مظفر سے غلام فاطمہ تک
سزا اور جزا کا فلسفہ ہر مہذب معاشرہ کا بنیادی ستون ہوتا ہے۔۔۔
سزا اور جزا کا فلسفہ ہر مہذب معاشرہ کا بنیادی ستون ہوتا ہے۔ میں مذہبی تناظر میں یہ بات نہیں کر رہا۔ وہ تمام معاشرے جنہوں نے کم مدت میں بے مثال ترقی کی ہے، اس کلیہ کی اہمیت کو جان چکے ہیں کہ جرم کرنے والے کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ مظلوم کو انصاف ملنا چاہیے اور بے گناہ کی ہر طریقے سے حفاظت ہونی چاہیے۔ مگر اس تمام اصول میں کوئی بھی چیز نئی نہیں ہے۔ ہزاروں سال سے حکومتیں، بادشاہ، اور سلاطین، اپنے طریقے سے سزا اور جزا کے نظام کو رائج رکھے ہوئے ہیں۔ مگر اب ایک جوہری تبدیلی آ چکی ہے۔ اب قانون کے کچھ پیمانے ایسے ہیں جو دنیا کے ہر ملک کے لیے یکساں ہیں۔ تمام ممالک اُس پر کار بند رہنے کے پابند ہیں۔ جیسے نظام عدل میں شفافیت، انسانی حقوق، عورتوں اور بچوں کے حقوق، سیاسی بنیاد پر تشدد کی بیخ کنی اور صرف قانون کی حکمرانی۔
نیو یارک میں ایک پولیس بریفنگ میں میرے ایک ساتھی افسر نے سوال پوچھا کہ کیا کبھی بھی کوئی سفارشی فون آپ کو کسی بھی ملزم کے متعلق آیا ہے۔ بریفنگ دینے والا ایک گورا پولیس افسر تھا۔ اُس کا کیرئر تقریباً اکیس سال پر محیط تھا۔ اُس نے بڑی سادگی سے بتایا کہ اس کی 21 سال کی پولیس نوکری میں آج تک اسے کسی نے کبھی فون نہیں کیا کہ اس ملزم یا مجرم کو چھوڑ دو یا کیس کمزور بنائوں۔ مگر صورت حال ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی۔ آج سے صرف دو سو سال پہلے شفاف انصاف کا تصور تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا۔ آپ ٹاور آف لندن کا گائیڈڈ ٹور لیں۔ دراصل یہ ایک قلعہ ہے جہاں ایک زمانے میں شاہی خاندان کے کچھ افراد رہتے تھے۔ آپ کو بتایا جائے گا کہ حکومت کے باغی اور ملکہ سے انحراف کرنے والے کو کتنے اذیت ناک طریقے سے مارا جاتا تھا۔ یہ تمام دردناک سزا عام لوگوں کے سامنے دی جاتی تھی تا کہ لوگوں میں حکومت کا رعب اور دبدبہ بیٹھے۔ ہندوستان میں بادشاہ کسی بھی شخص کے متعلق کوئی بھی سزا سنانے پر قادر تھا اور وہ کسی بھی قانون کا پابند نہیں تھا۔ گردن زنی کا حکم دینا بالکل ایک عام سی بات تھی اور عقوبت خانے بادشاہ کو چیلنج کرنے والے لوگوں سے بھرے ہوتے تھے۔ زندہ لوگوں کی کھال اتارنا، لوگوں کی آنکھوں میں گرم سلاخ پھیر دینا اور باغیوں کو توپ سے اڑا دینا ایک معمولی فیصلہ تھا۔
ہمارے آج کے نظام عدل اور جیلوں کے نظام کی ابتداء دراصل اس وقت سے ہوئی جب تاج برطانیہ نے ہمارا پورا نظام قبضہ میں کر لیا۔ انصاف کا موجودہ اور قیدیوں کو جیل میں رکھنے کا مکمل نظام پاکستان کو ورثہ میں ملا۔ جیلوں کا نظام انگریزوں نے اپنی قوت اور استبداد کے بھر پور مظاہرے کے لیے ترتیب دیا تھا۔ ہم آنکھیں بند کر کے آج تک اسی نظام کو غلاموں کی طرح جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھی آنکھیں کھول کر کچھ نئے قوانین بناتے ہیں اور پھر بغیر کسی تجزیہ کے گہری نیند سو جاتے ہیں۔ پورے پاکستان میں اس وقت 99جیل ہیں جن میں 42 ہزار قیدی رکھنے کی گنجائش ہے۔ مگر ان جیلوں میں 78 ہزار قیدی پابند سلاسل ہیں۔
