آکیسجن کی کمی سے کون سے امراض جنم لیتے ہیں
بند کمر ے میں دماغی مشقت کرنے والے کم محنت کے ساتھ زیادہ تھکن کا شکار ہوجاتے ہیں
NEW DELHI:
ہوائے نسیم ( آکسیجن) کی کمی مختلف امراض کا سبب بنتی ہے۔ امراض کا اظہار علامات سے ہوتا ہے۔
اعراض کبھی اس قدر سادہ ہوتے ہیں مثلاً حلق کی خرابی ، نزلہ زکام وغیرہ کے مرض کا پہچاننا آسان ہوتا ہے، گاہے اتنے پیچیدہ ہوتے ہیںکہ معالج کے ذہن میں تین ، چار امراض کا خیال آتا ہے۔ ان کے درمیان فرق کر کے اصل مرض تک پہنچنا ' فرق الامراض' کہلاتاہے۔ مثلاً وائرس اور پھپھوندی کہ دونوں کی موجودگی کمزوری ، خراش، جسم پر داغ دھبے وغیرہ کا سبب بنتے ہیں۔ دورِحاضر میں امراض کا سبب معلوم کرنے کیلئے مختلف لیب ٹیسٹ کا طریقہ تو معلوم ہو گیا مگر 'سوائِ استحالہ' میٹابولک خرابی کا سبب معلوم کرنا اب بھی آسان نہیں۔
مرض آکسی ڈیٹو اسٹریس، جس کی علامت ذیابیطس ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں مثلاًورزش نہ کرنا، اس بنا پر جسم میں ہوائے نسیم کی ضروری مقدار اعضاء تک نہیں پہنچتی لہذا وہ اپنا فعل درست طورپر انجام نہیں دے پاتے اور خون سے شکر کی مقدار جذب نہیں ہوتی ، یوں شکر خون ہی میں رہتی ہے اور ناپنے میں زیادہ آتی ہے۔
اکثر جگہ دیکھا جاتا ہے کہ دروازے کھڑکیاںگرمی یا کسی اور وجہ سے بند رکھی جاتی ہیں، اس کے نتیجے میں خون میں آکسیجن ( ہوائے نسیم ) کی مقدار کم ہوجاتی ہے، اگر ایسی جگہ رہنے والے حضرات چہل قدمی کا انتظام نہ کریں تو کسی بھی مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جیسے دمہ ، دل کے امراض ، شوگر ، ہائی بلڈ پریشر ، امراضِ سر ، معدے کے امراض وغیرہ کیونکہ ایک جانب چلنے پھرنے سے اجتناب تو دوسری طرف آکسیجن ویسے بھی رہنے کی جگہ پر کم ہوجاتی ہے۔کلیاتِ طب میں ورزش چلنے پھرنے سے جہاں دوران خون میں معاونت ملتی ہے وہاں خلیات کو آکسیجن پہنچانے ، ہاضمے اور قوتِ مدافعت بڑھانے میں بھی بہت مدد ملتی ہے۔
کم آکسیجن والے کمرے میں رہنےوالے کو شوگر کیوں ہوتی ہے؟
پاکستان میں 11.77 فیصد مرد حضرات شوگر کا شکار ہیںان میں 7 فیصد وہ ہیں جو دفاتر میں کام کرتے ہیںاور 4 فی صد وہ ہیں جو ورزش نہیں کرتے بلکہ تلی ہوئی غذا ء کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ دفاتر یا گھر میں بیٹھے ہوئے انسان آکسیجن کی بہت قلیل مقدار حاصل کرتا ہے اور اگرروشن دان یا کھڑکی نہ ہو یا بند ہو تو صرف آکسیجن کی مقدار کم جذب ہوتی ہے بلکہ اور حضرات کی سانس سے خارج ہونے والی دخانی ہوا (کاربن ڈائی آکسائیڈ) بھی سب ایک دوسرے کی جذب کر رہے ہوتے ہیں۔
ثابت ہو چکا ہے کہ آکسیجن کی کمی اعضاء کو پورا فعل انجام نہیں دینے دیتی اور استحالہ (میٹابولزم) کی خرابی زیادہ نمودار ہوتی ہے، اور جب انسان بند کمر ے میں دماغی مشقت کا کام کرتا ہے تو تھکتا بھی زیادہ ہے اور کم محنت کرنے کے باوجود سر درد یا بھاری پن کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس عادت کا تجربہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ ایک بند روشن دان والے کمرے میں کام میں مشغول رہیں اور دوسرے ہفتے باہر کھلی فضاء میں وہی کام کریں۔ اس ہفتے تھکاوٹ کم ، کام زیادہ اور سر کا بھاری پن ، سر درد وغیرہ نہیں ہو گا ۔ جب دماغ پر کسی قسم کا اسٹریس آتا ہے تو ایک محرکہ ( ہارمون) کا افرازہوتا ہے جسے کارٹیسول کہتے ہیں۔ یہ کام کرنے کے لیے توانائی بڑھاتا ہے۔ ساتھ ہی خون میں شکر کے انجذاب کو کم کرتا ہے تاکہ زیادہ شکر پیدا ہو اور شکر توانائی پیدا کرتی ہے اس شکر کو گلوکوز بھی کہتے ہیں، نتیجتاً خون میں شکر کی وافر مقدار رہتی ہے۔ آلہ سے تصدیق کرنے پر معمول سے زیادہ شوگر پائی جاتی ہے۔
شوگر کی وجوہات میں فرق کیسے کریں؟
شوگر کی بہت ساری وجوہات ہیں، عام طور پر لبلبہ کے بیٹا خلیات کی پَسر ہمتی وجہ بن کر سامنے آتی ہے مگر جو ادویہ بیٹا خلیات کو چست کرتی ہیں ، ان کے استعمال سے پہلے 'سی۔پیپ' خون میں ٹیسٹ کرالینا چاہیے۔
(1) اگر یہ ٹیسٹ درست ہے تو انسولین رزسٹینٹ کی طرف دھیان دینا چاہیے۔
(2) معدے کی خرابی اگر شوگر کی وجہ ہے تو بھوک کی کمی، خوراک دیکھ کر متلی محسوس ہوتی ہے۔
(3) اگر ورزش کی کمی شوگر کی وجہ ہے تو پیٹ پھولا ہوا دکھے گا ۔
(4) اگر لبلبہ کے بیٹا خلیات کی وجہ سے شوگر ہے تو گنجا پن، ہاتھ پاؤں میں سوئیاں (نمب نیس) ، لبلبہ کے مقام پر کبھی کبھی چبھتا ہوا دردمحسوس ہوگا۔
(5) اگر دماغی مشقت شوگر کی وجہ بنی ہو تو آنکھوں پر تھکاوٹ، جسمانی لاغری عیاں ہوگی۔
(6) خون کی کمی سے بھی شوگر کی مقدار زیادہ آتی ہے، اس صورت میں خون گاڑھا نکلتا ہے، اگر سوئی سے تھوڑا خون نکالا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے۔
بند کمرے میں بیٹھنے والے اشخاص امراض سے کیسے بچیں؟
( 1 ) ایک گھنٹہ کام کریں اور آدھا گھنٹہ تازہ ہوامیں گہرا سانس لیں۔
( 2 ) دفتر سے فارغ ہو کر دھیان بٹائیںتاکہ کارٹیسول کا افراز کم ہو۔
( 3 ) سبزیوں کا استعمال کم کریںتاکہ جسم میں پانی کی مقدار رہے۔ یاد رہے کہ پانی جب مستحیل (اجزاء میں ٹوٹتا ہے) تو آکسیجن اور ہائیڈروجن پیدا ہوتی ہے، آکسیجن جسم میں جدب ہوتی ہے اور ہائیڈروجن ریح کے ذریعے یا ڈکاروں سے خارج ہوجاتی ہے۔
( 4 ) چھے سے آٹھ گھنٹے بغیر مداخلت کے نیند لیں۔
(5) عود یا صندل کی خوشبو سونگھیں کہ یہ دماغ کو تازہ کرتی ہیں۔
( 6 ) اگر نزلہ یا زکام کا خوف نہ ہو تو گلِ سرخ کا روغن ماتھے پر ملیں ، یہ نیند بھی بہتر کرتا ہے اور ناک کے خلیات کو تراوٹ بخشتا ہے۔
( 7 ) پیٹ بھر کر کوئی خوراک استعمال نہ کریں، کیونکہ جب چلنا پھرنا کم ہو تو معدے کا فعل45 فیصد ہوتا ہے، یوں بول ریح اور دیگر غیر موزوں کیفیات جنم لیتی ہیں۔
( 8 ) وٹامن ڈی حاصل کریں، ویسے سورج کی روشنی اس وٹامن کا بہترین سرچشمہ ہے، ورنہ کیپسول کا استعمال ہفتہ میں ایک بار کریں (خوراک 200,000i.u)۔
بند کمرے میں کام کرنے والوں کے لئے ایک نسخہ
ایسے حضرات جنہیںبندکمرے وغیرہ میں زیادہ کام کرنا ہوتا ہے، انہیں ایسی بوٹیاں استعمال کرنی چاہئیںجو دماغ کے خلیات کو تازہ دم رکھیں مثلاً اسگندھ، اسطوخودوس ، میتھی دانہ ، الائچی خورد کا سفوف رات سونے سے پہلے ہمراہ آب نیم گرم کھائیں۔ مقدارِ خوراک کا تعین عمر، وزن کے اعتبار سے کریں۔
