افکارِ قائد جن سے عوام کو بے خبررکھا گیا
محمد علی جناح نے کئی بار روشن خیالی کے حق میں اور بنیاد پرستی کے خلاف دو ٹوک اظہار خیال کیا۔
جناح' برصغیر میں مسلم بورژوا ثقافت کا بہترین نمونہ تھے۔
وہ ایک راسخ العقیدہ مگر روشن خیال مسلمان تھے اور کٹر مذہبیت' قدامت پرستی اور مذہبی جماعتوں کی حکم رانی کے خلاف تھے۔ وہ پاکستان میں ملائیت نہیں چاہتے تھے۔ اسی بنا پر تاجر، دکان دار اور علی گڑھ کے طلباء سمیت ہر طبقے کا مسلم بورژوازی جناح کا پیروکار تھا۔
محمد علی جناح نے کئی بار روشن خیالی کے حق میں اور بنیاد پرستی کے خلاف دو ٹوک اظہار خیال کیا۔ بہت سے حوالے اس حقیقت کا بین ثبوت ہیں کہ وہ سیاست اور مذہب کے تناظر میں ریاست اور مذہب کو الگ الگ خانوں میں رکھنے کے قائل تھے۔ اس مسئلے پر ان کی سوچ قطعی واضح تھی اور انہوں نے اس بارے میں اپنے نظریات کو دوسروں تک پہنچانے کا کوئی موقع کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ 1920ء میں گاندھی کی جانب سے سیاست میں نمائشی مذہبی حکمت عملی پر ان کا ردعمل کیا تھا۔ ایک اور موقعے پر جب ان کے چند پرجوش معترفین نے انہیں ''مولانا'' جناح کہہ کر مخاطب کیا تو انہوں نے بڑی ترش روئی سے بات کاٹتے ہوئے کہا ''میں مولانا نہیں صرف مسٹر جناح ہوں۔''
ایسی مختصر لیکن اہم مثالوں کے علاوہ اس موضوع پر دو اہم ترین تقریریں ان کی سوچ کی بڑی واضح عکاسی کرتی ہیں۔ پہلی تقریر 1929ء میں ''چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل'' Child Marriage Restraint Bill پیش ہونے پر اور دوسری تقریر آزادی سے تین روز قبل 11 اگست 1947ء کو آئین ساز اسمبلی میں کی گئی۔ ہمیں ان تقاریر پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، کیوںکہ یہ دونوں تقاریر کسی لگی لپٹی کے بغیر، ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق پر مسٹر جناح کے نظریات کی ترجمان ہیں۔
چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل 1927 Child Marriage Restraint Bill میں رائے ہری داس سردا نے قانون ساز اسمبلی میں پیش کیا اسی لیے اسے ''سردا بِل'' Sarda Bill کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ اس بل سے ایسا تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا کہ یہ دو سال تک التواء کا شکار رہا۔ بِل میں شادی کی کم از کم عمر اور کم سن بچوں کی شادی کرنے والے سرپرستوں کے لیے سزا تجویز کی گئی تھی۔
سردا بِل نے ملک بھر کے بنیاد پرستوں کو بے حد مشتعل کردیا۔ ہائوس پیٹیشن کمیٹی کو 707 عذر داریاں موصول ہوئیں، جن پر 72725 افراد کے دست خط تھے۔ چوٹی کے 74 علماء نے اس کے خلاف فتویٰ بھی جاری کیا۔ بل کے حق میں صرف چار عرض داشتیں آئیں، جن پر محض 10 افراد کے دست خط تھے۔ ایوان میں بل کی مخالفت کرنے والوں میں بہت سے دوسرے مسلم اراکین کے علاوہ صوبہ سرحد سے نواب سر صاحبزادہ عبدالقیوم، ڈھاکا سے اے ایچ غزنوی، یو پی سے محمد یامین اور سلہٹ سے مولوی محمد شفیع دائودی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مولانا شفیع نے بہت گھن گرج دکھائی۔
