اُردو بطور ذریعہ تعلیم کیوں نہیں۔۔۔
ہر ملک کی قومی زبان اس کے تشخص کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ قومی زبان اور قومی تشخص میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
ہر ملک کی قومی زبان اس کے تشخص کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ قومی زبان اور قومی تشخص میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
جب کوئی شخص کسی دوسرے ملک میں جاتا ہے تو لباس کے بعد اس کی زبان ہی سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کس ملک و قوم سے تعلق رکھتا ہے۔ پرچم اور ترانہ علاقائی آزادی کی علامت ہیں جبکہ لباس، زبان اور نام قوم کی ذہنی آزادی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ قومی پرچم لہرانا ایک اجتماعی فعل ہے۔ قومی پرچم عموماً قومی تقاریب میں لہرایا جاتا ہے۔ قومی جھنڈا ہر وقت لوگوں کے پاس نہیں ہوتا۔ ترانہ بھی اجتماعی طور پر بجایا جاتا ہے۔لباس بھی کئی قوموں کا ایک جیسا ہوتا ہے۔ نام بھی عموماً مذہب ظاہر کرتے ہیں۔صرف زبان ہی ایسی چیز ہے جو قومی تشخص کو نمایاں کرتی ہے۔
تاریخ اس بات کی پوری طرح شاہد ہے کہ دنیا میں صرف وہی قومیں زندہ و جاوید رہی ہیں جنہوں نے اپنی زبان، ثقافت اور الگ پہچان کو زندہ رکھا ہے۔ ہم پاکستانی ہیں اور ہماری قومی زبان اُردو ہے۔ ہم نے اپنے ہر دستور میں اس کو قومی زبان قرار دیا لیکن بدقسمتی سے اس کو وہ مقام نہیں دیا جو اس کا جائز حق تھا۔ قائداعظم اگرچہ مغرب سے پڑھ کر آئے تھے اور انگریزی زبان کو اُن سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا مگر اُنہوں نے بھی اُردو زبان کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا۔ وہ اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ تھے کہ جب تک کسی قوم کی الگ پہچان نہ ہو اُس وقت تک اُس کے خیالات میں انفرادیت نہیں آیا کرتی اور نہ ہی اُس کی سوچ قومی سطح پر نکھر سکتی ہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے اپنی پہچان کو گنوادیا اور اندھی تقلید کی راہ اختیار کی۔ ہر قوم کی تہذیب و ثقافت ہوتی ہے، اس کی تاریخ ہوتی ہے۔ اس کا قومی تشخص ہوتا ہے، جو اس کی زبان میں جھلکتا ہے۔اس طرح ہر قوم اپنی ثقافتی زبان کو بہت عزیز رکھتی ہے۔ اگر وہ مردہ ہو چکی ہو تو اس کو وہ زندہ کرتی ہے۔ یونانی زبان مردہ تھی۔حکومت یونان نے اس کا پڑھنا لازمی کر دیا ہے۔ عبرانی مردہ تھی، اسرائیل نے اسے سرکاری زبان قرار دے کر زندہ کر لیا۔ سنسکرت مردہ زبان تھی، حکومت بھارت نے اس کی تعلیم لازمی قرار دے دی۔ لیکن پاکستانی قوم نے اپنی زندہ علمی، ثقافتی و تہذیبی زبان اردو کو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ذریعہ تعلیم نہیں بنایا بلکہ وہاں سابق سامراج کی زبان انگریزی کو اپنا رکھا ہے۔
