غربت… شرح خواندگی میں کمی کی بڑی وجہ

کام کرنے والے بچوں کیلئے جزوقتی تعلیم کا بندوبست کیا جائے

کام کرنے والے بچوں کیلئے جزوقتی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔ فوٹو: فائل

ہمارے معاشرے سے ''احساس'' کس قدر اٹھ چکا ہے، اس فقدان کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج ہم اپنے ارد گرد جہاں بھی نظر ڈورائیں ... جس گلی، محلے، بازار یا دکان میں دیکھیں، ہمیں کام کرتے چھوٹے چھوٹے بچوں کی بہتات دکھائی دے گی، جو محنت مزدوری کرکے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے میں ان کی معاونت کررہے ہیں۔

چھوٹے بڑے ہوٹلوں، قالین بافی، کان کنی، چوڑی سازی، فیکٹریوں، کارخانوں سمیت دیگر صنعتوں، ڈینٹنگ پینٹنگ کی ورکشاپوں، بھٹہ خشت، الیکٹریشن کی دکانوں، گھروں میں کام کرتے اور مکینک کی دکانوں پر اپنے ننھے ننھے سے ہاتھ کالے کرتے یہ بچے کس کے ہیں؟ جو اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کی خاطر ''کمائی '' میں مصروف اور اپنے ''مالکان'' کے ہاتھوں اکثر ذلیل و رسوا ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ جن ہاتھوں میں قلم اور کتاب ہونی چاہئے تھی، حالات نے ان ہاتھوں میں ٹائر ٹیوب، رینچ اور دیگر آلات و اوزار پکڑا دیے ہیں۔ ایسے نجانے کتنے معصوم پھول ہیں،جن کے ابھی کھیلنے کودنے اور پڑھنے لکھنے کے دن ہیں، لیکن سکول جانے کا خواب آنکھوں میں سجائے فقط اپنے گھریلو حالات کی وجہ سے تعلیم کی بجائے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بچے ہمارے معاشرے کا اثاثہ ہیں جن میں سے اکثریت سکول جانا چاہتے ہیں مگر حالات انہیں ایسا کرنے سے روکتے ہیں اور وہ اپنے والدین کے ساتھ حالات کے جبر کے آگے بند باندھنے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور ان بچوں میں بے شمار ایسے بھی ہیں جو اساتذہ کے ناروا رویوں اور مشکل نصاب کے خلاف سکول سے بھاگے ہوئے ہیں۔

چند بچوں کے والدین سے پوچھا کہ انہوں نے کیوں اپنے بچے کے ناتواں کندھوں پر اقتصادی بوجھ ڈال رکھا ہے تو سب کی طرف سے یہی جواب ملا کہ ''یہاں تو پڑھے لکھے لوگ دھکے کھا رہے ہیں، ہمارے بچوں نے پڑھ لکھ کر کیا کرلینا ہے، بالآخر آٹھ دس ہزار میں کسی دفتر کا چپڑاسی لگیں گے یا کہیں چوکیدار... پاکستان میں اوسطاً یہی تنخواہ ایک ایم اے پاس نوجوان بھی لے رہا ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک تعلیم حاصل کرنا عیاشی اور اس طبقے کا کام ہے جس کے پاس جیب میں پیسہ، کھانے کو روٹی اور پہننے کو کپڑے موجود ہوں۔ ایک بچے کے والد کا کہنا تھا کہ '' میں نہیں چاہتا کہ میرا شمار بھی ان والدین میں ہو جو اپنے بچے کی سکول فیس ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے خودکشی کرلیں یا نئی کاپی نہ لے کر دینے سے بچے کا دل ٹوٹ جائے اور وہ احساس کمتری کا شکار ہو ''۔ اس والد کی بات یہ ثابت کرنے کیلئے کافی تھی کہ ہمارے ہاں چائلڈ لیبر ایک سماجی ضرورت بن چکی اور ہمیں احساس ہی نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ لوگ جو دن کو کنواں کھودتے اور رات کو پانی پیتے ہیں، اپنے اور اہلخانہ کے پیٹ کی دوزخ بجھانے کے لئے تگ و دو کریں گے یا اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں گے؟ یہ اپنے تئیں نہایت اہم سوال ہے اور عالی دماغ حکمرانوں کو اس کا جواب ڈھونڈنا چاہئے۔