مظفر چوری کی ایک معمولی شکایت لے کر تھانے گیا۔ تھانیدار نے اس کو پاگل قرار دے کر جیل بھیج دیا۔ مظفر 37سال پاگل نہ ہونے کے باوجود پاگل قرار ہو کر جیل میں رہا۔ اسے37 سال میں کسی عدالت میں پیش نہ کیا گیا اور نہ ہی اس کا جرم بتایا گیا۔ مہر دین کو صرف قاتل کا ہم نام ہونے پر بیس برس کی عمر میں گرفتار کیا گیا۔ چار سال جیل میں رہنے کے بعد وہ بری ہو گیا۔ مگر اسے دوبارہ گرفتار کر کے اکیس سال جیل رکھا گیا۔ اسے سترہ سال کسی بھی عدالت میں پیش نہ کیا گیا۔ مختار کوہاٹ سے گرفتار ہوا اور مختلف جیلوں سے ہوتا ہوا کراچی پہنچ گیا۔ وہ 35 سال جیل میں رہا۔ اسے سندھ ہائیکورٹ نے آزاد کیا۔ ایک لڑکی1946ء میں کسی جرم میں جیل میں آئی۔ جیل میں اس کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ جیل ہی میں1948ء میں اختر پیدا ہوا۔ وہ پانچ سال کا تھا کہ اس کی ماں جیل میں فوت ہو گئی۔ اختراُسی جیل میں چالیس برس رہا۔ اس کا کوئی جرم نہ تھا۔ نہ وہ کسی کیس میں ملوث تھا۔
1936ء میں ایک نوجوان لڑکی کو برطانوی وائس رائے کو تنگ کرنے کے الزام میں کراچی جیل بھیج دیا گیا۔ اس وقت اس کی عمر صرف پندرہ سال تھی۔ اگلے53 سال وہ بغیر کسی جرم کے جیل میں رہی۔ اسے کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ 70 سال کی عمر میں وہ گونگی اور بہری ہو گئی۔ وہ نصف صدی سے زیادہ کسی ایسے جرم کی سزا کاٹ کر باہر آئی، جس کا اسے قطعاًعلم نہیں تھا۔ غلام فاطمہ اپنے خاوند کے ہمراہ 1947ء میں لاہور آ رہی تھی۔ اس کے خاوند کو بلوہ میں قتل کر دیا گیا۔ وہ صدمہ سے پاگل ہو گئی۔ پولیس نے اسے چوری کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ وہ اگلے 45 سال جیل کے پاگل خانے میں قید رہی۔ میں کیا کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں؟ ان تمام مثالوں سے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ ہمارا نظام انصاف بالکل بوسیدہ اور دیمک زدہ ہے۔ ہم کمزور کو بچا نہیں سکتے۔ ہمارے ہاں کمزور اور زمین کے کیڑے میں کوئی فرق نہیں؟ اس طرح کے معلوم نہیں کتنے بے گناہ ہماری جیلوں میں سڑ رہے ہونگے۔ ان تمام لوگوں کو کراچی کے ایک، صرف ایک وکیل بلکہ ولی نے جیل سے باہر نکالا۔ جس کا نام انصار برنی ہے۔
10 برس پہلے میں کوئٹہ تعینات تھا۔ ایک بہت سینئر افسر مجھے ملنے آئے۔ اس کا تعلق اسلام آباد سے تھا۔ وہ لاہور کے بہترین کالج اور اسکول کا پڑھا ہوا تھا۔ میں اس کے خاندان کو بہت اچھے طریقے سے جانتا ہوں۔ اسے سیاسی بنیاد پر ایک کیس میں ملوث کیا گیا۔ جس میں وہ بعد میں باعزت بری ہو گیا۔ مگر اس عمل کا پورا دورانیہ تقربیاً تین سال رہا۔ میرے سے باتیں کرتے کرتے وہ رونا شروع ہو جاتا تھا۔ وہ تقریباً چھ ماہ کوئٹہ جیل میں رہا۔ وہ ایک انتہائی ذہین اور باصلاحیت انسان تھا اور ہے۔وہ جیل جا کر اپنی تکلیف کو مکمل بھول گیا۔ جیل سپرینٹنڈنٹ کو علم تھا کہ وہ بے گناہ ہے۔ اس نے اپنے اس قیدی کو جیل میں تعلیم کے کام پر لگا دیا۔ اس افسر نے تمام قیدیوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔ اس نے قیدیوں کے متعلق نوٹس بنانے شروع کر دیے۔ اس نے ان کا ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ وہ ایک اعلیٰ غیر ملکی یونیورسٹی کا پڑھا ہوا اکانومسٹ تھا۔ اس نے اپنی فنی تعلیم سے فائدہ اٹھا کر جیل میں کسی کو بتائے بغیر ہر کیس کا پروفائل بنانا شروع کر دیا۔