ان کا خیال تھا کہ اگر بل منظور کیا گیا تو یہ مسلمانوں کے حقوق کی ظالمانہ پامالی کے مترادف ہو گا۔ بل کے مخالفین نے واویلا کیا کہ مجوزہ بل کے باعث دین کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ برصغیر کے طول و عرض میں فتاویٰ جاری ہوئے کہ اسلام خطرے میں ہے۔ نابالغ بچوں کی شادی کر دینا والدین کا قانونی و شرعی حق ہے۔ اس حق کو سلب کرنا خدا کے قانون سے جنگ ہے۔
محمد علی جناح اس مخالفت سے مرعوب نہیں ہوئے۔ ان کے الفاظ واضح اور ابہام سے پاک تھے اور یہ ضروری ہے کہ ان کی تقریر کے کچھ حصے لفظ بہ لفظ یہاں نقل کردیے جائیں:
''میں نہیں مانتا کہ ان مروجہ ظالمانہ رسوم کو آسمانی تائید حاصل ہے۔ ہمیں ایک لمحے کے لیے بھی ان فرسودہ رسومات کے تسلسل کی اجازت نہیں دینا چاہیے۔ ایسی ظالمانہ، خوف ناک، شرم ناک اور غیرانسانی رسم، جو اس وقت ہندوستان میں رائج ہے، اسے بھلا کیوں کر مذہبی تائید حاصل ہوسکتی ہے؟''
جناح اس امر سے بے خبر نہیں تھے کہ وہ کس کی مخالفت کر رہے ہیں اور نہ ہی وہ بنیاد پرستوں کی طرف سے اپنی مخالفت کے بارے میں لا علم تھے۔ والٹیئر Voltaire کی طرح انہیں اس کی پرواہ نہیں تھی کہ وہ (مخالفین) اگر ہمیشہ اپنے احساسات اور اپنے اعتقادات پر قائم رہتے ہیں، لیکن جناح ایک اصولی مؤقف کے معاملے میں کسی دبائو کے سامنے جھکنے والے نہیں تھے۔ ان کا لہجہ بڑا سخت تھا، جب انہوں نے کہا:
''معاشرے کے اصلاح کار کو ہمیشہ سے ایسی بنیاد پرستی کا سامنا رہا ہے جس کے پس پردہ بھی عقائد، جذبات اور احساسات ہوتے ہیں، جو قابل فہم بھی ہیں اور کسی حد تک جائز بھی۔ لیکن کیا اس طبقے کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانا ضروری ہے، جس کے لیے ہمارے دلوں میں تعظیم ہے، جس کے احساسات کی ہم قدر کرتے ہیں؟ کیا ہمیں (ان کے ہاتھوں) خوار ہونا اور ترقی کی راہ کو چھوڑنا ہو گا؟ انسانیت کے نام پر میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ جب مذہب کے نام پر ہمیں عوامی دبائو کا سامنا ہو اور ہم یہ بھی جانتے ہوں کہ اس معاملے کا مذہب سے کوئی واسطہ نہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ پھر ہمارے اندر اتنی جرأت ہونی چاہیے کہ بے باکی سے کہہ سکیں کہ ہمیں ان (باتوں) سے خوف زدہ نہیں کیا جاسکتا۔''
یہ مسٹر جناح کے اپنے الفاظ ہیں اور تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔ سرکاری مورخین کو ان الفاظ سے اجتناب کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ان کا تذکرہ سرکاری میڈیا کے مباحثوں یا لیکچروں میں نہیں ملے گا اور نہ ہی ٹیلی ویژن کے ''فرمودات قائد'' میں۔
لہٰذا آج کا پاکستانی، جس کی نظر سے بانیٔ پاکستان کے صرف منتخب بیانات ہی گزرے ہیں، اسے یہ باور کرانا شاید مشکل ہو کہ یہ واقعی ان کے عظیم راہ نما کے اپنے الفاظ ہیں کہ مملکت کے کچھ معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان کی دوسری تقریر کا مرکزی خیال بھی یہی تھا ۔ 11 اگست کی تقریر میں مسٹر جناح نے کہیں زیادہ شدت اور اصرار کے ساتھ تصور پاکستان کی اس بنیادی اصول کی وضاحت کی۔