لوگ اپنے معصوم بچوں کو چائلڈ لیبر کی جانب کیوں مائل کرتے ہیں، اس کا سیدھا سا جواب غربت ہے جبکہ وسائل کی ناہموار تقسیم، فرسودہ سماجی روایات و اقدار اور دیگر عوامل کے ڈھیر بھی اسی سے جڑے ہوئے ہیں۔ چائلڈ لیبر ایک سنگین اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 65.5 فیصد لوگوں کی روزانہ آمدن 2 ڈالر سے بھی نیچے ہے جبکہ یہاں 47 ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں جنہیں رہائش، لباس، خوراک، صحت اور تعلیم جیسی سہولیات میسر نہیں۔ انہی خواہشات کے حصول اور اپنی سماجی زندگی کی بقا کیلئے لوگ اپنے بچوں کو بھی مزدوری پر مجبور کرتے ہیں۔ اسی طرح طبقاتی نظام تعلیم بھی ورکنگ چلڈرن کی شرح میں اضافے کی اہم وجہ ہے۔ پاکستان میں 10 سے 14 سال تک کی عمر کے بچوں کی کل تعداد 8 سے 10 لاکھ جبکہ 5 سے 14 سال تک کے بچوں کی تعداد 40 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ان 40 لاکھ بچوں میں سے 3.8 لاکھ بچے ورکنگ چلڈرن ہیں جبکہ انہی میں سے زندگی کے لطف سے محروم 50 فیصد بچے 5 سے 9 سال تک کی عمر سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ 40 لاکھ بچے جہالت، حق، سچ، صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرنے سے قاصر ہیں جس نے ان کی صلاحیتوں کو گہنا دیا ہے۔

ہمارا المیہ ہے کہ تعلیمی پالیسیاں تو تشکیل دی جا رہی ہیں، مگر ان پر صرف آن پیپر کام ہوتا ہے، آن گرائونڈ عملدرآمد نہیں ہوپا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کی بنیاد اور مسائل پر توجہ نہیں دی جارہی جس کی وجہ سے آئوٹ آف سکول بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کبھی بھی پاکستان کو ''چائلڈ لیبر فری'' ملک بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی، لیکن کم از کم اتنا تو کرسکتی ہے کہ ملازم بچوں کی جزوقتی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرسکے۔ یعنی ان 33 فیصد بچوں کو اگر روزانہ صرف 2 گھنٹے ہی تعلیم دے دی جائے تو ان کے رویوں اور صلاحیتوں میں واضح فرق دکھائی دے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یونین کونسل کی سطح پر ورکنگ چلڈرن کیلئے سکولوں کا آغاز کیا جائے جہاں دوپہر یا شام کے ان اوقات میں جب کام میں ٹھہرائو ہو، اردگرد کام کرنے والے ملازم بچوں کو مالکان سے بات کرکے صرف 2 گھنٹے کے لئے ان سکولوں میں بھیجنا لازم قرار دیا جائے۔



دفتری اوقات ہونے کی وجہ سے چوں کہ اس وقت کام کا بوجھ نہیں ہوتا لہذا اس طرح مالکان کا حرج نہیں ہوگا۔ اس اقدام کیلئے نہ تو الگ وسائل کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی نئی بلڈنگ یا جگہ کی، بلکہ پہلے سے موجود سکولوں کا انفراسٹرکچر اس مقصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے کیوں کہ دوپہر کے بعد ان تعلیمی اداروں کا استعمال عموماً نہیں ہوتا۔ ان سکولوں میں بچوں کو بنیادی تعلیم، کاروباری معاملات اور رویوں میں بہتری کی تعلیم دے کر نکھارا جائے اور انہیں سطحی سوچ سے نکال کر ان کی ذمہ داریوں سے روشناس کرایا جائے۔ بچوں میں نکھار آئے گا تو ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس ضمن میں تمام فریقین کو مربوط کوششوں پر زور دینا ہوگا کیونکہ خواندگی صرف پڑھنے لکھنے کا نام نہیں بلکہ یہ انسان کے اخلاق و کردار کی تعمیر اور رویوں کی نشونما کرتی، مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کردار ادا کرنے کے قابل بناتی اور نہ صرف اپنے حقوق کا ادراک دیتی بلکہ معاشرے کے عدم مساوات کے رویے کو بھی مات دیتی ہے۔ نیز اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ والدین کو ان بچوں کی مفت تعلیم، علاج معالجہ اور کفالت کے وسائل مہیا کیے جائیں۔ اس ضمن میں مضبوط قانونی فریم ورک تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی منصوبہ سازوں کو اس حوالے سے سر جوڑ کر بیٹھنے اور جامع حکمت عملی وضع کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔
Load Next Story