قیدیوں کے ذاتی حالات جرم، عدالتی نظام اور جیل کے جبر پر اس نے مکمل عبور حاصل کر لیا۔ جیل سے باہر آ کر اس نے اپنی تحقیق کے بارے میں اپنے کچھ دوستوں کو بتانا شروع کیا۔ بقول اس کے جیل میں 60 ساٹھ فیصد کے قریب بے گناہ شخص پھانسی کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ 50 سے55 فیصد ملزم بالکل بے گناہ اور بے قصور ہوتے ہیں جنھیں نظام کی کوتاہی جیل میں لے آتی ہے۔ ان بے گناہ لوگوں میں سے اکثریت کو بغیر کسی جرم کے سزا دی جاتی ہے۔ اپیل در اپیل کے نظام میں ان میں سے اکثریت ذہنی انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وکلاء کی فیس اور جیل میں پیسے دے دے کر اکثریت بالکل قلاش ہو جاتے ہیں۔ زنجیر سے باندھنے اور نا باندھنے کے پیسے الگ ہیں۔ باہر سے کھانا منگوانا ہو یا باہر سے کوئی چیز منگوانی ہو تو اس کے ریٹ الگ ہیں۔ سزائے موت سنائے جانے والے قیدیوں کی کوٹھٹریاں الگ ہیں۔ اس کے مطابق وہ ان سے تفصیلاً ملتا رہتا تھا۔ ایک چھوٹی سی کوٹھڑی جس میں چار سے پانچ قیدی آسکتے ہیں۔ دس سے بارہ قیدی بند کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ رات کو قیدی باری لے کر سوتے ہیں یعنی پانچ قیدی کھڑے رہتے ہیں اور پانچ قیدی سو جاتے ہیں۔ بقول اس افسر کے جیل میں جس رات کسی کو پھانسی لگنی ہوتی تھی، جیل کے تمام قیدی جاگتے رہتے تھے اور تمام رات عبادت ہوتی رہتی تھی۔
لازم ہے کہ میں اس افسر کا نام نہیں لکھ سکتا۔ اب وہ افسر ریٹائرڈ ہو چکا ہے میں اسے اپنی یادداشت لکھنے پر اب تک قائل نہیں کر سکا۔ مگر، اس دو سال میں وہ بالکل ٹوٹ چکا ہے۔ وہ ہر وقت پلاسٹک کے ایک تھیلے کو اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ اس میں چپس اور پانی کی ایک بوتل موجود ہوتی ہے۔ وہ پنڈی سے کوئٹہ ٹرین پر ہر پیشی پر پہنچتا تھا۔ یہ سفر تقریباً 24-30 گھنٹے کا ہوتا تھا۔ وہ بتاتا تھا کہ جس دن صبح عدالت میں پیشی ہوتی تھی وہ رات بھرجاگتا رہتا تھا۔ جب وہ عدالت پہنچتا تھا تو اکثر اوقات پھر پیشی پڑ جاتی تھی۔ کبھی جج صاحب رخصت پر ہوتے تھے تو کبھی کیس کی باری نہیں آتی تھی۔ بقول اس کے اس ملک کے اصل مالک عدالت کے ریڈر، جیل کے سنتری اور اس درجہ کے اہلکار ہیں۔ یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ وہ پنڈی سے کوئٹہ کے سفر کو پل بھر میں بے معنی بنا سکتے ہیں۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کروا سکتے ہیں۔ وہ آپ کو کسی اجازت کے بغیر جیل میں فوم کا گدّا لا کر دے سکتے ہیں۔ وہ آپ کو رات دو بجے بازار سے کھانا لا کر دے سکتے ہیں۔ وہ بے گناہ کو گناہ گار اور گناہ گار کو بے گناہ قرار دلوا سکتے ہیں۔