(اعتزازاحسن کی کتاب''The indus saga'' کے اردو ترجمے بعنوان ''سندھ ساگر اور قیام پاکستان'' سے اقتباس)
وہ ایک راسخ العقیدہ مگر روشن خیال مسلمان تھے اور کٹر مذہبیت' قدامت پرستی اور مذہبی جماعتوں کی حکم رانی کے خلاف تھے۔ وہ پاکستان میں ملائیت نہیں چاہتے تھے۔ اسی بنا پر تاجر، دکان دار اور علی گڑھ کے طلباء سمیت ہر طبقے کا مسلم بورژوازی جناح کا پیروکار تھا۔
محمد علی جناح نے کئی بار روشن خیالی کے حق میں اور بنیاد پرستی کے خلاف دو ٹوک اظہار خیال کیا۔ بہت سے حوالے اس حقیقت کا بین ثبوت ہیں کہ وہ سیاست اور مذہب کے تناظر میں ریاست اور مذہب کو الگ الگ خانوں میں رکھنے کے قائل تھے۔ اس مسئلے پر ان کی سوچ قطعی واضح تھی اور انہوں نے اس بارے میں اپنے نظریات کو دوسروں تک پہنچانے کا کوئی موقع کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ 1920ء میں گاندھی کی جانب سے سیاست میں نمائشی مذہبی حکمت عملی پر ان کا ردعمل کیا تھا۔ ایک اور موقعے پر جب ان کے چند پرجوش معترفین نے انہیں ''مولانا'' جناح کہہ کر مخاطب کیا تو انہوں نے بڑی ترش روئی سے بات کاٹتے ہوئے کہا ''میں مولانا نہیں صرف مسٹر جناح ہوں۔''
ایسی مختصر لیکن اہم مثالوں کے علاوہ اس موضوع پر دو اہم ترین تقریریں ان کی سوچ کی بڑی واضح عکاسی کرتی ہیں۔ پہلی تقریر 1929ء میں ''چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل'' Child Marriage Restraint Bill پیش ہونے پر اور دوسری تقریر آزادی سے تین روز قبل 11 اگست 1947ء کو آئین ساز اسمبلی میں کی گئی۔ ہمیں ان تقاریر پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، کیوںکہ یہ دونوں تقاریر کسی لگی لپٹی کے بغیر، ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق پر مسٹر جناح کے نظریات کی ترجمان ہیں۔
چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل 1927 Child Marriage Restraint Bill میں رائے ہری داس سردا نے قانون ساز اسمبلی میں پیش کیا اسی لیے اسے ''سردا بِل'' Sarda Bill کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ اس بل سے ایسا تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا کہ یہ دو سال تک التواء کا شکار رہا۔ بِل میں شادی کی کم از کم عمر اور کم سن بچوں کی شادی کرنے والے سرپرستوں کے لیے سزا تجویز کی گئی تھی۔
سردا بِل نے ملک بھر کے بنیاد پرستوں کو بے حد مشتعل کردیا۔ ہائوس پیٹیشن کمیٹی کو 707 عذر داریاں موصول ہوئیں، جن پر 72725 افراد کے دست خط تھے۔ چوٹی کے 74 علماء نے اس کے خلاف فتویٰ بھی جاری کیا۔ بل کے حق میں صرف چار عرض داشتیں آئیں، جن پر محض 10 افراد کے دست خط تھے۔ ایوان میں بل کی مخالفت کرنے والوں میں بہت سے دوسرے مسلم اراکین کے علاوہ صوبہ سرحد سے نواب سر صاحبزادہ عبدالقیوم، ڈھاکا سے اے ایچ غزنوی، یو پی سے محمد یامین اور سلہٹ سے مولوی محمد شفیع دائودی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مولانا شفیع نے بہت گھن گرج دکھائی۔