طبقاتی نظام تعلیم نے افراد کے مختلف طبقوں کو قریب تر لانے کے بجائے اُن میں بعد پیدا کیا ہے۔تقسیم در تقسیم کے عمل کے ذریعہ قومی یک جہتی کو بھی نقصان پہنچایا ہے اور ترقی کے مواقع پر بھی اجارہ داریاں قائم کی ہیں۔ برطانوی دور میں یہ چیز اس لئے ضروری سمجھی گئی کہ وہ ایک استعماری حکومت تھی۔ قوم کا اتحاد اس کے لئے نقصان دہ تھا۔ اس لئے اس نے طبقہ خاص کے بچوں کے لئے علیحدہ اور اعلیٰ معیار کے تعلیمی اداروں کے قیام کا تصوردیا۔پاکستان کے قیام کے بعد یہ نظام ختم ہو جانا چاہئے تھا لیکن اس میں مزید وسعت اور قوت پیدا کی گئی۔ ہمیں تعلیمی زندگی میں ہر قسم کی تقسیم ختم کر کے ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک یکساں اور واحد نصاب تعلیم اور نظام تدریس رائج کرنا ہوگا ۔ اس کے بغیر تقسیم اور سماجی بحرانوں کو ختم نہیں کیا جاسکے گا۔
انگریزی ذریعہ تعلیم کے حامی ان لوگوںنے طبقاتی نظام کو ہوا دی اور دو الگ الگ نظام متعارف کروا دئیے جس میں ایک امیر طبقے کے لیے اور دوسرا عام لوگوں کے لئے ہے۔ انگریزی ذریعہ تعلیم سکولوں میں زیر تعلیم طلباء ان طلبا کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو اُردو ذریعہ تعلیم سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ انگریزی ذریعہ تعلیم والے طلبا میں احساس برتری ہوتا ہے۔ وہ خود کو مخصوص طبقہ کے افراد سمجھتے ہیں جن کی قسمت میں ملک کی حکمرانی ہے۔ گھر اور سکول میں مغربی ماحول کی وجہ سے قومی زبان، قومی لباس، قومی روایات اور اسلامی تہذیب و تمدن سے اُن کا دور دور تک کوئی بھی واسطہ نہیںہوتا۔ وہ اپنے تعلیمی اداروں میں بھاری فیسیں دیتے ہیں جبکہ اُردو ذریعہ تعلیم والے سکولوں میں فیسیں معمولی ہوتی ہیں۔انگریزی سکولوں کے طلبا پہلی جماعت سے سارے مضامین انگریزی زبان میں پڑھتے ہیں اس لیے مقابلہ کے امتحان میں اچھے نمبر لے کر پاس ہو جاتے ہیںایسے لوگوں کی تعداد صرف دو فیصد ہے جبکہ اُردو ذریعہ تعلیم والے طلبا 98 فیصد ہیں۔ اس لئے انٹرویو اور ذریعہ اظہار کی کی تبدیلی بنیادی طور پر ایک اقتصادی مسئلہ ہے۔
موجودہ طریقہ کار سے انگریزی ذریعہ تعلیم والے طلبا امتحان میں کامیابی حاصل کر کے براہِ راست سکیل نمبر17 کی انتظامی آسامیوں پر تقرر حاصل کر لیتے ہیںاور ترقی کرتے کرتے ریٹائرمنٹ سے قبل سکیل نمبر22 پر پہنچ کر حکومت کی کلیدی اسامیوں پر فائز ہو جاتے ہیں اور موجودہ طریقہ امتحان کو اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کی خاطر مسلسل عوامی مطالبہ کے باوجود تبدیل نہیں ہونے دیتے۔ اُردو ذریعہ تعلیم والے طلبا مساوی ڈگری ہونے کے باوجود ریٹائرمنٹ تک بمشکل پے سکیل نمبر16،17تک پہنچ پاتے ہیں اور ساری عمر سرکاری دفاتر میں انگریزی ذریعہ تعلیم والے براہِ راست بھرتی شدہ افراد کے ماتحت کام کرتے ہیں۔اس طرح انگریزی تعلیم والے ادارے پاکستان میں امیروغریب کے طبقات پیدا کر رہے ہیں۔یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب تک سی ایس ایس کا امتحان صرف انگریزی ذریعہ تعلیم والوں کے لئے ہے۔ میرے خیال میں سی ایس ایس کا امتحان ایسے لوگوں کے لئے بھی ہونا چاہیے جو اُردو ذریعہ تعلیم سے پڑھ کر آئے ہیں۔ بہر حال یہ ایک نا انصافی ہے جسے جلد از جلد ختم ہونا چاہیے۔ اس امتحان کا مقصد یہ تو نہیں ہے کہ آپ کسی کی انگریزی دانی کا امتحان لے رہے ہیں کہ وہ کتنی انگریزی بول یا لکھ سکتا ہے۔اس نے امتحان پاس کر کے عوام کی خدمت کر نی ہے اور اس میں یہ کام کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ انگریزی کا آنا یا نہ آنا کوئی صلاحیت نہیں ہے۔
جب اُردو کو بطور ذریعہ تعلیم نافذ کرنے کی بات کی جاتی ہے تو اعتراض، یہ اُٹھایا جاتا ہے کہ اردو زبان سائنس کی اصطلاحات کو صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتی۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج تو اُردو زبان کافی ترقی یافتہ شکل میں موجود ہے۔ اُردو زبان کا ذخیرہ الفاظ بہت سی زبانوں سے اخذ کیا گیا ہے جن میں سنسکرت، انگریزی، پالی، فارسی، عربی، ترکی، پشتو، گجراتی، سندھی،پنجابی وغیرہ شامل ہیں۔اس لیے اس میں بے پناہ وسعت ہے اور یہ ہر چیز کا احاطہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔اس زبان نے گذشتہ سو سالوں میں جتنی ترقی کی ہے وہ اس کے شاندار مستقبل کی ضامن ہے۔ اُردو زبان کا شمار دنیا کی تین بڑی زبانوں میں ہوتا ہے۔ لہذا اردو کو بطور ذریعہ تعلیم بنانے کو یقینی بنایا جائے تاکہ ہمارے بچوں کی صلاحیت صرف انگریزی سیکھنے پر خرچ ہونے کے بجائے ملک و قوم کا نام روشن کرنے پر صرف ہوں۔
جب کوئی شخص کسی دوسرے ملک میں جاتا ہے تو لباس کے بعد اس کی زبان ہی سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کس ملک و قوم سے تعلق رکھتا ہے۔ پرچم اور ترانہ علاقائی آزادی کی علامت ہیں جبکہ لباس، زبان اور نام قوم کی ذہنی آزادی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ قومی پرچم لہرانا ایک اجتماعی فعل ہے۔ قومی پرچم عموماً قومی تقاریب میں لہرایا جاتا ہے۔ قومی جھنڈا ہر وقت لوگوں کے پاس نہیں ہوتا۔ ترانہ بھی اجتماعی طور پر بجایا جاتا ہے۔لباس بھی کئی قوموں کا ایک جیسا ہوتا ہے۔ نام بھی عموماً مذہب ظاہر کرتے ہیں۔صرف زبان ہی ایسی چیز ہے جو قومی تشخص کو نمایاں کرتی ہے۔
تاریخ اس بات کی پوری طرح شاہد ہے کہ دنیا میں صرف وہی قومیں زندہ و جاوید رہی ہیں جنہوں نے اپنی زبان، ثقافت اور الگ پہچان کو زندہ رکھا ہے۔ ہم پاکستانی ہیں اور ہماری قومی زبان اُردو ہے۔ ہم نے اپنے ہر دستور میں اس کو قومی زبان قرار دیا لیکن بدقسمتی سے اس کو وہ مقام نہیں دیا جو اس کا جائز حق تھا۔ قائداعظم اگرچہ مغرب سے پڑھ کر آئے تھے اور انگریزی زبان کو اُن سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا مگر اُنہوں نے بھی اُردو زبان کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا۔ وہ اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ تھے کہ جب تک کسی قوم کی الگ پہچان نہ ہو اُس وقت تک اُس کے خیالات میں انفرادیت نہیں آیا کرتی اور نہ ہی اُس کی سوچ قومی سطح پر نکھر سکتی ہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے اپنی پہچان کو گنوادیا اور اندھی تقلید کی راہ اختیار کی۔ ہر قوم کی تہذیب و ثقافت ہوتی ہے، اس کی تاریخ ہوتی ہے۔ اس کا قومی تشخص ہوتا ہے، جو اس کی زبان میں جھلکتا ہے۔اس طرح ہر قوم اپنی ثقافتی زبان کو بہت عزیز رکھتی ہے۔ اگر وہ مردہ ہو چکی ہو تو اس کو وہ زندہ کرتی ہے۔ یونانی زبان مردہ تھی۔حکومت یونان نے اس کا پڑھنا لازمی کر دیا ہے۔ عبرانی مردہ تھی، اسرائیل نے اسے سرکاری زبان قرار دے کر زندہ کر لیا۔ سنسکرت مردہ زبان تھی، حکومت بھارت نے اس کی تعلیم لازمی قرار دے دی۔ لیکن پاکستانی قوم نے اپنی زندہ علمی، ثقافتی و تہذیبی زبان اردو کو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ذریعہ تعلیم نہیں بنایا بلکہ وہاں سابق سامراج کی زبان انگریزی کو اپنا رکھا ہے۔
طبقاتی نظام تعلیم نے افراد کے مختلف طبقوں کو قریب تر لانے کے بجائے اُن میں بعد پیدا کیا ہے۔تقسیم در تقسیم کے عمل کے ذریعہ قومی یک جہتی کو بھی نقصان پہنچایا ہے اور ترقی کے مواقع پر بھی اجارہ داریاں قائم کی ہیں۔ برطانوی دور میں یہ چیز اس لئے ضروری سمجھی گئی کہ وہ ایک استعماری حکومت تھی۔ قوم کا اتحاد اس کے لئے نقصان دہ تھا۔ اس لئے اس نے طبقہ خاص کے بچوں کے لئے علیحدہ اور اعلیٰ معیار کے تعلیمی اداروں کے قیام کا تصوردیا۔پاکستان کے قیام کے بعد یہ نظام ختم ہو جانا چاہئے تھا لیکن اس میں مزید وسعت اور قوت پیدا کی گئی۔ ہمیں تعلیمی زندگی میں ہر قسم کی تقسیم ختم کر کے ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک یکساں اور واحد نصاب تعلیم اور نظام تدریس رائج کرنا ہوگا ۔ اس کے بغیر تقسیم اور سماجی بحرانوں کو ختم نہیں کیا جاسکے گا۔
انگریزی ذریعہ تعلیم کے حامی ان لوگوںنے طبقاتی نظام کو ہوا دی اور دو الگ الگ نظام متعارف کروا دئیے جس میں ایک امیر طبقے کے لیے اور دوسرا عام لوگوں کے لئے ہے۔ انگریزی ذریعہ تعلیم سکولوں میں زیر تعلیم طلباء ان طلبا کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو اُردو ذریعہ تعلیم سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ انگریزی ذریعہ تعلیم والے طلبا میں احساس برتری ہوتا ہے۔ وہ خود کو مخصوص طبقہ کے افراد سمجھتے ہیں جن کی قسمت میں ملک کی حکمرانی ہے۔ گھر اور سکول میں مغربی ماحول کی وجہ سے قومی زبان، قومی لباس، قومی روایات اور اسلامی تہذیب و تمدن سے اُن کا دور دور تک کوئی بھی واسطہ نہیںہوتا۔ وہ اپنے تعلیمی اداروں میں بھاری فیسیں دیتے ہیں جبکہ اُردو ذریعہ تعلیم والے سکولوں میں فیسیں معمولی ہوتی ہیں۔انگریزی سکولوں کے طلبا پہلی جماعت سے سارے مضامین انگریزی زبان میں پڑھتے ہیں اس لیے مقابلہ کے امتحان میں اچھے نمبر لے کر پاس ہو جاتے ہیںایسے لوگوں کی تعداد صرف دو فیصد ہے جبکہ اُردو ذریعہ تعلیم والے طلبا 98 فیصد ہیں۔ اس لئے انٹرویو اور ذریعہ اظہار کی کی تبدیلی بنیادی طور پر ایک اقتصادی مسئلہ ہے۔