61 سال کا بزرگ شخص ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے کرچی کرچی ہو جاتا ہے۔ وہ زار و قطار رونا شروع کر دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ اور ان جیسے سرکاری عمال لوگوں کی بے بسی کے بازار میں اپنی دکان لگاتے ہیں۔ مجبوری کی کرنسی سے خرید و فروخت کرتے ہیں! اور محرومی کے سکے کے عوض لوگوں کی روح تک بیچ ڈالتے ہیں! وہ افسر بھی غلام فاطمہ کی طرح پاگل ہو چکا ہے؟ کون سا نظام اور کیسا نظام؟ مگر ایسے نظام کے عدم وجود نے برنی جیسے لوگ بھی تو پیدا کیے ہیں؟
نیو یارک میں ایک پولیس بریفنگ میں میرے ایک ساتھی افسر نے سوال پوچھا کہ کیا کبھی بھی کوئی سفارشی فون آپ کو کسی بھی ملزم کے متعلق آیا ہے۔ بریفنگ دینے والا ایک گورا پولیس افسر تھا۔ اُس کا کیرئر تقریباً اکیس سال پر محیط تھا۔ اُس نے بڑی سادگی سے بتایا کہ اس کی 21 سال کی پولیس نوکری میں آج تک اسے کسی نے کبھی فون نہیں کیا کہ اس ملزم یا مجرم کو چھوڑ دو یا کیس کمزور بنائوں۔ مگر صورت حال ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی۔ آج سے صرف دو سو سال پہلے شفاف انصاف کا تصور تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا۔ آپ ٹاور آف لندن کا گائیڈڈ ٹور لیں۔ دراصل یہ ایک قلعہ ہے جہاں ایک زمانے میں شاہی خاندان کے کچھ افراد رہتے تھے۔ آپ کو بتایا جائے گا کہ حکومت کے باغی اور ملکہ سے انحراف کرنے والے کو کتنے اذیت ناک طریقے سے مارا جاتا تھا۔ یہ تمام دردناک سزا عام لوگوں کے سامنے دی جاتی تھی تا کہ لوگوں میں حکومت کا رعب اور دبدبہ بیٹھے۔ ہندوستان میں بادشاہ کسی بھی شخص کے متعلق کوئی بھی سزا سنانے پر قادر تھا اور وہ کسی بھی قانون کا پابند نہیں تھا۔ گردن زنی کا حکم دینا بالکل ایک عام سی بات تھی اور عقوبت خانے بادشاہ کو چیلنج کرنے والے لوگوں سے بھرے ہوتے تھے۔ زندہ لوگوں کی کھال اتارنا، لوگوں کی آنکھوں میں گرم سلاخ پھیر دینا اور باغیوں کو توپ سے اڑا دینا ایک معمولی فیصلہ تھا۔
ہمارے آج کے نظام عدل اور جیلوں کے نظام کی ابتداء دراصل اس وقت سے ہوئی جب تاج برطانیہ نے ہمارا پورا نظام قبضہ میں کر لیا۔ انصاف کا موجودہ اور قیدیوں کو جیل میں رکھنے کا مکمل نظام پاکستان کو ورثہ میں ملا۔ جیلوں کا نظام انگریزوں نے اپنی قوت اور استبداد کے بھر پور مظاہرے کے لیے ترتیب دیا تھا۔ ہم آنکھیں بند کر کے آج تک اسی نظام کو غلاموں کی طرح جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھی آنکھیں کھول کر کچھ نئے قوانین بناتے ہیں اور پھر بغیر کسی تجزیہ کے گہری نیند سو جاتے ہیں۔ پورے پاکستان میں اس وقت 99جیل ہیں جن میں 42 ہزار قیدی رکھنے کی گنجائش ہے۔ مگر ان جیلوں میں 78 ہزار قیدی پابند سلاسل ہیں۔
