اپنے اپنے پسندیدہ ڈکٹیٹروں کے چاہنے والے

ملک میں قانون ایک ایسا مکڑی کا جالا ہے جس کو بااختیار توڑ کر نکل جاتا ہے اور بے اختیار پھنس کر رہ جاتا ہے

جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پر حال ہی میں ایک مذاکرہ ہوا' جس میں بحث کے دوران سامعین کی اکثریت کا جھکائو حیرت انگیز طور پر ان کے حق میں تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں؟ جواب یہ ہے کہ ہم نے اپنی تاریخ کا بیشتر حصہ ڈکٹیٹروں کے تحت گزارا ہے چونکہ پاک فوج سے عوام محبت کرتے ہیں صرف اسی وجہ سے عوام کا ایک قابل لحاظ حلقہ بھی پرویز مشرف کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ پاکستان پر حکومت کرنے والے ڈکٹیٹر مختلف نظریات کے حامل تھے اور انھوں نے ایک دوسرے سے مختلف ''کارنامے'' انجام دیے۔ یہ بات بڑی قابل غور ہے کہ پاکستانی قوم اپنے اپنے پسندیدہ ڈکٹیٹروں کے چاہنے والوں میں بٹی ہوئی ہے۔ کوئی آج بھی جنرل ایوب کا شیدائی ہے تو کوئی ضیا کا اور کوئی مشرف کا حالانکہ یہ سب لوگ ایک دوسرے سے بالکل الگ مقاصد لے کر برسراقتدار آئے تھے۔

ضیا الحق کے حمایتی جنرل پرویز مشرف کو سخت مخالف ہیں اور جنرل پرویز مشرف کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے ضیا الحق کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ چند دن پیشتر ایک سروے دیکھنے کا اتفاق ہوا' پاکستان اور دنیا میں سروے رپورٹیں بھی کچھ مقاصد سامنے رکھ کر تیار ہوتی ہیں تاہم کسی نہ کسی حد تک ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ جو سروے میں نے دیکھا' اس کے مطابق 86 فیصد پاکستانی عوام نے جنرل مشرف کو 3 نومبر کی ایمرجنسی کا واحد ذمے دار ہونے کے خیال سے اتفاق نہیں کیا جب کہ 12 فیصد اس خیال کے حامی تھے کہ اس ایمرجنسی کے واحد ذمے دار پرویز مشرف ہیں۔ یعنی اس سروے نے یہ ثابتکرنے کی کوشش کی ہے کہ عوام کے نزدیک صرف پرویز مشرف پر مقدمہ چلانا انتقامی کارروائی کے ذیل میں آئے گا۔ اس سوال کے جواب میں کہ مشرف کو غداری کیس میں موت کی سزا ملنی چاہیے۔ 19 فیصد متفق ہیں جب کہ 26 فیصد مکمل طور پر غیر متفق ہیں۔ ان کو عمر قید دینے کے سلسلے میں بھی متفق اور غیر متفق برابر برابر ہیں یعنی دونوں طرف رائے عامہ 23 فیصد ہے۔


اب میں ایک ذاتی تجربہ بھی آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ جب سے پرویز مشرف کے خلاف عدالتی کارروائی شروع ہوئی ہے۔ مجھے بے شمار ٹیلیفون آتے ہیں جن میں کئی افراد یہ سمجھتے ہیں کہ پرویز مشرف کے ساتھ غلط سلوک کیا جا رہا ہے۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ پرویز مشرف تو آئین شکن ہیں' آپ ان کو کیوں پسند کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ہمارا مسئلہ آرٹیکل 6 یا آئین و قانون نہیں' ہمارا مسئلہ روٹی ہے' بھوک' بے روز گاری اور امن و امان ہے۔ آج جو مہنگائی ہے اسی کے مقابلے میں پرویز مشرف کا دور سستا تھا۔ گندم اس کے دور میں ساڑھے چار سو روپے من تھی جو آج چار گنا زیادہ مہنگی دستیاب ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ آئین و قانون و جمہوریت کا راگ الاپنا پیٹ بھروں کی عیاشی ہے جس میں ہمارے چند اینکر پرسن اور میڈیا کے کچھ مجاہدین بھی شامل ہیں کیونکہ وہ بھی خوشحال طبقے میں شامل ہیں' پرویز مشرف کا مقدمہ ان کے لیے اہمیت نہیں رکھتا جو ایک وقت کی روٹی سے بھی محروم ہیں اور جن کی تعداد آج پاکستان میں 40 فیصد ہو گئی ہے۔ یعنی 8 کروڑ۔ پاکستانی عوام کو روزانہ فاقے یا نیم فاقہ کشی سے گزرنا پڑتا ہے۔ اور یہ تعداد کوئی مذاق نہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملکی معیشت میں اتنی جان نہیں کہ وہ بے روز گاروں کو روز گار اور بھوکوں کو روٹی دے سکے۔ غریبوں کا یہ طبقہ سیاست کے چونچلوں سے بے نیاز ہے۔ دور دراز دیہات میں چلے جائیں تو وہاں بہت سے لوگوں کو جنرل پرویز مشرف کے مقدمے کا علم ہی نہیں ہو گا۔ اگر اتنی بڑی تعداد میں یہ لوگ سیاسی طور پر منظم ہو جائیں تو ملک پر سے اشرافیہ کا قبضہ ختم کرا کے حقیقی معنوں میں آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔

لال مسجد آپریشن کے بعد پرویز مشرف کے خلاف عوامی جذبات بھڑکے ہوئے تھے' پھر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری مشرف کے مقابلے پر آگئے حالانکہ 12 اکتوبر99 ء کے مارشل لاء کو جائز اور مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار دینے والی عدلیہ کے وہ بھی رکن تھے۔ یعنی بات پھر وہی ثابت ہوئی کہ ہمارے ملک میں قانون ایک ایسا مکڑی کا جالا ہے جس کو بااختیار توڑ کر نکل جاتا ہے اور بے اختیار پھنس کر رہ جاتا ہے۔ اس معاملے میں کوئی دو رائے نہیں کہ پرویز مشرف کو آئین شکنی کو سزا ملنی چاہیے لیکن صرف مشرف کو نہیں ان سب کو جو اس جرم میں شریک تھے ورنہ پرویز مشرف ظالم ہوتے ہوئے بھی مظلوم بن جائیں گے۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ سب ظالموں کو سزا ملنی چاہیے۔ بعض جماعتیں مشرف کو سزا دینے کا مطالبہ کر رہی ہیں حالانکہ ماضی میں وہ خود آمریت کے ساتھ رہیں۔ جب آئین شکنی کے حوالے سے جنرل ضیا کا حوالہ آتا ہے تو ان سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور تان مشرف پر ہی آ کر ٹوٹتی ہے کہ ان سب کے گناہوں کا کفارہ مشرف کو ہی ادا کرنا ہے۔ آج پاکستان افغانستان اور مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں پر جو آفت ٹوٹی ہوئی ہے اس کا بیشتر ذمے دار جنرل ضیا اور اس کا ٹولہ ہے۔ بہر حال جوں جوں وقت گزرے گا پاکستان کی سیاست میں کئی نشیب و فراز آئیں گے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔حکومت اور طالبان مذاکرات کے حوالے سے اہم تاریخیں 3-2 فروری 6-5 اور10-9 فروری ہیں۔
Load Next Story