ہوائے نسیم ( آکسیجن) کی کمی مختلف امراض کا سبب بنتی ہے۔ امراض کا اظہار علامات سے ہوتا ہے۔
اعراض کبھی اس قدر سادہ ہوتے ہیں مثلاً حلق کی خرابی ، نزلہ زکام وغیرہ کے مرض کا پہچاننا آسان ہوتا ہے، گاہے اتنے پیچیدہ ہوتے ہیںکہ معالج کے ذہن میں تین ، چار امراض کا خیال آتا ہے۔ ان کے درمیان فرق کر کے اصل مرض تک پہنچنا ' فرق الامراض' کہلاتاہے۔ مثلاً وائرس اور پھپھوندی کہ دونوں کی موجودگی کمزوری ، خراش، جسم پر داغ دھبے وغیرہ کا سبب بنتے ہیں۔ دورِحاضر میں امراض کا سبب معلوم کرنے کیلئے مختلف لیب ٹیسٹ کا طریقہ تو معلوم ہو گیا مگر 'سوائِ استحالہ' میٹابولک خرابی کا سبب معلوم کرنا اب بھی آسان نہیں۔
مرض آکسی ڈیٹو اسٹریس، جس کی علامت ذیابیطس ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں مثلاًورزش نہ کرنا، اس بنا پر جسم میں ہوائے نسیم کی ضروری مقدار اعضاء تک نہیں پہنچتی لہذا وہ اپنا فعل درست طورپر انجام نہیں دے پاتے اور خون سے شکر کی مقدار جذب نہیں ہوتی ، یوں شکر خون ہی میں رہتی ہے اور ناپنے میں زیادہ آتی ہے۔
اکثر جگہ دیکھا جاتا ہے کہ دروازے کھڑکیاںگرمی یا کسی اور وجہ سے بند رکھی جاتی ہیں، اس کے نتیجے میں خون میں آکسیجن ( ہوائے نسیم ) کی مقدار کم ہوجاتی ہے، اگر ایسی جگہ رہنے والے حضرات چہل قدمی کا انتظام نہ کریں تو کسی بھی مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جیسے دمہ ، دل کے امراض ، شوگر ، ہائی بلڈ پریشر ، امراضِ سر ، معدے کے امراض وغیرہ کیونکہ ایک جانب چلنے پھرنے سے اجتناب تو دوسری طرف آکسیجن ویسے بھی رہنے کی جگہ پر کم ہوجاتی ہے۔کلیاتِ طب میں ورزش چلنے پھرنے سے جہاں دوران خون میں معاونت ملتی ہے وہاں خلیات کو آکسیجن پہنچانے ، ہاضمے اور قوتِ مدافعت بڑھانے میں بھی بہت مدد ملتی ہے۔
کم آکسیجن والے کمرے میں رہنےوالے کو شوگر کیوں ہوتی ہے؟
پاکستان میں 11.77 فیصد مرد حضرات شوگر کا شکار ہیںان میں 7 فیصد وہ ہیں جو دفاتر میں کام کرتے ہیںاور 4 فی صد وہ ہیں جو ورزش نہیں کرتے بلکہ تلی ہوئی غذا ء کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ دفاتر یا گھر میں بیٹھے ہوئے انسان آکسیجن کی بہت قلیل مقدار حاصل کرتا ہے اور اگرروشن دان یا کھڑکی نہ ہو یا بند ہو تو صرف آکسیجن کی مقدار کم جذب ہوتی ہے بلکہ اور حضرات کی سانس سے خارج ہونے والی دخانی ہوا (کاربن ڈائی آکسائیڈ) بھی سب ایک دوسرے کی جذب کر رہے ہوتے ہیں۔
ثابت ہو چکا ہے کہ آکسیجن کی کمی اعضاء کو پورا فعل انجام نہیں دینے دیتی اور استحالہ (میٹابولزم) کی خرابی زیادہ نمودار ہوتی ہے، اور جب انسان بند کمر ے میں دماغی مشقت کا کام کرتا ہے تو تھکتا بھی زیادہ ہے اور کم محنت کرنے کے باوجود سر درد یا بھاری پن کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس عادت کا تجربہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ ایک بند روشن دان والے کمرے میں کام میں مشغول رہیں اور دوسرے ہفتے باہر کھلی فضاء میں وہی کام کریں۔ اس ہفتے تھکاوٹ کم ، کام زیادہ اور سر کا بھاری پن ، سر درد وغیرہ نہیں ہو گا ۔ جب دماغ پر کسی قسم کا اسٹریس آتا ہے تو ایک محرکہ ( ہارمون) کا افرازہوتا ہے جسے کارٹیسول کہتے ہیں۔ یہ کام کرنے کے لیے توانائی بڑھاتا ہے۔ ساتھ ہی خون میں شکر کے انجذاب کو کم کرتا ہے تاکہ زیادہ شکر پیدا ہو اور شکر توانائی پیدا کرتی ہے اس شکر کو گلوکوز بھی کہتے ہیں، نتیجتاً خون میں شکر کی وافر مقدار رہتی ہے۔ آلہ سے تصدیق کرنے پر معمول سے زیادہ شوگر پائی جاتی ہے۔
شوگر کی وجوہات میں فرق کیسے کریں؟
شوگر کی بہت ساری وجوہات ہیں، عام طور پر لبلبہ کے بیٹا خلیات کی پَسر ہمتی وجہ بن کر سامنے آتی ہے مگر جو ادویہ بیٹا خلیات کو چست کرتی ہیں ، ان کے استعمال سے پہلے 'سی۔پیپ' خون میں ٹیسٹ کرالینا چاہیے۔
(1) اگر یہ ٹیسٹ درست ہے تو انسولین رزسٹینٹ کی طرف دھیان دینا چاہیے۔
(2) معدے کی خرابی اگر شوگر کی وجہ ہے تو بھوک کی کمی، خوراک دیکھ کر متلی محسوس ہوتی ہے۔
(3) اگر ورزش کی کمی شوگر کی وجہ ہے تو پیٹ پھولا ہوا دکھے گا ۔
(4) اگر لبلبہ کے بیٹا خلیات کی وجہ سے شوگر ہے تو گنجا پن، ہاتھ پاؤں میں سوئیاں (نمب نیس) ، لبلبہ کے مقام پر کبھی کبھی چبھتا ہوا دردمحسوس ہوگا۔
(5) اگر دماغی مشقت شوگر کی وجہ بنی ہو تو آنکھوں پر تھکاوٹ، جسمانی لاغری عیاں ہوگی۔
(6) خون کی کمی سے بھی شوگر کی مقدار زیادہ آتی ہے، اس صورت میں خون گاڑھا نکلتا ہے، اگر سوئی سے تھوڑا خون نکالا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے۔
بند کمرے میں بیٹھنے والے اشخاص امراض سے کیسے بچیں؟
( 1 ) ایک گھنٹہ کام کریں اور آدھا گھنٹہ تازہ ہوامیں گہرا سانس لیں۔
( 2 ) دفتر سے فارغ ہو کر دھیان بٹائیںتاکہ کارٹیسول کا افراز کم ہو۔
( 3 ) سبزیوں کا استعمال کم کریںتاکہ جسم میں پانی کی مقدار رہے۔ یاد رہے کہ پانی جب مستحیل (اجزاء میں ٹوٹتا ہے) تو آکسیجن اور ہائیڈروجن پیدا ہوتی ہے، آکسیجن جسم میں جدب ہوتی ہے اور ہائیڈروجن ریح کے ذریعے یا ڈکاروں سے خارج ہوجاتی ہے۔
( 4 ) چھے سے آٹھ گھنٹے بغیر مداخلت کے نیند لیں۔
(5) عود یا صندل کی خوشبو سونگھیں کہ یہ دماغ کو تازہ کرتی ہیں۔
( 6 ) اگر نزلہ یا زکام کا خوف نہ ہو تو گلِ سرخ کا روغن ماتھے پر ملیں ، یہ نیند بھی بہتر کرتا ہے اور ناک کے خلیات کو تراوٹ بخشتا ہے۔
( 7 ) پیٹ بھر کر کوئی خوراک استعمال نہ کریں، کیونکہ جب چلنا پھرنا کم ہو تو معدے کا فعل45 فیصد ہوتا ہے، یوں بول ریح اور دیگر غیر موزوں کیفیات جنم لیتی ہیں۔
( 8 ) وٹامن ڈی حاصل کریں، ویسے سورج کی روشنی اس وٹامن کا بہترین سرچشمہ ہے، ورنہ کیپسول کا استعمال ہفتہ میں ایک بار کریں (خوراک 200,000i.u)۔
بند کمرے میں کام کرنے والوں کے لئے ایک نسخہ
ایسے حضرات جنہیںبندکمرے وغیرہ میں زیادہ کام کرنا ہوتا ہے، انہیں ایسی بوٹیاں استعمال کرنی چاہئیںجو دماغ کے خلیات کو تازہ دم رکھیں مثلاً اسگندھ، اسطوخودوس ، میتھی دانہ ، الائچی خورد کا سفوف رات سونے سے پہلے ہمراہ آب نیم گرم کھائیں۔ مقدارِ خوراک کا تعین عمر، وزن کے اعتبار سے کریں۔