مظفر چوری کی ایک معمولی شکایت لے کر تھانے گیا۔ تھانیدار نے اس کو پاگل قرار دے کر جیل بھیج دیا۔ مظفر 37سال پاگل نہ ہونے کے باوجود پاگل قرار ہو کر جیل میں رہا۔ اسے37 سال میں کسی عدالت میں پیش نہ کیا گیا اور نہ ہی اس کا جرم بتایا گیا۔ مہر دین کو صرف قاتل کا ہم نام ہونے پر بیس برس کی عمر میں گرفتار کیا گیا۔ چار سال جیل میں رہنے کے بعد وہ بری ہو گیا۔ مگر اسے دوبارہ گرفتار کر کے اکیس سال جیل رکھا گیا۔ اسے سترہ سال کسی بھی عدالت میں پیش نہ کیا گیا۔ مختار کوہاٹ سے گرفتار ہوا اور مختلف جیلوں سے ہوتا ہوا کراچی پہنچ گیا۔ وہ 35 سال جیل میں رہا۔ اسے سندھ ہائیکورٹ نے آزاد کیا۔ ایک لڑکی1946ء میں کسی جرم میں جیل میں آئی۔ جیل میں اس کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ جیل ہی میں1948ء میں اختر پیدا ہوا۔ وہ پانچ سال کا تھا کہ اس کی ماں جیل میں فوت ہو گئی۔ اختراُسی جیل میں چالیس برس رہا۔ اس کا کوئی جرم نہ تھا۔ نہ وہ کسی کیس میں ملوث تھا۔
1936ء میں ایک نوجوان لڑکی کو برطانوی وائس رائے کو تنگ کرنے کے الزام میں کراچی جیل بھیج دیا گیا۔ اس وقت اس کی عمر صرف پندرہ سال تھی۔ اگلے53 سال وہ بغیر کسی جرم کے جیل میں رہی۔ اسے کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ 70 سال کی عمر میں وہ گونگی اور بہری ہو گئی۔ وہ نصف صدی سے زیادہ کسی ایسے جرم کی سزا کاٹ کر باہر آئی، جس کا اسے قطعاًعلم نہیں تھا۔ غلام فاطمہ اپنے خاوند کے ہمراہ 1947ء میں لاہور آ رہی تھی۔ اس کے خاوند کو بلوہ میں قتل کر دیا گیا۔ وہ صدمہ سے پاگل ہو گئی۔ پولیس نے اسے چوری کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ وہ اگلے 45 سال جیل کے پاگل خانے میں قید رہی۔ میں کیا کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں؟ ان تمام مثالوں سے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ ہمارا نظام انصاف بالکل بوسیدہ اور دیمک زدہ ہے۔ ہم کمزور کو بچا نہیں سکتے۔ ہمارے ہاں کمزور اور زمین کے کیڑے میں کوئی فرق نہیں؟ اس طرح کے معلوم نہیں کتنے بے گناہ ہماری جیلوں میں سڑ رہے ہونگے۔ ان تمام لوگوں کو کراچی کے ایک، صرف ایک وکیل بلکہ ولی نے جیل سے باہر نکالا۔ جس کا نام انصار برنی ہے۔
10 برس پہلے میں کوئٹہ تعینات تھا۔ ایک بہت سینئر افسر مجھے ملنے آئے۔ اس کا تعلق اسلام آباد سے تھا۔ وہ لاہور کے بہترین کالج اور اسکول کا پڑھا ہوا تھا۔ میں اس کے خاندان کو بہت اچھے طریقے سے جانتا ہوں۔ اسے سیاسی بنیاد پر ایک کیس میں ملوث کیا گیا۔ جس میں وہ بعد میں باعزت بری ہو گیا۔ مگر اس عمل کا پورا دورانیہ تقربیاً تین سال رہا۔ میرے سے باتیں کرتے کرتے وہ رونا شروع ہو جاتا تھا۔ وہ تقریباً چھ ماہ کوئٹہ جیل میں رہا۔ وہ ایک انتہائی ذہین اور باصلاحیت انسان تھا اور ہے۔وہ جیل جا کر اپنی تکلیف کو مکمل بھول گیا۔ جیل سپرینٹنڈنٹ کو علم تھا کہ وہ بے گناہ ہے۔ اس نے اپنے اس قیدی کو جیل میں تعلیم کے کام پر لگا دیا۔ اس افسر نے تمام قیدیوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔ اس نے قیدیوں کے متعلق نوٹس بنانے شروع کر دیے۔ اس نے ان کا ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ وہ ایک اعلیٰ غیر ملکی یونیورسٹی کا پڑھا ہوا اکانومسٹ تھا۔ اس نے اپنی فنی تعلیم سے فائدہ اٹھا کر جیل میں کسی کو بتائے بغیر ہر کیس کا پروفائل بنانا شروع کر دیا۔