ان کا خیال تھا کہ اگر بل منظور کیا گیا تو یہ مسلمانوں کے حقوق کی ظالمانہ پامالی کے مترادف ہو گا۔ بل کے مخالفین نے واویلا کیا کہ مجوزہ بل کے باعث دین کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ برصغیر کے طول و عرض میں فتاویٰ جاری ہوئے کہ اسلام خطرے میں ہے۔ نابالغ بچوں کی شادی کر دینا والدین کا قانونی و شرعی حق ہے۔ اس حق کو سلب کرنا خدا کے قانون سے جنگ ہے۔
محمد علی جناح اس مخالفت سے مرعوب نہیں ہوئے۔ ان کے الفاظ واضح اور ابہام سے پاک تھے اور یہ ضروری ہے کہ ان کی تقریر کے کچھ حصے لفظ بہ لفظ یہاں نقل کردیے جائیں:
''میں نہیں مانتا کہ ان مروجہ ظالمانہ رسوم کو آسمانی تائید حاصل ہے۔ ہمیں ایک لمحے کے لیے بھی ان فرسودہ رسومات کے تسلسل کی اجازت نہیں دینا چاہیے۔ ایسی ظالمانہ، خوف ناک، شرم ناک اور غیرانسانی رسم، جو اس وقت ہندوستان میں رائج ہے، اسے بھلا کیوں کر مذہبی تائید حاصل ہوسکتی ہے؟''
جناح اس امر سے بے خبر نہیں تھے کہ وہ کس کی مخالفت کر رہے ہیں اور نہ ہی وہ بنیاد پرستوں کی طرف سے اپنی مخالفت کے بارے میں لا علم تھے۔ والٹیئر Voltaire کی طرح انہیں اس کی پرواہ نہیں تھی کہ وہ (مخالفین) اگر ہمیشہ اپنے احساسات اور اپنے اعتقادات پر قائم رہتے ہیں، لیکن جناح ایک اصولی مؤقف کے معاملے میں کسی دبائو کے سامنے جھکنے والے نہیں تھے۔ ان کا لہجہ بڑا سخت تھا، جب انہوں نے کہا:
''معاشرے کے اصلاح کار کو ہمیشہ سے ایسی بنیاد پرستی کا سامنا رہا ہے جس کے پس پردہ بھی عقائد، جذبات اور احساسات ہوتے ہیں، جو قابل فہم بھی ہیں اور کسی حد تک جائز بھی۔ لیکن کیا اس طبقے کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانا ضروری ہے، جس کے لیے ہمارے دلوں میں تعظیم ہے، جس کے احساسات کی ہم قدر کرتے ہیں؟ کیا ہمیں (ان کے ہاتھوں) خوار ہونا اور ترقی کی راہ کو چھوڑنا ہو گا؟ انسانیت کے نام پر میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ جب مذہب کے نام پر ہمیں عوامی دبائو کا سامنا ہو اور ہم یہ بھی جانتے ہوں کہ اس معاملے کا مذہب سے کوئی واسطہ نہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ پھر ہمارے اندر اتنی جرأت ہونی چاہیے کہ بے باکی سے کہہ سکیں کہ ہمیں ان (باتوں) سے خوف زدہ نہیں کیا جاسکتا۔''
یہ مسٹر جناح کے اپنے الفاظ ہیں اور تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔ سرکاری مورخین کو ان الفاظ سے اجتناب کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ان کا تذکرہ سرکاری میڈیا کے مباحثوں یا لیکچروں میں نہیں ملے گا اور نہ ہی ٹیلی ویژن کے ''فرمودات قائد'' میں۔
لہٰذا آج کا پاکستانی، جس کی نظر سے بانیٔ پاکستان کے صرف منتخب بیانات ہی گزرے ہیں، اسے یہ باور کرانا شاید مشکل ہو کہ یہ واقعی ان کے عظیم راہ نما کے اپنے الفاظ ہیں کہ مملکت کے کچھ معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان کی دوسری تقریر کا مرکزی خیال بھی یہی تھا ۔ 11 اگست کی تقریر میں مسٹر جناح نے کہیں زیادہ شدت اور اصرار کے ساتھ تصور پاکستان کی اس بنیادی اصول کی وضاحت کی۔
(اعتزازاحسن کی کتاب''The indus saga'' کے اردو ترجمے بعنوان ''سندھ ساگر اور قیام پاکستان'' سے اقتباس)