موجودہ طریقہ کار سے انگریزی ذریعہ تعلیم والے طلبا امتحان میں کامیابی حاصل کر کے براہِ راست سکیل نمبر17 کی انتظامی آسامیوں پر تقرر حاصل کر لیتے ہیںاور ترقی کرتے کرتے ریٹائرمنٹ سے قبل سکیل نمبر22 پر پہنچ کر حکومت کی کلیدی اسامیوں پر فائز ہو جاتے ہیں اور موجودہ طریقہ امتحان کو اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کی خاطر مسلسل عوامی مطالبہ کے باوجود تبدیل نہیں ہونے دیتے۔ اُردو ذریعہ تعلیم والے طلبا مساوی ڈگری ہونے کے باوجود ریٹائرمنٹ تک بمشکل پے سکیل نمبر16،17تک پہنچ پاتے ہیں اور ساری عمر سرکاری دفاتر میں انگریزی ذریعہ تعلیم والے براہِ راست بھرتی شدہ افراد کے ماتحت کام کرتے ہیں۔اس طرح انگریزی تعلیم والے ادارے پاکستان میں امیروغریب کے طبقات پیدا کر رہے ہیں۔یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب تک سی ایس ایس کا امتحان صرف انگریزی ذریعہ تعلیم والوں کے لئے ہے۔ میرے خیال میں سی ایس ایس کا امتحان ایسے لوگوں کے لئے بھی ہونا چاہیے جو اُردو ذریعہ تعلیم سے پڑھ کر آئے ہیں۔ بہر حال یہ ایک نا انصافی ہے جسے جلد از جلد ختم ہونا چاہیے۔ اس امتحان کا مقصد یہ تو نہیں ہے کہ آپ کسی کی انگریزی دانی کا امتحان لے رہے ہیں کہ وہ کتنی انگریزی بول یا لکھ سکتا ہے۔اس نے امتحان پاس کر کے عوام کی خدمت کر نی ہے اور اس میں یہ کام کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ انگریزی کا آنا یا نہ آنا کوئی صلاحیت نہیں ہے۔
جب اُردو کو بطور ذریعہ تعلیم نافذ کرنے کی بات کی جاتی ہے تو اعتراض، یہ اُٹھایا جاتا ہے کہ اردو زبان سائنس کی اصطلاحات کو صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتی۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج تو اُردو زبان کافی ترقی یافتہ شکل میں موجود ہے۔ اُردو زبان کا ذخیرہ الفاظ بہت سی زبانوں سے اخذ کیا گیا ہے جن میں سنسکرت، انگریزی، پالی، فارسی، عربی، ترکی، پشتو، گجراتی، سندھی،پنجابی وغیرہ شامل ہیں۔اس لیے اس میں بے پناہ وسعت ہے اور یہ ہر چیز کا احاطہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔اس زبان نے گذشتہ سو سالوں میں جتنی ترقی کی ہے وہ اس کے شاندار مستقبل کی ضامن ہے۔ اُردو زبان کا شمار دنیا کی تین بڑی زبانوں میں ہوتا ہے۔ لہذا اردو کو بطور ذریعہ تعلیم بنانے کو یقینی بنایا جائے تاکہ ہمارے بچوں کی صلاحیت صرف انگریزی سیکھنے پر خرچ ہونے کے بجائے ملک و قوم کا نام روشن کرنے پر صرف ہوں۔