے بہت تو نقصانات بھی لیکن اس کا شکار جو بنے ذرا ان کے دل سے بھی تو پوچھیے۔ ابھی اس پابندی کو زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ کھلے عام ببانگ دہل ناظم آباد کے فلائی اوور برج کے نزدیک ایک دو نہیں بلکہ تین موٹر سائیکل سواروں نے ایک کارنامہ کر ڈالا ۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک اسکول ٹیچر اپنے شوہر کے ہمراہ ناظم آباد کے اسپورٹس کمپلیکس کے نزدیک سڑک کراس کرنا چاہتی تھیں کہ ایک اسکوٹر پر تین نوجوان خرمستیوں میں نزدیک سے گزرے نجانے کس طرح محترمہ کا دوپٹہ ان کی اسکوٹر میں اٹکا یا خدا جانے کس طرح وہ محترمہ پہلے تو دھڑام سے زمین پر گریں اور پھر ہمارے ہونہار نوجوانان انھیں گھسیٹتے ہوئے ان کے ہی دوپٹے کے ذریعے دور تک لے گئے۔ ذرا تصور کریں ایک خاتون سڑک پر اس طرح بے دردی سے گھسٹتی جائے تو ایک انسان کا اس پوری صورت حال کو دیکھ کر کیا حال ہوسکتا ہے، جب کہ ان کے شوہر خود بھی دل کے عارضے کے مریض ہیں ہمارے بہادر نوجوانوں نے رکنا تو کجا اتر کر دیکھنے کی بھی کوشش نہ کی اور یہ جا وہ جا۔ خاتون بے حس سڑک پر پڑی تھیں یہ دیکھ کر ان کے خاوند کو خیال گزرا کہ اب تو ان کی بیوی بچی نہیں کیونکہ وہ بے سدھ پڑھ تھیں۔

دوڑ کر وہ نزدیک آئے خدا نے انسان کو بہت باہمت بنایا ہے بس اس پل خاتون جو بے ہوش ہوچکی تھیں ہوش میں آئیں اور ان کی نظر اپنے شوہر کی پتلون پر لگے خون پر پڑی پہلا خیال جو ان کے ذہن میں آیا کہ ڈاکٹرز شوہر صاحب کے لیے وارننگ دے چکے ہیں اور اس طرح تو ان کے میاں کی صحت پر برا اثر پڑے گا بس یہی وہ پل تھا جب خاتون اپنے پورے حواسوں میں آگئی۔ اپنا ہی خون جو ان کے مجازی خدا کو تکلیف میں مبتلا کر سکتا تھا ان کے لیے ہمت بن گیا۔ آفرین ہے مشرقی بیوی پر کہ جس نے اپنی تکلیف پر اپنے مجازی خدا کے درد کو مقدم جانا۔


یہ سب کچھ چند منٹوں میں ہی ہوا لیکن ان چند منٹوں میں انھوں نے ایک باوفا، جانثار بیوی ہونے کا ثبوت دے دیا ، یا شاید یہ ان کے مجازی خدا کے ان جذبات کی بھی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے کتنے اہم اور باوفا ساتھی ہیں، ہوسکتا ہے کہ اس طرح شاک میں وہ کسی اور مسئلے کا شکار ہوجائیں لیکن خدا نے جس جذبے کے تحت انھیں ایک نئی زندگی دی اسے ایک باوفا بیوی ہی سمجھ سکتی ہے جس نے سب کچھ جھٹک کر اپنے خاوند کی تکلیف کے بارے میں سوچا۔ یہ پہلا پل یہ پہلا خیال کیسے کہ ان کے ذہن میں آیا خدا جانتا ہے کیونکہ یہ اسی کے بھید ہیں جس نے ایک بزدل کمزور عورت کو اتنی ہمت دی اور شاباش ہے ہمارے ملک کے نوجوانوں کو کہ جنھوں نے ایک خاتون کو اتنی اذیت میں مبتلا چھوڑ کر دوڑ لگانے میں عافیت سمجھی۔ آخر ہم ایسا کب تک سمجھتے رہیں گے کہ جو دوسرے کے ساتھ ہوا ہے میرے ساتھ نہیں ہوسکتا، دکھ تکلیف کے لمحوں میں کسی کی بھی مدد کردینا دراصل اپنی مدد کرنے کے مترادف ہے کیونکہ خدا لوٹا دیتا ہے اچھائی کو اچھائی کے ساتھ اور برے عمل کو برے کے ساتھ۔۔۔۔بس بات سمجھنے کی ہے۔

بات ہو رہی تھی ڈبل سواری کی کہ جس کے نقصانات بہت اور فائدے بھی بہت، لیکن نقصان پہنچانے والے جو اپنی غرض کے غلام ہوتے ہیں کب سوچتے ہیں کہ ان کے گناہوں کی سزا دوسرے مظلوم لوگ بھی بھگتتے ہیں لیکن چند پیسوں کی خاطر انسانی خون کا سودا کھلے عام ہو رہا ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ آپ کھلے عام جہاں دل چاہے چلے جائیے بلکہ اس دور میں محسوس تو یہی ہو رہا ہے کہ ضروری کاموں سے ہی باہر نکلا جائے۔ کہیں یہ وہی دور تو نہیں جس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں ''حرج'' بہت زیادہ ہوجائے گا۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ یہ حرج کیا چیز ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ قتل و غارت گری، یعنی اس زمانے میں قتل و غارت گری بے حد ہوجائے گی اور انسان کی جان مچھر مکھی سے زیادہ بے حقیقت ہوجائے گی۔ (ترمذی)

ذرا اس کی گہرائی میں تو جائیے! تو بہت سی حقیقتیں آشکارا ہوجائیں گی۔ یقین جانیے عالم دین بننا ہرگز آسان نہیں اس کے لیے اتنا کچھ پڑھنا ہوتا ہے کہ جس کا عام لوگ تصور نہیں کرسکتے۔ تب کہیں اتنے مدارج طے کرکے ایک آدمی عالم کی ڈگری سنبھالتا ہے۔ اچھا عالم بننا ایک عظیم سائنس دان بننے کے مترادف ہے جس کے ذرا سے فارمولے میں غلطی بہت بڑی تباہی لاسکتی ہے۔ مدرسے کے چند درجے پڑھ لینے سے کیا کوئی عظیم عالم بن سکتا ہے یقین جانیے اتنی آسانی سے خدا علم عطا نہیں کرتا اس کے لیے اپنے آپ کو بہت جلانا پڑتا ہے نفرت کی آگ میں نہیں، بلکہ اپنے نفس کی نفی میں۔
Load Next Story