قیدیوں کے ذاتی حالات جرم، عدالتی نظام اور جیل کے جبر پر اس نے مکمل عبور حاصل کر لیا۔ جیل سے باہر آ کر اس نے اپنی تحقیق کے بارے میں اپنے کچھ دوستوں کو بتانا شروع کیا۔ بقول اس کے جیل میں 60 ساٹھ فیصد کے قریب بے گناہ شخص پھانسی کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ 50 سے55 فیصد ملزم بالکل بے گناہ اور بے قصور ہوتے ہیں جنھیں نظام کی کوتاہی جیل میں لے آتی ہے۔ ان بے گناہ لوگوں میں سے اکثریت کو بغیر کسی جرم کے سزا دی جاتی ہے۔ اپیل در اپیل کے نظام میں ان میں سے اکثریت ذہنی انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وکلاء کی فیس اور جیل میں پیسے دے دے کر اکثریت بالکل قلاش ہو جاتے ہیں۔ زنجیر سے باندھنے اور نا باندھنے کے پیسے الگ ہیں۔ باہر سے کھانا منگوانا ہو یا باہر سے کوئی چیز منگوانی ہو تو اس کے ریٹ الگ ہیں۔ سزائے موت سنائے جانے والے قیدیوں کی کوٹھٹریاں الگ ہیں۔ اس کے مطابق وہ ان سے تفصیلاً ملتا رہتا تھا۔ ایک چھوٹی سی کوٹھڑی جس میں چار سے پانچ قیدی آسکتے ہیں۔ دس سے بارہ قیدی بند کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ رات کو قیدی باری لے کر سوتے ہیں یعنی پانچ قیدی کھڑے رہتے ہیں اور پانچ قیدی سو جاتے ہیں۔ بقول اس افسر کے جیل میں جس رات کسی کو پھانسی لگنی ہوتی تھی، جیل کے تمام قیدی جاگتے رہتے تھے اور تمام رات عبادت ہوتی رہتی تھی۔
لازم ہے کہ میں اس افسر کا نام نہیں لکھ سکتا۔ اب وہ افسر ریٹائرڈ ہو چکا ہے میں اسے اپنی یادداشت لکھنے پر اب تک قائل نہیں کر سکا۔ مگر، اس دو سال میں وہ بالکل ٹوٹ چکا ہے۔ وہ ہر وقت پلاسٹک کے ایک تھیلے کو اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ اس میں چپس اور پانی کی ایک بوتل موجود ہوتی ہے۔ وہ پنڈی سے کوئٹہ ٹرین پر ہر پیشی پر پہنچتا تھا۔ یہ سفر تقریباً 24-30 گھنٹے کا ہوتا تھا۔ وہ بتاتا تھا کہ جس دن صبح عدالت میں پیشی ہوتی تھی وہ رات بھرجاگتا رہتا تھا۔ جب وہ عدالت پہنچتا تھا تو اکثر اوقات پھر پیشی پڑ جاتی تھی۔ کبھی جج صاحب رخصت پر ہوتے تھے تو کبھی کیس کی باری نہیں آتی تھی۔ بقول اس کے اس ملک کے اصل مالک عدالت کے ریڈر، جیل کے سنتری اور اس درجہ کے اہلکار ہیں۔ یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ وہ پنڈی سے کوئٹہ کے سفر کو پل بھر میں بے معنی بنا سکتے ہیں۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کروا سکتے ہیں۔ وہ آپ کو کسی اجازت کے بغیر جیل میں فوم کا گدّا لا کر دے سکتے ہیں۔ وہ آپ کو رات دو بجے بازار سے کھانا لا کر دے سکتے ہیں۔ وہ بے گناہ کو گناہ گار اور گناہ گار کو بے گناہ قرار دلوا سکتے ہیں۔
61 سال کا بزرگ شخص ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے کرچی کرچی ہو جاتا ہے۔ وہ زار و قطار رونا شروع کر دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ اور ان جیسے سرکاری عمال لوگوں کی بے بسی کے بازار میں اپنی دکان لگاتے ہیں۔ مجبوری کی کرنسی سے خرید و فروخت کرتے ہیں! اور محرومی کے سکے کے عوض لوگوں کی روح تک بیچ ڈالتے ہیں! وہ افسر بھی غلام فاطمہ کی طرح پاگل ہو چکا ہے؟ کون سا نظام اور کیسا نظام؟ مگر ایسے نظام کے عدم وجود نے برنی جیسے لوگ بھی تو پیدا کیے ہیں؟